اولاد پیغمبر اکرم میں مشہور قول کے مطابق چار بیٹیاں اور تین بیٹے شامل ہیں۔ جن میں سے 6 حضرت خدیجہ اور ایک ماریہ قبطیہ سے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراؑ کے علاوہ آنحضرت کی باقی تمام اولاد آپؐ کی حیات میں ہی دنیا سے چل بسی اور آپؐ کی نسل صرف حضرت زہراؑ سے آگے چلی ہے۔
چوتھی صدی کے شیعہ محقق ابو القاسم کوفی اور پندرہویں صدی کے شیعہ محقق سید جعفر مرتضی عاملی اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراؑ آپ کی اکلوتی بیٹی ہیں جبکہ زینب، رقیہ و ام کلثوم آپ (ص) اور حضرت خدیجہ کی بیٹیاں نہیں تھیں۔ جعفر مرتضی نے بنات النبی اَم رَبائبُہ؟ (رسول کی بیٹیاں یا منہ بولی بیٹیاں؟) نامی کتاب اسی موضوع کے اثبات میں لکھی ہے۔
صاحب اولاد ازواج
ازواج رسول میں سے صرف حضرت خدیجہ اور ماریہ قبطیہ سے اولاد ہوئی۔ خدیجہ سے چار بیٹیاں اور دو بیٹے[1] جبکہ ماریہ سے ایک بیٹے ابراہیم متولد ہوئے۔[2]
اولاد
بیٹیاں
پیغمبر اکرمؐ کی چار بیٹیاں تھیں جو سب حضرت خدیجہ سے تھیں:[3]
- زینب، آنحضرتؐ کی سب سے بڑی بیٹی تھیں[4] جو 30 عام الفیل کو پیدا ہوئیں۔[5] اس وقت آنحضرتؐ کا سن مبارک 30 برس تھا۔[6] زینب کی وفات سنہ 8 ہجری[7] کو ہوئی اور انہیں بقیع میں دفن کیا گیا۔[8]
- رقیہ نے ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ میں حصہ لیا۔ ان کی وفات سنہ 2 ہجری کو ہوئی[9] اور انہیں بھی بقیع میں دفن کیا گیا۔
- ام کلثوم کی وفات سنہ 9 ہجری میں ہوئی۔[10] اور بقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔
- حضرت فاطمہ زہراؑ شیعہ کتب کے مطابق بعثت کے پانچ سال بعد پیدا ہوئیں جبکہ اہل سنت کی روایات کے مطابق آپؑ کی ولادت بعثت سے پانچ سال پہلے ہوئی۔ حضرت فاطمہ زہراؑ امیرالمؤمنینؑ کی زوجہ اور پنجتن آل عبا، (اصحاب کساء) میں سے ہیں۔ آپ شیعہ اثنا عشریہ کے نزدیک چودہ معصومین میں سے ایک ہیں اور شیعوں کے دوسرے اور تیسرے امام آپ کے بیٹے ہیں۔ متعدد شیعہ علما سورہ کوثر میں کوثر کا مصداق حضرت فاطمہؑ کو قرار دیتے ہیں؛ کیونکہ پیغمبر کی نسل آپ کی بیٹی سے آگے بڑھی اور اسی نسل میں سلسلہ امامت ودیعت ہوا۔[11]
چوتھی صدی کے شیعہ محقق ابو القاسم کوفی اور پندرہویں صدی کے شیعہ محقق سید جعفر مرتضی عاملی اس بات کے معتقد ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراؑ آپ کی اکلوتی بیٹی ہیں جبکہ باقی آپ کی منہ بولی بیٹیاں تھیں۔[12] جعفر مرتضی نے "بنات النبی اَم رَبائبُہ؟" (رسول خدا کی بیٹیاں یا منہ بولی بیٹیاں؟) نامی کتاب اسی موضوع کے اثبات میں لکھی ہیں۔[13]
بیٹے
اکثر منابع میں آنحضرتؐ کے تین بیٹوں کا نام ذکر ہوا ہے: قاسم، عبداللہ اور ابراہیم[14] جبکہ بعض کتب میں طیب اور طاہر کے نام بھی آنحضرتؐ کے بیٹوں میں شمار ہے۔[15] اسی طرح بعض منابع میں کہا گیا ہے کہ طیب و طاہر بیٹے نہیں ہیں بلکہ عبداللہ کے القاب میں سے ہیں۔[16] شیخ صدوق کے مطابق بھی عبد اللہ ہی طاہر ہیں۔[17]
آپؐ کے تینوں بیٹے بچپن میں ہی وفات پا گئے تھے۔[18] عبداللہ[19] کی وفات کے بعد اور ایک روایت کے مطابق قاسم[20] کی رحلت کے بعد عاص بن وائل نے پیغمبر اکرم کو «ابتر» (جس کی نسل نہ ہو) کہا۔ اس پر سورہ کوثر نازل ہوا۔
بڑے چھوٹے کی ترتیب
تمام کتب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ابراہیم بن ماریہ آنحضرتؐ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ تاہم حضرت خدیجہ کی اولاد میں سے کون بڑا تھا اور کون چھوٹا تھا؛ اس میں اختلاف ہے:
- قاسم، زینب، عبداللہ، ام کلثوم، فاطمہ، رقیہ[21]
- زینب، قاسم، ام کلثوم، فاطمہ، رقیہ، عبداللہ[22]
- قاسم، زینب، رقیہ، فاطمہ، ام کلثوم، عبداللہ[23]
- زینب، رقیہ، ام کلثوم، فاطمہ[24]
ابن ہشام نے اس ترتیب کو اس طرح سے ذکر کیا ہے: قاسم، طیب، طاہر، رقیہ، زینب، ام کلثوم و فاطمہ۔[25]
حوالہ جات
- ↑ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج5، ص334
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418ھ، ج1، ص107۔
- ↑ صدوق، الخصال، ۱۴۰۳ق، ص۴۰۴؛ ابن هشام، سیرة النبویہ، دار المعرفة، ج۱، ص۱۹۰.
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۳۰.
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۳۹، ۱۸۵۳.
- ↑ ابن اثیر، اسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۳۰.
- ↑ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۵۳
- ↑ المدنی البرزنجی، نزهة الناظرین، ۱۴۱۶ق، ص۳۱۲-۳۱۳.
- ↑ ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۰۳۸.
- ↑ ابن حجر عسقلانی، الاصابہ، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۴۶۰.
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج27، ص375۔ مراجعہ کریں: طباطبائی، المیزان، ج20، ص370
- ↑ عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ھ، ج۲، ص۲۱۸؛ عاملی، بنات النبی اَم ربائبہ؟، ۱۴۱۳ھ، ص۷۷-۷۹؛ کوفی الاستغاثہ، ج۱، ص۶۸.
- ↑ عاملی، بنات النبی اَم ربائبہ؟، ۱۴۱۳ھ.
- ↑ صدوق، الخصال، ۱۴۰۳ق، ص۴۰۴؛ ابن هشام، سیرة النبویہ، دار المعرفة، ج۱، ص۱۹۰؛ ابن حجر عسقلانی، الإصابة، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۴۴۵و۴۴۶.
- ↑ ابن هشام، سیرة النبویہ، دار المعرفة، ج۱، ص۱۹۰؛ ابن حجر عسقلانی، الإصابة، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۴۴۶.
- ↑ ابن حجر عسقلانی، الإصابة، ۱۴۱۵ق، ج۳، ص۴۴۵؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۷۵.
- ↑ صدوق، الخصال، ۱۴۰۳ق، ص۴۰۴.
- ↑ ابن هشام، سیرة النبویہ، دار المعرفة، ج۱، ص۱۹۰؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۰۶ و ۱۱۲.
- ↑ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج1، ص138-139۔
- ↑ ابن اسحاق، سیرۃ ابن إسحاق، 1410ھ، ص245۔
- ↑ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج5، ص334۔
- ↑ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج5، ص334۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418ھ، ج1، ص106۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418ھ، ج8، ص174۔
- ↑ ابن هشام، سیرة النبویہ، دار المعرفة، ج۱، ص۱۹۰.
مآخذ
- ابن اثیر، علی بن محمد، اسد الغابo، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹ء
- ابن اسحاق، سیرة ابن إسحاق، اول، قم، دفتر مطالعات تاریخ و معارف اسلامی، ۱۴۱۰ق.
- ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابة فی تمییز الصحابة، بیروت، دار الکتب العلمیة، ۱۴۱۵ق.
- ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، دوم، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق.
- ابن عبدالبر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲ء
- ابن هشام، عبدالملک بن هشام حمیری، سیرة النبویہ، تحقیق مصطفی السقا، ابراهیم الابیاری، عبدالحفیظ الشبلی، بیروت، دارالمعرفہ، بیتا.
- بلاذری، احمد بن یحی، أنساب الأشراف، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۷ق.
- عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، قم، دارالحدیث، ۱۴۲۶ق/۱۳۸۵ش.
- عاملی، سید جعفر مرتضی، بنات النبی ام ربائبہ؟، مرکزالجواد، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۳ء
- کوفی، علی بن احمد، الاستغاثه فی بدع الثلاثه، بینا، بیتا.
- صدوق، محمد بن علی، الخصال، تحقیق علیاکبر غفاری، قم، دفتر نشر اسلامی، ۱۴۰۳ق.
- طبرسی، إعلام الوری بأعلام الهدی، قم، آل البیت، ۱۴۱۷ق.
- المدنی البرزنجی، نزهة الناظرین فی مسجد سید الاولین و الآخرین، تحقیق احمد سعید بن سلیم، ۱۴۱۶ق/۱۹۹۵ء
- مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال...، بیروت، دار الکتب العلمیة، ۱۴۲۰ق.