ام کلثوم کا عمر بن خطاب سے نکاح ان واقعات میں سے ہے جس کے وقوع، نوعیت اور مقاصد کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

اہل سنت منابع اس واقعے کو حضرت علیؑ اور خلیفہ ثانی کے درمیان اختلاف نہ ہونے کی دلیل قرار دیتے ہیں۔ جبکہ شیعہ منابع اس واقعے کا سرے سے انکار کرتے ہوئے اس سلسلے میں نقل ہونے والی تاریخی گزارشات کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں۔ البتہ بعض شیعہ منابع اصل واقعے کو قبول کرتے ہوئے اسے مجبوری پر حمل کرتے ہیں اور امام علیؑ اور خلیفہ ثانی کے درمیان اختلاف نہ ہونے کو رد کرتے ہیں۔

اس واقعے کے بارے میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔

اہمیت کی وجہ

ام کلثوم امام علیؑ ور حضرت فاطمہؑ کی بیٹی ہے۔ بعض منابع میں عمر بن خطاب کے ساتھ ان کی شادی کا تذکرہ ملتا ہے۔

شیعہ اور اہل سنت منابع میں اس شادی کو اہمیت دینے کی اصل وجہ وہ چیز ہے جسے اہل سنت علماء اس واقعے سے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اہل سنت علماء اس واقعے کو امام علیؑ اور خلیفہ ثانی میں اختلاف نہ ہونے کی دلیل قرار دتے ہوئے غصب خلافت اور شہادت حضرت زہرا جیسے واقعے کا سرے سے انکار کرتے ہیں۔[1]

شیعہ علماء اس کا یوں جواب دیتے ہیں کہ اولا یہ واقعہ پیش آیا ہی نہیں ہے اگر فرضا پیش آیا ہے تو بھی یہ امام علیؑ کی مرضی کے خلاف مجبوری کی حالت میں وقوع پذیر ہوا ہے اس بنا پر اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔[2] شیعہ حدیثی منابع میں اس مدعا پر بعض احادیث بھی موجود ہیں۔[3]

اس نکاح کا سبب

مروی ہے کہ اس سلسلے میں خلیفہ ثانی نے کہا: نکاح میں نے خواہشات نفسانی کی بنا پر نہیں بلکہ اس حدیث کے وجہ سے انجام دیا ہے جسے میں نے رسول خداؐ سے سنی ہے۔ وہ حدیث یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: "قیامت کے دن ہر نسب اور سبب منقطع ہوگا سوائے میرے ساتھ نسبی اور سببی رشتے کے"۔[4]۔[5]

یہ روایت شیعہ منابع میں امام رضاؑ سے نقل ہوئی ہے۔[6] غروی نائینی لکھتے ہیں: فرض کریں کہ یہ روایت درست بھی ہو جس سے خلیفہ ثانی اور اہل سنت نے استناد کیا ہے، شرط یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ ان سے راضي و خوشنود ہوں ورنہ حضورؐ کے بعض رشتہ دار تو ابو جہل اور ابو لہب جیسے بھی ہیں کیا قیامت کے دن وہ بھی امان میں ہونگے؟ [7] دوسری جانب انھوں نے قبل ازاں اپنی بیٹی حفصہ کا نکاح رسول خداؐ سے کرایا تھا اور مطلوبہ سببی رشتہ قائم ہوچکا تھا۔

روایت نکاح کی تفصیل

اس نکاح سے متعلق بعض مسائل میں شیعہ اور سنی مآخذ و منابع میں اختلاف پایا جاتا ہے جن کا اجمالی بیان مندرجہ ذیل ہے:

نکاح کے وقت ام کلثوم کی عمر

اس نکاح کے حوالے سے جن امور میں اختلاف پایا جاتا ہے ان میں سے ایک ام کلثوم کی عمر ہے۔

اہل سنت کے مآخذ

ابن سعد اپنی کتاب میں لکھتا ہے: عمر نے ام کلثوم کے ساتھ نکاح کیا جبکہ ام کلثوم ابھی سن بلوغت تک نہیں پہنچی تھیں۔[8]

عبدالرزاق صنعانی ام کلثوم کے نکاح کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ نکاح کے وقت وہ دوسری بچیوں کے ساتھ کھیلتی تھیں! [9]

طبری لکھتا ہے: ابتداء میں عمر نے عائشہ بنت ابی بکر سے ان کی بہن ام کلثوم بنت ابی بکر کا رشتہ مانگا اور عائشہ نے اپنی بہن سے اس سلسلے میں بات چیت کی لیکن انھوں نے عمر کی شدت پسندانہ زندگی اور عورتوں کے ساتھ ان کے سختگیرانہ طرز سلوک کا حوالہ دے کر اس رشتے کو مسترد کیا؛ عمرو بن عاص نے یہ پیغام عمر کو پہنچایا اور ساتھ ہی ام کلثوم بنت علیؑ کا رشتہ مانگنے کی تجویز دی؛ تاکہ رسول خدا(ص) کے ساتھ رشتہ قائم ہوجائے۔[10] حالانکہ قبل ازاں رسول خدا(ص) نے عمر کی بیٹی حفصہ کے ساتھ نکاح کرلیا تھا اور یہ سببی رشتہ قائم ہوچکا تھا۔

شیعہ مآخذ

بعض شیعہ مآخذ میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے: امیرالمؤمنینؑ نے عمر کا رشتہ مسترد کیا اور فرمایا: وہ ابھی چھوٹی بچی ہیں۔ عمر نے علیؑ کے چچا عباس بن عبدالمطلب کے پاس پہنچ کر دھمکی دی اور کہا "خدا کی قسم میں زمزم کا کنواں منہدم کروں گا اور تمہارے لئے کوئی کرامت باقی نہیں رہنے دونگا؛ اور گواہ لاؤں گا کہ علیؑ نے چوری کی ہے اور ان کا داہنا ہاتھ کاٹ دونگا"۔ عباس نے علیؑ کو عمر کی دھمکیوں سے آگاہ کیا اور کہا کہ اس رشتے کا معاملہ ان کے سپرد کریں اور علیؑ نے بھی قبول کیا۔[11] کلینی، نے روایت کی ہے کہ عمر کے انتقال کے بعد علیؑ ام کلثوم کو اپنے گھر لے گئے۔[12]

رشتہ مانگنے کی کیفیت

بعض سنی مآخذ میں منقول ہے کہ عمر نے یہ رشتہ علیؑ سے بلاواسطہ مانگا اور امامؑ نے جواب دیا کہ وہ چھوٹی ہیں، عمر نے کہا: وہ چھوٹی نہیں ہیں اور آپ درحقیقت مجھے یہ رشتہ دینا نہیں چاہتے؛ آپ انہیں میرے پاس بھجوادیں تاکہ میں انہیں دیکھ لوں!! چنانچہ علیؑ نے اپنی بیٹی عمر کے پاس روانہ کردی اور عمر نے انہیں دیکھا اور ام کلثوم سے کہا: اپنے والد سے کہہ دو کہ ویسا نہیں جو آپ کہہ رہے تھے چنانچہ امامؑ نے رشتہ منظور کیا۔[13]

اہل سنت ہی کے بعض متون میں ہے کہ عمر نے ام کلثوم کی ٹانگ پر ہاتھ رکھا اور اسے برہنہ کیا! ام کلثوم نے کہا: اگر تو خلیفہ نہ ہوتا تو میں تمہاری آنکھیں پھوڑ دیتی اور تمہاری ناک توڑ دیتی۔ ام کلثوم اپنے والد کے پاس پلٹیں اور عمر کے اس عمل کی شکایت کی اور کہا: آپ نے مجھے نہایت برے بڈھے کے پاس بھیجا تھا۔[14]۔[15]۔[16] سبط بن جوزی عمر کے اس عمل کے بارے میں لکھتے ہیں: خدا کی قسم! حتی اگر وہ کنیز بھی ہوتیں تو عمر کو یہ حق نہيں پہنچتا تھا کیونکہ مسلمین کا اجماع ہے کہ نامحرم خاتون کو ہاتھ لگانا حرام ہے۔[17]

بعض راویوں نے کہا ہے کہ اس رشتے اور شادی کا انتظام حضرت علیؑ نے کیا،[18] بعض دوسروں کے مطابق شادی کا انتظام عباس بن عبدالمطلب کے ہاتھ میں تھا اور ایک روایت میں ہے کہ شادی کا انتظام و انصرام امام حسنؑ اور امام حسینؑ نے کیا تھا۔

نکاح کے حامی

اہل سنت کی اکثریت کا کہنا ہے کہ یہ نکاح ہوا تھا، اور انھوں نے اس کے لئے حق مہر کی مقدار بھی لکھ دی ہے اور یہاں تک کہ اس نکاح سے دنیا میں آنے والے بچوں کا ذکر بھی کیا ہے۔[19]۔[20]

بعض علمائے شیعہ ـ منجملہ محمد تقی شوشتری نے کہا ہے کہ یہ رونما ہوا ہے[21] اور جن علماء نے اس نکاح کو قبول کیا ہے ان کا استدلال یہ ہے کہ امام صادقؑ نے فرمایا: "یہ پہلا نکاح ہے اسلام میں جو غصب ہوا ہے۔[22] یا یہ کہ امیرالمؤمنینؑ نے تقیّہ کی رو سے اپنے چچا کی وساطت سے یہ رشتہ قبول کیا ہے۔

سید مرتضی تزویج ام کلثوم کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: یہ نکاح امامؑ کے اختیار اور رغبت کے مطابق نہ تھا بلکہ درخواست مسلسل دہرائی گئی اور اس میں جبر کا عنصر بھی نمایاں ہوا؛ نوبت یہاں تک پہنچی کہ قریب تھا نزاع اور جھگڑا شروع ہوجائے۔[23]

نکاح کے مخالفین

آقا بزرگ تہرانی نے ان کتب کی فہرست دی ہے جو اس نکاح کے رد میں لکھی گئی ہیں۔ ان کتب میں سے بعض کے نام یہاں پیش کئے گئے ہیں:

  • "في تزويج أم كلثوم وبنات الرسول صلى اللہ عليہ وآلہ"، تألیف: شیخ مفید؛ مؤلف نے اپنی کتاب المسائل السرویہ میں دسواں مسئلہ (المسالہ العاشرة) نکاح ام کلثوم اور رسول اللہ(ص) کی بیٹیوں کے نکاح کے لئے مختص کردیا ہے اور کہا ہے کہ عمر سے ام کلثوم کا نکاح ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کا راوی زبیر بن بکار ہے جس کی وجہ شہرت امیرالمؤمنینؑ کے ساتھ عناد و خصومت ہے۔[24] کہا جاتا ہے کہ شیخ مفید نے پہلی بار اس موضوع پر (مذکورہ) ایک رسالہ تحریر کیا۔[25]
  • "افحام الاعداء والخصوم فی نفی عقد ام کلثوم"، تألیفِ ناصر حسین بن میر حامد حسین۔[26]
  • "تزویج ام کلثوم بنت امیرالمؤمنین وانکار وقوعہ (اِثباتُ عَدَمِہ)"، تالیف: شیخ محمدجواد بلاغی.[27]
  • "رد الخوارج فی جواب رد الشیعہ"، جو اردو میں تالیف ہوکر لاہور سے شائع ہوئی ہے۔[28]
  • "رسالہ فی تزویج عمر لأم کلثوم بنت علیؑ" تألیف شیخ سلیمان بن عبداللہ ماحوزی، انھوں نے شیخ مفید اور ابن شہر آشوب کی مانند نکاح کی اس روایت کو رد کردیا ہے۔[29]
  • "العجالہ المفحمہ في ابطال روايہ نکاح ام کلثوم" تألیف: سید مصطفی دلدار علی النقوی۔[30]
  • "کنز مکتوم فی حل عقد ام کلثوم"، تألیف: سید علی اظہر الہندی۔[31]
  • "العجالہ المفحمہ فی ابطال روایہ نکاح ام کلثوم"؛[71] تألیف: سید مصطفی بن سید محمد ہادی دلدار نقوی (متوفی 1323ہجری)، یہ ایک رسالہ ہے جس کی زبان فارسی ہے اور شائع بھی ہوا ہے۔[32]
  • "قول محتوم فی عقد ام کلثوم"؛ تألیف: سیدکرامت علی ہندی؛ یہ کتاب سنہ 1311 ہجری کو ہندوستان میں شائع ہوئی ہے۔[33]

معاصر علماء میں سے بھی بعض نے مختلف عناوین سے اس روایت کی تردید کی مثال کے طور پر سید علی میلانی نے دو عناوین کے تحت اس مسئلے کا تجزیہ کیا ہے: "تزویج ام کلثوم من عمر" اور "فی خبر تزویج ام کلثوم من عمر"۔

بعض علماء نے اس واقعے کو سرے سے مسترد کردیا ہے اور اس کا انکار کیا ہے؛ شیخ مفید نے المسائل العکبریہ میں نکاح ام کلثوم کو نقل کیا ہے[34] لیکن اپنی دوسری کتاب المسائل السرویہ میں اس کو رد کرتے ہوئے استدلال کیا ہے کہ تزویج ام کلثوم ثابت نہیں ہے کیونکہ متعلقہ روایت زبیر بن بکار سے منقول ہے جو متہَم ہے اور امیرالمؤمنینؑ کے ساتھ بغض کے حوالے سے مشہور ہوا ہے۔[35]

ابن شہرآشوب نے اپنے دلائل سے اس واقعے کا انکار کیا ہے اور پھر ابومحمد نوبختی کے حوالے سے لکھا ہے: نکاح ہوچکا اور چونکہ ام کلثوم چھوٹی تھیں لہذا عمر کو انتظار کرنا پڑا لیکن ان کے بڑے ہونے اور رخصت ہونے سے قبل ہی عمر کا انتقال ہوا۔[36]

ذبیح اللہ محلاتی لکھتے ہیں: تھوڑا سا غور و تامل کرکے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ نکاح سرے سے انجام ہی نہیں پایا ہے۔[37] بعض دیگر علماء نے اس نکاح کے نہ ہونے کے سلسلے میں اپنے ثبوت و مستندات بھی ذکر کئے ہیں۔[38]

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. رجوع کریں: ازدواج ام كلثوم با عمر و علت ازدواج ام کلثوم با عمر
  2. سید مرتضی، رسائل، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۱۴۹۔
  3. کلینی، کافی، ۱۳۶۳ش، ج۵، ص۳۴۶۔
  4. سنن بیہقی، ج7، ص64۔
  5. المصنف، ج6، ص164۔
  6. وسائل الشیعہ، ج20، ص38۔
  7. نہلہ غروی نائینی، محدثات شیعہ، ص102۔
  8. طبقات ابن سعد، ج8، ص463۔
  9. المصنف، ج6، ص163۔
  10. تاریخ طبری، ج4، ص270۔
  11. کافی، ج5، ص346
  12. کافی، ج6، ص114 و 115۔
  13. طبقات ابن سعد، ج8، ص463۔
  14. الاصابہ، ج8، ص464۔
  15. سیر اعلام النبلاء، ج3، ص501
  16. الاستیعاب، ج4، ص1955۔
  17. تذکرة الخواص، ص321۔
  18. طبقات ابن سعد، ج8، ص463۔
  19. تاریخ مدینہ دمشق، ج19، ص486۔
  20. طبقات ابن سعد، ج8، ص464۔
  21. قاموس الرجال، ج12، ص216۔
  22. کافی، ج5، ص346۔
  23. رسائل، ج3، ص149۔
  24. شیخ مفید، المسائل السرویة، ص86۔
  25. رجوع کریں: آقا بزرگ تہرانی، الذريعہ، ج11، ص146، ش912۔
  26. الذریعہ، ج2، ص257۔
  27. وہی ماخذ، ج4، ص172. ج11، ص146۔
  28. وہی ماخذ، ج10، ص175۔
  29. وہی ماخذ، ج11، ص146۔
  30. وہی ماخذ، ج15، ص223۔
  31. وہی ماخذ، ج18، ص168۔
  32. وہی ماخذ، ج15، ص223، 1460ہجری شمسی۔
  33. وہی ماخذ، ج17، ص214، ش1164۔
  34. المسائل العکبریہ، ص60۔
  35. المسائل السرویہ، ص86 و 87۔
  36. المناقب، ج3، ص189۔
  37. ریاحین الشریعہ، ج3، ص245۔
  38. انصاری زنجانی، الموسوعة الکبری عن فاطمة الزہراء، ج7، ص340- 354۔

مآخذ

  • بیہقی، احمد بن حسین، السنن الکبری، بی جا، دارالفکر، بی تا۔
  • صنعانی، عبدالرزاق، المصنف، تحقیق شیخ عبدالرحمن اعظمی۔
  • عاملی، محدبن الحسن الحر، وسائل الشیعہ الی تتحصیل مسائل الشریعہ، قم، آل البیت، 1414 ہـ۔
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر، بی تا۔
  • غروی نائینی، نہلہ، محدثات شیعہ، تہران، دانشگاہ تربیت مدرس، 1387 ش۔
  • طبری، محمدبن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، مؤسسہ الاعلمی، 1403 ہـ۔
  • ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، اسد الغابہ فی معرفہ الصحابہ، بیروت، دارالکتاب العربی، بی تا۔
  • ابن عبدالبر، احمد بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفہ الاصحاب، بیروت، دارالجیل، 1412 ہـ۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، بیروت، مؤسسہ الرسالہ، 1413 ہـ۔
  • ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرہ الخواص، قم، محمع جہانی اہلبیت، 1426 ہـ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1363 ش۔
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، بیروت، دارالفکر، 1415 ہـ۔
  • شوشتری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، جامعہ مدرسین، 1419 ہـ۔
  • علم الہدی، سید مرتضی، رسائل، قم، دارالقرآن، 1405 ہـ۔
  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء، 1403 ہـ۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المسائل العکبریہ، بیروت، دارالمفید، 1414 ہـ۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المسائل السرویہ، تحقیق صائب عبدالحمید، بیروت، دارالمفید، 1414 ہـ۔
  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، نجف، المطبعہ الحیدریہ، 1376 ہـ۔
  • محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعہ، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1368 ش۔
  • انصاری زنجانی، اسماعیل، الموسوعة الکبری عن فاطمة الزہراء، قم، دلیل ما، 1428 ہـ۔