مدرسۃ الواعظین (لکھنو)
ابتدائی معلومات | |
---|---|
بانی | مہاراجہ محمد علی محمد خان |
تاسیس | سنہ 1919 ء |
استعمال | تعلیمی ادارہ |
محل وقوع | لکھنو (ہندوستان) |
مشخصات | |
موجودہ حالت | فعال |
معماری |
مدرسۃ الواعظین، ہندوستان کے شہر لکھنو میں شیعوں کا ایک دینی مدرسہ ہے۔ یہ مدرسہ سنہ 1919 ء میں تاسیس ہوا۔ اس کا مقصد دینی طلاب کو فقہ و اصول کی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنا اور فن خطابت و فن مناظرہ کا ماہر بنانا تھا۔ اس مدرسہ کے کتب خانے میں خطی نسخوں کی موجودگی اور حفاظت، مدرسے اور کتب خانے کی شہرت کا سبب بنی۔
تاریخ
مہاراجہ محمد علی محمد خان نے 19 مئ سنہ 1919 ء کو اپنے جوان سالہ بھائی صاحب زادہ محمد علی احمد خان کی یاد میں محمود آباد میں مدرسہ الواعظین کی بنیاد رکھی۔[1] سید نجم الدین حسن اور ان کے صاحب زادے کے مشورے پر اس مدرسے کی تاسیس ہوئی۔ اس عمارت کی بنیاد کا مقصد ان طلاب کی تربیت کرنا تھی جنہوں نے دوسرے مدرسے میں تعلیم حاصل کی ہے اور شیعی علوم میں مزید مہارت حاصل کرنا چاہتے تھے اور اسی طرح مختلف مہارتیں مثلا خطابت، وعظ اور گفتگو میں مہارت حاصل کر سکیں۔[2]
وہ مبلغین اور طلاب جنہوں نے اس مدرسے میں تعلیم حاصل کی ہے، ہندوستان کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک جیسے ہانگ کانگ، برما، تبت، زنجبار، سنگاپور اور ماڈاگاسکر میں تبلیغ کے لئے سفر کرتے رہتے ہیں۔ ان مبلغین کی متعدد گزارشات مدرسہ الواعظین کے مجلے میں شائع ہو چکی ہیں۔[3]
اس کی سالانہ تین روزہ کانفرنس دسمبر کے آخری ہفتے میں مدرسہ الواعظین کے توسط سے منعقد ہوتی ہے۔ اس مدرسے کے ساتھ جن افراد کا تعاون یا رابطہ ہوتا ہے وہ اس کانفرنس میں شرکت کر کے دنیا کے مختلف علاقوں میں اپنی سرگرمیوں کے حوالے سے رپورٹ پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح اس کے ذمہ داران مدرسے کی سرگرمیوں کے حوالے سے رپورٹ پیش کرتے ہیں۔[4]
تعلیمی پروگرام
مدرسۃ الواعظین کا شمار اعلیٰ تعلیمی مذہبی مراکز میں ہوتا ہے، جس میں طلاب دینی شیعہ علوم بالخصوص فقہ و اصول میں مہارت حاصل کرتے ہیں۔ وہ خطابت کے مختلف کورسز میں شرکت کرتے ہیں۔ اس مدرسے کے طلبہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ مطالعاتی کورس کے تین سال مکمل کریں اور اس کے بعد ہندوستان کے مختلف شہروں میں خطابت کے لئے سفر کریں۔[5]
مدرسہ علمیہ کا ایک اور تعلیمی پروگرام مختلف زبانوں جیسے انگریزی، عربی، فارسی کا سیکھنا ہے جو کہ لازمی ہے۔ ان کے دوسرے پروگراموں میں دوسرے مذاہب سے آشنائی کے کورسز بھی شامل ہیں۔[6] اس مدرسہ میں دو طرح یا قسم کے طلبہ تعلیم حاصل کیا کرتے تھے: ایک وہ جن کی زندگی کے اخراجات مدرسے کے ذمہ تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو اپنے خرچے پر تعلیم حاصل کرتے تھے۔[7]
کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس مدرسے کی ایک خاص فضا کے باعث حوزہ علمیہ نجف و قم سے مجتہدین تحصیل علم کے لیے یہاں تشریف لایا کرتے تھے۔ ان میں آیت اللہ سید حسن قمی کا نام لیا جاتا ہے۔[8]
کتب خانہ اور نشر و اشاعت
اس مدرسے کے کتب خانے میں تقریبا 20 ہزار مطبوعہ کتابیں اور 1500 خطی نسخے ہیں، اس مدرسے اور کتب خانہ کی شہرت کی ایک وجہ اس میں موجود قیمتی خطی نسخوں کو بھی مانا جاتا ہے۔[9] اس مدرسے سے انگریزی، عربی، فارسی اور اردو میں متعدد کتابیں نشر ہوئی ہیں۔ قرآن کریم، نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ کا انگریزی زبان میں ترجمہ مدرسے کے نشر و اشاعت کی بہت اہم کتابیں ہیں۔[10] اسی طرح اس مدرسہ سے انگریزی میں ایک جریدہ مسلم ریویو اور دوسرا اردو زبان میں واعظ منتشر ہوا کرتا تھا۔[11]
حوالہ جات
- ↑ Hasan,Vanishing Culture of Lucknow,1190, P31۔
- ↑ الشہرستانی، «مدرسۃ الواعظین فی لکھنو بالہند: اکبر مرکز للدعایۃ الإسلامیۃ فی الہند»، ۱۳۵۲ھ، ص۹۲۱-۹۲۲۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، تہران، ۱۳۸۷ش، ص۱۵۴۔
- ↑ الشہرستانی، «مدرسۃ الواعظین فی لکهنو بالہند: اکبر مرکز للدعایۃ الإسلامیۃ فی الہند»، ۱۳۵۲ق، ص۹۲۶-۹۲۷۔
- ↑ الشهرستانی، «مدرسۃ الواعظین فی لکهنو بالہند: اکبر مرکز للدعایۃ الإسلامیۃ فی الہند»، ۱۳۵۲ھ، ص۹۲۳-۹۲۷۔
- ↑ روغنی، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، ۱۳۸۷ش، ص۱۵۴۔
- ↑ الشهرستانی، «مدرسة الواعظین فی لکهنو بالهند: اکبر مرکز للدعایة الإسلامیة فی الهند»، ۱۳۵۲ق، ص۹۲۴۔
- ↑ بشیر، «سرگذشت خود نوشت محمد بشیر انصاری»، ۱۳۹۰ش، ص۱۷۸۔
- ↑ Hasan,Vanishing Culture of Lucknow,1190, P31
- ↑ الشهرستانی، «مدرسة الواعظین فی لکهنو بالهند: اکبر مرکز للدعایة الإسلامیة فی الهند»، ۱۳۵۲ق، ص۹۲۳۔
- ↑ الشہرستانی،«مدرسۃ الواعظین فی لکهنو بالہند: اکبر مرکز للدعایۃ الإسلامیۃ فی الہند»، ۱۳۵۲ق، ص۹۲۳۔
مآخذ
- الشہرستانی، السید صالح، «مدرسۃ الواعظین فی لکهنو بالہند: اکبر مرکز للدعایۃ الإسلامیۃ فی الہند»، العرفان، شماره ۲۴، ذوالحجة ۱۳۵۲ھ۔
- بشیر، محمد، «سرگذشت خود نوشت محمد بشیر انصاری»، مترجم: حیدر رضوی، سید تنویر؛ گویا لپوری ہندی، کتاب الشیعہ، شماره ۳، بہار و تابستان ۱۳۹۰ش۔
- روغنی، زہرا، شیعیان خوجہ در آیینہ تاریخ، تہران، تہران، پژوہشگاه علوم انسانی و مطالعات فرہنگى، ۱۳۸۷ش۔
- Hasan, Amir, Vanishing Culture of Lucknow, the University of Michigan,1990۔