عبد اللہ بن مغیرہ

ویکی شیعہ سے
عبد اللہ بن مغیرہ
کوائف
مکمل نامعبد اللہ بن مغیرہ بجلی کوفی
محل زندگیکوفہ،
دینی معلومات
وجہ شہرتامام کاظمؑ و امام رضاؑ کے صحابی، اصحاب اجماع


عبد اللہ بن مغیرہ راوی حدیث ہیں اور کچھ مدت تک مذہب واقفیہ پر پابند رہے لیکن پھر توبہ کر لی۔ واقفیہ مذیب کے لوگ قائل تھے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام شہید نہیں ہوئے بلکہ خود فوت ہوئے ہیں۔ان کا شمار اصحاب اجماع اور امام موسی کاظم اور امام رضا علیہم السلام کے اصحاب میں ہوتا ہے۔ وہ بنی نوفل کے غلاموں میں سے تھے۔ وہ اہل کوفہ میں ثقہ مانے جاتے تھے۔ علم رجال کے علما انہیں ثقہ مانتے ہیں۔ ان کی بہت عزت اور تکریم کرتے ہیں۔

تعارف

اصحاب اجماع

اصحاب امام باقرؑ
1. زُرارَۃ بن اَعین
2. مَعروفِ بنِ خَرَّبوذ
3. بُرَید بن معاویہ
4. ابوبصیر اَسَدی یا (ابوبصیر مرادی)
5. فُضَیل بن یسار
6. محمد بن مُسلِم

اصحاب امام صادقؑ
1. جَمیل بن دَرّاج
2. عبداللہ بن مُسکان
3. عبداللہ بن بُکَیر
4. حَمّاد بن عثمان
5. حماد بن عیسی
6. اَبان بن عثمان

اصحاب امام کاظمؑ و امام رضاؑ
1. یونس بن عبد الرحمن
2. صَفوان بن یحیی
3. اِبن اَبی عُمَیر
4. عبداللہ بن مُغَیرِہ
5. حسن بن محبوب یا (حسن بن علی بن فَضّال، فَضالَۃ بن ایوب و عثمان بن عیسی)
6. احمد بن ابی نصر بزنطی


عبد اللہ بن مغیرہ بجلی کوفہ کے رہنے والے بنی نوفل کے غلاموں میں سے تھے[1]۔ابو محمد ان کی کنیت تھی ۔موثق راوی اور اصحاب اجماع سے مانے جاتے ہیں ۔علمائے علم رجال نے انہیں حضرت امام موسی کاظم ؑ کا صحابی اور بعض نے حضرت امام رضا ؑ کا صحابی بھی لکھا ہے ۔

برقی نے ایک دفعہ ان کا نام اصحاب امام رضا ؑ میں لکھا ہے اور دوسری بار عبدالله بن مغیره مولی بنی نوفل ابن حارث بن عبدالمطلب خزاز کوفی کے نام سے حضرت امام رضا ؑ میں لکھا ہے[2] ۔

شیخ طوسی نے اس نام کو دو بار دو اماموں کے ذیل میں لکھا ہے۔[3]

لیکن آیت اللہ خوئی نے ان دو ناموں کو ایک ہی شخص کہا ہے اور یہ وہی عبد اللہ بن مغیرہ کہا ہے کہ جو اصحاب اجماع میں سے ہے ۔حضرت امام موسی کاظم ؑ سے روایت نقل کرتے ہیں اور 16 روایات امام رضا ؑ سے منقول ہیں [4]۔

واقفیہ

کچھ مدت عبد اللہ بن مغیرہ نے مذہب واقفیہ کو اختیار کیا جو حضرت امام موسی کاظم کی شہادت کے بعد معتقد ہو گئے کہ وہ قتل نہیں ہوئے ہیں بلکہ خود بخود فوت ہوئے اور خداوند کریم اپنے پاس لے گیا اور قیام کے وقت دوبارہ واپس لوٹ آئیں گے ۔کشی نے خود انکی زبان سے مذہب واقفیہ سے واپسی کی داستان کو یوں نقل کیا ہے:

میں واقفی تھا ایک سال حج کیلئے گیا. وہاں جب خانۂ خدا کے نزدیک پہنچا تو میں نے آپ کو کعبہ کی دیوار سے چپکا دیا۔ اچانک میرے دل میں ایک شور برپا ہوا۔ اسی لمحے میں اپنے ہاتھ دعا کیلئے بلند کیے اور کہا: اے بار الہا! میرے مقصود اور مطلوب کو تو ہی بہتر جانتا ہے پس مجھے بہترین دین اور راہ ہدایت کی طرف رہنمائی فرما۔
اسکے بعد میرا دل چاہا کہ میں حضرت امام رضا کی خدمت میں جاؤں۔ پس میں مدینہ میں ان کے گھر کے دروازے پر گیا دروازہ کھٹکھٹایا۔ غلام کے آنے پر اسے کہا: اپنے آقا سے کہو: عراق سے ایک شخص دروازے پر آپ کا منتظر ہے۔ عبد اللہ کہتا ہے کہ اچانک میں نے حضرت امام رضا کی آواز سنی وہ کہہ رہے تھے اے عبد اللہ بن مغیرہ ! اندر آجاؤ۔
عبد اللہ کہتا ہے اسی وقت میں اندر داخل ہوا امام پر نظر پڑتے ہی ان کے قدموں میں گر پڑا۔ جیسے ہی امام کی مجھ پر نظر پڑی تو فرمایا: خدا نے تہماری دعا مستجاب کر لی ہے اور تجھے اپنے دین کی طرف ہدایت کر دی ہے۔ (عبد اللہ ) میں نے بلا فاصلہ کہا: میں گواہی دیتا ہوں آپ ہی مجھ پر اللہ کی جانب سے حجت ہیں اور اسکی خِلقت کے امین ہیں۔[5]۔

علم رجال

تمام علمائے علم رجال کی نگاہ میں ان کی وثاقت مورد تائید ہے یہان تک کہ نجاشی نے اپنی کتاب میں انہیں ایک ایسا بزرگ، دیندار اور پرہیزگار شخص کہا ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی ہے.[6] 521 روایات کے سلسلۂ سند میں عبد اللہ بن مغیرہ کا نام آیا ہے۔ وہ حضرت امام موسی کاظم اور امام رضا علیہم السلام سے کسی واسطے کے بغیر روایت نقل کرتے ہیں۔ نیز زیاد بن منذر، ابو داود مسترق، ابن بکیر، عبد اللہ بن مسکان، جمیل بن دراج، عبدالله بن میمون قداح جیسے دیگر افراد سے بھی روایت نقل کرتے ہیں۔[7]

آثار

عبدالله بن مغیره نے 30 کتابیں تالیف کیں جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:

  • کتاب الوضوء
  • کتاب الصلاة
  • کتاب الزکاة
  • کتاب الفرائض
  • کتاب فی اصناف‎الکلام.[8]

حوالہ جات

  1. خوئی، معجم‎الرجال، ج۱۰، ص۳۴۰.
  2. برقی، رجال البرقی، ص۴۹ و ص۵۳.
  3. طوسی، رجال الطوسی، ص 341 و ص 359.
  4. خوئی، معجم‎الرجال، ج۱۰، ص۳۴۰.
  5. طوسی، اختیار معرفہ الرجال، ج ۲، ص۸۵۷.
  6. نجاشی،رجال، ص ۲۱۵.
  7. خوئی، معجم‎الرجال، ج۱۰، ص ۳۴۲-۳۴۱.
  8. نجاشی،رجال، ص ۲۱۵.

مآخذ

  • برقی، احمد بن محمد، رجال البرقی، موسسہ تحقیقات و نشر معارف اہل البیت(ع).
  • خویی، سید ابوالقاسم، معجم‎الرجال، دار الزہرا، بیروت،۱۴۰۹ ق.
  • طوسی، ابی جعفر، اختیار معرفہ الرجال، موسسہ آل‎ البیت لاحیا تراث،.
  • طوسی، ابی جعفر، الرجال الطوسی، موسسہ نشر اسلامی، ۱۴۱۵ ق.
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال‎ النجاشی، موسسہ نشر اسلامی، ۱۴۲۴ ق.