ابو الفرج اصفہانی
اَبو الفَرَجِ اِصفَہانی (284-356ھ) تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے علماء میں سے ہیں۔ کتاب مقاتل الطالبیین آپ کی مشہور تصانیف میں سے ہے جو پیغمبر اکرمؐ کے دور سے چوتھی صدی ہجری کے درمیان تک حضرت ابو طالب کی نسل سے متعلق لکھی گئی ہے۔ آپ کی ایک اور مشہور کتاب الأغانی ہے جو موسیقی اور ثقافت کا سب سے بڑا دائرۃ المعارف اور زمانہ جاہلیت اور صدر اسلام کے عربی آداب و رسوم اور نظم و نثر کا جامع ترین مجموعہ ہے۔
کوائف | |
---|---|
وجہ شہرت: | شیعہ ادیب و مورخ |
مقام پیدائش | اصفہان |
مذہب: | اسلام، زیدیہ |
اساتذہ: | ابوبکر بن درید، محمد بن جریر بن یزید طبری، جعفر بن قدامہ، ابوبکر ابن انباری و... |
شاگرد: | ابو زکریا یحیی، ابوالحسین بن دینار، دارقطنی، ابواسحاق طبری، تنوخی و ... |
قلمی آثار: | مقاتل الطالبین، الأغانی و ... |
شیعہ سنی علم رجال کے ماہرین کے مطابق ابو الفرج اصفہانی کا تعلق شیعہ فرقہ زیدیہ سے ہے، لیکن بعض مورخین مروانیوں کے ساتھ ان کے روابط کی وجہ سے ان کے شیعہ ہونے میں تردید کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی طرف سے اپنے آپ کو شیعہ ظاہر کرنا شیعہ حاکموں کے ساتھ روابط پیدا کرنے کی خاطر تھا۔
زندگی نامہ
علی بن حسین بن محمد بن احمد بن ہیثم مروانی اموی قرشی جو ابو الفرج اصفہانی کے نام سے مشہور ہیں، بنی امیہ کے آخری حکمران مروان بن محمد کی نسل سے ہیں۔[1] آپ اپنے دور کے مختلف علوم و فنون من جملہ ادب، فقہ، تاریخ، سیرہ، لغت، مغازی اور انساب شناسی میں معروف تھے۔[2] آپ 284ھ[3] کو بنی عباس کے آخری حکمران معتضد کے دور حکومت میں اصفہان میں پیدا ہوئے؛[4] البتہ اصفہان میں آپ کی ولادت اور اس شہر سے آپ کے انتساب میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔[5]
ابوالفرج اصفہانی نے بچپن اور نوجوانی میں بغداد میں مختلف علوم حاصل کئے[6] اور عالم جوانی میں موسیقی، تاریخ، احادیث اور اشعار کی طرف راغب ہوئے۔ بہت سارے مورخین من جملہ یاقوت حموی، ابن خلکان، ثعالبی اور ابن ندیم نے مختلف علوم میں ان کی منزلت سے متعلق گفتگو کی ہے۔[7] تنوخی نے جن علوم میں آپ مہارت رکھتے تھے کا ذکر کرنے کے بعد تصریح کی ہے کہ تمام علماء کا تسلط اور شعراء کی ظرافت ان میں جمع تھیں۔[8]
عز الدولہ دیلمی کے وزیر مہلبی نے انہیں بغداد طلب کرکے اپنا مشاور اور خاص خدمت گزاروں میں سے قرار دیا۔[9] چنانچہ ابو حیان توحیدی لکھتے ہیں کہ ابو الفرج رکن الدولہ کا کاتب بھی تھا۔[10]
آپ نے 4 ذی الحجہ 356ھ[11] یا 357ھ بغداد میں وفات پائی اور وہیں پر سپرد خاک گئے گئے۔[12]
مذہب
علم رجال کے اکثر شیعہ علماء من جملہ شیخ طوسی اور سید ابو القاسم خوئی اس بات کے معتقد ہیں کہ ابو الفرج اصفہانی شیعہ تھے۔[13] بعض اہل سنت علماء من جملہ ذہبی اور ابن جوزی بھی ان کے شیعہ ہونے کے قائل ہیں۔[14] لیکن بعض دوسرے علماء مانند ذہبی نے مروانیوں کے ساتھ ان کی نسبت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس بات کو عجیب قرار دیتے ہیں[15] اسی طرح ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب لسان المیزان میں مروانیوں کے ساتھ ان کے منسوب ہونے کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے شیعہ ہونے کو نوادر میں سے قرار دیا ہے۔[16] خطیب بغدادی نے ان کے شیعہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کو سب سے جھوٹے آدمی کے عنوان سے یاد کیا ہے۔[17]
شیخ طوسی اور علامہ حلی ابو الفرج اصفہانی کو اپنی تألیفات میں کئے گئے اظہار نظر کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں شیعہ فرقہ زیدیہ سے قرار دیتے ہیں[18] لیکن محمد باقر خوانساری (1226-1313 ھ) نے اپنی کتاب روضات الجنات میں انہیں شیعہ قرار دیا ہیں۔[19] کتاب روضات الجنات کے مترجم محمد باقر ساعدی خراسانی ابو الفرج اصفہانی کو اہل تظاہر بہ تشیع کے عنوان سے یاد کرتے ہیں اور ان کی زبانی ائمہ معصومین کی تعریف اپنے زمانے کے شیعہ حکام سے نزدیک ہونے کی بنا پر قرار دیتے ہیں۔[20]
اساتذہ اور شاگرد
ابو الفرج اصفہانی اپنے ہم عصر بہت سے علماء کے درس میں شرکت کر چکے ہیں۔ خطیب بغدادی اور یاقوت حموی نے ان کے کئی اساتید کی طرف اشارہ کیا ہے؛[21] جن میں ابوبکر بن درید کا نام ان کے اساتید میں خصوصیت سے لیا گیا ہے۔[22] ان کے دیگر اساتید میں محمد بن جریر بن یزید طبری، جعفر بن قدامہ، ابوبکر ابن انباری، فضل بن حجاب جمحی، علی بن سلیمان اخفش، نفطویہ، محمد بن عبداللہ حضرمی، محمد بن جعفر قتات، حسین بن عمر ابن ابی احوص ثقفی، علی بن عباس مقانعی، علی بن اسحاق بن زاطیا، ابو خبیب برتی، اور محمد بن عباس یزید کا نام لیا جا سکتا ہے۔[23]
بعض علماء جیسے ابو زکریا یحیی، ابو الحسین بن دینار، علی بن ابراہیم دہکی، دارقطنی، ابو اسحاق طبری، ابراہیم بن مخلد و محمد بن ابی الفوارس، اور تنوخی وغیرہ کو ان کے شاگردوں میں شمار کیا گیا ہے۔[24]
قلمی آثار
متعدد قلمی آثار کو ابو الفرج اصفہانی سے منسوب کیا جاتا ہے۔[25] انہوں نے بہت سی کتابیں خاص طور پر شعر و نسب شناسی میں تالیف کی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض ماہرین کتاب نے ان سے منسوب تالیفات کی تعداد 30 تک ذکر کی ہے۔[26] ان کے مشہور قلمی آثار میں مقاتل الطالبیین اور الاغانی ہیں۔[27] ان کی دیگر تالیفات میں نسب بنی عبد شمس، ایام العرب و جمہرۃ النسب، آداب الغربا، الأخبار و النوادر اور نسب بنی شیبان وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔[28]
شیخ طوسی نے کتاب فہرست میں ان کی دو اور کتابوں کا نام لیا ہے ان میں سے ایک "ما نزل من القرآن فی أمیر المؤمنینؑ و أہل بیتہؑ" اور دوسری "فیہ کلام فاطمۃ(ع) فی فدک" ہے۔[29] مختلف موضوعات میں متعدد اشعار ان کی طرف نسبت دیئے گئے ہیں۔ کتاب الأغانی کے مقدمے میں ان میں سے بعض اشعار نقل ہوئے ہیں۔[30]
مقاتل الطالبیین
کتاب مقاتل الطالبیین عربی زبان میں 19 ابواب اور 216 حصوں پر مشتمل ہے جس میں امام علیؑ کے والد حضرت ابو طالبؑ کی نسل کا تذکرہ کیا گیا ہے۔[31] جعفر بن ابی طالب، امام علیؑ، امام حسنؑ، امام حسینؑ، صاحب فخ، امام کاظمؑ اور امام رضاؑ کی شہادت کی تفصیلات کتاب مقاتل الطالبیین کے عمدہ حصوں میں شمار کیا جاتا ہے۔[32] یہ کتاب حدیثی انداز میں تدوین ہوئی ہے اور ابو الفرج اصفہانی نے اسے تقریبا 30 سال کی عمر یعنی 313ھ میں لکھی ہے۔[33] شیخ مفید نے اپنی کتاب الارشاد میں مقاتل الطالبیین سے بہت ساری احادیث کو نقل کیا ہے۔[34] رسول جعفریان کے مطابق ابو الفرج اصفہانی نے اس کتاب کی احادیث کو عموما احمد بن عبید اللہ ثقفی کی کتاب "المبیضۃ فی أخبار آل ابی طالب" اور مقاتل الطالبیین نامی ایک اور کتاب سے نقل کیا ہے جسے محمد بن علی بن حمزہ علوی نے تحریر کیا ہے۔[35]
یہ کتاب جامعیت اور نقل روایات میں دقت کے سبب بہت سے علماء کے نزدیک مورد توجہ قرار پائی ہے۔ یہاں تک کہ شیخ مفید جیسے عالم نے اسے منابع اصلی کے طور پر ذکر کیا ہے۔[36]
الأغانی
کتاب الأغانی کو ابو الفرج اصفہانی نے 50 سال کے عرصے میں جمع کیا ہے۔[37] اور اسلامی تہذیب میں کئی صدیوں تک موسیقی، ادبیات، تاریخ اور ہنر کے اہم منابع کے عنوان سے قابل استفادہ رہی ہے۔[38] یہ کتاب موسیقی اور تہذیب کی سب سے بڑے دائرۃ المعارف نیز صدر اسلام اور زمانہ جاہلیت کے نظم و نثر اور اعراب کے آداب و رسوم کا جامع ترین مجموعہ ہے۔[39] جس میں موسیقی سے متعلق اس دور کے ماہرین کا تذکرہ کیا گیا ہے۔[40] یہ کتاب 20 جلدوں پر مشتمل ہے۔[41] زرکلی نے اپنی کتاب الاعلام میں دعوی کیا ہے کہ ابو الفرج اصفہانی اپنی کتاب الأغانی کو اندلس کے اموی حکمران کیلئے بھیجا اور اس سے انعام وصول کیا۔[42]
حوالہ جات
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۴۹؛ امین، أعیان الشیعۃ، ۱۴۰۶ق، ج۸، ص۱۹۸؛ امین، مستدرکات اعیان الشیعۃ، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۱۴۶؛ ابو الفرج اصفہانی، الأغانی، ۱۹۹۴م، ج۱، ص۱۴۔
- ↑ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۳۹۷؛ ابن العماد الحنبلی، شذرات الذہب، ۱۴۰۶ق، ج۴، ص۲۹۲؛ صفدی، صرف العین، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۷؛ امین، أعیان الشیعۃ، ۱۴۰۶ق، ج۸، ص۲۰۰؛ آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۴۹؛ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۳۷۲ق، ج۱۱، ص۳۶۸۔
- ↑ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۳۹۸؛ امین، أعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۸، ص۱۹۸۔
- ↑ ابو الفرج اصفہانی، الأغانی، ۱۹۹۴م، ج۱، ص۱۴۔
- ↑ امین، مستدرکات اعیان الشیعۃ، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۱۴۶۔
- ↑ امین، أعیان الشیعہ، ۱۴۰۶، ج۸، ص۱۹۸۔
- ↑ ابو الفرج اصفہانی، الأغانی، ۱۹۹۴م، ج۱، ص۱۵-۱۶۔
- ↑ تنوخی، نشوار المحاضرۃ و أخبار المذاکرۃ، ۱۳۹۱ق، ج۴، ص۱۰۔
- ↑ ابن خلکان، وفیات الاعیان، ۱۳۶۴ش، ج۳، ص۳۰۸؛ ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ق، ج۲۶، ص۱۴۴؛ یاقوت حموی، معجم الادبا، ۱۹۹۳م، ج۱۳، ص۱۰۰۔
- ↑ ابو حیان توحیدی، أخلاق الوزیرین، ۱۹۹۲م، ص۴۲۱۔
- ↑ ابن خلکان، وفیات الاعیان، ۱۳۶۴ش، ج۳، ص۳۰۸؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۳۹۸؛ صفدی، الوافی بالوفیات، ۱۴۲۰، ج۲۱، ص۱۶؛ صفدی، صرف العین، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۷؛ امین، أعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۸، ص۱۹۸۔
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۸ق، ج۲۱، ص۳۷۶۔
- ↑ شیخ طوسی، فہرست، ۱۴۲۰ق، ص۵۴۴؛ ح لی، خلاصۃ الاقوال، ۱۳۸۱ش، ص۴۶۵؛ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۳۷۲ق، ج۱۱، ص۳۶۷۔
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۴، ص۱۸۵؛ ذہبی، سیر اعلام النبلا، ۱۴۱۴ق، ج۱۶، ص۲۰۲؛ ذہبی، میزان الاعتدال، ۱۳۸۲ق، ج۳، ص۱۲۳؛ ابن العماد الحنبلی، شذرات الذہب، ۱۴۰۶ق، ج۴، ص۲۹۲؛ ابن خلکان، وفیات الاعیان، ۱۳۶۴ش، ج۳، ص۳۰۸؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۳۹۹۔
- ↑ ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ق، ج۲۶، ص۱۴۴؛ ابن العماد الحنبلی، شذرات الذہب، ۱۴۰۶ق، ج۴، ص۲۹۲۔
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۴، ص۱۸۵۔
- ↑ ابو الفرج اصفہانی، الأغانی، ۱۹۹۴م، ج۱، ص۸۔
- ↑ شیخ طوسی، فہرست، ۱۴۲۰ق، ص۵۴۴؛ حلی، خلاصہ الاقوال، ۱۳۸۱ش، ص۴۶۵۔
- ↑ خوانساری اصفہانی، روضات الجنات، ۱۳۶۰ش، ج۶، ص۱۳۵-۱۳۶۔
- ↑ خوانساری اصفہانی، روضات الجنات، ۱۳۶۰ش، ج۶، ص۱۳۵-۱۳۶۔
- ↑ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۳۹۷؛ یاقوت حموی، معجم الادبا، ۱۹۹۳م، ج۱۳، ص۹۵؛ ابو الفرج اصفہانی، الأغانی، ۱۹۹۴م، ج۱، ص۱۴۔
- ↑ ابن درید، الاشتقاق، ۱۳۷۸ق، مقدمہ، ص۷۔
- ↑ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۳۹۷؛ یاقوت حموی، معجم الادبا، ۱۹۹۳م، ج۱۳، ص۹۵؛ ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، ۱۹۹۴م، ج۱، ص۱۴۔
- ↑ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۳۹۸؛ ذہبی، سیر اعلام النبلا، ۱۴۱۴ق، ج۱۶، ص۲۰۲۔
- ↑ ابن العماد الحنبلی، شذرات الذہب، ۱۴۰۶ق، ج۴، ص۲۹۲۔
- ↑ ابو الفرج اصفہانی، الأغانی، ۱۹۹۴م، ج۱، ص۲۴۔
- ↑ قائمی، «ابو الفرج اصفہانی»، ص۵۰-۵۱۔
- ↑ ابن خلکان، وفیات الاعیان، ۱۳۶۴ش، ج۳، ص۳۰۸؛ ابن ندیم، فہرست ابن ندیم، بیروت، ص۱۲۸؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۳۹۷؛ شیخ طوسی، فہرست، ۱۴۲۰ق، ص۲۸۱؛ ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ق، ج۲۶، ص۱۴۴؛ آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۸ق، ج۲ ص۲۴۹؛ زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۴، ص۲۷۸۔
- ↑ شیخ طوسی، فہرست، ۱۴۲۰ق، ص۵۴۴؛ خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۳۷۲ق، ص۳۶۸۔
- ↑ ابو الفرج اصفہانی، الأغانی، ۱۹۹۴م، ج۱، ص۱۸-۲۳۔
- ↑ عادل، «ابو الفرج اصفہانی و ترجمہ مقاتل الطالبیین»، ص۴۸۔
- ↑ عادل، «ابو الفرج اصفہانی و ترجمہ مقاتل الطالبیین»، ص۴۸۔
- ↑ ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۱۹ق، ص۵؛ عادل، «ابو الفرج اصفہانی و ترجمہ مقاتل الطالبیین»، ص۴۸۔
- ↑ خانجانی، «منابع شیخ مفید در گزارشہای تاریخی»، ص۲۷-۳۰۔
- ↑ جعفریان، «علی بن محمد نوفلی و کتاب الأخبار او»، ص۳۵۹۔
- ↑ خانجانی، منابع شیخ مفید در گزارشهای تاریخی، تاریخ اسلام در آینه پژوهش، پاییز۱۳۸۷، شماره۱۹.
- ↑ زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، ج۴، ص۲۷۸؛ ابو الفرج اصفہانی، الأغانی، ۱۹۹۴م، ج۱، ص۲۵۔
- ↑ گلسرخی، «کتاب الآغانی»، ص۱۱۱-۱۱۲۔
- ↑ گلسرخی، «کتاب الأغانی»، ۱۳۷۰ش، ص۱۱۱-۱۱۲۔
- ↑ گلسرخی، «کتاب الأغانی»، ۱۳۷۰ش، ص۱۱۱-۱۱۲۔
- ↑ گلسرخی، «کتاب الأغانی»، ۱۳۷۰ش، ص۱۱۱-۱۱۲؛ ابوالفرج اصفہانی، الأغانی، ۱۹۹۴م، ج۱، ص۲۵۔
- ↑ زرکلی، الأعلام، ۱۹۸۹م، ج۴، ص۲۷۸۔
مآخذ
- آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعۃ إلی تصانیف الشیعۃ، قم، اسماعیلیان، ۱۴۰۸ق۔
- ابن العماد الحنبلی، عبد الحی بن احمد، شذرات الذہب فی اخبار من ذہب، تحقیق الأرناؤوط، بیروت، دار ابن کثیر، ۱۴۰۶ق۔
- ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی بن محمد، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۲ق۔
- ابن خلکان، احمد بن محمد، وفیات الاعیان، تحقیق احسان عباس، قم، الشریف الرضی، ۱۳۶۴ش۔
- ابن درید، محمد بن حسن، الاشتقاق، تحقیق عبد السلام محمد ہارون، قاہرہ، مکتبۃ الخانجی، ۱۳۷۸ق۔
- ابن ندیم، محمد بن اسحاق، فہرست ابن ندیم، بیروت، دار المعرفۃ، بی تا۔
- ابو الفرج اصفہانی، علی بن الحسین، الأغانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۹۹۴ء
- ابو الفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبیین، شرح و تحقیق سید احمد صقر، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸ء
- ابوحیان توحیدی، علی بن محمد، أخلاق الوزیرین، تحقیق محمد بن تاویت الطنجی، بیروت، دار صادر، ۱۹۹۲ ء
- امین، سید حسن، مستدرکات اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۸ق۔
- امین، سید محسن، أعیان الشیعۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ق۔
- تنوخی، محسن بن علی، نشوار المحاضرۃ و أخبار المذاکرۃ، تحقیق عبود الشالجی، بیروت، ۱۳۹۱ق۔
- جعفریان، رسول، «علی بن محمد نوفلی و کتاب الاخبار او»، در مجلہ علوم حدیث، پاییز و زمستان۱۳۸۷، ش۴۹ و ۵۰۔
- حلی، حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۸۱ش۔
- خانجانی، قاسم، «منابع شیخ مفید در گزارشہای تاریخی»، در مجلہ تاریخ اسلام در آینہ پژوہش، شمارہ ۱۹، پاییز ۱۳۸۷۔
- خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۱۷ق۔
- خوانساری اصفہانی، میر سید محمد باقر، روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات، ترجمہ محمد باقر ساعدی خراسانی، تہران، کتاب فروشی اسلامیہ، ۱۳۶۰ق۔
- خویی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، دار الثقافۃ الاسلامیۃ، ۱۳۷۲ق۔
- ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الإسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق۔
- ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلا، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۱۴ق۔
- ذہبی، محمد بن احمد، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر، ۱۳۸۲ق۔
- زرکلی، خیر الدین، الاعلام، بیروت، دار العلم للملایین، چاپ ہشتم، ۱۹۸۹ق۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، فہرست کتب الشیعۃ و أصولہم و أسماء المصنّفین و أصحاب الأصول، قم، مکتبۃ المحقق الطباطبائی، ۱۴۲۰ق۔
- صفدی، خلیل بن أیبک، الوافی بالوفیات، تحقیق احمد الارناووط و مصطفی ترکی، بیروت، داراحیاء التراث، ۱۴۲۰ق۔
- صفدی، خلیل بن أیبک، صرف العین، قاہرہ، دار الافاق العربیۃ، ۱۴۲۵ق۔
- عادل، پرویز، «ابو الفرج اصفہانی و ترجمہ مقاتل الطالبیین»، در مجلہ کتاب ماہ تاریخ و جغرافیا، شمارہ ۲۶، آذر ۱۳۷۸ش۔
- قائمی، محمد، «ابو الفرج اصفہانی»، در مجلہ فرہنگ اصفہان، ش۳۱، سال ۱۳۳۹ش۔
- گلسرخی، ایرج، «کتاب الأغانی»، در مجلہ فرہنگ، شمارہ ۸، بہار ۱۳۷۰۔
- یاقوت حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم الادبا، بیروت، دار الغرب الاسلامی، ۱۹۹۳ء