اصحاب کساء
"اصحاب کساء"، کا اطلاق ان افراد پر ہوتا ہے جنہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ، نے آیت تطہیر کے نزول کے وقت اپنی عباء یا چادر کے نیچے اکٹھا کیا۔ اصحاب کساء حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ، امام علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، امام حسن مجتبی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام ہیں اصحاب کساء "خمسۂ اصحاب کساء"، "پنچتن آل عبا" اور "آل عبا" کے عنوان سے بھی مشہور ہیں۔
اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ اصحاب کساء دوسروں پر فضیلت رکھتے ہیں اور مخلوقات میں کریم ترین[1] اور اللہ کے نزدیک شریف ترین ہیں۔[2]
شیعہ منابع حدیثی میں حدیث کساء کے سلسلے میں موصول ہونے والی احادیث شریفہ کی رو سے ان کے مطابق اصحاب کساء پانچ افراد ہیں: حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ، امام علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، امام حسن مجتبی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام۔ ان روایات کے مطابق ام سلمہ نے بھی رسول اللہؐ سے ان افراد میں شامل ہونے کی اجازت مانگی مگر آپؐ نے انہيں اجازت نہ دی۔
اصحاب کساء کی تعداد
شیعہ منابع میں حدیث کساء کے متعلق نقل ہونے والی احادیث کے مطابق اصحاب کساء میں پانچ افراد شامل ہیں: حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ، امام علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، امام حسن مجتبی علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام۔ ان روایات کے مطابق ام سلمہ نے بھی رسول اللہؐ سے ان افراد میں شامل ہونے کی اجازت مانگی مگر آپؐ نے انہيں اجازت نہ دی۔
امام صادقؑ ایک حدیث کے ضمن میں صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں:
- اصحاب کساء جو اللہ تعالی کے نزدیک تمام مخلوقات میں کریم ترین اور شریف ترین ہیں، پانچ افراد ہیں۔ اور پھر ان کے اسماء گرامی بیان فرماتے ہیں۔[3]
حضرت امام حسینؑ کے زیارتنامے میں آپ کو "خامس اصحاب کساء" کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔[4]
پیغمبر اکرمؐ نے آیۂ تطہیر کے نزول کو پنجتن پاک تک محدود کیا ہے۔[5]
علامہ حلی آیت تطہیر کے بارے میں کہتے ہیں:
"اصحاب کساء" کی اصطلاح مفسرین اور محدثین کے درمیان مشہور و معروف ہے؛ یعنی وہ بجائے اس کے کہ ان تمام افراد کا نام نقل کریں، کہتے تھے کہ "یہ آیت اصحاب کساء کی شان میں نازل ہوئی ہے"۔
مثال کے طور پر آیت کریمہ وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّہِ مِسْكِيناً وَيَتِيماً وَأَسِيراًً[؟–؟](ترجمہ: اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت کے ساتھ ساتھ غریب محتاج اور یتیم اور جنگ کے قیدی کو)۔[7]، کے بارے میں علامہ محمد باقر مجلسی کہتے ہیں:
حوالہ جات
- ↑ سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، ج2، ص: 604
- ↑ ابن بابویہ، علل الشرائع، ج1، ص: 733۔
- ↑ ابن بابویہ، علل الشرائع، ج1، ص733۔
- ↑ ابن طاووس، إقبال الأعمال، ج2، ص572۔
- ↑ شیخ حر عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2 ص201
- ↑ علامہ حلی، نہج الحق و کشف الصدق، ص230
- ↑ سورہ انسان آیت 8۔
- ↑ بحار الأنوار، ج35، ص256
مآخذ
- قرآن.
- ہلالی، سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، مصحح انصاری زنجانی، خوئینی محمد، الہادی، قم، 1405ہجری۔
- ابن بابویہ، محمدبن علی، علل الشرایع، ترجمہ ذہنی تہرانی، انتشارات مومنین، قم، 1380شمسی۔
- ابن طاووس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، دارالکتب الاسلامیہ، تہران، 1409ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف بن مطہر، نہج الحق و کشف الصدق، دارالکتاب اللبنانی، بیروت، 1982ء۔
- مجلسی، محمدباقر بن محمد تقی، بحارالانوار، داراحیاءالتراث العربی، بیروت، 1403ہجری۔
- مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، دارالمعرفہ، بیروت،1423ہجری، 2003عیسوی.
- شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، اثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، اعلمی، بیروت 1425ہجری۔
- ابن حجر، احمدبن محمد ابن علی ابن حجر ہیثمی، صواعق المحرقہ، مکتبۃ القاہرۃ، مصر، 1385ہجری۔