ام کلثوم بنت امام علی

ویکی شیعہ سے
ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب
نامزینب صغریٰ
وجہ شہرتامام علیؑ کی بیٹی
کنیتام کلثوم
لقبام کلثوم
تاریخ پیدائشسنہ 5 ہجری
جائے پیدائشمدینہ
مدفندمشق، قبرستان باب الصغیر
سکونتمدینہ
والدامام علی
والدہفاطمہ زہرا
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ


اُمّ کُلثوم بنت علی، امام علیؑ اور حضرت فاطمہ زہراؑ کی بیٹی ہیں جو شیخ مفید کے مطابق امام حسنؑ، امام حسینؑ اور حضرت زینب کبریؑ کے بعد پیدا ہوئی تھیں۔

تاریخی منابع میں امام علیؑ کی ایک اور بیٹی کا نام یا کنیت بھی ام کلثوم نقل ہوئی ہے اور نام میں اسی مشابہت کی وجہ سے ام کلثوم کی زندگی سے متعلق بعض واقعات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان واقعات میں سب سے اہم اور بحث برانگیز واقعہ عمر بن خطاب کے ساتھ ام‌ کلثوم کی شادی کا واقعہ ہے، جو تاریخی اور حدیثی کتابوں میں نقل ہوا ہے جسے بہت سارے شیعہ علماء قبول کرتے ہیں جبکہ بعض اس کا انکار کرتے ہیں۔

بعض شیعہ احادیث کے مطابق یہ شادی خلیفہ دوم کی دھمکی سے مجبوری اور تقیہ کی بنا پر ہوئی تھی۔ بعض شیعہ علماء بھی اسی نظریے کے حامی ہیں۔

بعض منابع میں ام‌ کلثوم کو واقعہ کربلا میں موجود خواتین میں شمار کی گئی ہے؛ لیکن شیعہ مورخ سید محسن امین وغیرہ کے مطابق ام‌ کلثوم واقعہ کربلا سے پہلے وفات پا چکی تھی اور کربلا میں موجود ام کلثوم امام علیؑ کی دوسری بیٹی اور مسلم بن عقیل کی زوجہ تھیں جو زینب کے نام سے معروف ہیں۔

شام میں ایک مقبرہ ہے جس کے بارے میں بعض کا کہنا ہے کہ یہ ام کلثوم کا مقبرہ ہے؛ لیکن بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ مقبرہ خاندان پیغمبرؐ کی ایک اور خاتون کا محل دفن ہے اور حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ(س) کی بیٹی ام‌ کلثوم مدینہ میں قبرستان بقیع میں مدفون ہیں۔

ولادت اور حسب و نسب

شیعہ اور اہل سنت علماء اس بات پر متفق ہیں کہ امام علیؑ اور حضرت فاطمہ(س) کی ام‌ کلثوم نامی ایک بیٹی تھی۔[1] بعض منابع میں آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں صرف اتنا ملتا ہے کہ آپ حضورؐ کے زمانے میں پیدا ہوئی تھی؛[2] لیکن اہل سنت مورخ ذَہَبی (متوفی: 748ھ) لکھتے ہیں کہ آپ تقریبا سنہ6ھ کو پیدا ہوئی تھی۔[3]

کتاب الارشاد میں شیخ مفید کے مطابق آپ حضرت زینب(س) کے بعد پیدا ہوئی تھی؛[4] لیکن پہلی اور دوسری صدی ہجری کے سیرت نگار ابن‌ اسحاق نے اپنی کتاب میں آپ کا نام حضرت زینب سے پہلے لایا ہے لیکن اس سلسلے میں کوئی تصریح نہیں کی گئی ہے کہ آپ حضرت زینب سے بڑی تھی یا چھوٹی۔[5]

کنیت اور القاب

شیخ مفید نے آپ کا نام زینب صغری اور کنیت ام کلثوم ذکر کیا ہے۔[6]کتاب اَلکُنیٰ و الاَلقاب میں شیخ عباس قمی کے مطابق اس کنیت کو پیغمبراکرمؐ نے آپ کو اپنی بیٹی ام کلثوم کے ساتھ زیادہ شباہت کی وجہ سے دیا ہے۔[7]

شیعہ سیرت نگار سید محسن امین (سنہ 1284 - 1371ھ) لکھتے ہیں‌کہ امیر المؤمنین حضرت علیؑ کی تین یا چار بیٹیوں کی کنیت ام کلثوم تھیں:

  1. ام کلثوم کبری بنت حضرت فاطمہ(س)؛
  2. ام کلثوم وُسطی زوجہ حضرت مسلم بن عقیل؛
  3. ام کلثوم صغری؛
  4. زینب صغری جس کی کنیت ام کلثوم ہے؛

سید محسن امین تصریح کرتے ہیں کہ: ممکن ہے آخری دو نام ایک ہی شخصیت کے ہوں اس صورت میں امام علیؑ کی تین بیٹیوں کا ورنہ چار بیٹیوں کا نام ام کلثوم ہے۔[8]

شوہر اور اولاد

دوسری اور تیسری صدی ہجری کے مورخ ابن‌ سعد کے مطابق ام کلثوم نے ابتدا میں عُمَر بن خطاب سے شادی کی پھر ان کی وفات کے بعد اپنے چچا زاد بھائی عون‌ بن جعفر کی زوجیت میں آگئیں۔ عون کی وفات کے بعد ان کے بھائی محمد‌ پھر محمد کی وفات کے بعد ان کے دوسرے بھائی عبد اللہ بن جعفر سے شادی کی، جو اس سے پہلے آپ کی بہن حضرت زینب کے شوہر تھے۔[9] لیکن مقریزی (766- 845 ھ) کے مطابق آپ نے عمر بن خطاب کے بعد محمد بن جعفر سے شادی کی تھی پھر ان کی وفات کے بعد ان کے بھائی عون بن جعفر کی زوجیت میں آگئی اور عون کی زوجیت میں آپ کی وفات ہوئی۔[10] ابن‌ سعد اور چھٹی صدی ہجری کے مورخ ابن‌ عساکر عمر بن خطاب سے آپ کے دو فرزند زید اور رقیہ کا نام لیتے ہیں۔[11]

عمر بن خطاب سے شادی

ام‌ کلثوم کی عمر بن خَطّاب کے ساتھ شادی کا معاملہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان بحث‌ برانگیز اور مورد اختلاف مسائل میں سے ہے: شیعہ اور اہل سنت تاریخی منابع جیسے تاریخ یعقوبی اور تاریخ طبری، اسی طرح شیعہ حدیثی منابع جیسے کافی اور تہذیب‌ الاحکام وغیرہ کے مطابق ام‌ کلثوم نے عمر سے شادی کی تھی۔[12] میرزا جواد تبریزی اور سید علی میلانی نے کتاب کافی میں موجود دو روایت کی چھان بین کے بعد انہیں صحیح قرار دئے ہیں۔[13] چودہویں اور پندرہویں صدی ہجری کے شیعہ ماہر علم رجال محمد تقی شوشتری نے بھی اس سلسلے میں موجود احادیث کو متواتر قرار دیتے ہوئے اس واقعے کو انکارناپذیر قرار دیا ہے۔[14]

لیکن ان سب باتوں کے باوجود بعض شیعہ علماء من جملہ آیت‌ اللہ مرعشی[15] اور محمد جواد بلاغی[16] اس واقعے کا انکار کرتے ہیں۔ آقا بزرگ تہرانی نے اس واقعے کا انکار کرنے والی کتابوں کا نام کتاب الذریعہ میں ذکر کیا ہے۔[17]

سیدِ مرتضی (355-436ھ) اور فضل بن حسن طَبْرِسی (متوفی 548ھ) جیسے شیعہ علماء کے مطابق یہ نکاح مجبوری اور تقیہ کی وجہ سے واقعہ ہوا ہے۔[18] اس بات کی تأئید میں کچھ احادیث بھی موجود ہیں۔ مثلا کتاب کافی میں امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ ام‌ کلثوم ہماری بیٹی تھی جو ہم سے غصب ہوئی ہے۔[19] اسی کتاب کی ایک اور حدیث میں عمر بن خطاب کی جانب سے اس شادی کو قبول کرنے کے سلسلے میں امام علیؑ کو دھمکی دینے کی بات ہوئی ہے۔[20]

واقعہ کربلا میں شرکت

در منابع، از حضور ام‌کلثوم در واقعہ کربلا سخن آمدہ است۔ مثلا سید ابن طاووس (589-664ھ) اپنی مقتل کی کتاب لُہوف میں مختلف جگہوں پر ام‌ کلثوم کا نام لیتے ہیں۔ من جملہ یہ کہ جب امام حسین(ع) نے اس سفر میں اپنی شہادت واقع ہونے کی خبر دی تو حضرت زینب کے ساتھ آپ کا گریہ کرنا،[21] کوفہ میں آپ کا خطبہ اور کوفہ والوں کی سرزنش[22] اور اسیروں کے ساتھ شام جاتے ہوئے شمر سے کم ہجوم والے راستوں سے لے جانے کی درخواست۔[23] تیسیری صدی ہجری کے مورخ ابن‌ طیفور بھی لکھتے ہیں کہ جب اسیران کربلا کو کوفہ لے جایا گیا تو ام‌ کلثوم نے یہاں کے لوگوں کے درمیان خطبہ دیا اور کوفہ والوں کی سرزنش کی۔[24] البتہ سید ابن طاووس نے اس خطبے کو حضرت زینب کی طرف نسبت دی ہے۔[25]

ان تمام باتوں کے باوجود ان منابع میں‌ یہ تصریح نہیں ہوئی ہے‌ کہ امام علی(ع) کی یہ بیٹی حضرت فاطمہ(س) سے تھی یہ نہیں۔ اس کے مقابلے میں بعض نے تصریح کی ہیں کہ کربلاء میں موجود ام‌ کلثومِ امام علیؑ کی ایک اور بیٹی تھی جو حضرت فاطمہ(س) نہیں تھی۔[26] سید محسن امین بھی لکھتے ہیں کہ یہ معلوم نہیں ہے کہ امام حسینؑ کے ساتھ کربلاء میں موجود ام کلثوم حضرت علیؑ کی کونسی بیٹی تھی؛ لیکن زیادہ احتمال دیا گیا ہے کہ وہ مسلم بن عقیل کی زوجہ تھی۔[27]

وفات

شام، قبرستان باب‌ الصغیر میں ام‌ كلثوم اور سكينہ کے قبور

ام‌ کلثوم کی وفات اور اس کی کیفیت کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ اپنے بیٹے زید کے ساتھ ایک بیماری کی وجہ سے وفات پائی اور اس وقت ام کلثوم عبد اللہ بن جعفر (متوفی: 80ھ) کی زوجیت میں‌ تھیں۔[28] بعض منابع کے مطابق ان دونوں کو عبد الملک بن مروان (حکومت: 65-86ھ) کے دور میں ان کے حکم سے زہر دے کر مارے گئے اور عبد اللہ بن عمر نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی؛[29] لیکن سید محسن امین نے‌ آپ کی تاریخ وفات کو واقعہ کربلا اور سنہ 54ھ سے پہلے ذکر کیا ہے۔[30]

مدفن

ضریح ام‌ کلثوم

آٹھویں صدی ہجری کے مشہور سفر نامہ نویس ابن‌ بطوطہ کے مطابق حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ(س) کی بیٹی ام‌ کلثوم کا مزار دمشق سے ایک فرسخ کے فاصلے پر واقع ہے۔[31] یاقوت حَمَوی (574-626 ھ) نے بھی قبر ام‌ کلثوم کو راویہ دمشق میں ہونے کا عندیہ دیا ہے۔[32]

لیکن ابن‌ عساکر لکھتے ہیں کہ ام‌ کلثوم نے مدینہ میں وفات پائی اور انہیں قبرستان بقیع میں سپرد خاک کیا گیا ہے اور راویہ دمشق میں موجود قبر خاندان پیغمبر کی اسی نام کی ایک اور خاتون کی ہے۔[33]

حوالہ جات

  1. نمونہ‌ کے لئے ملاحظہ کریں: مفید، الارشاد، 1413ھ، ج1، ص354؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1424ھ/2004ء، ج8، ص338؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ/1992ء، ج4، ص1954۔
  2. ابن‌حجر عسقلانی، الاصابہ، 1415ھ، ج8، ص464؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ/1992ء، ج4، ص1954۔
  3. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1405ھ/1985ء، ج3، ص500۔
  4. مفید، الارشاد، 1413ء، ج1، ص354۔
  5. ابن‌اسحاق، سیرۃ ابن‌اسحاق، 1424ھ/2004ء، ج1، ص274۔
  6. مفید، الارشاد، ج1، ص354۔
  7. قمی، الکنی و الالقاب، 1368شمسی، ج1، ص228۔
  8. امین، اعیان الشیعہ، ج3، ص484۔
  9. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ/1990ء، ج8، ص338؛ امین، اعیان‌الشیعہ، 1403ھ، 484-485۔
  10. مقریزی، امتاع‌الاسماع، 1420ھ/1999ء، ج5، ص370۔
  11. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ/1995ء، ج19، ص482؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ/1990ء، ج8، ص338۔
  12. ملاحظہ کریں: یعقوبی، تاریخ‌الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص149-150؛ طبری، تاریخ‌الطبری، موسسۃالاعلمی، 1413ھ/1992ء، ج4، ص410؛ کلینی، الکافی، 1407شمسی، ج5، ص346؛ طوسی، تہذیب‌الاحکام، 1407ھ، ج8، ص161؛ طبرسی، اعلام‌الوری، 1417ھ، ج1، ص397۔
  13. تبریزی، الانوار الالہیۃ، 1422ھ، ص123؛ میلانی، محاضرات فی الاعتقادات، 1421ھ، ج2، ص659۔
  14. تستری، قاموس‌الرجال، 1428ھ، ج12، ص216۔
  15. مرعشی نجفی، پانویس، در احقاق‌الحق، 1409ھ، ج2، ص490۔
  16. ملاحظہ کریں: آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج4، ص172۔
  17. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ھ، ج2، ص257، ج4، ص172، ج11، ص146، ج15، ص 223۔
  18. سید مرتضی، رسائل، 1405ھ، ج3، ص149؛ طبرسی، اعلام‌الوری، 1417ھ، ج1، ص397۔
  19. کلینی، کافی، 1407ھ، ج5، ص346۔
  20. کلینی، کافی، 1407ھ، ج5، ص346۔
  21. سید بن طاووس، لہوف 1348شمسی، ص82۔
  22. سید بن طاووس، لہوف 1348شمسی، ص154-156۔
  23. سید بن طاووس، لہوف 1348شمسی، ص174۔
  24. ابن‌طیفور، بلاغات‌النساء، مکتبۃ بصیرتی، ص23-24۔
  25. سید بن طاووس، لہوف، 1348شمسی، ص146-148۔
  26. بری، الجوہرہ فی نسب الامام علی و آلہ، 1414ھ/1993ء، ص45۔
  27. امین، اعیان‌الشیعہ، 1403ھ، ج3، ص484۔
  28. ابن‌ حبیب بغدادی، المنمق، 1405ھ/1985ء، ص312۔
  29. صنعانی، المصنف، 1403ھ/1983ء، ج6، ص164۔
  30. امین، اعیان‌الشیعہ، 1403ھ، ج3، ص485۔
  31. ابن‌بطوطہ، الرحلہ، 1417ھ، ج1، ص323۔
  32. یاقوت حموی، معجم‌البلدان، 1399ھ، ج3، ص20۔
  33. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ/1995ء، ج2، ص309-310۔

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، اسد الغابہ فی معرفہ الصحابہ، بیروت، دارالکتاب العربی، بی‌تا۔
  • ابن اسحاق، محمد، سیرہ ابن اسحاق، قم، دفتر تاریخ و مطالعات اسلامی، 1410ھ۔
  • ابن بطوطۃ، محمد بن عبد اللہ، تحفۃ النظار فی غرائب الأمصار وعجائب الأسفار، بیروت، مؤسسہ الرسنہہ، 1405ھ۔
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر، بی‌تا۔
  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابیطالب، نجف، المطبعہ الحیدریہ، 1376ھ۔
  • ابن طاووس، عبدالکریم، فرحہ الغری فی تعیین قبر امیر المؤمنیین علی(ع)، تحقیق سید تحسین آل شبیب موسوی، بی‌جا، مرکز الغدیر، بی‌تا۔
  • ابن طیفور، ابوالفضل بن ابی طاہر، بلاغات النساء، قم، مکتبہ بصیرتی، بی‌تا۔
  • ابن عبدالبر، احمد بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفہ الاصحاب، بیروت، دارالجیل، 1412ھ۔
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، بیروت، دارالفکر، 1415ھ۔
  • ابن عنبہ، احمد بن علی، عمدہ الطالب فی انساب آل ابیطالب، نجف، المطبعہ الحیدریہ، 1380ھ۔
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف، بی‌تا۔
  • بری، محمد بن ابی بکر، الجوہرہ فی نسب الامام علی و آلہ، دمشق، مکتب ہ النوری، 1402ھ۔
  • بغدادی، محمد بن حبیب، المنمق فی اخبار قریش، تحقیق خورشید احمد فاروق، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بیروت، دارالفکر، 1420ھ۔
  • البیطار، عبد الرزاق، حلیۃ البشر فی تاریخ القرن الثالث عشر، بی‌تا۔۔
  • حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت، دار احیاء التراث، 1399ھ۔
  • دخیل, علی محمدعلی, اعلام النساء، دارالاسلامیۃ, بیروت، 1412ھ۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، بیروت، مؤسسہ الرسنہہ، 1413ھ۔
  • زبیدی، محمد مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دارالفکر، 1414ھ۔
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، اللہوف علی قتلی الطفوف، تہران، نشر جہان، 1348 ہجری شمسی۔
  • سید بن طاووس، علی بن موسی، لہوف، ترجمہ عبدالرحیم عقیقی بخشایشی، چ5، قم، دفتر نشر نوید اسلام، 1378ہجری شمسی۔
  • صفدی، صلاح الدین خلیل، الوافی بالوفیات، بیروت، دار احیاء التراث، 1420ھ۔
  • صنعانی، عبدالرزاق، المصنف، تحقیق شیخ عبدالرحمن اعظمی۔
  • طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری باعلام الہدی، قم، آل البیت، 1417ھ۔
  • طبری، محمدبن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، 1403ھ۔
  • طبری، عمادالدین، کامل البہائی، قم، المکتبہ الحیدریہ، بی‌تا۔
  • طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1364 ہجری شمسی۔
  • عسقلانی، ابن حجر احمد بن علی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415ھ۔
  • علوی، محمد بن علی، المجدی فی انساب الطالبین، قم، مکتبہ المرعشی النجفی، 1409ھ۔
  • قمی، شیخ عباس، الکنی و الالقاب، تہران، مکتبہ الصدر، بی‌تا۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1363 ہجری شمسی۔
  • مامقانی، عبداللہ بن محمد، تنقیح المقال فی علم الرجال، نجف، ب نا، 1352ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسہ الوفاء، 1403ھ۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، مصر، مکتبہ السعادہ، 1377ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، بیروت، دار المفید، 1414ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المسائل العکبریہ، بیروت، دارالمفید، 1414ھ۔
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع، تحقیق عبدالحمید النمیسی، بیروت، دارالکتب، 1420ھ۔
  • نیشابوری، محمد بن الفتال، روضہ الواعظین، قم، الشریف الرضی، بی‌تا۔
  • نویری، شہاب الدین احمد، نہایہ الارب فی فنون الادب، قاہرہ، دارالکتب و الوثائق القومیہ، 1423ھ۔
  • یعقوبی، ابن واضح، تاریخ یعقوبی، نجف، المکتبہ الحیدریہ، 1384ھ۔