سید عبد اللہ شبر
کوائف | |
---|---|
لقب | شبر |
تاریخ پیدائش | 1188 ھ |
آبائی شہر | نجف |
مدفن | حرم کاظمین |
مذہب | شیعہ اثنا عشری |
سیاسی کوائف | |
علمی و دینی معلومات | |
اساتذہ | سید محسن اعرجی، شیخ جعفر نجفی کاشف الغطاء، شیخ احمد احسایی، اسد اللہ شوشتری و ۔۔۔ |
تالیفات | جامع المعارف و الاحکام، مصباح الظلام، الجوہر الثمین فی تفسیر القرآن المبین، الاخلاق و ۔۔۔ |
سید عبد الله بن سید محمد رضا شُبّر حسینی نجفی کاظمی، تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم، امامیہ کے موثق محدث، عالم اخلاق اور تفسیر شبر کے مصنف ہیں۔ ان کی ولادت نجف میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد وہ کاظمین چلے گئے اور وہاں آخر عمر تک تدریس و تالیف میں مشغول رہے۔ شبر کثیر التالیفات تھے اسی سبب سے انہوں نے مجلسی دوم کی شہرت پائی ہے۔
زہد و تقوی اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا، ان کے اخلاقی خصوصیات میں شمار کیا گیا ہے۔ انہوں نے 1242 ھ میں کاظمین میں وفات پائی اور ان کی قبر حرم کاظمین کے ایک حجرہ میں ان کے والد کے برابر میں ہے۔
سوانح عمری
سید عبد اللہ 1188 ھ میں نجف اشرف میں متولد ہوئے۔ ان کی ولادت کے بعد ان کے والد سید محمد رضا نے کاظمین کی طرف نقل مکان کیا اور وہ آخر عمر تک وہیں تدریس و تالیف میں مشغول رہے۔ ان کا خاندان عراق کے برجستہ اور مشہور خاندانوں میں سے ایک تھا۔[1]
حسن بن محمد بن حمزہ ان کے اجداد میں سے ہیں جن کا سلسلہ نسب 9 واسطوں سے امام علی بن الحسین علیہ السلام تک پہچتا ہے، انہیں شبر کہا جاتا تھا۔ سید عبد اللہ شبر کے والد سید محمد رضا کاظمین کے مومنین کے درمیان مستجاب الدعوہ (جن کی دعا قبول ہوتی ہے) مشہور تھے۔
سید کی یادگار 6 بیٹے تھے جن کے اسماء یہ ہیں: حسن، حسین (متوفی 1246 ھ)، محمد (1252 ھ) جعفر، موسی (1246 ھ) و سید جواد (1246 ھ)
اخلاقی اوصاف و کرامات
سید بہت عابد، زاہد اور پرہیزگار انسان تھے۔ وہ محبوب و مطلوب اخلاق و اوصاف کے مالک تھے۔ دینی عبادات کے انجام جیسے ائمہ (ع) کی زیارت، نوافل، مومنین و برادران دینی کی زیارت اور مسلمین کی حاجات کو پورا کرنے کی راہ میں بہت کوشاں رہتے تھے۔ ان کے والد نے ان سے خواہش کی: جو مال مجھ سے تمہیں ملے گا اگر اسے تعلیم و تعلم کے لئے استفادہ نہیں کیا حتی ایک دن بھی تو وہ تمہارے لئے حلال نہیں ہوگا۔ ایک دن انہوں نے کھانے کے انتظام کے لئے اپنا قلم دان بیچ دیا تو لوگوں نے سوال کیا اور علت دریافت کی تو سید نے کہا: آج کسالت کی وجہ سے مستمر مطالعہ نہیں کر سکا لہذا آج مجھے اپنے والد کے مال سے کچھ کھانے کا جواز نظر نہیں آیا۔[2] [3]
سید عبد اللہ شبر اپنے کثیر التالیفات ہونے کے سلسلہ میں کہتے ہیں: میری تصنیفات کی کثرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام کی عنایت کی وجہ سے ہے۔ آپ نے عالم رویا میں مجھ سے فرمایا: اُکتُب وَ صَنّف فَاِنّهُ لا یجفُ قلمُکَ حتّی تَموت! لکھو اور کتاب تصنیف کرو بے شک تمہارا قلم تمہاری زندگی تک خشک نہیں ہوگا۔[4]
اساتذہ
سید نے ایک طویل مدت تک اپنے والد کے پاس تعلیم حاصل کی اور اسی زمانہ میں المحصول فی الاصول کے مولف سید محسن الاعرجی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔ شیخ جعفر نجفی کاشف الغطاء، شیخ احمد بن زین الدین احسایی، شیخیہ کے رئیس اور کتاب مقابس کے مصنف شیخ اسد اللہ شوشتری نے انہیں اجازہ اجتہاد عطا کئے تھے۔[5][6]
شاگرد
- شیخ احمد بلاغی
- شیخ محمد اسماعیل خالصی
- سید ہاشم اعرجی
- شیخ جعفر جبلی
- شیخ اسماعیل فرزند اسد الله شوشتری
- شیخ مہدی فرزند شیخ اسد الله شوشتری
- سید علی عاملی
- سید ہاشم بن سید راضی
- ملا محمد علی تبریزی
- ملا محمود خوئی۔[7]
اصول و اخباری اختلاف
گیارہویں صدی سے تیرہویں صدی تک کے زمانے کو اخباری و اصولی و فلسفی تحریکوں کی رونق کا دور کہا جا سکتا ہے۔ اہم ترین علماء جنہوں نے اخباری و اصولی نزاع میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان میں امامیہ کے فعال و پر کار عالم سید عبد اللہ شبر شامل ہیں جنہوں نے اخباری افکار و نظریات کے خلاف کتابیں تصنیف کیں۔ ان کتابوں میں سب سے اہم کتاب منیة المحصلین فی حقیة طریقة المجتهدین کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔[8]
تالیفات
سید عبد اللہ شبر نے کثرت سے قلمی آثار و تصنیفات تحریر کیں۔ اس قدر کہ سرعت و کیفیت تالیف کے سبب وہ مجسی دوم مشہور ہوگئے۔[9] انہوں نے ستر سے زیادہ تالیفات چھوڑی ہیں۔ وہ اس قدر جلدی لکھتے تھے کہ انہوں نے بعض تحریر کے آخر میں لکھا ہے کہ ابتداء شب میں اس تحریر کا آغاز کیا اور نصف تک شب مکمل کر لیا۔ [10]
اب کی بعض تصنیفات مندرجہ ذیل ہیں:
- جامع المعارف و الاحکام، 20 جلد
- مصباح الظلام، 8 جلد
- المصباح الساطع، 6 جلد
- صفوة التفاسیر، 4 جلد
- الجوہر الثمین فی تفسیر القرآن المبین، 2 جلد
- روضة العابدین، 2 جلد
- مصابیح الانوار فی حل مشکلات الاخبار، 2 جلد
- البرہان المبین فی فتح ابواب علوم الائمه المعصومین
- جامع المقال فی معرفه الرواة و الرجال
- حق الیقین فی معرفه اصول الدین
- الدرر المنثوره و المواعظ المأثوره عن الله تعالی و النبی و الائمه الطایرین و الحکما
- الاخلاق
- الانوار اللامعة فی شرح الجامعة شرحی بر زیارت جامعہ کبیره
- مہیج الاحزان
علماء کی نظر میں
تکملۃ الرجال کے مولف شیخ عبد النبی کاظمی کہتے ہیں: سید عبد اللہ شبر تمام اسلامی علوم میں مہارت کافی رکھتے تھے اور بہت سے موضوعات جیسے تفسیر، فقہ، حدیث، لغت، اخلاق، اصول دین وغیرہ پر کتابیں تصنیف کیں۔ تند، درست اور محکم لکھنے کے معاملہ میں ان کے جیسا کوئی نہیں ہے۔
سید محمد معصوم، سید عبد اللہ شبر کی تفسیر کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں: امام شبر با خیر و برکت شخصیات میں سے ایک ہیں کہ جو تاریخ میں ہمیشہ باقی رہیں گے۔ وہ علمی سرمایہ، نادر حافظہ اور وسیع اطلاعات کے مالک تھے۔ ہم ان کی شخصیت کے سامنے سر تعظیم کو خم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔
محدث قمی اپنی کتاب الکنی و الالقاب میں تحریر کرتے ہیں: سید عبد اللہ شبر حسینی کاظمی ایک زیرک صاحب فضل، بلند مرتبہ محدث، متبحر فقیہ اور الہی عالم دین تھے۔ انہوں نے بہت سی کتابیں تفسیر، حدیث، فقہ، اصول دین ۔۔۔ جیسے موضوعات پر تحریر کی ہیں۔
بزرگ اہل سنت عالم دین محمد حسین ذہبی لکھتے ہیں: سید عبد اللہ بن سید محمد رضا علوی حسینی، شبر کے نام سے مشہور فقیہ محدث، با کمال مفسر اور نہایت عالم انسان تھے۔ وہ علم اخلاق میں بزرگ مرد تھے اور انہوں نے اپنی مختصر عمر میں ڈھیروں کتابیں تصنیف کی ہیں۔
مدرس تبریزی نے بھی کتاب ریحانۃ الادب میں تفصیل کے ساتھ سید عبد اللہ کی تجلیل و تکریم کی ہے۔
مصر کی الازہر یونیورسٹی کے ادبیات کالج کے استاد حامد حنفی داوود سید شبر کی تفسیر کے مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں: ان کے ذریعہ لکھے گئے صفحات کو ان کی زندگی کے ایام پر تقسیم کیا جائے تو نتیجہ یہ سامنے آئے گا کہ انہوں نے بطور متوسط روزانہ ایک کتابچہ تحریر کیا ہے۔
سید محسن امین عاملی کہتے ہیں: سید شبر کا خاندان عراق کے علمی اور مشہور خانوادوں میں سے ایک ہے اور سید عبد اللہ شبر محدث اور کثیر التالیف مولف ہیں۔[11]
وفات و مدفن
سید عبد اللہ شبر نے 54 سال کی عمر میں ماہ رجب کے شب جمعرات میں، سن 1242 ھ میں کاظمین میں وفات پائی۔ ان کے بیٹے سید حسن نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ انہیں حرم کاظمین میں ان کے والد کی قبر کے برابر میں دفن کیا گیا[12] اور سید محمد معصوم لکھتے ہیں: جس وقت سید کے انتقال کی خبر کاظمین اور بغداد والوں ہوئی، لوگ گریہ و زاری کے عالم میں موج دریا کی مانند ان کے گھر کے باہر موجزن ہونے لگے ۔۔۔ عراق و ایران کے سارے شہر عزا و ماتم میں ڈوب گئے اور صاحب جواہر شیخ مرتضی انصاری نے نجف میں ان کے لئے مجلس ترحیم منعقد کی۔[13]
حوالہ جات
- ↑ امین عاملی، اعیان الشیعہ، ۱۴۲۱ق، ج ۸، ص۸۲
- ↑ منیره زریو، علامہ شبر و روش تفسیری او، ۱۳۸۴ ش
- ↑ امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج ۸، ص۸۲
- ↑ قمی، الکنی و الالقاب، ج ۲، ص۳۵۲
- ↑ امین عاملی، اعیان الشیعہ، ۱۴۲۱ق، ج ۸، ص۸۲
- ↑ شبر، ترجمہ الاخلاق شبر، ۱۳۷۸ ش، ص۲۲
- ↑ امین عاملی، اعیان الشیعه، ۱۴۲۱ق، ج۸، ص۸۲ و ۸۳
- ↑ حدیث نت
- ↑ قمی، الکنی و الالقاب، ج ۲، ص۳۵۲
- ↑ امین عاملی، اعیان الشیعo، ۱۴۲۱ق، ج ۸، ص۸۳
- ↑ میرزا علی زاده، آشنایی با تفسیر شبر، ۱۳۷۵ش
- ↑ امین عاملی، اعیان الشیعہ، ۱۴۲۱ق، ج ۲، ص۸۲
- ↑ میرزا علی زاده، آشنایی با تفسیر شبر، ۱۳۷۵ش
مآخذ
- شبر، عبد الله شبر، الاخلاق، ترجمہ محمد رضا جباران، قم، ہجرت، ۱۳۷۸ ش
- امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف، ۱۴۲۱ ق
- قمی، عباس، الکنی و الالقاب، تہران، مکتبة الصدر
- زریو، منیر، علامہ شبر و روش تفسیری او، بینات، ۱۳۸۴ ش، شماره ۴۸
- علی زاده، میرزا، آشنایی با تفسیر شبر، علوم و معارف قرآن، ۱۳۷۵ش، شماره ۲