الکنی و الالقاب (کتاب)
مشخصات | |
---|---|
مصنف | شیخ عباس قمی |
سنہ تصنیف | ۱۳۵۷ھ |
موضوع | علما و مشاہیر کا تذکرہ |
زبان | عربی |
تعداد جلد | 3 |
ترجمہ | مشاہیر دانشمندان اسلام (فارسی) |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | کتابخانہ صدر، تہران |
سنہ اشاعت | ۱۳۹۷ھ |
الکنیٰ و الالقاب عربی زبان میں تین جلدوں پر مشتمل ایک کتاب ہے جس کے مولف شیخ عباس قمی (متوفی ۱۳۵۹ھ) ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں بہت سے مشہور شیعہ و سنی علما، شعرا، ادبا اور معروف حاکموں کو متعارف کروایا ہے۔ شیخ عباس قمی نے اس کتاب میں جہاں افراد کا تعارف پیش کیا ہے وہیں ادبی، اخلاقی و علمی نکات نیز اشعار اور لطائف کو بھی پیش کیا ہے۔ اس کتاب کا فارسی زبان میں مشاہیر دانشمندان اسلام کے نام سے ترجمہ ہوا ہے اور اس سے متعلق کچھ تحقیقات بھی انجام پائی ہیں۔
مولف کا تعارف
عباس ابن محمد رضا قمی (۱۲۹۴۔۱۳۵۹ ھ) جو شیخ عباس قمی اور محدث قمی کے نام سے معروف ہیں اور ان کا شمار چودھویں صدی ہجری کے معروف شیعہ علما میں ہوتا ہے، اس کتاب کے مولف ہیں۔ وہ ایک محدث، مورخ اور خطیب تھے۔ مفاتیح الجنان، سفینۃ البحار اور منتہی الآمال ان کی مشہور کتابیں ہیں۔ محدث قمی کا انتقال ۱۳۵۹ میں نجف اشرف میں ہوا اور حضرت علی ابن ابی طالبؑ کے حرم میں آپ کو دفن کیا گیا۔
مولف کا طرز نگارش
جیسا کہ خود محدث قمی نے الکنی و الالقاب کے مقدمہ میں صراحت کی ہے کہ اس کتاب میں ان شیعہ اور سنی علما، شعرا، ادبا اور امرا کے حالات زندگی کو پیش کیا گیا ہے جس کسی لقب یا کنیت سے مشہور تھے۔ نیز اہم علمی نکات، افراد کے صحیح نام اور فارسی اشعار پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور ان افراد کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو نام سے مشہور تھے۔ [1] اس کتاب پر محمد ہادی امینی نے جو تحقیق کی ہے اس کے مقدمہ کے مطابق، شیخ عباس قمی نے اس کتاب میں ۲۳۵ مآخذ سے استفاد کیا ہے۔ [2]
تاریخ نگارش اور مضامین
شیخ عباس قمی نے الکنیٰ و الالقاب کو ۱۳۵۷ ہجری میں بعلبک میں اپنی وفات سے دو سال پہلے لکھا ہے۔ [3] آیت اللہ شبیری زنجانی کے مطالق اس کتاب کے کاتب میرزا محمد علی اردوبادی تھے۔ اردو بادی نے کتاب کے مضامین کو اپنے ہاتھ سے لکھا ہے لیکن اس شرط پر کہ ان کا نام ذکر نہ کیا جائے۔ [4] اس کتاب میں ۱۵۳۸ افراد کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ کتاب تین مندرجہ ذیل ابواب پر مشتمل ہے:
- باب اول : ان افراد کا تذکرہ جن کی کنیت ’’اب‘‘ سے شروع ہوتی ہے (۱۹۸ افراد)
- باب دوم : ان افراد کا تذکرہ جن کی کنیت ’’ابن‘‘ سے شروع ہوتی ہے (۵۳۰ افراد)
- باب سوم : ان افراد کا تذکرہ جن ذکر ’’نسب اور لقب‘‘ سے ہوا ہے۔ (۸۱۰) [5]
کتاب کے اشارے
مولف نے کتاب میں بعض جگہوں پر کتاب کا پورا نام لکھنے کے بجائے صرف رمز کے طور پر کسی ایک حرف تہجی کے ذریعہ اشارہ کیا ہے جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
- ض: (ریاض العلماء تالیف میرزا عبداللہ افندی)
- ق: (قاموس المحیط تالیف مجدالدین فیروز ابادی)
- جش: (رجال النجاشی تالیف احمد بن علی نجاشی)
- جع: (جامع الرواة تالیف محمد بن علی اردبیلی)
- ست: (الفہرست تالیف شیخ طوسی)
- سف: (سفینۃ البحار تالیف محدث قمی)
- صه: (خلاصۃ الاقوال تالیف علامه حلی)
- ضا: (روضات الجنات تالیف سید محمد باقر خوانساری)
- عس: (تاریخ الشام تالیف ابن عساکر دمشقی)
- قب: (المناقب تالیف ابن شہر آشوب)
- کا: (وفیات الاعیان تالیف ابن خلکان)
- کش: (رجال الکشی تالیف محمد بن عمر الکشی)
- ما: (الاَمالی تالیف شیخ طوسی)
- مس: (مجالس المؤمنین تالیف قاضی نوراللہ تستری)
- مل: (أمل الآمل تالیف شیخ حرعاملی)
- یب: (تہذیب الاحکام تالیف شیخ طوسی)
- عین: (اعیان الیشعہ تالیف سید محسن امین)۔ [6]
ترجمہ اور طباعت
’’مشاہیر دانشمندان اسلام‘‘ اس کتاب کا فارسی ترجمہ ہے جسے محمد جواد نجفی، باقر کمرہ ای اور محمد شریف رازی نے انجام دیا ہے۔ اور ۱۳۵۰ شمسی میں تہران کی کتاب فروشی اسلامیہ نے اسے زیور طبع سے آراستہ کیا ہے۔ [7] کربلا کے ایک عالم سید محمد رضا حسینی اعرجی (متوفی ۱۳۷۹ ش) نے اس کتاب پر ایک تتمہ بھی لکھا ہے جس کا نام انہوں نے ’’بقایا الاطیاب فی تتمۃ الکنی و الالقاب‘‘ رکھا ہے یا اس کا ایک نام ’’حدائق الشریعہ فی تراجم علماء الشیعہ‘‘بھی ہے۔ انہوں نے صرف شیعہ علما کا تذکرہ کیا ہے اور اس میں کنیت اور القاب کی کوئی رعایت نہیں کی ہے۔ اس کتاب کا تصویری نسخہ مرکز احیای تراث اسلامی میں محفوظ ہے۔ [8]
حوالہ جات
مآخذ
- کنگره بزرگداشت، محدث ربانی، نور مطاف، قم، ۱۳۸۹ش۔
- قمى، عباس، الكنى و الالقاب، تہران، مكتبہ صدر۔ ۱۳۹۷ھ۔
- شبیری زنجانی، سید موسی، جرعہ ای از دریا، قم، مؤسسہ کتاب شناسی شیعہ، ۱۳۹۴ش۔