محمد ابراہیم لکھنوی

ویکی شیعہ سے
محمد ابراہیم لکھنوی
کوائف
مکمل ناممحمد ابراہیم بن محمد تقی بن حسین بن دلدار علی نقوی نصیرآبادی
لقب/کنیتشمس العلما، سید العلما،حجت الاسلام‌
تاریخ وفات1307ہ ق
مدفنلکھنؤ
نامور اقرباءسید دلدار علی نقوی(دادا)،سید حسین علیین
علمی معلومات
اساتذہمیرزا محمدحسن شیرازی، شیخ محمد طه نجف نجفی، سیدمیرزا محمدحسین شهرستانی
اجازہ روایت ازمیرزا محمدحسن شیرازی، شیخ محمد طه نجف نجفی، سیدمیرزا محمدحسین شهرستانی
خدمات


محمد ابراہیم بن محمد تقی بن حسین بن دلدار علی نقوی نصیرآبادی (1843-1890ء)، مشہور بنام ابراہیم لَکھنَوی تیرھویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور مفسر تھے۔ وہ میرزا محمد حسن شیرازی، شیخ علی فرزند صاحب جواہر، میرزا حبیب اللہ رشتی، مولا لطف اللہ مازندرانی، شیخ محمدحسن آل یاسین کاظمی، شیخ زین العابدین مازندرانی اور سید ابو القاسم طباطبائی سے اجازہ روایت حاصل کیا۔ وہ آخری شیعہ حاکم کے نزدیک قابل احترام اور اس طرح ناصرالدین شاہ قاجار اور ملکہ برطانیہ بھی اس کے احترام کی قائل تھیں۔ انہوں نے اذان سے علی کی گواہی کے حذف کیے جانے کے خلاف ملکہ برطانیہ کو خط لکھا۔

زندگی نامہ

ابراہیم لکہنوی ہندوستان کے شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور وہیں تعلیم حاصل کی۔[1] صرف و نحو، منطق اور بیان مولی کمال الدّین موہانی اور فقہ و اصول اپنے باپ کے پاس پڑھے۔

اپنے فقیہ اور عالم باپ کی وفات کے بعد لکھنؤ کی دینی اور شرعی ذمہ داریاں انہیں کے حوالے ہوئیں نیز لکھنؤ کے آخری شیعہ حاکم واجد علی شاہ کی طرف سے سید العلماء کا لقب حاصل کیا۔[2]

ابراہیم 48 سال کی عمر میں 1307ھ کو فوت ہوئے انہیں اپنے باپ کے امام باڑے میں دفنائے گئے۔[3]

سفر

سنہ 1872ء کو حج کے ارادے سے مکہ اور مدینہ گئے۔ سنہ 1291ھ میں مقدس مقامات کی زیارات کیلئے عراق کا سفر کیا۔[4] سنہ 1888ء کو امام رضا(ع) کی زیارت کیلئے ایران کا سفر کیااور ایران کے شہر ری میں آستانہ حضرت عبدالعظیم میں علما و حکماء نے ان کا استقبال کیا نیز ناصرالدین شاہ سے ملاقات بھی کی۔[5] شاہ نے ان کی تکریم میں انہیں "حجت الاسلام‌" کا لقب دیا۔[6]

اساتید

درج ذیل علما نے انہیں اجازۂ روایت دیا:

  • مرزا محمدحسن شیرازی،
  • شیخ محمد طہ نجف نجفی،
  • سیدمیرزا محمدحسین شہرستانی،
  • شیخ علی فرزند (صاحب جواہر)،
  • حبیب اللہ رشتی،
  • مولا لطف اللہ مازندرانی،
  • شیخ محمدحسن آل یاسین کاظمی،
  • فاضل ایروانی ،
  • شیخ محمدحسین کاظمی،
  • شیخ حسن ابن الشیخ،
  • اسداللہ کاظم،
  • شیخ زین العابدین مازندرانی
  • سید ابوالقاسم طباطبائی.[7]

آثار

انہوں نے درج ذیل آثار چھوڑے :

  1. تحفہ المؤمنین کے نام سے اردو زبان میں رسالہ عملیہ (توضیح المسائل) جو ہندوستان میں چھپا۔[8]
  2. الیواقیت و الدرر فی حکم التماثیل و الصور ہندوستان میں چھپی۔[9]
  3. نورالابصار فی اخذ الثّار فارسی زبان میں لکھنؤ سے چھپی۔[10]
  4. الشمعہ فی احکام الجمعہ کو ناصرالدین شاہ کے نام تالیف کیا۔ اسی مناسبت سے اسے اللمعہ الناصریہ بھی کہتے ہیں۔اس کا نسخہ‌ لکھنؤ کے کتابخانے میں موجود ہے۔[11]
  5. ظاب العائل فقہ کے موضوع میں لکھی۔[12]
  6. امل الامل در کلام (فارسی)، اپنے والد کی کتاب تفسیر کے موضوع میں ینابیع الانوار کا تکملہ ہے۔
  7. البضاعہ المزجاہ تفسیر سورہ یوسف.[13]
  8. دعائم الایمان[14]

ملکہ برطانیہ کو خط

لکھنؤ میں شیعی حکومت کے خاتمے کے بعد انگریزوں نے حکم دیا کہ اذان سے ولایت علیؑ کی گواہی کو حذف کریں۔ ابراہیم نے اس معاملے کی سخت مخالفت کی اور ملکہ برطانیہ کو خط لکھا جس کے نتیجے میں وہ حکم نامہ منسوخ کیا گیا۔[15] ان دنوں میں انگریز حکومت نے اسے شمس العلماء‌ کا لقب دیا ہوا تھا۔[16]

حوالہ جات

  1. آقابزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، ص10
  2. امین، محسن، اعیان الشیعہ، جلد 2، ص205؛ مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، ج6، ص230.
  3. امین، محسن، اعیان الشیعہ، جلد 2، ص205؛ مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، ج6، ص231.
  4. صدر الافاضل، مرتضی حسین، مطلع الانوار، ص478۔
  5. صدر الافاضل، مرتضی حسین، مطلع الانوار، ص478
  6. امین، محسن، اعیان الشیعہ، جلد 2، ص205
  7. امین، محسن، اعیان الشیعہ، جلد 2، ص205؛ مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، ج6، صص230-231.
  8. آقابزرگ، الذریعہ، جلد 3، ص474
  9. مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، ج6، ص231؛ آقابزرگ، الذریعہ، جلد 25، ص295 - 296
  10. مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، ج6، ص231؛ صدر الافاضل، مرتضی حسین، مطلع الانوار، ص479
  11. مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، ج6، ص231؛ آقابزرگ، الذریعہ، جلد 14، ص233
  12. آقابزرگ، الذریعہ، جلد 15، ص198
  13. امین، محسن، اعیان الشیعہ، جلد 2، ص205
  14. لکھنوی، محمد مہدی، نجوم السماء، ص122
  15. امین، محسن، اعیان الشیعہ، جلد 2، ص205
  16. موسوی اصفہانی، محمد مہدی، احسن الودیعہ، ص114

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، الذریعہ۔
  • آقابزرگ، طبقات اعلام الشیعہ، قرن 14، مشہد، 1404ھ / 1984ء۔
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، بہ کوشش حسن امین، بیروت، 1403ھ /1983ء۔
  • صدر الافاضل، مرتضی حسین، مطلع الانوار، کراچی، 1402ھ /1981ء۔
  • لکہنوی، محمد مہدی، نجوم السماء، قم، 1396ھ /1976ء۔
  • مدرس تبریزی، ریحانۃ الادب، انتشارات خیام، تہران، 1369ہجری شمسی۔
  • موسوی اصفہانی، محمد مہدی، احسن الودیعہ، بغداد، 1348ھ /1929ء۔