ایوب بن نوح بن دراج
ذاتی کوائف | |
---|---|
نام: | ایوب بن نوح بن درّاج نخعی کوفی |
کنیت: | ابو الحسن |
لقب: | نَخَعی، مَولی النَّخَع |
تاریخ پیدائش: | کوفہ |
محل زندگی: | کوفہ |
مشہوراقارب: | نوح بن دراج(والد) و جمیل بن دراج(چچا) |
مذہب: | شیعہ امامیہ |
صحابی: | امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ |
حدیثی معلومات | |
نقل حدیث: | امام رضاؑ، امام جوادؑ، امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ |
مشایخ: | محمد بن ابی عمیر، عبد اللہ بن سنان، عبد اللہ بن مسکان، حسن بن محبوب و.... |
ان کے راوی: | سعد بن عبد اللہ اشعری قمی، عبد اللہ بن جعفر حمیری، ابان بن عثمان احمری، محمد بن حسن صفار قمی، سہل بن زیاد آدمی و.... |
وثاقت: | ثقہ |
شہرت: | نقل روایت |
متفرقات: | امام ہادی اور امام عسکری کے وکیل |
اَیّوب بن نوح بن دَرّاج نَخَعی کوفی تیسری صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور محدث ہیں۔ انہوں نے امام رضاؑ، امام جوادؑ، امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ سے روایت نقل کی ہیں۔ ایوب امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ کے وکیل بھی تھے اور ان دو اماموں کے یہاں خاص مقام رکھتا تھا۔ علم رجال کے ماہرین انہیں پرہیزگار اور زیادہ عبادت گزار فرد کے طور پر معرفی کرتے ہیں۔ ایوب کے والد نوح بن دراج امام صادقؑ اور امام کاظمؑ کے صحابی اور کوفہ کے قاضی تھے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ایوب کے چچا جمیل بن دراج بھی امام صادقؑ کے وکیل، صحابی اور مورد وثوق افراد میں سے تھے۔
علم رجال میں ان کا مقام
ایوب بن نوح بن دراج نخعی شیعہ فقیہ اور محدث تھے۔ ان کی کنیت ابو الحسین اور ان کی ولادت شہر کوفہ میں ہوئی ہے۔[1] شیعہ علم رجال کے ماہرین کے مطابق ایوب بن نوح چار شیعہ ائمہ، امام رضاؑ، امام جوادؑ، امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے اصحاب میں سے تھے اور ان اماموں سے انہوں نے روایت نقل کی ہیں۔[2] نجاشی اور کَشّی نے ان کو امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ کے امین، وکیل اور خاص مقام کے حامل شخصیات میں شمار کی ہیں۔[3]اسی طرح امام ہادیؑ کے ساتھ ان کے کچھ مکاتبات بھی نقل ہوئے ہیں۔[4] نجاشی کے مطابق احمد بن محمد بَرْقی نے کتاب نَوادِر کو ایوب بن نوح کی طرف نسبت دی ہے۔[5] امام معصوم کی زیارت اور بعض فقہی ابواب جیسے طہارت، طلاق، نماز، نکاح اور ارث کے بارے میں انہوں نے احادیث نقل کی ہیں۔[6] آیتاللہ خویی (متوفی: 1371ہجری شمسی) کے مطابق ایوب کا نام 251 روایات کے سند میں آیا ہے[7] اور شیعہ علمائے رجال جیسے نجاشی، کَشّی، طوسی اور برقی نے ان کو ثقہ قرار دیئے ہیں۔[8]
امام حسن عسکریؑ سے منقول ایک حدیث میں ایوب کو اہل بہشت قرار دیا گیا ہے۔[9] نجاشی انہیں ایک پرہیزگار اور زیادہ عبادت گزار فرد کے طور پر معرفی کرتے ہیں۔[10]
مشایخ
ایوب بن نوح نے درج ذیل افراد سے حدیث نقل کی ہیں:
- محمد بن ابیعُمَیر
- عبداللہ بن سِنان
- عبداللہ بن مَسکان
- حریز بن عبداللہ سَجِستانی
- حسن بن علی الوَشّاء
- حسن بن محبوب
- حسین بن عثمان
- صَفوان بن عیسی
- علی بن نُعمان رازی
- محمد بن سِنان
- حسن بن علی بن فَضّال
- صَفوان بن یحیی
- محمد بن یحیی الصّیرَفی
- مِہران بن محمد
- نضر بن سوید
- محمد بن أبیحمزہ
- محمد بن فُضِیل
- عباس بن عامر
- عبداللہ بن مُغَیرِہ[11]
راوی
ایوب بن نوح سے حدیث نقل کرنے والے بعض راوی درج ذیل ہیں:
- محمد بن علی بن محبوب قمی
- احمد بن محمد بن خالد برقی قمی
- سعد بن عبداللہ أشعَری قمی
- عبداللہ بن جعفر حِمیَری
- محمد بن عبداللہ بن جعفر حِمیَری
- محمد بن حسن صَفّار قمی
- ابان بن عثمان أحمَری
- علی بن مہزیار
- احمد بن محمد بن عبداللہ
- حسین بن سعید
- حسین بن محمد
- حَمدِوَیہ بن نصیر
- سہل بن زیاد آدمی
- علی بن حسن بن فَضّال
- علی بن حسن التیمی
- علی بن محمد
- محمد بن احمد
- محمد بن احمد بن یحیی
- محمد بن جعفر ابوالعباس
- محمد بن حسن
- محمد بن حسن صفار قمی
- محمد بن حسین
- محمد بن علی بن محبوب
- محمد بن عیسی
- محمد بن موسی السِمان
- محمد بن یحیی العَطّار
- موسی بن حسن[12]
خاندان
ایوب بن نوح کا خاندان کوفہ میں مقیم تھے اور قبیلہ نَخَع کے ساتھ پیمان وَلاء[یادداشت 1] قائم کیا ہوا تھا۔ اسی لئے ان کو بھی نخعی یا مَولی النَّخَع کہا جاتا تھا۔[13] شیعہ رجالی علماء ایوب کے والد نوح بن دَرّاج کو کوفہ کے قاضی اور امام صادقؑ اور امام کاظمؑ کے صحیح الاعتقاد اصحاب میں شمار کرتے ہیں۔[14] نوح کا مرقد کربلا کے اطراف میں نخلستان اور قبیلہ آل مسعود کے اراضی کے درمیان واقع ہے۔[15]اسی طرح ایوب کے چچا جمیل بن دراج کو بھی امام صادقؑ کے صحابی، وکیل اور مورد وثوق افراد میں جانے جاتے ہیں۔[16] علی نمازی شاہرودی (متوفی: 1364ہجری شمسی) کتاب مستدرکات علم رجال الحدیث میں ایوب کے بیٹے حسن اور محمد اور انکے پوتے احمد بن قاسم بن ایوب کو راوی حدیث قرار دیتے ہیں۔[17]
نوٹ
- ↑ ضِمان جَریرہ یا ولاء اس پیمان کو کہا جاتا ہے جس کے تحت طرفین میں سے ایک ضمانت دیتا ہے کہ اگر طرف مقابل کوئی مستلزم دیہ جنایت انجام دے تو دیہ وہ ادا کرے گا اس شرط کے ساتھ کہ طرف مقابل سے اسے ارث ملے۔
حوالہ جات
- ↑ نجاشی، رجال نجاشی، 1365ہجری شمسی، ج1، ص102۔
- ↑ برقی، رجال برقی، 1430ھ، ج1، ص331؛ امین، اعیان الشیعہ، 1403ھ، ج3، ص527۔
- ↑ نجاشی، رجال نجاشی، 1365ہجری شمسی، ج1، ص102؛ کشی، اختیار معرفۃ الرجال، 1404ھ، ج2، ص842؛ مامقانی، تنقیح المقال، نجف اشرف، ج1، ص159۔
- ↑ نمازی شاہرودی، مستدرکات علم رجال، 1414ھ، ج1، ص714۔
- ↑ نجاشی، رجال نجاشی، 1365ہجری شمسی، ج1، ص102۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1410ھ، ج3، ص263؛ ربانی سبزواری، «ایوب بن نوح»۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1410ھ، ج3، ص263۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1410ھ، ج3، ص264۔
- ↑ شوشتری، قاموس الرجال، 1410ھ، ج2، ص242۔
- ↑ نجاشی، رجال نجاشی، 1365ہجری شمسی، ج1، ص102۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1410ھ، ج3، ص263۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1410ھ، ج3، ص263۔
- ↑ طوسی، رجال طوسی، 1427ھ، ج1، ص352؛ ابنداوود حلی، رجال ابنداوود، 1342ہجری شمسی، ص64۔
- ↑ نجاشی، رجال نجاشی، 1365ہجری شمسی، ج1، ص102؛ ابنداوود حلی، رجال ابنداوود، 1342ہجری شمسی، ص64ص؛ برقی، رجال برقی، 1430ھ، ج1، ص331۔
- ↑ فقیہ بحرالعلوم، زيارتگاہہاى عراھ، سازمان حج و زیارت، حوزہ نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارات، ج1، ص262۔
- ↑ ابنداوود حلی، رجال ابنداوود، 1342ہجری شمسی، ص64؛ نجاشی، رجال نجاشی، 1365ہجری شمسی، ج1، ص102؛ برقی، رجال برقی، 1430ھ، ج1، ص331۔
- ↑ نمازی شاہرودی، مستدرکات علم رجال، 1414ھ، ج1، ص714۔
مآخذ
- ابنداوود حلی، حسن بن علی بن داوود، رجال ابنداوود، تہران، دانشگاہ تہران، 1342ہجری شمسی۔
- امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1403ھ۔
- برقی، احمد بن محمد، رجال البرقی، قم، مؤسسۃ الامام الصادقؑ، 1430ھ۔
- خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواۃ، قم، مرکز نشر آثار الشیعۃ، 1410ھ۔
- ربانی سبزواری، ابوالحسن، «ایوب بن نوح»، فصلنامہ فرہنگ کوثر، شمارہ 70، 1386ہجری شمسی۔
- شوشتری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1410ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1427ھ۔
- فقیہ بحرالعلوم، محمدمہدی، زیارتگاہہای عراق (معرفی زیارتگاہ ہای مشہور در کشور عراق)، ناشر:سازمان حج و زیارت، حوزہ نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارات، تہران، بی تا۔
- کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال، قم، مؤسسۃ آل البیتؑ لاحیاء التراث، 1404ھ۔
- مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، نجف اشرف، بینا، بیتا۔
- نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1365ہجری شمسی۔
- نمازی شاہرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، تہران، شفھ، 1414ھ۔