اجازہ روایت

ویکی شیعہ سے

اجازہ روایت یعنی استاد اپنے قابل اطمینان شاگرد کو روایت نقل کرنے کی جو اجازت دیتا ہے تاکہ احادیث بعد والی نسلوں تک پہنچ سکیں۔ یہ اجازت ممکن ہے تحریری ہو یا زبانی ہو۔ احادیث کو تدوین کرنے کے بعد ان میں تحریف کا پہلو بہت کم ہوگیا ہے اور ایسی صورت میں روایت نقل کرنے کی اجازت کی اب صرف ایک اعزازی حیثیت رہ گئی ہے۔

اجازت

اجازت کا معنی اذن دینا یا چھوٹ دینا ہے۔ علما اور دیگر دنشوروں میں قدیم الایام سے اجازت لینا مرسوم تھا اور ہر شعبے کے اساتذہ اپنے شاگردوں کو علمی شائستگی اور لیاقت کے مطابق ان کو اجازت دیتے تھے۔ اسلامی مختلف علوم میں بھی یہ رسم چلتی آرہی ہے جیسے علم تفسیر، حدیث، فقہ، طب، ادبیات اور عرفان میں بھی شاگرد اور اساتذہ کے مابین اجازت نامے کا تبادلہ مرسوم ہے مثلا اطباء اپنے شاگردوں کو طبابت کی اجازت دیتے تھے، قرآن کے قاری اپنے شاگردوں کو قرائت کی اجازت دیتے تھے، صوفی اور درویش اپنے مشایخ سے اجازت لیتے تھے، محدث روایت کرنے یا کتب احادیث کی روایت کرنے کی اجازت دیتے تھے جبکہ فقہاء اپنے لایق شاگردوں کو اجتہاد اور امور حسبیہ کی اجازت دیتے تھے۔[1]

حدیث میں اجازت لینے کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کو منتقل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی اجازت دی جائے۔ محدثین کی اصطلاح میں کی اجازت سماع، عرض اور قرائت کے مقابلے میں حدیث دریافت کرنے کا ایک طریقہ ہے اور راوی کے لیے استاد کی طرف سے معین احادیث کو نقل کرنے کی زبانی یا تحریری اجازت ملتی ہے۔[2]

اجازت، علمی اور دیگر معتبر اسناد کی کی طرح بعض لوگوں کو ملتی تھیں جس کی وجہ سے اس شخص کی تحریر اور قول پر اعتماد اور اطمینان کا باعث بنتی ہے کیونکہ اس اجازت میں اس کے اساتذہ اور مشایخ کا اس کے بارے میں اظہار نظر ہوتا ہے۔[3]

فایدہ

محدثین نے اجازت کو تحمل حدیث (یعنی حدیث دوسروں تک پہنچانے) کے اہم طریقوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ اور حدیث نقل کرنے میں صحت و سقم کے معیارات میں اس کے نقل و انتقال کے بارے میں بھی ذکر کیا ہے۔ اس طرح علم حدیث کے اساتذہ اپنے شاگردوں کو خود سے احادیث نقل کرنے کی زبانی یا تحریری اجازت دیتے تھے اور عام طور پر ان اجازتوں میں اساتذہ، مشایخ اور ان کی تالیفات کا نام ذکر ہوتا تھا۔[4] اجازت کے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ حدیث کی سند معصوم تک متصل ہوتی ہے اور اساتذہ عام طور پر سلسلہ سند کو بزرگ مشایخ میں سے ایک جیسے ملا محمدتقی مجلسی، شہید اول، علامہ حلی یا شیخ طوسی تک پہنچاتے ہیں اور اس پر توقف کرتے ہیں رسانده و بر او توقف می‌کنند کیونکہ اس کے بعد مشایخ کا سلسلہ سند معلوم اور مورد اعتماد ہے۔[5] بعض نے اجازت کے دوسرے کئی فوائد بھی ذکر کیا ہے ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  • پہلا فائدہ: نقل حدیث میں حرج و مرج لازم نہیں آتا ہے کیونکہ نقلِ حدیث کی اجازت کے مطابق ہر کسی سے حدیث کو سنا نہیں جاتا تھا۔
  • دوسرا فائدہ: شیخ اور استاد کی اجازت حدیث سننے والے کے لیے حدیث نقل کرنے والے پر اطمینان کا باعث بنتا تھا۔[6]
  • تیسرا فائدہ: شاگرد کی صلاحیت کو دیکھ کر استاد اور شیخ سے حدیث نقل کرنے کی اجازت میں وسعت اور کمی آجاتی تھی؛ کیونکہ بعض شاگرد کو صرف بعض مخصوص کتابوں کی احادیث نقل کرنے کی اجازت دی جاتی تھی جبکہ بعض دوسرے شاگردوں کو تمام احادیث کی کتابوں سے حدیث نقل کرنے کی اجازت ملتی تھی۔ دوسرے لفظوں میں استاد کی نظر میں حدیث نقل کرنے والوں کی صلاحیت معلوم ہوتا تھا اور روایت نقل کرنے والوں کا دائرہ کار محدود ہوتا تھا۔
  • چوتھا فائدہ: استاد کی اجازت کے ساتھ شاگرد کا راویوں اور حدیث نبوی نقل کرنے والوں میں شامل ہونا ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا اور اس کام کے ذریعے سلسلہ سند جو کہ مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے اس کا تسلسل باقی رہتا تھا۔[7]

اعزازی اجازتیں

حدیث کی کتابیں چھپنے اور خاص کر احادیث کے مختلف مجموعوں پر مشتمل کتابیں منظر عام پر آنے کے حدیث کے درس کی رونق کم ہوئی اور اجازت دینے کا جو مقصد تھا وہ بھی ختم ہوا اور اب اجازت صرف ایک اعزازی حیثیت کے حامل رہی۔[8]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. حافظیان، ابوالفضل، ۱۳۷۸، شمارہ ۱۲ مجلہ حکومت اسلامی.
  2. دایرہ المعارف بزرگ اسلامی، ج ششم، ۱۳۷۳، ۵۹۶.
  3. حافظیان، ابوالفضل، ۱۳۷۸، شمارہ ۱۲ مجلہ حکومت اسلامی.
  4. حافظیان، ابوالفضل، ۱۳۷۸، شمارہ ۱۲ مجلہ حکومت اسلامی.
  5. حافظیان، ابوالفضل، ۱۳۷۸، شمارہ ۱۲ مجلہ حکومت اسلامی.
  6. مدیر شانہ چی، کاظم، درایہ الحدیث، الیکٹرونیک نسخہ، ص۱۲۴
  7. مدیر شانہ چی، کاظم، درایہ الحدیث، الیکٹرونیک نسخہ، ص۱۲۴
  8. مدیر شانہ چی، کاظم، درایہ الحدیث، الیکٹرونیک نسخہ، ص۱۲۵

مآخذ

  • دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج ششم، ۱۳۷۳، نشر مرکز دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی.
  • حافظیان، ابوالفضل، اجازات حسبیہ امام خمینی، فصلنامہ حکومت اسلامی، ۱۳۷۸، شمارہ ۱۲.
  • مدیر شانہ چی، کاظم، درایۃ الحدیث، نسخہ