تقریر نویسی

نامکمل زمرہ
غیر سلیس
ویکی شیعہ سے

تقریر نویسی حوزہ علمیہ کی تعلیمی رائج طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جو درس کے دوران استاد کے بیان کردہ مطالب کو شاگرد کے ذریعہ ایک خاص طریقے کے مطابق لکھی جاتی ہے اور کبھی تقریر لکھنے والے کے نظریات بھی مبنی ہوتی ہے۔ تقریر نویسی حوزہ علمیہ کا ایک مشہور و معروف تعلیمی طریقہ ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ تقریر نویسی استاد کے ذریعہ بیان کئے مطالب کو ضبط تحریر میں لانے کے علاوہ خود تقریر نویس کے مطالب کو گہرائی سے سمجھنے اور اس کے علمی رشد کا سبب بنتی ہے۔ سید محسن امین، سے نقل قول کی بنیاد پر سید محمد جواد عاملی مصنّف مفتاح الکرامۃ فی شرح قواعد العلامۃ وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اپنے استاد سید محمد مہدی بحر العلوم کے دروس کی تقریر نویسی کی۔

تقریر نویسی اور امالی‌ نویسی کے درمیان فرق کے بارے میں کہا گیا ہے کہ امالی‌ نویسی میں استاد اپنے مطالب شاگردوں کے لئے اپنے ساتھ لائے نوشتہ سے بیان کرتا ہے اور شاگرد استاد کے بیان کئے گئے مطالب کو بغیر کسی کمی و اضافہ اور بغیر کسی چھوٹے بڑے تصرف کے اس کو لکھتا ہے؛ جبکہ تقریر نویسی میں تلامذہ استاد کے بیان کئے گئے مطالب میں تصرف کر سکتے ہیں۔ تقریر نویسی کے اہم ترین اصول میں سے درس کا پیش‌ مطالعہ، استاد کے بیان شدہ تمام مطالب کو لکھنا، ان مطالب کا مستند کرنا اور ان کی اصلاح کرنا شمار کیا گیا ہے۔

کتاب «دانش تقریر نویسی: بہ ضمیمہ روش حل مسألہ فقہی» جو محمد حسن ربانی بیرجندی کے قلم سے فارسی زبان میں لکھی گئی ہے اس میں تقریر نویسی کی تاریخ اور بعض تقریرات کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔

مفہوم‌ شناسی

تقریر نویسی: درس کے جلسہ میں استاد کے ذریعہ دئے گئے درس کو اس کے خاص طور طریقہ کے مطابق لکھنے کو تقریر نویسی کہتے ہیں جو کبھی کبھی تقریر نویس کی تحقیقات اور اس کے نظریات کے ساتھ بھی ہوتی ہے۔[1] وہ ماحصل جو تقریر نویسی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اس کو تقریرات کہتے ہیں، تقریرات بہ عنوان عام ان کتابوں کو کہا جاتا ہے جو 12 صدی ھجری کے اواخر یا اس کے بعد میں تقریر نویسی کے خاص اصول و ضوابط کے مطابق لکھی گئی ہیں۔[2]

یہ رائج ہے کہ طلاب اپنی تقریرات استاد کے سامنے پیش کرتے ہیں اور عام طور سے استاد اس پر اپنی رائے کو بعنوان تقریظ لکھتا ہے[یادداشت 1] استاد کی تقریظ تقریرات کے زیادہ معتبر ہونے کا سبب بنتی ہے۔[3]

تقریر نویسی کا چلن اگر چہ زیادہ تر فقہاور اصول فقہ کے درس خارج میں عام ہے لیکن دوسرے علوم میں بھی رائج ہے مثلا علم منطق، فلسفہ، تفسیر اور عرفان، اور ان علوم کے دروس کی بھی تقریرات موجود ہیں۔[4]

امالی‌ نویسی اور تقریر نویسی کا فرق

تفصیلی مضمون: امالی‌ نویسی

تقریر نویسی اور امالی‌ نویسی کے درمیان کچھ فرق مندرجہ ذیل ہیں:

  • امالی‌ نویسی میں استاد اپنے مطالب شاگردوں کے لئے نوشتہ سے بیان کرتا ہے اور شاگرد استاد کے بیان کئے گئے مطالب کو بغیر کسی کمی و اضافہ اور تصرف کے اس کو لکھتے ہیں؛[5] لیکن تقریر نویسی میں طالب علم، استاد کے بیان کئے گئے مطالب میں تصرف کرسکتے ہیں اس میں کمی یا اضافہ کر سکتے ہیں۔ [6]
  • امالی خود استاد کا علم ہے جس کے نتیجہ میں کتاب اس کے نام سے منسوب ہوتی ہے؛[7] لیکن تقریرات کے مواد اور مندرجات استاد کے دئے گئے درس کا ہوتے ہیں لیکن اس کی تشریح، اس کی وضاحت، اس کے بیان کا سلیقہ اور اس کی تنظیم ترتیب شاگرد کے اختیار میں ہوتی ہے۔ اس بنیاد پر کتاب کو تقریر نویسی کے نام سے جانا جاتا ہے۔[8]

تاریخچہ

اجود التقریرات، تقریرات درس اصول میرزا محمد حسین نائینی، مولف سید ابو القاسم خوئی۔

آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ میں تقریر نویسی کے دورہ اوّل کو بارہویں صدی کے اواخر میں بتایا ہے۔[9] سید محسن امین نے اپنی کتاب اعیان الشیعہ، میں سید محمد جواد عاملی، مؤلف مفتاح الکرامۃ (متوفی 1226 ھ) کو سب سے پہلا تقریر نویس گردانا ہے جنھوں نے سب سے پہلے اپنے استاد سید مہدی بحر العلوم کے درس کی تقریرات لکھیں۔ [10] محققین میں سے کسی کا کہنا ہے کہ تقریر نویسی کے دور کا آغاز صاحب فصول کے زمانہ سے ہوا۔[11]

بعض لوگوں نے ایک روایت سے استناد کیا ہے جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار میں سے کسی ایک کو جو پیغمبر کی حدیث سنتے تھے مگر اس کو یاد رکھنے سے قاصر تھے حکم دیا کہ وہ بیان کی گئی باتوں کو لکھیں،[12] اور اس طرح سے وہ تقریر نویسی کی تاریخ کو عصر رسالت (ص) سے جوڑتے ہیں۔[13]

تقریر نویسی اور رشد علمی

تقریرنویسی کے بارے میں مختلف نظریات بیان ہوئے ہیں:

  • فقہ اور اصول فقہ کے بعض علماء و اساتید جیسے آیت‌اللہ بروجردی،[14] تقریرنویسی کے رواج کو رشد علمی اور مطالب کو گہرائی سے سمجھنے کا سبب جانتے ہیں اور انھوں نے اس سلسلہ میں طلاب علوم دینیہ اور تمام طلاب کو اس علمی روش کو اپنانے کی ترغیب و تشویق دلائی ہے۔[15] بیان کیا گیا ہے کہ، مرزا شیرازی اپنے طلاب کے ذریعہ لکھی گئی تقریرات کو بڑی اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور دوسروں کے سامنے ان کی بہترین تقریرات کو پیش کرتے تھے۔[16]
  • آیت‌اللہ منتظری، سے ایک نقل کی بنا پر سید محمد محقق داماد تقریرنویسی کے سخت مخالف تھے ان کی دلیل تھی کہ تقریرنویسی کی وجہ سے طالب علم صرف اپنے نوشتہ پہ بھروسہ کرنے لگتا ہے اور یہ چیز علمی تنزلی کا سبب بنتی ہے۔ [17]

تقریر نویسی کے طریقے

بحوث فی علم الاصول مولف سید محمود ہاشمی شاہرودی کی تقریر پر آیۃ اللہ سید محمدباقر صدر کی تقریظ

تقریرات کی شفاہی اور کتبی دو صورتیں ہوتی ہیں:

  • شفاہی تقریر: اس تقریر میں استاد کے جلسہ درس کے ختم ہوتے ہی ذہین اور قدیم طلاب اپنے حافظہ اور ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے نئے آنے والے طلاب یا وہ طلاب جنھوں نے درس کو اچھے سے نہیں سمجھا ہے ان کے لئے استاد کے بیان کردہ مطالب کی تکرار کرتے ہیں۔ [18] کہا گیا ہے کہ محمدحسن آشتیانی جو کہ شیخ انصاری کے شاگردوں میں سے تھے وہ شیخ کے درس کو اسی طریقہ تقریر کی بنیاد پر بعض دوسرے شاگردوں کے لئے بیان کرتے تھے۔[19]
  • کتبی تقریر : کتبی تقریرنویسی مندرجہ ذیل مختلف طریقوں سے انجام دی جاتی ہے:
  1. تقریرنویس استاد کے بیان کردہ مطالب کا ایک ایک لفظ اسی جلسہ درس میں لکھتا ہے اور درس کے بعد اس میں ضمنی اصلاحات انجام دیتا ہے۔[20]
  2. تقریرنویس استاد کے بیان کردہ مطالب کو جلسہ درس میں بڑے غور سے سنتا ہے اور درس کے ختم ہونے کے بعد اس کو خلاصہ کے طور پر ضبط تحریر میں لاتا ہے۔[21]
  3. تقریرنویس، استاد کے درس دینے سے پہلے ہی درس میں پیش کئے جانے والے مباحث کا مطالعہ کرتا ہے اور جلسہ درس میں فقط ان اضافی نکات کو لکھتا ہے جن کی طرف استاد اشارہ کرتا ہے۔[22]
  4. استاد اصل بحث کو درس میں بیان کرتا ہے اور شاگرد اس کی شرح و تفسیر کرتے ہیں۔[23]
  5. تقریرنویس، جلسہ درس میں صرف مطالب کی فہرست اور اس کے عناوین کو لکھتا ہے۔ ان میں بعض عناوین کی تشریح کرتا ہے اور بعض کے لئے خلاصہ کے طور پر درس میں بیان کی گئی صرف ضروری اور اہم باتوں کا ذکر کرتا ہے۔[24]
پیغمبر اکرمؐ

قَیِّدُوا العِلْمَ بِالکِتابَۃِ؛ کتابت کے ذریعہ، علم کو قید کر لو۔

ابن شعبہ حرانی، تحف‌العقول، ص۳۶

ایک مقبول تقریر لکھنے کے لئے مندرجہ ذیل اہم باتوں کی رعایت لازم ہے:

  • تقریرنویس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جلسہ درس میں بیان ہونے والی بحث کا پہلے سے مطالعہ کر کے آئے۔[25]
  • تقریرنویس کو چاہئے کہ وہ استاد کے ذریعہ بیان کئے گئے تمام مباحث و مطالب کو لکھے یا کم از کم درس کے تمام عناوین تحریر کرے۔[26]
  • تقریرنویس کو ان کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہئے جن کتابوں سے استاد نے اپنے درس کے مطالب میں استفادہ کیا ہے یا جن کتابوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔[27]
  • استاد کے ذریعہ بیان شدہ مطالب کو حوالوں کے ذریعہ معتبر بنائے۔ ممکن ہے استاد جلسہ درس میں علماء کے اقوال، آیات یا کوئی روایت وغیرہ کو بغیر اس کے ماخذ کے بیان کرے ایسے میں تقریر نویس کے اوپر لازم ہے کہ وہ ان مطالب کو ان کے ماخذ کے ذریعہ مستند بنائے۔[28]
  • جلسہ درس میں لکھے گئے مطالب کی اصلاح کرے اور لازم ہونے کی صورت میں اس میں سے کچھ کم یا اضافہ کرے یا مطالب کے مضامین کو مقدم یا موخر کرے۔[29]
  • استاد کی باتوں کو واضح اور شستہ رفتہ عبارت میں لکھے اس طرح سے کہ وہ غموض سے پاک ہو اور درس سے غائب طالب علم کی فہم کے لئے کافی ہو۔[30]

فقہ اور اصول فقہ کی کچھ نمایاں تقریرات

کتاب التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی سید ابوالقاسم خوئی،کے درس فقہ کی تقریرات مولف میرزا علی غروی

حوزہ علمیہ کے درس فقہ کی کچھ مشہور تقریرات:

حوزہ کے درس اصول فقہ کی چند مشہور تقریرات:

تقریرات کی سائٹیں

وہ سائٹیں جن پر بعض اساتید کے دروس کی تقریرات اپلوڈ ہوتی ہیں ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:

  • سائٹ درس گفتار: اس سائٹ پہ قم اور مشھد کے حوازات علمیہ کے سطح عالی کے دروس کی تقریرات اپلوڈ ہوتی ہیں جہاں متن، آڈیو اور تقریرات میں مطابقت دی جاتی ہے اور بحث سے متعلق پیش مطالعہ کے لئے مواد بھی فراہم کیا جاتا ہے۔[38]
  • سائٹ مدرسہ فقاہت: اس سائٹ پر دروس حوزوی کی تقریرات اس کے مستندات کے ساتھ دیکھنے کی سہولت فراہم ہے جن کو کتابخانہ مدرسہ فقاہت کے ذریعہ سائٹ پر فراہم کیا گیا ہے اور اس سائٹ پر قم، مشہداور نجف اشرف کے دروس خارج کو آنلائن نشر کیا جاتا ہے۔[39]
  • سامانہ تقریرات دروس خارج: یہ سائٹ بھی حوزہ علمیہ کے اساتید کے دروس خارج کی تقریرات تک رسائی اور خود تقریر نویسی کی سنّت کی ترویج کے لئے بنائی گئی ہے۔ دروس حوزہ علمیہ کی تقریرات کی سائٹیں علمی، تحقیقی سائٹیں ہیں جن پر دروس خارج کا اعلامیہ بھی ہوتا ہے اور اس سائٹ پر تقریرات طلاب درس خارج حوزہ کے بارے میں طلاب کے لئے گفتگو کا موقع بھی فراہم ہے۔[40]

مونوگرافی

کتاب «دانش تقریر نویسی: بہ ضمیمہ روش حل مسألہ فقہی» مصنّف محمد حسن ربانی بیرجندی، جو مرکز تخصصی آخوند خراسانی کے علمی بورڈ کے ممبر ہیں یہ کتاب ان کے ذریعہ فارسی زبان میں تالیف ہوئی اور شرکت چاپ و نشر بین الملل کے توسط سے 1398 ش میں چھپی اور منظر عام پر آئی۔[41]

نوٹ

  1. تقریظ کسی کتاب پر اس کتاب کی حسن و خوبی کو لکھنا جو مصنف کی تائید کے ساتھ ساتھ اس کی توصیف و تمجید پر بھی مشتمل ہوتی ہے۔(دادبہ و سادات شریفی، «تقریظ»، ص۳۲)

حوالہ جات

  1. «اولین دورہ مجازی آموزش صحیح تقریر نویسی»، سائٹ ثقلین۔
  2. آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۳ھ، ج۴، ص۳۶۶۔
  3. ربانی، دانش تقریر نویسی، ۱۳۹۸شمسی ہجری۔ ص۲۸۔
  4. نمونے کے طور پر دیکھئے: امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۶، ص۱۳۲ و ص۲۳۸۔
  5. آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۳ھ، ج۲، ص۳۰۵۔
  6. ربانی، دانش تقریرنویسی، ۱۳۹۸شمسی ہجری۔ ص۱۳۔
  7. نمونے کے طور پر دیکھئے: آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۳ھ، ج۲، ص۳۰۸۔
  8. ربانی، دانش تقریر نویسی، ۱۳۹۸شمسی ہجری۔ ص۱۳۔
  9. آقا بزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۳ھ، ج۴، ص۳۶۶۔
  10. امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۵، ص۳۰۸۔
  11. ربانی، دانش تقریر نویسی، ۱۳۹۸شمسی ہجری، ص۱۵۔
  12. شہید ثانی، منیۃالمرید، ۱۴۰۹ھ، ص۲۶۷-۲۶۸۔
  13. شیرازی، «ضرورت و ماہیت‌ شناسی درس خارج و تقریر نویسی آن»، ص۹۳۔
  14. «خاطرات آیت اللہ منتظری از دوران آیت اللہ العظمی بروجردی»، سائٹ شفقنا۔
  15. شیرازی، «ضرورت و ماہیت‌شناسی درس خارج و تقریرنویسی آن»، ص۱۰۴۔
  16. شیرازی، «ضرورت و ماہیت‌شناسی درس خارج و تقریرنویسی آن»، ص۱۰۴۔
  17. «خاطرات آیت اللہ منتظری از دوران آیت اللہ العظمی بروجردی»، سائٹ شفقنا۔
  18. «مصاحبہ باآیت اللّہ سید محمدجعفر مروّج»، سائٹ پرتال جامع علوم اسلامی۔
  19. «تقریرات در فقہ»، دانشنامہ جہان اسلام۔
  20. ربانی، دانش تقریرنویسی، ۱۳۹۸شمسی ہجری، ص۱۶۔
  21. ربانی، دانش تقریرنویسی، ۱۳۹۸شمسی ہجری، ص۱۶۔
  22. ربانی، دانش تقریرنویسی، ۱۳۹۸شمسی ہجری، ص۱۶۔
  23. شیرازی، «ضرورت و ماہیت‌شناسی درس خارج و تقریرنویسی آن»، ص۱۰۷۔
  24. «بہترین روش‌ہای تقریرنویسی کدامند؟»، سائٹ معالم: پرتال جامع اطلاعات و خدمات آموزشی مرکز تخصصی آخوند خراسانی۔
  25. جوادی‌آملی، کتاب‌الحج، ۱۴۰۱ھ، ج۱، ص۱۶۔
  26. ربانی، دانش تقریرنویسی، ۱۳۹۸شمسی ہجری، ص۲۲۔
  27. ربانی، دانش تقریرنویسی، ۱۳۹۸شمسی ہجری، ص۲۳۔
  28. ربانی، دانش تقریرنویسی، ۱۳۹۸شمسی ہجری، ص۲۴۔
  29. ربانی، دانش تقریرنویسی، ۱۳۹۸شمسی ہجری، ص۲۳۔
  30. «اولین دورہ مجازی آموزش صحیح تقریر نویسی»، سائٹ ثقلین۔
  31. غروی تبریزی، التنقیح، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۱۱۔
  32. خلخالی، فقہالشیعہ، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۷۔
  33. فاضل لنکرانی، نہایۃ التقریر فی مباحث الصلواۃ، ۱۴۲۰ھ، ج۱، ص۳۰۔
  34. خوئی، اجود التقریرات، ۱۳۶۸ شمسی ہجری، ج۱، ص۲۔
  35. «اجودالتقریرات»، دانشنامہ تخصصی کتاب‌شناسی و زندگی‌نامہ: ویکی نور۔
  36. بروجردی، نہایۃالافکار، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۳۔
  37. سبحانی، تہذیب‌الاصول، ۱۴۰۵ھ، ج۱، ص۴۔
  38. «سامانہ آموزشی درسگفتار رونمایی شد»، سائٹ خبری اجتہاد۔
  39. «پخش زندہ دروس خارج»، سائٹ مدرسہ فقاہت۔
  40. «تقریرات دروس خارج حوزہ علمیہ قم»، سامانہ تقریرات دروس خارج۔
  41. «کتاب «دانش تقریرنویسی» منتشر شد»، خبرگذاری مہر۔

مآخذ

  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعۃ إلی تصانیف الشّیعۃ، بیروت، دار الأضواء، ۱۴۰۳ھ۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۳ھ۔
  • «اولین دورہ مجازی آموزش صحیح تقریر نویسی»، سائٹ ثقلین، تاریخ درج مطلب: ۲۱ مرداد ۱۳۹۹شمسی ہجری، رجوع کی تاریخ: ۱۰ اردیبہشت ۱۴۰۰شمسی ہجری۔
  • بروجردی، محمد تقی، نہایۃالافکار، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۱۷ھ۔
  • بہسودی، محمد سرور، مصباح‌الاصول، قم، مکتبۃ الداوری، چاپ اول، ۱۴۲۲ھ۔
  • «بہترین روش ہای تقریر نویسی کدامند؟»، سائٹ معالم: پورتال جامع اطلاعات و خدمات آموزشی مرکز تخصصی آخوند خراسانی، رجوع کی تاریخ: ۱۰ اردیبہشت ۱۴۰۰شمسی ہجری۔
  • «پخش زندہ دروس خارج»، سائٹ مدرسہ فقاہت، رجوع کی تاریخ: ۱۱ اردیبہشت ۱۴۰۰شمسی ہجری۔
  • «تقریرات دروس خارج حوزہ علمیہ قم»، سامانہ تقریرات دروس خارج، رجوع کی تاریخ: ۱۲ اردیبہشت ۱۴۰۰شمسی ہجری۔
  • «تقریرات در فقہ»، دانشنامہ جہان اسلام، رجوع کی تاریخ: ۱۰ اردیبہشت ۱۴۰۰شمسی ہجری۔
  • جوادی‌آملی، عبداللہ، کتاب‌الحج، قم، بی‌نا، ۱۴۰۱ھ۔
  • «خاطرات آیت‌اللہ منتظری از دوران آیت اللہ العظمی بروجردی»، سائٹ شفقنا، تاریخ درج مطلب: ۲۹ آذر ۱۳۹۹شمسی ہجری، رجوع کی تاریخ: ۱۰ اردیبہشت ۱۴۰۰شمسی ہجری۔
  • خلخالی، محمدمہدی، فقہالشیعہ، بی‌جا، بی‌نا، ۱۴۱۱ھ۔
  • خوئی، سید ابو القاسم، اجود التقریرات، قم، کتاب فروشی مصطفوی، چاپ دوم، ۱۳۶۸شمسی ہجری۔
  • دادبہ، اصغر و فرشید سادات شریفی، «تقریظ»، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۱۶، ۱۳۸۷شمسی ہجری۔
  • ربانی، محمد حسن، دانش تقریر نویسی: بہ ضمیمہ روش حل مسائل فقہی، تہران، شرکت چاپ و نشر بین الملل، ۱۳۹۸شمسی ہجری۔
  • «سامانہ آموزشی درسگفتار رونمایی شد»، سائٹ خبری اجتہاد، تاریخ درج مطلب: ۲۹ آذر ۱۳۹۷شمسی ہجری، رجوع کی تاریخ: ۱۱ اردیبہشت ۱۴۰۰شمسی ہجری۔
  • سبحانی، جعفر، تہذیب‌ الاصول، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعۃ لجماعۃ المدرسین، ۱۴۰۵ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌ الدین بن علی، منیۃالمرید، قم، مکتب الإعلام الإسلامی، چاپ اول، ۱۴۰۹ھ۔
  • شیرازی، سید رضا، «ضرورت و ماہیت‌ شناسی درس خارج و تقریر نویسی آن»، مصباح الفقاہہ، شمارہ ۱، بہار و تابستان ۱۳۹۷شمسی ہجری۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، نہایۃ التقریر فی مباحث الصلواۃ، قم، مرکز فقہ الائمہ الاطہار( ع)، چاپ سوم، ۱۴۲۰ھ۔
  • «کتاب «دانش تقریرنویسی» منتشر شد»، خبرگذاری مہر، تاریخ درج مطلب: ۱۴ مہر ۱۳۹۸ شمسی ہجری، رجوع کی تاریخ: ۱۲ اردیبہشت ۱۴۰۰شمسی ہجری۔
  • «مصاحبہ باآیت اللّہ سید محمد جعفر مروّج»، سائٹ پرتال جامع علوم انسانی، تاریخ درج مطلب: ۱۳۷۹ شمسی ہجری، رجوع کی تاریخ: ۹ اردیبہشت ۱۴۰۰شمسی ہجری۔
  • مؤسسہ دائرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، ۱۳۸۷ شمسی ہجری۔