مدرسہ فیضیہ

ویکی شیعہ سے
مدرسہ فیضیہ
ابتدائی معلومات
استعمالتعلیمی ادارہ
محل وقوعقم، ایران
مشخصات
رقبہ3000 سے 3500 مربع میٹر
موجودہ حالتفعال دینی مدرسہ
معماری
طرز تعمیراسلامی


مدرسہ فیضیہ قم کا ایک دینی مدرسہ ہے جو حرم حضرت معصومہؑ کے ساتھ واقع ہے۔ یہ مدرسہ 1941ء سے حوزہ علمیہ قم کے طلاب اور علما کے اجتماع کا مرکز رہا ہے۔ اس لحاظ سے یہاں امام خمینی اور آیت اللہ خامنہ ای کی حوزے کے علما سے ملاقاتیں اور تقریریں ہوتی رہی ہیں اور سیاسی اجتماعات بھی یہاں منعقد ہوتے رہے ہیں۔ 1963ء میں پہلوی حکومت کے کارندوں نے اس مدرسے پر حملہ کیا جس میں بہت سے طلبہ مارے گئے۔ اسی طرح امام خمینی کی جون 1963ء کی تقریر جو کہ 15 خرداد کے قیام کا پیش خیمہ بنی اسی مدرسے میں انجام پائی تھی۔

بہت سے علما اس مدرسے میں رہایش پذیر تھے جو اس مدرسے میں تحصیل علم کرتے یا تعلیم دیا کرتے تھے۔

اہمیت اور حیثیت

مدرسہ فیضیہ میں حوزہ علمیہ کے تعلیمی سال کے آغاز کے تقریب

مدرسہ فیضیہ شہر مقدس قم کا ایک اہم مدرسہ ہے جس کا قیام صفوی حکومت کے زمانے میں عمل میں لایا گیا اور آستانہ حضرت معصومہ سے قربت کی وجہ سے اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔[1] یہ مدرسہ 1320 ش سے سیاسی تبدیلیوں کا مرکز رہا ہے۔ نیز امام خیمینی کی طلبہ اور علما سے ملاقاتیں بھی اس مدرسے میں ہوتی رہی ہیں۔[2] انقلاب کے بعد امام خمینی کی قم کے لوگوں سے ملاقات بھی اسی مدرسے میں ہوئی۔[3] یہ مدرسہ مسجد اعظم اور دار الشفا کے کنارے واقع ہے۔ حوزہ علمیہ کے بعض دروس اور حوزوی اجتماعات اس میں منعقد ہوتے ہیں مدرسہ حجتیہ کی تاسیس سے پہلے یہ قم کا سب سے بڑا مدرسہ علمیہ تھا۔[4] بہت سے علما اس مدرسہ میں حصول علم یا طلبہ کی تعلیم کے سلسلے میں رہائش پذیر تھے۔ مدرسی طباطبائی کے مطابق بہاالدین عاملی، سلطان العلما قاضی سعید قمی، ملا عبدالرازق لاہیچی اور فیض کاشانی اس مدرسے میں تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔[5] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ آیت اللہ بروجردی نے بھی اس مدرسے میں تدریس کی ہے۔[6] امام خمینی اس مدرسے میں 1300 سے 1306 شمسی تک رہایش پذیر تھے۔[7] ان کا حجرہ (حجرہ نمبر 23) طلاب کے درمیان امام خمینی کا حجرہ یا حجرۂ امام کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسی طرح سید رضا بہاء الدینی، مرتضی مطہری اور حسین علی منتظری بھی کچھ عرصے اس مدرسے میں قیام پذیر رہے۔[8] مدرسہ فیضیہ کو 9 بہمن 1386 ش) میں 20715 نمبرکے ساتھ ایران کے قومی اثاثے میں شامل کیا گیا ہے۔[9] اسلامی جمہوریہ ایران میں سکے اور نوٹ پر اس مدرسے کی تصویر چھاپی گئی۔

اہم واقعات

1342 ش یوم عاشورا کے موقع پر امام خمینیؒ کی تقریر

مدرسہ فیضیہ میں امام خمینی کی تقریر (خرداد 1342 ش) 2 فروردین 1342 ش پہلوی حکومت کے کارندوں نے مدرسہ فیضیہ پر حملہ کیا یہ حملہ امام خمینی کی طرف سے ریاستی اور صوبائی انجمنوں کے سلسلے میں بننے والے قانون پر چھ بلوں پراعتراض، سفید انقلاب اور 25 شوال امام جعفر صادق (ع) کی شہادت کے موقع پر ہوا۔[10] اس حملے کو واقعہ فیضیہ سے یاد کیا جاتا ہے۔

امام خمینی کی خرداد 1342 کی تقریر

امام خمینی نے 13 خرداد 1342 ش کو مدرسہ فیضیہ میں تقریر کی۔ امام خمینی نے اس تقریر میں پہلوی حکومت پر اعتراض کیے تھے۔[11] اس تقریر کے بعد 15 خراد 1342 ش کو پہلوی حکومت کے کارندوں نے امام خمینی کو گرفتار کیا اور انہیں تہران کی جیل میں بھیجا گیا۔[12] اس واقعہ کے بعد قم کے لوگوں نے 15 خرداد کو احتجاج (قیام) کیا۔[13]

مدرسے پر پابندی

پہلوی حکومت نے خرداد 1354 ش میں انقلابی لوگوں کی تحریک کو روکنے کے لیے مدرسہ فیضیہ بند کر دیا۔ یہ کام 15 خرداد کی برسی کے موقع پر طلبہ کے مدرسہ فیضیہ میں اجتماع کے رد عمل کے طور پر کیا گیا۔ مدرسہ اسلامی انقلاب 1357 ش تک بند رہا۔ البتہ ابوالفضل زاھدی (متوفی 12 فروردین 1357 ش) کی تشیع جنازہ کے لیے کچھ گھنٹے کھولا گیا اور دوبارہ بند کیا گیا۔[14]

وجہ تسمیہ

کہا جاتا ہے کہ اس مدرسے کا نام فیضیہ اس وجہ سے ہے کہ صفوی حکومت کے زمانے کے ایک عالم فیض کاشانی نے کچھ عرصہ اس مدرسے میں سکونت اختیار کی۔[15] یا تدریس کی ہے[16] تاریخ قم کے مصنف ناصر الشریعہ کا ماننا ہے اس مدرسہ کا نام فیضیہ رکھنے کی وجہ اس کے حضرت معصومہ قم کے پر فیض مزار حضرت معصومہؑ کی ہمسائیگی ہے [17] گنجینہ آثار قم کتاب کے مطابق اس مدرسہ کا نام فیضیہ اس لئے رکھا گیا کیونکہ یہ فیض کاشانی کی درخواست اور ان کی نظارت میں تعمیر ہوا۔[18]

تاریخ تعمیر

فیضیہ میں امام خمینیؒ کا کمرہ

مدرسہ فیضیہ کے جنوبی ایوان کے کتبہ کے مطابق یہ مدرسہ بادشاہ طہماسب اول کی تعمیرات سے تعلق رکھتا ہے اور یہ 1934 ء میں تعمیر ہوا [19] جبکہ مدرسی طباطبائی کا ماننا ہے کہ یہ تاریخ حرم کے صحن عتیق سے متعلق ہے اور پہلی بار مدرسہ کی تعمیر مدرسہ آستانہ کے نام سے چھٹی صدی ہجری کی ہے اور گیارہویں صدی کے آخر میں اس کا نام مدرسہ فیضیہ میں تبدیل کیا ہے۔[20] ایک اور رپورٹ کے مطابق یہ مدرسہ پانچویں صدی میں سلجوقی دور میں تعمیر ہوا۔ 617 ھ میں مغولوں کے حملہ میں خراب ہوا اور اس کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔ پھر صفوی دور میں دوبارہ تعمیر ہوا۔ [21] کچھ کا ماننا ہے کہ اس مدرسے کی تاسیس سے پہلے یہاں مدرسہ ستی فاطمہ کے نام سے ایک مدرسہ تھا جس کا ذکر چھٹی صدی کے متکلم عبدالجیل رازی نے کتاب النقض [22] میں کیا ہے.[23] فتح علی شاہ قاچار نے مدرسے کی قدیمی عمارت کو 1213 ش اور 1214 ش میں گروا کر نئی عمارت تعمیر کروائی۔[24] یہ عمارت 60۔70 مٹرطول اور 50 میٹر عرض پر تعمیر ہوئی[25] جس میں نیچے والی منزل میں چالیس کمرے، چار اونچے ایوان اور 12 کمرے تھے نیز ایک بڑا حوض تھا۔[26] اس زمانے میں مدرسے کا صحن حرم حضرت معصومہ ؑکے صحن عتیق تک بڑا کیا گیا اور مدرسے کے جنوبی ایوان سے مدرسے میں داخل ہوا جا سکتا تھا۔ اس سے پہلے مدرسہ حرم کے صحن عتیق سے الگ تھا اور ان کے درمیان آمد و رفت کا ایک راستہ تھا۔[27] 1301ھ میں میرزا محمد فیض اور شیخ عبدالکریم حائری نے مدرسے کی اوپری منزل میں کمرے بنوائے.[28] آیت اللہ بروجردی کے دور میں بھی مدرسہ تعمیر ہوا[29] اسی طرح واقعہ فیضیہ میں بھی اس مدرسے کو نقصان پہنچا جو بعض تاجروں کی مدد سے آیت اللہ گلپایگانی کی نگرانی میں تعمیر ہوا۔[30] اسلامی جمہوریہ کے دور میں مدرسے کے صحن کے نیچے سرداب کی تعمیر کی گئی۔[31]

موجودہ صورتحال

مدرسے کی موجودہ عمارت فتح علی شاہ کے دور سے تعلق رکھتی ہے جس کی تعمیر 1213۔1214 ش میں شروع ہوئی۔[32] اور بعد میں اس کی تکمیل ہوتی رہی ہے۔ اس عمارت میں دو منزلوں پر چار ایوان ہیں اور دونوں منزلوں پر چالیس چالیس کمرے ہیں۔[33] ایوانوں اور کمرے کے بالائی حصے میں ٹائلیں لگائی گئی ہیں۔[34] شیخ عبد الکریم حائری نے 1349 ھ میں یہاں ایک کتب خانہ بنوایا تھا جو آج کتب خانہ آیت اللہ حائری کے نام سے جانا جاتا ہے۔[35]

استعمال

کہا جاتا ہے کہ مدرسہ فیضیہ شروع میں کاروان سرا اور حرم حضرت معصومہ ؑ کے زائران کے لیے آرام کی جگہ تھی جو بتدریج مدرسہ علمیہ اور طلاب کی سکونت کی جگہ میں تبدیل ہو گئی [36] یہ عمارت مشروطہ دور میں بھی گداؤوں اور درویشوں کے رہنے کی جگہ بنی رہی۔ 1285ش میں آیت اللہ میرزا محمد فیض نے اسے اپنے اختیار میں لے لیا۔ [37] مدرسہ فیضیہ میں دینی تعلیم دی جاتی ہے اور یہاں طلبہ کے لئے رہائش کا بھی انتظام ہے۔ دوسری منزل پر کمرے طلاب کی رہایش کے لیے ہیں جبکہ پہلی منزل پر تعلیمی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اسی طرح سرداب میں نماز جماعت اور دوسرے مذہبی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔ سیاسی اور عمومی اجتماعات عام طور پر مدرسے کے صحن میں ہوتے ہیں۔

تصویروں کی گیلری

حوالہ جات

  1. فیض، گنجینہ آثار قم، ۱۳۴۹ش، ج۱، ص۶۷۷.
  2. رجائی‌ نژاد، «بررسی و تحلیل نقش مدرسہ فیضیہ در تجدید حیات شیعہ»، ص۷۲۔
  3. http://www۔imam-khomeini۔ir/fa/n21978/سرویس_ہای_اطلاع_رسانی/امام_خمینی_و_انقلاب_اسلامی/نخستین_سخنرانی_امام_خمینى_پس_از_پیروزى_انقلاب_اسلامى_در_جمع_اہالی_قم‏ نخستین سخنرانی امام خمینى پس از پیروزى انقلاب اسلامى در جمع اہالی قم]‏، پرتال امام خمینی۔
  4. فیض، گنجینہ آثار قم، ۱۳۴۹ش، ج۱، ص۶۷۷۔
  5. مدرسی طباطبائی، «مدرسہ آستانہ مقدسہ (فیضیہ)»، ص۱۲۸
  6. رجائی‌ نژاد، «بررسی و تحلیل نقش مدرسہ فیضیہ در تجدید حیات شیعہ»، ص۶۴۔
  7. رجائی‌ نژاد، «بررسی و تحلیل نقش مدرسہ فیضیہ در تجدید حیات شیعہ»، ص۶۲۔
  8. «مدرسہ فیضیہ»، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی۔
  9. «مدرسہ فیضیہ»، دانشنامہ تاریخ معماری و شہرسازی ایران۔
  10. رجائی‌ نژاد، «بررسی و تحلیل نقش مدرسۃ فیضیہ در تجدید حیات شیعہ»، ص۶۷-۶۸۔
  11. امام خمینی، صحیفہ امام، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(س)، ج۱، ص۲۴۳۔
  12. http://www۔imam>[-khomeini۔ir/fa/n15628/ «بازخوانی سخنرانی تاریخی امام در آستانہ ۱۵ خرداد ۱۳۴۲»، پرتال امام خمینی]۔
  13. «بازخوانی سخنرانی تاریخی امام در آستانہ ۱۵ خرداد ۱۳۴۲»، پرتال امام خمینی
  14. رجائی‌ نژاد، «بررسی و تحلیل نقش مدرسۃ فیضیہ در تجدید حیات شیعہ»، ص۶۹-۷۰۔
  15. ناصر الشریعہ، تاریخ قم، ۱۳۸۳ش، ص۲۴۰۔
  16. شریف‌ رازی، گنجینہ دانشمندان، ۱۳۵۲ش، ج۱، ص۳۹۔
  17. ناصر الشریعہ، تاریخ قم، ۱۳۸۳ش، ص۲۴۰؛ رجوع کیجیے: شریف‌ رازی، گنجینہ دانشمندان، ۱۳۵۲ش، ج۱، ص۴۰۔
  18. فیض، گنجینہ آثار قم، ۱۳۴۹ش، ج۱، ص۶۷۳۔
  19. ناصرالشریعہ، تاریخ قم، ۱۳۸۳ش، ص۲۴۰۔
  20. مدرسی طباطبائی، «مدرسہ آستانہ مقدسہ (فیضیہ)»، ص۱۲۷-۱۲۸۔
  21. رجائی‌ نژاد، «بررسی و تحلیل نقش مدرسۃ فیضیہ در تجدید حیات شیعہ»، ص۵۷۔
  22. قزوینی رازی، نقض، ۱۳۵۸ش، ص۱۹۵۔
  23. > فیض، گنجینہ آثار قم، ۱۳۴۹ش، ج۱، ص۶۷۰-۶۷۱۔
  24. ناصر الشریعہ، تاریخ قم، ۱۳۸۳ش، ص۲۴۰
  25. > فیض، گنجینہ آثار قم، ۱۳۴۹ش، ج۱، ص۶۷۸۔
  26. ناصر الشریعہ، تاریخ قم، ۱۳۸۳ش، ص۲۴۰۔
  27. فیض، گنجینہ آثار قم، ۱۳۴۹ش، ج۱، ص۶۷۳-۶۷۵۔
  28. فیض، گنجینہ آثار قم، ۱۳۴۹ش، ج۱، ص۶۷۷
  29. شریف‌ رازی، گنجینہ دانشمندان، ۱۳۵۲ش، ج۱، ص۴۲۔
  30. منصوری و رجایی، «رجایی و منصوری، بازسازی مدرسہ فیضیہ قم توسط بازاریان تہران»، پایگاه اطلاع‌رسانی ۱۵ خرداد ۱۳۴۲۔
  31. رجائی‌ نژاد، «بررسی و تحلیل نقش مدرسہ فیضیہ در تجدید حیات شیعہ»، ص۷۲۔
  32. ناصر الشریعہ، تاریخ قم، ۱۳۸۳ش، ص۲۴۰۔
  33. زنده‌ دل، استان قم،۱۳۷۹ش، ص۵۷۔
  34. «مدرسه فیضیه»، دانشنامہ تاریخ معماری و شہرسازی ایران۔
  35. ناصر الشریعہ، تاریخ قم، ۱۳۸۳ش، ص۴۱۸۔
  36. رجائی‌ نژاد، «بررسی و تحلیل نقش مدرسہ فیضیہ در تجدید حیات شیعہ»، ص۷۲۔
  37. رجائی‌ نژاد، «بررسی و تحلیل نقش مدرسۃ فیضیہ در تجدید حیات شیعہ»، ص۶۱۔
  38. «نقاشی: «فیضیه» - اثری فیگوراتیو از قیام 15 خرداد»، انقلاب اسلامی۔
  39. «تجمع اعتراضی حوزه علمیه اردبیل و قم در پی صدور حکم اعدام شیخ نمر»، خبرگزاری تسنیم، درج مطلب ۲۳ اردیبهشت ۱۳۹۴ش، مشاهده ۳ شهریور ۱۴۰۰ش۔

مآخذ