سلیم بن قیس ہلالی

ویکی شیعہ سے
(سلیم بن قیس الہلالی سے رجوع مکرر)
سلیم بن قیس ہلالی
کوائف
نام:سلیم بن قیس ہلالی عامری کوفی
پیدائشہجرت سے دو سال قبل
جائے پیدائشکوفہ
مقام سکونتکوفہ، مدینہ، مکہ
وفاتسنہ 76 ھ
مقام وفاتنوبندجان (فارس)
اصحابامام علی (ع)، امام حسن (ع)، امام حسین (ع)، امام سجاد (ع)
سماجی خدماترکن شرطۃ الخمیس، جنگ صفین، جنگ جمل و جنگ نہروان میں شرکت
تالیفاتکتاب سلیم بن قیس ہلالی


ابو صادق سُلَیم بن قیس ہلالی عامری کوفی شیعوں کے پہلے چار ائمہ کے خاص اصحاب میں سے تھے۔ انہوں نے امام باقر (ع) کو بھی درک کیا ہے۔ آپ قدیم شیعہ علماء اور بزرگان نیز ائمہ معصومین (ع) کے مورد اعتماد اور ائمہ کے یہاں ایک خاص محبوبیت رکھتے تھے۔ ان کی طرف ایک کتاب (کتاب سلیم بن قیس ہلالی) بھی منسوب کی جاتی ہے جس میں فضایل اہل بیت (ع) اور پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد کے حوادث کے بارے میں تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ بہت سارے شیعہ علماء نے ان کی مدح اور تعریف کی ہے۔ اس کے باوجود ان کی شخصیت کے حوالے سے مختلف نظریات موجود ہیں یہاں تک کہ بعض محققین نے ان کے وجود خارجی کا ہی انکار کیا ہے۔

ولادت و نسب

ان کا نام سلیم، والد کا نام قیس اور کنیت ابا صادق ہے۔[1] ان کا تعلق بنی ہلال بن عامر سے ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت اسماعیل بن ابراہیم خلیل اللہ (ع) کی نسل سے ہیں اور حجاز کے اطراف میں ساکن تھے اور بعد میں شام اور عراق میں آباد ہو گئے تھے۔

آپ کی ولادت ہجرت سے دو سال قبل کوفہ میں ہوئی یوں پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے وقت ان کی عمر بارہ سال تھی۔

سلیم بن قیس ہلالی پیغمبر اکرم (ص) کی حیات طیبہ نیز ابوبکر کی خلافت کے دور میں بھی مدینہ میں نہیں تھے۔ اسی وجہ سے سقیفہ اور حضرت زہرا(س) کی شہادت کے واقعات کو انہوں نے شخصا درک نہیں کیا۔[2]

حالات زندگی

دوران نوجوانی و جوانی

آپ نوجوانی کے ایام میں تقریبا 15 سال کی عمر میں عمر کے دور خلافت کے ابتدائی ایام میں مدینہ میں داخل ہوئے۔

25 سال کی عمر میں حج پر کیا اور وہاں پر خانہ کعبہ کے پاس ابوذر کا خطبہ سنا اور اسے تحریر کیا۔ اس کے بعد دوبارہ مدینہ واپس آئے اور وہیں مقیم ہوئے یہاں تک کہ سنہ 34 ہجری میں حضرت ابوذر کو ربذہ کے مقام پر جلاوطن کیا گیا۔ ابوذر کی عیادت کے بہانے ربذہ گئے اور وہاں ابوذر سے بہت سارے مطالب کے بارے میں سوالات کئے اور ان کا جواب دریافت کیا۔

عثمان کے دور خلافت میں

سنہ 23 ہجری عثمان تخت خلافت پر پہنچے۔ اس زمانے میں سلیم بن قیس امیرالمؤمنین حضرت علی(ع) کے خاص اصحاب میں شمار ہوتے تھے اور مخفیانہ احادیث اور تاریخی واقعات کو ثبت کرنے کے اپنے پروگرام کو جاری رکھا۔ حالانکہ احادیث کی کتابت کے اوپر حضرت عمر نے جو پابندی لگائی تھی وہ ابھی بھی باقی تھی بلکہ اس میں مزید شدت آگئی تھی۔

عثمان کے دور خلافت میں بھی ابوذر اور مقداد وغیرہ سے ان کا گہرا رابطہ تھا جبکہ سلمان کے ساتھ ان کا کئی سالوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا یہاں تک کہ سنہ 16 ہجری کو سلمان مدائن چلے گئے اور وہیں پر ان کی رحلت ہوئی۔

اس عرصہ میں سلیم حضرت ابوذر کے ساتھ حج کے لئے گئے اور کعبہ کے نزدیک ان کے خطبہ کو انہوں نے ثبت کیا ہے۔ اس کے بعد وہ دونوں حضرات مدینہ واپس آئے۔ سنہ 34 ہجری حضرت ابوذر کو ربذہ جلاوطن کیا گیا، سلیم ان سے ملاقات کے لئے وہاں گئے۔[3]

امیر المؤمنین(ع) کے دور خلافت میں

سنہ 35 ہجری میں جب امیر المؤمنین حضرت علی (ع) نے خلافت کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو اس وقت بھی سلیم بن قیس جہاں قلم کے ذریعے حق کی نصرت میں مصروف تھے وہاں ضرورت پڑنے پر تلوار لے کر میدان جنگ میں بھی جہاد کیلئے پیش پیش رہے اور شرطۃ الخمیس جو امیرالمؤمنین حضرت علی (ع) کے جانثاران میں سے تھے میں شامل ہو گئے اور اس دوران بھی میدان جنگ کی تمام روئداد کو قلمبند کرتے رہے۔[4]

جنگ جمل میں حاضری

سلیم بن قیس حضرت علی(ع) کے ساتھ مدینہ سے بصرہ آیا اور جنگ جمل کی ابتداء سے انتہا تک حضرت علی(ع) کے جانثاروں کی صف میں امام(ع) کی حفاظت اور آپ کے دشمنوں کے ساتھ جنگ میں مصروف رہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں جنگ جمل میں امام(ع) کے سپاہیوں کی تعداد، خصوصیات، جنگ کی کیفیت اور جنگ کے بعد بصرہ میں رونما ہونے والے واقعات حتی جنگ میں دئے جانے والے امام علی(ع) کے خطبات تک کو قلمبند کیا۔ [5]

جنگ صفین میں حاضری

سنہ 36 ہجری میں سلیم بن قیس امیرالمؤمنین (ع) کے ساتھ بصرہ سے کوفہ آئے اور وہاں سے آپ (ع) کے لشکر کے صف اول جنگجوں میں شامل ہو کر صفین کی طرف روانہ ہوئے اور اس جنگ کے آخر تک میدان جنگ میں حاضر رہے جو سنہ 38 ہجری تک یعنی 17 مہینے جاری رہی۔ یوم الہریر جو اس جنگ کا آخری اور سب سے شدید اور سخت دن تھا اور ایک دن اور رات میں 70 ہزار سے زیادہ افراد قتل ہوئے، میں بھی انہوں نے حصہ لیا جبکہ اس وقت ان کی عمر 40 سال سے بھی زیادہ تھی۔

انہوں نے اپنی کتاب میں حضرت علی (ع) کے معاویہ کو بھیجے گئے خطوط کو نہایت دقیق انداز میں ثبت اور آپ کے تمام خطبوں کو قلمبند کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یوم الہریر کے جنگ کی کیفیت، قرآن کو نیزوں پر بلند کرنے کا واقعہ اور مسئلہ حکمیت کو من و عن اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح صفین سے واپسی پر ایک عیسائی راہب کے مسلمان ہونے اور حضرت عیسی (ع) کی کتابوں کو امیرالمؤمنین (ع) کی تحویل میں دینے کے واقعے کو بھی اپنی کتاب میں تفصیل سے درج کیا ہے۔

سنہ 38 ہجری کے اواخر میں سلیم بن قیس امام سجّاد (ع) کی زیارت سے مشرّف ہوئے جس وقت آپ (ع) شیرخوارگی کے ایام میں امام علی (ع) کے دربار میں موجود تھے۔ اس کے بعد وہ مدائن چلے گئے اور وہاں انہوں نے حذیفہ یمانی سے ملاقات کی۔[6]

جنگ نہروان سے شہادت امیر المؤمنین(ع) تک

سنہ 40 ہجری میں جنگ نہروان کا واقعہ پیش آیا۔ سلیم بن قیس ہلالی بھی اس جنگ میں حاضر تھے اور انہوں نے اس جنگ کے واقعات کو اپنی کتاب میں ثبت کیا ہے۔ جنگ نہروان کے بعد انہوں نے امیرالمؤمنین (ع) کے ساتھ کوفہ کا رخ کیا اور معاویہ کے ساتھ ایک نئی جنگ کیلئے تیاری شروع کی لیکن اسی سال ماہ رمضان میں حضرت امیر (ع) کی شہادت واقع ہوئی جس سے یہ جنگ ہمیشہ کیلئے ملتوی ہو گئی۔

آپ چونکہ امیر المؤمنین (ع) کے خاص اصحاب میں سے تھے اسلئے آپ (ع) کی عمر مبارک کے آخری تین دن میں ہمیشہ آپ کے سرہانے حاضر رہا اس دوران آپ کی تمام وصیتوں کو من و عن قلمبند کیا۔[7]

امام حسن مجتبی (ع) کے دور میں

حضرت علی(ع) کی شہادت کے بعد انہوں نے امام حسن مجتبی (ع) کا بھرپور ساتھ دیا۔ جب معاویہ امام حسن (ع) کے ساتھ صلح کیلئے کوفہ آیا تو اس موقع پر امام حسن (ع) نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جسے بھی انہوں نے ثبت کیا ہے۔

معاویہ کی حکومت کے زمانے میں انہوں نے اپنی علمی سرگرمیوں کو جاری رکھا اور معاویہ کی بدعتوں، جنایتوں اور جعل حدیث کے ضمن میں معاویہ کی اسلام کے ساتھ انجام دینے والی خیانتوں کو من و عن اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے۔[8]

امام حسین (ع) کے دور میں

امام حسن (ع) کی شہادت کے بعد وہ حضرت سیدالشہداء (ع) کے اصحاب خاص میں شامل ہو گئے اس وقت ان کی عمر تقریبا 50 کے لگ بھگ تھی۔

سنہ 49 ہجری کو جب معاویہ نے زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تو سلیم بن قیس مکمل تقیہ کی حالت میں زندگی گزارتے رہے یہاں تک کہ مخفیانہ طور پر معاویہ کے ارسال کردہ خطوط استنساخ کر کے انہیں سند کے طور پر محفوظ کرتے رہے۔

سنہ 50 ہجری میں جب معاویہ حج کے بہانے مدینہ آیا تو انہوں نے بھی حج کے بہانے خود کو کوفہ سے مدینہ پہنچایا اور اس سفر کے دوران معاویہ کے تمام اقدامات جو اس نے مسلمانوں بطور خاص شیعوں کے خلاف انجام دیئے ہیں کو ثبت و ضبط کیا ہے۔

سنہ 58 ہجری معاویہ کی ہلاکت سے دو سال پہلے امام حسین(ع) نے منا میں 700 صحابہ اور تابعین کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے معاویہ کے کرتوت پر اعتراض کیا۔ اس وقت بھی سلیم بن قیس وہاں موجود تھے اور امام (ع) کے اس خطبے کو بھی انہوں نے اپنی کتا میں ثبت کیا ہے۔

سنہ 61 ہجری میں جب امام حسین (ع) کی شہادت واقع ہوئی تو اس وقت تاریخی منابع میں سلیم بن قیس کے بارے میں کوئی چیز ذکر نہیں ہوئی ہے۔ یہاں یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ وہ بھی اس وقت ابن زیاد کی قید میں محبوس تھے جس کی وجہ سے وہ امام (ع) کی نصرت کیلئے کربلا میں نہ پہنچ سکے۔[9]

امام زین العابدین (ع) و امام محمد باقر (ع) کے دور میں

حضرت سید الشہداء (ع) کی شہادت کے بعد سلیم بن قیس امام سجّاد(ع) کے اصحاب میں سے تھے۔ اس دوران انہوں نے امام باقر(ع) سے ملاقات کی اس وقت آپ (ع) سات کی عمر میں تھے۔

این سالوں میں جب عبداللہ بن زبیر حجاز میں مسند تخت پر بیٹھا تھا تو عراق میں مختار نے امام حسین (ع) کے خون کا انتقام لینے کیلئے قیام کیا لیکن اس دوران مختار اور قیام مختار کے حوالے سے انکی کتاب میں کوئی خاص مطالب دیکھنے میں نہیں آتی حالنکہ تاریخی منابع سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے حجاج بن یوسف کے زمانے تک کوفہ میں زندگی گزاری ہیں۔[10]

حجّاج کے زمانے میں

سنہ 75 ہجری میں حجّاج بن یوسف ثقفی عبدالملک بن مروان کی طرف سے عراق کا بطور حاکم کوفہ میں داخل ہوا۔ حجاج نے جن اشخاص کے بارے میں سراغ تحقیق کی ان میں سرفہرست سلیم بن قیس تھے کیونکہ ان کی امیر المؤمنین حضرت (ع) کے ساتھ دوستی اور رفاقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ اس لئے حجاج کے کوفہ داخل ہونے کے بعد سلیم بن قیس نے عراق سے فرار اختیار کرکے ایران کا رخ کیا اور فارس میں شیراز کے قریب نوبندجان نامی بستی میں پہنچے اور وہیں زندگی گزارنا شروع کی۔[11]

سلیم کا ایران میں ابان بن ابی عیاش سے رابطہ

نوبندجان میں سلیم بن قیس کی ابان نامی ایک 14 سالہ نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ البتہ ان دونوں کی آشنائی کی کیفیت معلوم نہیں ہے صرف اتنا ہے کہ سلیم بن قیس ابان کے گھر میں زندگی بسر کرتے تھے۔

ابان نے جتنی مدت سلیم بن قیس کے ساتھ گزاری، کے بارے میں یوں کہتے ہیں: وہ ایک عمر رسیدہ عبادت گزار شخص تھے جن کا چہرہ نورانی تھا۔ بہت سی محنت اور لگن سے کام کرنے والے ایک محترم شخصیت کے حامل شخص تھے۔ وہ لوگوں سے دور رہنا پسند کرتے تھے اور شہرت سے پرہیز کرتے تھے۔ سلیم بن قیس بھی ابان کے بارے میں کہتے ہیں: "میں نے تمہارے ساتھ زندگی گزاری اور جس طرح میں پسند کرتا تھا اس کے سوائے تمہیں کچھ نہیں پایا۔[12]

علمی زندگی

کتاب سلیم بن قیس ھلالی

سلیم بن قیس ایک مؤلف کے عنوان سے اس وجہ سے خاص توجہ کا مزکر ہیں کہ انہوں نے اپنی کتاب کے مطالب کو خود اپنے ذاتی مشاہدات اور ان لوگوں سے نقل کیا ہے جن کو انہوں نے شخصا درک کیا تھا اور انہوں نے ان مطالب کو خود ان کی زبانی سنا اور ثبت کیا یا ان لوگوں سے نقل کیا ہے جو ان واقعات کے چشم دید گواہ تھے اور اپنے لئے قابل اعتماد اشخاص کے سوا کسی سے کوئی مطلب نقل نہیں کیا ہے۔[13] سلیم نے جو کچھ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اس کے علاوہ بھی ان سے بعض روایات نقل ہوئی ہیں۔[14] [15]

کتاب سلیم بن قیس

یہ کتاب شیعوں کا پہلا قلمی اثر ہے جو امیرالمؤمنین حضرت علی(ع) کے دور حکومت میں لکھی گئی۔ یہ کتاب اہل بیت (ع) کے فضائل، امام‌ شناسی اور رحلت پیغمبر اکرم (ص) کے بعد کے حوادث کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو سلیم بن قیس کی طرف منسوب کرنے اور نہ کرنے میں شیعہ علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ کتاب اسرار آل محمد (ص) کے نام سے فارسی میں ترجمہ ہوئی ہے۔

اخلاقی خصوصیات

  • گوشہ نشینی اور شہرت سے اجتناب

اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ آپ صرف حضرت امیرالمؤمنین (ع) کے پانچ سالہ حکومت میں آزاد تھے۔ اس سے پہلے اور بعد کے زمانے میں بہت سخت حالات میں زندگی گزارے ہیں، واضح ہے کہ سوائے گوشہ نشینی کی حالت کے ایسی کتاب لکھ نہیں سکتا تھے۔ عمر اور عثمان کے دور میں تو حدیث کی تدوین پر مکمل پابندی تھی ایسے دور میں انہوں نے نہ صرف ایک کتاب لکھی بلکہ اس کے سارے مطالب نظام حاکم کے خلاف تھے اس صورت میں اگر اس کے کام سے متعلق کسی کو پتہ چلتا تو وہ اور ان کی کتاب دونوں کو صفحہ ہستی سے نابود کر دیا جاتا۔
امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد معاویہ اور یزید کے دور میں ایک بار پھر شیعیان علی (ع) پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جارہے تھے، اس دور میں بھی انہوں نے مخفیانہ طور پر اس قدر ماہرانہ انداز میں اپنا کام جاری رکھا کہ اپنی کتاب کے مطالب کی حفاظت اور اسے جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ معاویہ کے اسرار کا بھی کھوج لگانے میں کامیاب ہوئے اور اس کے محرمانہ خطوط جو اس نے زیاد کیلئے لکھے تھے کو اپنی کتاب میں ثبت کرنے میں کامیاب ہوئے۔

  • مطالب کے ثبت و ضبط میں دقت اور جستجو

مطالب کی یادگیری کے وقت وہ تمام پہلوں سے اس موضوع کے متعلق ذہن میں خطور کرنے والے تمام سوالات کو مطرح کرتے تھے اور ان کے خاطر خواہ جوابات دریافت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ جن حالات اور جس جگہ یہ حدیث صادر ہوتی تھی کو بھی دقت کے ساتھ ثبت کرتے تھے۔ آخر میں مطالب کو اور زیادہ معتبر اور قابل اعتماد بنانے کی خاطر ان مطالب کو ائمہ اطہار (ع) کی خدمت میں پیش کرتے اور ان کی صحت پر ائمہ (ع) سے مہر تائید لیتے تھے۔

کسی واقعے سے متعلق کسی حدیث کی اصل حقیقت تک پہنچنے کیلئے اس واقعے کو وہ کئی افراد سے دریافت کرتے تھے اور چہ بسا ضرورت پڑنے پر اس کام کیلئے مسافرتوں پر جایا کرتے تھے۔ انہوں اعتقادی حوالے سے بہت سارے اہم سوالات ائمہ (ع) سے پوچھے اور ان کا جواب اپنی کتاب میں ثبت کیا ہے۔ کبھی کبھار دشمنان اہل بیت (ع) سے ان کی بدعتوں کے بارے میں سوالات کرکے اس بارے میں خود ان سے اعتراف لیتے تھے۔

جب بھی کسی اسلامی مملکت میں کسی واقعے کی خبر ملتی تو شخصا وہاں جا کر اس واقعے کی حقیقت سے آگاہ ہونے کی کوشش کرتے اور اس واقعے کو تمام جزئیات کے ساتھ اپنی کتاب میں ثبت کرتے تھے۔ معاویہ کے مدینہ سفر کے دوران ان کا بھی وہاں جانا اس کی واضح مثال ہے۔[16]

وفات

سنہ 76 ہجری کے اواخر میں سلیم بن قیس نے نوبندجان میں 78 سال کی عمر میں وفات پائی اور اسی شہر میں سپرد خاک کئے گئے۔ بعض نے ان کی تاریخ وفات کو سنہ 90 ہجری ذکر کیا ہے۔[17]

سلیم بن قیس ہلالی دوسروں کی نظر میں

اب تک سلیم بن قیس اور ان کی کتاب کے بارے میں مختلف نظریات سامنے آئے ہیں جنہیں مجموعی طور پر دو گروہ میں تقسیم کر سکتے ہیں:

موافقین

نجاشی: وہ حضرت علی (ع) کے اصحاب اور مشہور کتاب کے مصنف ہیں۔[18]

شیخ طوسی: وہ حضرت علی (ع) سے امام باقر (ع) تک کے ائمہ کے اصحاب میں سے تھے۔[19]

عبداللہ مامقانی: وہ حضرت علی (ع) کے اصحاب اور فریقین کے نزدیک مشہور علماء میں سے تھے۔[20]

علی بن احمد العقیقی: وہ حضرت امیرالمومنین (ع) کے خاص اصحاب میں سے تھے۔[21]

علامہ حلی: وہ اپنے پیشے میں ایک مجتہد تھے۔

میرزا محمد باقر خوانساری: وہ اہل بیت (ع) کے دوستدار اور ان سے عشق رکھنے والے انسان تھے۔ حضرت علی (ع) کے صحابی تھے اور ائمہ (ع) کے نزدیک نہایت ہی مقبول شصخیت اور شان و منزلت رکھتے تھے اور گویا ارکان اربعہ کی طرح تھے۔ وہ اپنے دین اور مذہب میں محکم اور پایدار تھے۔[22]

علامہ امینی: وہ تابعین میں سے ایک بزرگ شخصیت اور شیعہ اور سنی دونوں ان کی کتاب سے استناد کرتے ہیں۔ اور حکانی جیسے بزرگوں کے مودر اعتماد تھے۔[23]

مخالفین

مطالعات اسلامی (نشریہ دانشکدہ الہیات و معارف اسلامی) میں سلیم بن قیس ہلالی کے بارے میں ایک تحقیق کے عنوان سے عبد المہدی جلالی کے قلم سے ایک مقالہ درج ہوا ہے۔ اس مقالہ میں مصنف نے بہت سارے منابع کو جمع کرکے ایک وسیع میدانی تحقیق انجام دیتے ہوئے یہ کوشش کی ہے کہ ایک تاریخی و تنقیدی نگاہ سے سلیم بن قیس ہلالی نامی شخصیت کی موجودگی ہی پر سوالیہ نشان لگائے ہیں اور کہا ہے کہ یہ نام جعلی ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

اس مقالہ کو علی الہی خراسانی نے تنقید کا نشارہ بنایا ہے۔[24]

ہاشم المعروف حسنی نے اپنی کتاب الموضوعات میں خلفاء کی مذمت میں روایات کو اس لئے رد کر دیا ہے کہ وہ سلیم بن قیس سے نقل ہوئی ہیں اور انہیں مشکوک و چھوٹ سے متھم قرار دیا ہے۔[25]

حوالہ جات

  1. رجال نجاشی، ص۸.
  2. أسرار آل محمد، ص۱۷.
  3. هلالی، أسرار آل محمد، ۱۴۱۶ق، ص۱۹.
  4. أسرار آل محمد، ص۲۰.
  5. أسرار آل محمد، ص۲۰.
  6. أسرار آل محمد، ص۲۰.
  7. أسرار آل محمد، ص۲۱.
  8. أسرار آل محمد، ص۲۱ و ۲۲.
  9. أسرار آل محمد، ص۲۲.
  10. أسرار آل محمد، ص۲۲ و ۲۳.
  11. أسرار آل محمد، ص۲۶.
  12. أسرار آل محمد، ص۲۶.
  13. أسرار آل محمد، ص۲۷ - ۲۹.
  14. خوئی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۳ق، جلد ۹، ص۲۳۶.
  15. نعمانی، الغیبہ،۱۳۹۷ق، ص۹۵.
  16. أسرار آل محمد، ص۲۴ و ۲۵.
  17. الغدیر، ج ۱، ص۶۶.
  18. رجال نجاشی، ص۸.
  19. رجال طوسی، ص۶۶، ۹۴، ۱۰۱، ۱۱۴، ۱۳۶.
  20. تنقیح المقال، ج ۲، ص۵۳.
  21. خلاصۃ الاقوال، ۱۶۲.
  22. روضات الجنات، ج ۴، ص۶۶.
  23. الغدیر، ج ۱، ص۶۶.
  24. نقدی بر مقالہ «پژوہشی دربارہ سُلَیم بن قیس ہلالی».
  25. معروف حسنی، الموضوعات، ۱۴۰۷ق، ص۱۸۴ پانویس۱.

مآخذ

  • الهی خراسانی، علی اکبر، نقدی بر مقالہ «پژوهشی درباره سلیم بن قیس هلالی»، علوم حدیث، پاییز ۱۳۸۳ - شماره ۳۳.
  • امینی، عبدالحسین، الغدیر، بیروت،‌ دار الکتاب العربی، ۱۳۹۷ھ
  • حلی، حسن بن یوسف، خلاصه الاقوال، مؤسسة نشر الفقاهة، ۱۴۱۷ھ
  • خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، چاپ پنجم، بی جا، بی نا، ۱۴۱۳ھ
  • طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۵ھ
  • معروف الحسنی، هاشم، الموضوعات فی الآثار و الاخبار، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۹۸۷ء/۱۴۰۷ھ
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۶ھ
  • نعمانی، محمد بن ابراهیم، الغیبہ، تصحیح علی اکبر غفاری، تهران، نشر صدوق، ۱۳۹۷ھ
  • هلالی، سلیم بن قیس، اسرار آل محمد، قم، الهادی، ۱۴۱۶ھ