سید اسماعیل صدر
کوائف | |
---|---|
تاریخ ولادت | 1258 ہجری قمری |
تاریخ وفات | 1338ھ، کاظمین |
نامور اقرباء | سید صدر الدین صدر، سید محمد باقر صدر، سید موسی صدر |
علمی معلومات | |
اساتذہ | میرزائے شیرازی، شیخ رازی |
شاگرد | میرزا محمد حسین نائینی، سید حسین فشارکی، سید شرف الدین عاملی |
خدمات |
سید اسماعیل صدر (1258۔1338 ش) چودہویں صدی ہجری کے شیعہ علماء و مراجع تقلید اور خاندان صدر کی شخصیات میں سے ہیں۔ انہوں نے اصفہان، نجف اور سامرا میں تعلیم حاصل کی اور وہ میرزائے شیرازی کے شاگرد ہیں۔ اسلامی ممالک پر روس، برطانیہ اور اٹلی کے حملوں سے مقابلہ کے لئے انہوں نے بھی نجف کے دیگر علماء کے ہمراہ جہاد کا فتوی صادر کیا تھا۔
سوانح حیات
سید اسماعیل بن سید صدر الدین کا سلسلہ نسب امام موسی کاظم علیہ السلام کے فرزند ابراہیم اصغر سے ملتا ہے۔ ان کے والد جبل عامل (لبنان) کے رہنے والے تھے جنہوں نے فتنہ جزار میں وہاں سے عراق اس کے بعد اصفہان مہاجرت کر لی تھی۔[1]
سید اسماعیل کی ولادت 1258 ش میں اصفہان میں ہوئی۔[2] چھ برس کی عمر میں ان کے والد کا انتقال ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کے بھائی سید محمد علی معروف بہ مجتہد، ان کی کفالت کرتے ہیں۔ انہوں نے ادبیات عرب اور فقہ و اصول فقہ کے کچھ حصے ان سے پڑھے۔ 14 برس کی عمر میں ان کے بھائی کی رحلت کے بعد محمد باقر رازی اصفہانی فرزند صاحب ہدایۃ المسترشدین کے پاس فقہ کے درس کو مکمل کیا۔ 1271 ق میں شیخ انصاری کے درس میں شرکت کی غرض سے نجف کا رخ کیا۔ ان کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی شیخ انصاری کا انتقال ہو جاتا ہے۔ نجف میں انہوں نے شیخ رازی نجفی اور مہدی کاشف الغطاء کے دروس کی شرکت کی۔ 1282 ق میں سفر حج سے واپسی پر وہ مریض ہو گئے اور صحت یابی کے لئے اصفہان آ گئے۔ اصفہان میں لوگوں نے ان کا بڑا استقبال کیا لیکن 1294 ق میں انہوں نے ایک دیہات کے سفر کے بہانہ سے اصفہان کو ترک کیا اور اپنے سفر علمی کی تکمیل کے لئے عراق لوٹ گئے۔ 1300 ق میں خراسان کا سفر کرنے کے بعد نجف واپس لوٹ گئے۔ جبل عامل (لبنان) میں شیخ موسی آل شرارہ کی موت کے بعد وہاں کے لوگوں نے آپ کو جبل عامل آنے کی دعوت دی لیکن آپ نے اس کو قبول نہیں کیا۔[3] نجف اور سامرا میں انہوں نے تقریبا 20 سال تک میرزای شیرازی کے فقہ و اصول کے درس خارج سے استفادہ کیا۔[4] سید اسماعیل صدر، محمد تقی شیرازی اور سید محمد اصفہانی تین ایسے شاگرد تھے جنہیں اپنی عمر کے آخری 10 برسوں میں میرزای شیرازی نے اپنا درس ان کے حوالہ کر دیا تھا۔ وہ 1314 ق تک یعنی میرزای شیرازی کی وفات کے دو سال بعد تک سامرا میں رہے،[5] اس کے بعد وہ کربلا چلے گئے اور وہاں تدریس کو جاری رکھا۔[6] ایران و عراق کے شیعوں کا ایک طبقہ ان کی تقلید کرتا تھا۔ آخر عمر میں وہ کاظمین چلے گئے تھے[7] اور 3 جمادی الاول 1337 ق میں وہیں انہوں نے وفات پائی۔[8] ایک دوسری جگہ پر ان کی تاریخ وفات 12 جمادی الاول 1338 ق ذکر ہوئی ہے۔[9] انہیں کاظمین میں روضہ میں موجود حجرات میں سے ایک میں دفن کیا گیا۔[10]
ان کے اور ان کے خاندان کے صدر کے نام سے مشہور ہونے کا سبب یہ ہے کہ میرزای شیرازی کے دو شاگرد سید اسماعیل نام کے تھے، انہوں نے دونوں میں تمییز کرنے کے لئے انہیں ان کے والد کے نام سید صدر الدین سے صدر کے لفظ کو ان کے نام کے ساتھ جوڑ دیا۔[11]
سید اسماعیل صدر زاہد اور پرہیزگار انسان تھے۔[12] وہ خوش اخلاق، پرہیزگار، متواضع، شہرت سے دور رہنے والے تھے۔ تنہا رفت و آمد کرتے تھے انہیں پسند نہیں تھا کہ کوئی ان کے ساتھ رہے۔ فتوی میں بیحد محتاط تھے۔[13]
اولاد
سید اسماعیل صدر کے چار بیٹے تھے اور وہ سب علماء میں سے تھے۔
- سید محمد مہدی: (ولادت 1296 ق) آخوند خراسانی اور آقا رضا ہمدانی کے شاگردوں میں سے تھے۔
- سید صدر الدین: (1299۔1373 ق) شیعہ فقہاء اور مراجع تقلید میں سے تھے۔ وہ اصول، رجال، شعر اور تفسیر میں تخصس رکھتے تھے۔ وہ شیخ عبد الکریم حائری، موسس حوزہ علمیہ قم کے وصی تھے اور ان کی وفات کے بعد سید محمد تقی خوانساری اور سید محمد حجت کے ہمراہ حوزہ علمیہ کی سرپرستی میں شریک تھے۔ انہوں نے حوزہ کی حفاظت اور اس کی توسیع کے لئے سعی کی۔ وہ سید موسی صدر اور سید رضا صدر کے والد تھے۔
- سید محمد جواد (ولادت 1301 ق) آقا ضیاء الدین عراقی، سید حسین فشارکی اور ابو الحسن طالقانی کے شاگردوں میں سے تھے۔
- سید حیدر: (1390۔1356 ق) سید حسین فشارکی اور شیخ عبد الکریم حائری کے دروس میں شرکت کرتے تھے۔ سید عبدالحسین شرف الدین عاملی انہیں علمی اعتبار سے ان کے بھائیوں پر فوقیت دیتے تھے۔ وہ سید محمد باقر صدر کے والد تھے۔[14]
زندگی علمی
ان کی کوئی مدون و مرتب تالیف باقی نہیں ہے۔ انہوں نے ملا نراقی کی کتاب انیس التجار[15] اور جامع عباسی[16] پر حواشی لکھے ہیں۔
اساتذہ
- سید محمد علی (ان کے بڑے بھائی)
- محمد باقر اصفہانی
- شیخ راضی نجفی
- مہدی کاشف الغطاء
- سید محمد حسن شیرازی[17]
تلامذہ
- میرزا محمد حسین نایینی
- عبدالحسین شرف الدین عاملی
- غلام حسین مرندی حایری
- موسی کرمان شاهی حائری
- عبدالحسین بن باقر آل یاسین
- سید میرزا علی شیرازی
- سید علی سیستانی، جد آیت الله سیستانی
- ابو القاسم دهکردی اصفهانی
- سید حسین بن سید ابراهیم فشارکی
- محمد حسین طبسی
- محمد علی بن عباس هروی خراسانی
- محمد هادی بیرجندی[18]
سیاسی و سماجی کارنامے
- اصفہان کی اسلامیہ کمپنی کی حمایت: اصفہان کی یہ کمپنی 1316 ق میں ایران کی عوام کی ضرورت کے مطابق کپڑے بنانے اور غیر ملکی انحصار سے مقابلہ کی غرض سے تاسیس کی گئی۔ آقا نجفی اصفہانی اور ان کے بھائی آقا نور اللہ نجفی اصفہانی اس کمپنی کے موسسین میں سے تھے۔ علماء نے اس کمپنی کی حمایت اور ملکی کمپنیوں کی بنائی ہوئی اشیاء کی طرف رغبت دلانے کے سلسلہ میں بیانات شائع کئے۔ آخوند خراسانی، سید اسماعیل صدر، میرزا حسین نوری، حاج میرزا خلیل، سید محمد کاظم طباطبائی یزدی، محمد غروی شربیانی، محمد حسین مامقانی اور شیخ الشریعۃ اصفہانی نے اس کمپنی کی تاسیس کے سلسلہ میں اپنی حمایت کا اعلان کیا۔[19]
- روس کے خلاف جہاد کا فتوی: ایران پر روس کے حملہ کے وقت 22 صفر 1330 ق میں ایک ٹیلی گرام سید اسماعیل صدر، میرزا محمد تقی شیرازی اور شیخ عبد اللہ مازندرانی کی طرف سے ایرانی شہروں میں نشر کیا گیا:
ملکی عشایر و قبائل جو حکومت و عوام کی دفاعی قدرت ہیں ۔۔۔ وہ غیر ملکیوں کی اسارت کی ذلت کو برداشت نہیں کریں گے اور قفقاز و ترکستان وغیرہ کے روز سیاہ و خونین کی طرح سکوت نہیں کریں گے۔[20]
- اٹلی کے لیبیا پر حملہ کے خلاف فتوی: سید اسماعیل صدر نے آخوند خراسانی، شیخ عبد اللہ مازندرانی اور شیخ الشریعہ اصفہانی کے ساتھ مل ایک بیان جاری کیا اور مسلمانوں کی چاہا کہ وہ اسلامی ممالک کے دفاع میں اٹھ کھڑے ہوں۔
روس کا ایران اور اٹلی کا طرابلس پر حملہ اسلام کے مٹنے اور شریعت و قرآن کے کمزور ہونے کا سبب ہے۔ تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ قیام کریں اور اپنی حکومت کا روس و اٹلی جییسے غیر ملکیوں کے غیر قانونی حملوں سے مقابلہ کریں اور جن تک یہ مصیبت رفع نہ ہو جائے آرام و آسایش کو اپنے اوپر حرام کر لیں اور اسلام پروری کی اس تحریک کو جو جہاد فی سبیل اللہ ہے اور اس کے مجاہدین کو بدر و حنین کے مجاہدین کی طرح سمجھیں۔ محمد کاظم خراسانی، سید اسماعیل بن صدر الدین عاملی، عبد اللہ مازندرانی، شیخ الشریعۃ اصفہانی۔[21]
- عراق پر حملہ میں برطانیہ کے خلاف فتوی: 1332 ق مطابق 1914 عیسوی میں جنگ جہانی اول کے آغاز میں جب برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی مشترکہ افواج نے ٹرکی کی عثمانیہ خلافت کے خلاف اعلان جنگ کیا تو سید اسماعیل صدر نے بھی عراق کے دیگر بزرگ علماء و مراجع کے ساتھ اس حملہ کے خلاف اعلان جہاد کیا۔
حوالہ جات
- ↑ ریحانة الادب، ج۳، ص ۴۲۱.
- ↑ محسن امین، اعیان الشیعہ، ج۳، ص ۴۰۳
- ↑ محسن امین، اعیان الشیعo، ج ۳، ص ۴۰۳
- ↑ محمد حرز الدین، معارف الرجال، ج ۱، ص ۱۱۶
- ↑ محمد حرز الدین، معارف الرجال، ج ۱، ص ۱۱۶
- ↑ ریحانة الادب، ج ۳، ص ۴۲۲
- ↑ محسن امین، اعیان الشیعه، ج ۳، ص ۴۰۳
- ↑ ریحانة الادب، ج ۳، ص ۴۲۳
- ↑ محمد حرزالدین، معارف الرجال، ج ۱، ص ۱۱۷
- ↑ ریحانة الادب، ج ۳، ص۴۲۳
- ↑ ریحانة الادب، ج ۳، ص ۴۲۳
- ↑ ریحانة الادب، ج ۳، ص ۴۲۱
- ↑ محسن امین، اعیان الشیعه، ج ۳، ص ۴۰۴
- ↑ ریحانة الادب، ج ۳، ص ۴۲۳؛ محسن امین، اعیان الشیعه، ج ۳، ص ۴۰۴؛محمد حرزالدین، معارف الرجال، ج ۱، ص ۱۱۶
- ↑ نراقی، مهدی، انیس التجار، ص ۱۰
- ↑ امینی، الغدیر، ج۱۱، ص۳۵۰
- ↑ محسن امین، اعیان الشیعه، ج ۳، ص ۴۰۴
- ↑ محمد حرزالدین، معارف الرجال، ج ۱، ص ۱۱۶؛ محسن امین، اعیان الشیعه، ج ۳، ص ۴۰۴
- ↑ رضا استادی، ده فتوای مذهبی-سیاسی، مجله نور علم، شهریور ۱۳۶۵، ش ۱۷
- ↑ رک: سید حسن نظام الدین زاده، هجوم روس و اقدامات رؤسای دین برای حفظ ایران، به کوشش نصرالله صالحی، تهران، شیرازه، ۱۳۷۷ ص ۱۲۳ و ۱۱۶؛ بہ نقل از مقاله تأملاتی در باب فتاوای جهادیہ علمای شیعہ در قرن سیزدهم و چهاردم، محمد حسن رجبی
- ↑ اسنادی درباره هجوم انگلیس و روس به ایران،486
مآخذ
- حمد علی مدرس، ریحانة الادب، ج ۳، انتشارات خیام، تهران.
- سید محسن امین، اعیان الشیعہ، ج ۳، دار التعارف للمطبوعات، بیروت.
- محمد حرز الدین، معارف الرجال فی تراجم العلماء و الادباء، ج ۱، منشورات مکتبة آیة الله العظمی المرعشی النجفی، قم، ۱۴۰۵.
- آقا بزرگ طهرانی، طبقات اعلام الشیعہ، نقباء البشر فی القرن الرابع عشر، دار المرتضی، ۱۴۰۴.
- محمد تركمان، اسنادی درباره هجوم انگليس و روس به ایران، دفتر مطالعات سياسی و بینالمللی.
- سید حسن نظام الدین زاده، هجوم روس و اقدامات رؤسای دین برای حفظ ایران، بہ کوشش نصرالله صالحی، تهران، شیرازه، ۱۳۷۷.
- رضا استادی، ده فتوای مذهبی-سیاسی، مجلہ نور علم، شہریور ۱۳۶۵، ش ۱۷.
- موسی نجفی، اندیشہ سیاسی و تاریخ نهضت حاج آقا نور الله اصفہانی، موسسہ مطالعات تاریخ معاصر ایران.