علی بن ابراہیم قمی

ویکی شیعہ سے
(علی بن ابراہیم سے رجوع مکرر)
علی بن ابراہیم قمی
ذاتی کوائف
کنیت:ابو الحسن
محل زندگی:قم
مدفن:قم
مشہوراقارب:ابراہیم بن ہاشم قمی
مذہب:شیعہ
صحابی:امام ہادی
حدیثی معلومات
موضوعات:تفسیر
تألیفات:تفسیر قمی


علی بن ابراہیم قمی، شیعہ امامیہ مذہب کے فقیہ اور مفسر ہیں جو امام علی نقی علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے۔ انہوں نے بہت سے اپنے آثار چھوڑے ہیں۔ تفسیر قمی کے نام سے ان کی روائی تفسیر اہم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔

زندگی‌ نامہ

علی بن ابراہیم قمی کی تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے تیسری صدی کے اواخر اور چوتھی صدی کے اوائل میں زندگی گزاری ہے۔[1] بعض نے ان کی وفات کا سن 285 ھ ذکر کیا ہے۔[2] لیکن اس کا درست ہونا مشکل ہے کیونکہ آقا بزرگ تہرانی نے حمزہ بن محمد بن احمد کے خط کی تاریخ کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ 308 ھ میں زندہ تھے۔[3] جبکہ شاہرودی نمازی نے اوائل کافی کے حوالے سے ان کا سن وفات 307 ھ ذکر کیا ہے۔[4] اس وقت قم میں مدرسۂ گلپایگانی کے سامنے غدیر مارکیٹ میں ان سے منسوب مزار موجود ہے۔ ان کی کنیت ابو الحسن ذکر ہوئی ہے۔[5] ابن حجر نے انہیں محمدی کے لقب سے یاد کیا ہے۔[6]

ان کے والد ابراہیم بن ہاشم شیعہ محدثین میں سے تھے۔

ابراہیم بن ہاشم نے کوفہ سے قم ہجرت کی تھی۔ کہتے ہیں کہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے قم میں احادیث اہل بیت (ع) کی نشر و اشاعت کی اور انہیں امام علی رضا علیہ السلام سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہے۔[7] علی بن ابراہیم کے بیٹے یعنی احمد، ابراہیم و محمد اور ان کے بھائی اسحاق بن ابراہیم یہ سب بھی اپنے زمانے کے عالم دین تھے۔[8]

شیعہ ائمہ کا دیدار

شیعہ روائی اور رجالی منابع میں علی بن ابراہیم کا نام اصحاب امام علی نقی (ع) میں مذکور ہوا ہے۔[9] علی بن ابراہیم نے امام علی نقی (ع) کے علاوہ امام حسن عسکری (ع) اور غیبت صغری میں زندگی گزاری ہے۔ نیز امام علی رضا (ع) سے ان کی ملاقات بھی منقول ہے۔ علی بن ابراہیم قمی کے ائمہ کے صحابی ہونے کے باوجود شیعہ معتبر منابع میں ان سے منقول کوئی بھی روایت امام علی نقی اور دیگر ائمہ معصوم (ع) سے مستقیم نقل ہونے کے بجائے ہمیشہ واسطے کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ آیت اللہ خوئی معتقد ہیں کہ ائمہ سے مستقیم روایت نقل نہ ہونا ان کے صحابی ہونے سے کوئی منافات نہیں رکھتا ہے۔

علمی مقام

علی بن ابراہیم کی زیادہ شہرت حدیثی آثار میں روایات نقل کرنے میں ہے۔ ان کے اکثر آثار حدیثی ہیں۔ ان کی ائمہ سے منقول روایات تفسیر، فقہ اور دیگر مقامات میں ذکر ہوئی ہیں۔ علم رجال کے ماہرین انہیں ثقہ (روایت نقل کرنے میں اس پر اعتماد کیا جاتا ہے) قرار دیتے ہیں۔[10] ان کا نام بہت سی شیعہ اسناد میں آیا ہے۔[11] اور بہت سے معتبر راویوں نے ان سے روایات نقل کی ہیں۔[12] کلینی نے اپنے معتبر ترین منبع میں سات ہزار (7000) سے زیادہ روایتیں ان سے نقل کی ہیں۔[13] علی بن ابراہیم نے بہت سے اساتید سے روایات سنیں اور بہت سے شاگردوں نے ان سے استفادہ کیا ہے۔ ان کے اساتید میں سے ان کے والد ابراہیم بن ہاشم قمی بھی تھے کہ جو شیعہ محدثین کے نزدیک نہایت عظمت کے مالک ہیں۔[14] بعض منابع نے علی بن ابراہیم کے ۴۸ استاد اور ۲۳ شاگرد ذکر کئے ہیں۔ محمد بن یعقوب کلینی اور علی بن بابویہ قمی (شیخ صدوق کے والد) ان کے شاگردوں میں سے ہیں۔[15]

کتب اہل سنت بھی ان کے تذکرے سے خالی نہیں ہیں۔[16]

اساتید

علی بن ابراہیم کے چند اساتید کے اسمائے گرامی:

  1. والد: ابراہیم بن ہاشم
  2. بھائی: اسحاق بن ابراہیم بن ہاشم
  3. محمد بن عیسی
  4. احمد بن محمد بن خالد برقی
  5. ایوب بن نوح
  6. احمد بن اسحاق بن سعد
  7. احمد بن محمد
  8. اسماعیل بن محمد ملکی
  9. حسن بن محمد
  10. حسن بن موسی الخشاب

شاگرد

  1. محمد بن یعقوب کلینی
  2. قاسم بن محمد
  3. احمد بن زیاد بن جعفر ہمدانی
  4. حسن بن حمزه علوی
  5. محمد بن موسی بن متوکل

اقوال علماء

  • نجاشی ان کے بارے میں کہتے ہیں: علی بن ابراہیم روایات نقل کرنے میں قابل اطمینان اور ثابت الایمان شخص ہیں کہ جن کا عقیدہ اور مذہب درست ہے۔ انہوں نے شیعہ مشائخ سے کثرت سے روایات سنی اور نقل کی ہیں۔
  • طبرسی لکھتے ہیں: علی بن ابراہیم بزرگ ترین شیعہ راوی ہیں جنہوں نے امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے میں زندگی بسر کی ہے۔ محمد بن یعقوب کلینی نے کتاب کافی میں ان سے بہت زیادہ روایات نقل کی ہیں۔
  • ابن حجر: علی بن ابراہیم ابو الحسن محمدی رافضی تھا۔ ابو جعفر طوسی نے اس کی تصنیفات ذکر کی ہیں۔ نیز محمد بن اسحاق ندیم نے فہرست میں تفسیر، ناسخ و منسوخ، مغازی اور شرائع نام کی کتابیں ذکر کی ہیں۔[17]
  • اسماعیل بغدادی: شیعہ امامیہ محدثین میں سے ہے اس کی کتب: کتاب تفسیر القرآن، کتاب الانبیاء، فضائل علی بن ابی طالب ... ہیں۔[18]

آثار

علی بن ابراہیم نے بہت سی تصنیفات چھوڑی ہیں۔ ان میں سے چند کے نام کی طرف یہاں اشارہ کیا جا رہا ہے:

التفسیر، علی بن ابراہیم کی مشہور ترین کتاب ہے کہ جو تفسیر قمی کے نام سے معروف ہے۔ یہ تفسیر روائی کے اسلوب میں اس طرح لکھی ہے کہ اہل بیت سے منقول روایات میں کسی قسم کا اپنا اجتہاد کئے بغیر ذکر کی ہیں۔ اس کتاب کی اکثر روایات اپنے والد ابراہیم بن ہاشم سے نقل کی ہیں۔ گذشتہ زمانے سے لے کر آج تک یہ تفسیر قدیمی ترین اور اہم ترین شیعہ تفسیر میں سے جانی جاتی ہے۔ یہ تفسیر دو جلدوں میں چاپ ہوئی ہے۔

دیگر آثار

  • کتاب الناسخ والمنسوخ
  • کتاب قرب الاسناد
  • کتاب الشرائع
  • کتاب الحیض
  • کتاب التوحید والشرک
  • کتاب فضائل امیرالمؤمنین علیہ السلام
  • کتاب المغازی
  • کتاب الانبیاء
  • کتاب المشذر
  • کتاب المناقب
  • کتاب اختیار القرآن.[19]

حوالہ جات

  1. فعال عراقی، قمی، علی بن ابراہیم، ص۱۷۷۶.
  2. اسماعيل باشا البغدادی، ہديۃ العارفين، 1/678، ناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت - لبنان
  3. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 5/210/981،ناشر: دار الأضواء - بيروت - لبنان
  4. شیخ علی نمازی، مستدرک علم رجال الحدیث، 5/278/9560، چاپخانہ: حيدري - طہران
  5. علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال187/45۔
  6. ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، 4/191505، مؤسسہ الأعلمي للمطبوعات - بيروت - لبنان
  7. طوسی، الفہرست، ص۳۶.
  8. فعال عراقی، قمی، علی بن ابراہیم، ص۱۷۷۶.
  9. طوسی، الابواب، ص۳۹۰.
  10. علامہ حلی، خلاصۃ الأقوال، ص ۱۸۷؛ طوسی، الفہرست، ص ۱۵۲ و ۱۵۳؛ نجاشی، فہرست اسماء مصنفی الشیعہ، ص ۲۶۰
  11. خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱۲، ص۲۱۳.
  12. خویی، معجم رجال الحدیث، ج۱۲، ص۲۱۴.
  13. سبحانی، تذکرة الاعیان، ص۲۸۳.
  14. نک: سبحانی، کلیات فی علم الرجال، ص۳۱۰.
  15. فعال عراقی، قمی، علی بن ابراہیم، ص۱۷۷۶.
  16. فعال عراقی، قمی، علی بن ابراہیم، ص۱۷۷۶.
  17. ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، 4/191505، مؤسسہ الأعلمي للمطبوعات - بيروت - لبنان
  18. اسماعیل باشا بغدادی، ہدیۃ العارفین،1/678۔
  19. طوسی، الفہرست، ص۱۵۲؛ قمی، تفسیر القمی، مقدمہ المصحح، ص۸.

مآخذ

  • آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ناشر : دار الأضواء - بيروت - لبنان
  • ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، 4/191505، مؤسسہ الأعلمي للمطبوعات - بيروت - لبنان
  • اسماعيل باشا البغدادی، ہديۃ العارفين، ناشر : دار إحياء التراث العربي - بيروت - لبنان
  • خویی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، بیجا، ۱۴۱۳ق.
  • سبحانی، جعفر، کلیات فی علم الرجال، موسسہ نشر اسلامی، قم، ۱۴۱۴ق.
  • سبحانی، جعفر، تذکرة الاعیان، موسسہ امام صادق (ع)، قم، ۱۴۱۹ق.
  • طوسی، الابواب (رجال الطوسی)، موسسہ نشر اسلامی، قم، ۱۴۱۵ق.
  • شیخ علی نمازی، مستدرک علم رجال الحدیث، چاپخانہ : حيدري - طہران
  • طوسی، الفہرست، موسسہ نشر اسلامی، قم، ۱۴۱۷ق.
  • نجاشی، فہرست اسماء مصنفی الشیعہ (رجال النجاشی)، موسسہ نشر اسلامی، قم، ۱۴۱۶ق.
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، تصحیح و تعلیق و تقدیم: السید طیب الموسوی الجزائری، قم: مؤسسہ دار الکتاب للطباعہ والنشر، ۱۴۰۴ق.
  • فعال عراقی، حسین، «قمی، علی بن ابراہیم»، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، بہاء الدین خرمشاہی، ج۲، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش.