رقیہ بنت امام علی
رُقَیۃ بنت علی ابن ابی طالب(سنہ ۶۱ ہجری قمری)، مسلم بن عقیل کی شریک حیات اور اسیران کربلا میں سے تھیں۔
نام | رقیہ بنت امام علیؑ |
---|---|
وجہ شہرت | حضرت علی کی بیٹی |
وفات | سنہ 61 ہجری. |
مدفن | قاہرہ، مصر |
والد | امام علیؑ |
شریک حیات | مسلم بن عقیل |
اولاد | عبداللہ بن مسلم |
مشہور امام زادے | |
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ |
- اس نام کے دیگر شخصیات سے آشنائی کیلئے دیکھیں:رقیہ (ضد ابہام)
رقیہ واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور مکہ سے کربلا جاتے ہوئے اپنے شوہر یعنی مسلم ابن عقیل کی شہادت سے باخبر ہوئیں۔ روز عاشورا نیز ان کے بیٹے عبداللہ اور محمد(ایک قول کی بنا پر) شہید ہوئے اور خود عمر سعد کے سپاہیوں کے ہاتھوں اسیر ہوئیں۔ قاہرہ میں ان سے منسوب ایک قبر پر سنہ ۱۴۱۶ ہجری قمری کو ہندوستان کے داوودی بہرہ برادری نے ضریح تعمیر کروائی۔
حسب و نسب
آپ کی والدہ صہباء بنت ربیعہ تغلبیہ، امام علی(ع) کی ایک کنیز تھی۔[1] ذبیح اللہ محلاتی کے مطابق صہباء آپ کے علاوہ عمر بن علی کی والدہ بھی ہیں۔[2] آپ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل سے شادی کی۔[3] کتاب "ریاحین الشریعہ" کے مطابق اس شادی کا ثمرہ دو بیٹے"عبداللہ اور محمد اور ایک بیٹی کی شکل میں عطا ہوا۔ عبداللہ کو سکینہ بنت امام حسین(ع) جانا جاتا ہے۔[4]
بعض منابع میں آپ کو ام کلثوم سے یاد کیا گیا ہے[5] جو شاید آپ کی کنیت ہو۔ سید محسن امین نے امام علی(ع) کی دو اور بیٹیوں ام کلثوم کبری اور ام کلثوم صغری کے مقابلے میں آپ کو ام کلثوم وسطی کے نام سے یاد کیا ہے۔[6]
واقعہ کربلا میں حاضری
رقیہ بنت امام علی(ع) واقعہ عاشورا میں امام حسین(ع) کے ساتھ کربلا میں موجود تھی۔ ذبیح اللہ محلاتی کے بقول اس سفر میں آپ کے ساتھ آپ کی تینوں اولاد بھی ساتھ تھیں۔ راستے میں حضرت مسلم کی شہادت سے با خبر ہوئیں۔ آپ کے بیٹے عبداللہ بن مسلم بھی کربلا میں امام حسین(ع) کے رکاب میں شہید ہوئے۔[7]
محلاتی آپ کے دونوں بیٹے محمد اور عبداللہ کے واقعہ کربلا میں شہادت اور آپ کی اسیری کے قائل ہیں۔[8]
آرامگاہ
معجم البلدان کے مطابق رقیہ بنت امام علی(ع) قاہرہ، مصر میں مدفون ہیں۔[9]
رقیہ بنت امام علی(ع) سے منسوب قبر پر سنہ 1416 ہجری قمری میں ایک ضریح بنائی گئی جو ظاہری خوبصورتی میں دوسرے ضریحوں سے قدرے متفاوت ہے۔ ضریح کی ساخت مستطیل نما ہے ضریح کے اوپر ایک گنبد بنی ہوئی ہے اور ضریح کا زیرین حصہ سنگ مرر سے مزین ہے۔ آپ کی مرقد پر نبی چاندی کے ضریح کو ہندوستان کے داوودی بُہرہ برادری نے قدیمی ضریح کی جگہ تعمیر کروائی ہے۔[10]
متعقلہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ ابن سعد، الطبقات (۱۴۱۰ق)، ج۳، ص۱۴؛ ابن جوزی، المنتظم(۱۴۱۲ق)، ج۴، ص۱۰۹؛ طبری، تاریخ(۱۹۶۷م)، ج۴، ص۳۵۹؛ ابن کثیر، البدایۃوالنہایۃ، ج۶، ص۳۵۲.
- ↑ محلاتی، ریاحین الشریعۃ(۱۳۷۳ش)، ج۴، ص۲۵۵-۲۵۶.
- ↑ بلاذری، أنسابالأشراف(۱۳۹۴ق)، ج۲، ص۷۰.
- ↑ محلاتی، ریاحینالشریعۃ(۱۳۷۳ش)، ج۴، ص۲۵۵.
- ↑ .ابن عنبہ، عمدۃ الطالب(۱۴۱۷ق)، ص۳۲.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ(۱۴۰۶ق)، ج۳، ص۴۸۴.
- ↑ خلیفہ، تاریخ خلیفۃ(۱۴۱۵ق)، ص۱۴۵؛ امین، اعیان الشیعہ(۱۴۰۶ق)، ج۷، ص۳۴؛ بلاذری، أنسابالأشراف(۱۳۹۴ق)، ج۲، ص۷۰؛ طبری، تاریخ(۱۹۶۷م)، ج۵، ص۴۶۹؛ ابن اثیر، الکامل(۱۳۷۱ش)، ج۹، ص۴۱۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین(دارالمعرفہ)، ص۹۸.
- ↑ محلاتی، ریاحین الشریعہ(۱۳۷۳ش)، ج۴، ص۲۵۵.
- ↑ حموی، معجمالبلدان(۱۹۹۵م)، ج۵، ص۱۴۲.
- ↑ احمد خامہ یار؛ ہندوستان کے اسماعیلی بُہرہ برادری کے عتبات عالیات اور زیارتگاہوں میں ہنری اور عمرانی آثار [بخش۲: شام و مصر
مآخذ
- ابن اثیر، الکامل، ترجمہ: ابوالقاسم حالت و عباس خلیلی، مؤسسہ مطبوعاتی علمی، تہران، ۱۳۷۱ش.
- ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوك، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبدالقادر عطا، دارالكتب العلمیۃ، ط الأولی، بیروت، ۱۴۱۲ق-۱۹۹۲م.
- ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الكبری، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا، دارالكتب العلمیۃ، ط الأولی، بیروت، ۱۴۱۰ق-۱۹۹۰م.
- ابن عنبہ حسنی، عمدۃ الطالب فی انساب آل ابیطالب، قم، انصاریان، ۱۴۱۷ق.
- ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، مقاتل الطالبيين، تحقیق: سید احمد صقر، بیروت، دارالمعرفہ، بیتا.
- امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، دارالتعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ق.
- بلاذری، انساب الاشراف، تحقیق: محمدباقر محمودی، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ط: الاولی، ۱۳۹۴ق-۱۹۷۴م.
- حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، دارصادر، ط: الثانیہ، ۱۹۹۵م.
- خلیفۃ بن خیاط، تاريخ خليفۃ، تحقيق فواز، دارالكتب العلميۃ، ط الأولى، بیروت، ۱۴۱۵ق-۱۹۹۵م.
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمدابوالفضل ابراہیم، دارالتراث، بیروت، ۱۹۶۷م.
- محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعۃ، دارالکتب الاسلامیۃ، تہران، ۱۳۷۳ش.