مسجد کوفہ

ویکی شیعہ سے
مسجد کوفہ
ابتدائی معلومات
بانیحضرت آدم ؑ
استعمالمسجد • مقام ضربت امام علی ؑ • مراقد
محل وقوعکوفہ، عراق
مشخصات
سہولیاتمراقد مسلم بن عقیل، ہانی بن عروہ و مختار ثقفی
معماری


مسجد جامع کوفہ، عالم اسلام کی عظیم مساجد میں سے ہے۔ شیعیان اہل بیتؑ کے مطابق یہ مسجد الحرام، مسجد النبیؐ اور مسجد الاقصی کے بعد چوتھی اہم مسجد ہے جو عراق کے زیارتی شہر کوفہ کے قدیم ترین اور اہم ترین آثار میں سے ہے۔ بعض روایات کے مطابق سب سے پہلے حضرت آدمؑ نے مسجد کوفہ کی بنیاد رکھی اور اس کو وسیع قطعۂ زمین پر تعمیر کیا اور حضرت نوحؑ نے طوفان کے بعد اس کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔

سنہ 17 ہجری قمری میں مسلمانوں نے کوفہ کا رخ کیا تو سعد بن ابی وقاص نے دارالامارہ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ سلمان فارسی کی تجویز پر اس مسجد کی تعمیر کا دوبارہ اہتمام کیا۔

انسانی تاریخ کے آغاز سے متعدد انبیائے الہی، پیغمبر اسلامؐ، امیر المؤمنین علیہ السلام، امام حسنؑ اور امام حسینؑ اور بعض دوسرے ائمہؑ اس مسجد میں حاضر ہوئے ہیں۔

سنہ 36 ہجری میں امام علی علیہ السلام یہاں آئے تو اس مسجد کی اہمیت اور اس کی طرف توجہ میں زبردست اضافہ ہوا۔ امیرالمؤمنینؑ نے بارہا اس مسجد میں نماز کے لئے قیام کیا، اس کے منبر پر خطبے دیئے، بعض امور میں فیصلے کئے اور نظام حکومت کا انتظام و اہتمام کیا اور آخر کار اس کی محراب میں جام شہادت نوش فرمایا۔

مسجد کوفہ کے قریب، میثم تمار کا مقبرہ، امیرالمؤمنینؑ کا گھر، مسلم بن عقیل، ہانی بن عروہ و مختار ثقفی کے مراقد اور کوفہ کا دارامارہ، واقع ہیں۔ اس مسجد میں متعدد مقامات ہیں اور ان میں سے بہت سے مقامات پر مسجد کے معنوی اور روحانی اعمال انجام پاتے ہیں۔

اس مسجد کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ مسافرین مسجد الحرام، مسجد النبیؐ اور حرم امام حسینؑ کے ساتھ ساتھ اس میں بھی نماز پوری یا قصر پڑھ سکتے ہیں۔ مسجد کوفہ کی فضیلت میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں جن کے مطابق مسجد کوفہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔ جو شخص اس مسجد میں داخل ہوجائے وہ مغفور لہ (بخشا ہوا) ہے۔ شہر کوفہ امام زمانہ(عج) کا دارالخلافہ اور مسجد کوفہ آپ(عج) کی حکمرانی و فرمانروائی کا مرکز ہے۔

شہر کوفہ

مفصل مضمون: کوفہ

کوفہ عراق کے شہروں میں سے ایک ہے جو اس ملک کے جنوب میں نجف اشرف سے 10 کلومیٹر دور شمال مشرق میں واقع ہے۔ یہ شہر دریائے فرات کے کنارے بنایا گیا ہے، کوفہ کی آب و ہوا معتدل ہے اور ماضی بعید سے ایک سرسبز و شاداب ہے۔

اس شہر کی [آخری بار] تعمیر سے صدیوں قبل یہاں مختلف قومیں زندگی بسر کرتی رہی ہیں؛ روایات میں ہے کہ طوفان نوح کا آغاز اسی شہر سے ہوا۔

کوفہ ابتداء میں سورستان کہلاتا تھا۔ سنہ 17 ہجری قمری میں، بصرہ کی بنیاد رکھے جانے کے چند ماہ بعد، سعد بن ابی وقاص نے عمر کے حکم پر اس شہر کو آباد کیا تاکہ یہ فتوحات کے زمانے میں جنگجؤوں اور عسکری دستوں کا مسکن ہو اور وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اس شہر میں قیام کریں۔

کوفہ ابتداء میں مختلف محلوں میں تقسیم ہوا تھا اور ہر محلہ ایک قبیلے کے پاس ہوتا تھا لیکن یہ شہر زیادہ تر ایک فوجی چھاؤنی سے شباہت رکھتا تھا اور اس کے گھر پیال اور چٹائیوں کے بنے ہوئے تھے۔

کچھ عرصہ بعد ایک بڑی آتش زدگی میں یہ تمام گھر جل کر راکھ ہوئے اور اینٹوں کے گھروں نے پرانے گھروں کی جگہ لی۔ یہ شہر مختصر سے عرصے میں اہم اسلامی شہروں میں تبدیل ہوا اور اس کو بہت سے حوادث و وقائع دیکھنے پڑے۔ مسجد کوفہ بھی ـ جس میں امیرالمؤمنینؑ شہید ہوئے تھے ـ اسی دور میں تعمیر ہوئی۔

اس مسجد کا رقبہ اس قدر زیادہ تھا کہ اس میں کوفہ میں مقیم تمام جنگجؤوں کی گنجائش تھی۔

کوفہ امیرالمؤمنینؑ کے دور میں

امیرالمؤمنینؑ نے خلافت سنبھالی تو آپؑ نے کوفہ کو اسلامی حکومت کا دارالخلافہ قرار دیا اور باوجود اس کے کہ امام حسن علیہ السلام کے بعد کبھی بھی دارالخلافہ نہ رہا لیکن اس کی اہمیت بحال رہی اور عرصہ دراز تک عالم اسلام کے اہم علمی، فنی ـ بالخصوص فقہی اور ادبی ـ مراکز میں شمار ہوتا رہا۔

تاہم نجف اشرف کو ترقی، توسیع اور اہمیت ملی تو اس کی رونق میں رفتہ رفتہ کمی آئی۔ آج کوفہ نجف کے قریب ایک چھوٹا سا شہر ہے اور اس کی ابتدائی رونق نظر نہیں آتی۔[1]

شہر کوفہ کی فضیلت

قرآن کی نگاہ میں

شہر کوفہ کی فضیلت کے بارے میں قرآن کریم میں بعض آیات نازل ہوئی ہیں؛ منجملہ سورہ تین کی پہلی 3 آیات، جہاں ارشاد ہوتا ہے: وَالتِّینِ وَالزَّیتُونِ (1) وَطُورِ سِینِینَ (2) وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِینِ (3)[؟؟]
ترجمہ: قسم ہے انجیر اور زیتون کی (1) اور طور سینا (2) اور امن وامان والے شہر مکہ کی (3)؛ رسول اللہؐ سے منقولہ حدیث کے مطابق ان آیات میں "تین" سے مراد مدینہ، "زیتون" سے مراد بیت المقدس، "طور سینین" سے مراد "کوفہ" اور "هَذَا الْبَلَدِ الْأَمِینِ" سے مراد مکہ ہے۔[2]

حدیث کی نگاہ میں

قرآن کی آیات کریمہ کے علاوہ رسول اللہؐ اور ائمۂ معصومینؑ سے مروی احادیث میں بھی شہر کوفہ کی فضیلت اور مدح بیان ہوئی ہے؛ جیسے "کوفہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے"، "حضرت نوحؑ سمیت 370 انبیاء اور سید الاوصیاء امام علیؑ سمیت 600 اوصیاء کی قبریں اس شہر میں واقع ہیں۔[3]

مسجد کوفہ

مسجد کوفہ

شہر کوفہ کا ای قدیم ترین اور اہم ترین زیارتی اثر "مسجد کوفہ" ہے۔ کوفہ کی جامع مسجد مسجد الحرام، مسجد النبیؐ اور مسجد الاقصی کے بعد عالم اسلام کی چوتھی بڑی مسجد ہے۔

مسجد کوفہ کی لمبائی 110 میٹر اور چوڑائی 101 میٹر جبکہ اس کا رقبہ 11110 میٹر (اور بقولے 11162 میٹر) مربع ہے اور اس کو 10 میٹر اونچی دیواروں سے محفوظ بنائی گئی ہے۔ مسجد کی کھلی فضا کا رقبہ 5642 میٹر مربع اور اس کے شبستانوں کا رقبہ 5520 میٹر مربع ہے۔ اس مسجد کے ستونوں کی تعداد 187 اور میناروں کی تعداد 4 ہے جن کی اونچائی 30 میٹر ہے۔ مسجد کوفہ کے دروازے 5 ہیں؛ جو "باب الحجہ (باب الرئیسی)، باب الثعبان، باب الرحمہ، باب مسلم ابن عقیل اور باب ہانی بن عروہ" ہے۔[4]

مسجد کوفہ کی تاریخ

مسجد کوفہ کی تاسیس ـاحادیث کے مطابق ـ حضرت آدمؑ نے کی ہے:[5] اور بعد ازاں حضرت نوحؑ نے طوفان کے بعد اس کی تعمیر نو کی۔[6]

سنہ 17 ہجری قمری میں لشکر اسلام مدائن میں موجود تھا۔ مدائن کی آب و ہوا حجاز سے آئے ہوئے فوجیوں کے لئے تکلیف دہ تھی؛ یہاں تک کہ ان کے جسم ضعیف و لاغر ہوچکے تھے۔ حذیفہ بن یمان نے یہ حال دیکھا تو عمر بن خطاب کو خط لکھا اور انہیں صورت حال سے آگاہ کیا۔ خلیفہ نے سعید بن وقاص کے نام اپنے خط میں لکھا: "سلمان فارسی اور حذیفہ کو روانہ کرو تا کہ وہ مناسب سرزمین کا سراغ لگائیں"۔ خط وصول ہونے کے بعد سلمان اور حذیفہ روانہ ہوگئے۔ سلمان دریائے فرات کے مغربی ساحل پر اور حذیفہ مشرقی ساحل پر اور انہیں کوئی بھی سرزمین پسند نہ آئی حتی کہ دونوں سرزمین کوفہ پہنچے۔ دونوں نے اس سرزمین کو لشکر کے قیام کے لئے مناسب پایا۔ دونوں نے دو دو رکعت نماز پڑھی اور اللہ سے التجا کی کہ اس سرزمین کو سکون اور استقامت کا مقام قرار دے۔[7] جب سعد بن ابی وقاص مسلمانوں کے لشکر کے ہمراہ کوفہ پہنچے تو حکم دیا کہ ہر عمارت کی تعمیر سے قبل مسجد بنائیں۔ ابو ہیجاء اسدى[8] ایک مقام پر کھڑا ہوا اور ہر سمت ایک تیر پھینکا اور یوں مسجد کوفہ کی حدود کا تعین ہوا۔[9]

مسجد کوفہ میں بزرگوں کی حاضری

تاریخ کے مختلف مراحل میں متعدد انبیائے الہی، پیغمبر اسلامؐ، امیر المؤمنین علیہ السلام، امام حسنؑ اور امام حسینؑ اور بعض دوسرے ائمہؑ اس مسجد میں حاضر ہوئے اور سنہ 36 ہجری میں امام علی علیہ السلام یہاں آئے تو اس مسجد کی اہمیت اور اس کی طرف توجہ میں زبردست اضافہ ہوا۔ امیرالمؤمنینؑ نے بارہا اس مسجد میں نماز کے لئے قیام کیا ہے اور اس کے منبر پر خطبے دیئے اور بعض امور میں فیصلے کئے اور نظام حکومت کا انتظام و اہتمام کیا ہے اور آخر کار اس کی محراب میں جام شہادت نوش کرگئے ہیں۔

مسجد کوفہ میں تعلیم و تربیت

مسجد کوفہ اپنی تاسیس [یا تجدید] سے ہی شہر کا ایک علمی و ثقافتی مرکز سمجھی جاتی تھی۔ سنہ 36 ہجری قمری میں امام علی علیہ السلام کوفہ آئے تو سب سے پہلے مسجد میں حاضر ہوئے اور وہاں لوگوں سے خطاب کیا۔ امامؑ کوفہ میں مقیم ہونے کے بعد مسجد کوفہ میں تفسیر قرآن اور دیگر علوم کی تدریس کیا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عباس اور کمیل بن زیاد جیسے بہت سے شاگردوں نے آپؑ سے فیض حاصل کیا۔[10]

مسجد کوفہ کی فضیلتیں

  1. جامع مسجد کی فضیلتیں:
    اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں: امیرالمؤمنینؑ نے کوفہ کے لوگوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: "خداوند متعال نے تمہیں ایسی چیز عطا کی ہے جو اس نے دوسروں کو نہیں دی ہے، خدا نے تمہاری اس نماز گاہ (مصلّٰی) کو خاص قسم کی برتری بخشی۔ یہ (مسجد کوفہ) آدمؑ کا گھر، نوحؑ کا مقام، ادریسؑ کی منزل اور ابراہیمؑ اور میرے بھائی خضر کی مصلّٰی اور میری نمازگاہ ہے۔ تمہاری مسجد ان چار مسجدوں میں سے ہے جن کو اللہ نے ان کے اہل کے لئے منتخب کیا ہے۔ گویا میں اس کو دیکھ رہا ہوں کہ کل روز قیامت دو سفید کپڑوں میں میدان حشر میں وارد ہوتی ہے اور ان لوگوں کی شفاعت کرتی ہے جنہوں نے اس میں نماز پڑھی ہے اور اس کی شفاعت خدا کی جانب سے ردّ نہیں ہوگی۔ مستقبل میں حجر الاسود اس میں نصب ہوگا۔ وہ وقت جلد آنے والا ہے جب یہ مسجد میرے فرزند مہدی(عج) کی مصلّٰی قرار پائے گی اور ہر مؤمن کا مقام نماز ہوگی۔ روئے زمین پر ایسا کوئی مؤمن نہیں ہے جو اس مسجد میں داخل ہوجائے اور اس کی محبت اس کے دل میں گھر نہ کردے۔ ایسا نہ ہو کہ تم اس کو تنہا اور خالی چھوڑ دو! اس میں نماز پڑھو اور اللہ کا قرب حاصل کرو اور اپنے حوائج خدا سے مانگو۔ اگر لوگ اس مسجد کے فضائل کی خبر رکھتے تو دنیا کے گوشے گوشے سے اس کی طرف دوڑ کر آتے؛ خواہ انہیں برف پر رینگ رینگ کر کیوں نہ آنا پڑتا"۔[11]۔[12]
  1. بہشتی قصر:
    بعض روایات میں مسجد کوفہ کو "جنت کا ایک قصر" قرار دیا گیا ہے۔ امام علیؑ نے فرمایا:

"أَرْبَعَةٌ مِنْ قُصُورِ الْجَنَّةِ فِی الدُّنْیا: الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ، وَمَسْجِدُ الرَّسُولِ ؐ، وَمَسْجِدُ بَیتِ الْمَقْدِسِ، وَمَسْجِدُ الْکوفَةِ"
ترجمہ: جنت کے چار قصور دنیا میں ہیں: مسجد حرام، مسجد رسولؐ، بیت المقدس کی مسجد اور مسجد کوفہ۔[13]۔[14]

  1. فرشتوں کی سجدہ گاہ": روایات میں ہے کہ حضرت آدم سے قبل فرشتے اس مقام مقدس پر عبادت کرتے تھے۔ امام علیؑ فرماتے ہیں:
    "أَوَّلُ بُقْعَة عُبِدَ اللهُ عَلَیهَا، ظَهْرُ الْکوفَةِ لَمَّا أَمَرَ اللَّهُ الْمَلائِکةَ أَنْ یسْجُدُوا لآِدَمَ، سَجَدُوا عَلَى ظَهْرِ الْکوفَةِ، وَ إِنَّ الْمَلائِکةَ لَتَنزلُ فِی کلِّ لَیلَة إِلى مَسْجِد الْکوفَةِ"
    ترجمہ: پہلا مقام جہاں اللہ کی عبادت و بندگی کی گئی، کوفہ ہے جب خداوند متعال نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کو سجدہ کریں تو انھوں نے کوفہ کی سرزمین پر سجدہ کیا اور بتحقیق کہ فرشتے ہر رات مسجد کوفہ میں نازل ہوتے ہیں۔[15]
    مسجد کوفہ خدا کے ہاں اس قدر بلند منزلت سے بہرہ ور ہے کہ اگر کوئی اس میں داخل ہوجائے تو اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ امام رضاؑ نے ایک شخص سے پوچھا کہ "کہاں رہتے ہو؟"، شخص نے جواب دیا کہ "کوفہ میں"؛ تو امامؑ نے مسجد کوفہ کی فضیلت کے بارے میں فرمایا:
    "فَإِنَّ مَسْجِدَ الْکوفَةِ بَیتُ نُوح، لَوْ دَخَلَهُ رَجُلٌ مِائَةَ مَرَّة لَکتَبَ اللَّهُ لَهُ مِائَةَ مَغْفِرَة، أَ مَا إِنَّ فِیهِ دَعْوَةَ نُوح علیه السلام، حَیثُ قَالَ: «رَبِّ اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَی وَلِمَن دَخَلَ بَیتِی مُؤْمِناً»" [16]
    ترجمہ: پس بتحقیق مسجد کوفہ نوح کا گھر ہے، اگر ایک شخص 100 مرتبہ اس مسجد میں داخل ہوجائے اللہ تعالی اس کے لئے 100 مغفرتیں لکھتا ہے؛ کیا اس میں نوح علیہ السلام نے دعا نہیں کی تھی جب انھوں نے التجا کی: "اے میرے مالک مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور جو میرے گھر میں ایمان رکھتے ہوئے داخل ہو"۔[17]
  2. پیغمبروں کا مصلّٰی: ابو بصیر روایت کرتے ہیں کہ امام صادقؑ نے مسجد کوفہ کے بارے میں فرمایا:
    "نِعْمَ الْمَسْجِدُ، مَسْجِدُ الْکوفَةِ، صَلَّى فِیهِ أَلْفُ نَبِی وَ أَلْفُ وَصِی وَمِنْهُ فَارَ التَّنُّورُ وَفِیهِ نُجِرَتِ السَّفِینَةُ، مَیمَنَتُهُ رِضْوَانُ اللَّهِ وَوَسَطُهُ رَوْضَةٌ مِنْ رِیاضِ الْجَنَّةِ وَمَیسَرَتُهُ مَکرٌ"
    ترجمہ: بہترین مسجد ہے مسجد کوفہ، جہاں ایک 1000 انبیاء اور 1000 اوصیاء نے نماز پڑھی، اسی سے تنور ابلا اور اسی میں کشتی بنائی گئی؛ اس کا دایاں حصہ اللہ کا رضوان ہے، اس کا وسطی حصہ جنت کے باغوں میں سے ہے اور اس کا مرکزی حصہ مکر ہے.[18]۔[19]
  3. نماز مسجد کوفہ میں مکمل ہے:
    انسان جب کسی علاقے اور مقام کی طرف سفر کرتا ہے اور 10 دن اقامت کا ارادہ نہیں کرتا اس کی نماز قصر ہے سوائے چار مقامات کے، جنہیں مستثنٰی کیا گیا ہے؛ جیسا کہ امام صادقؑ نے فرمایا:
    "تَتِمُّ الصَّلاةُ فِی أَرْبَعَةِ مَوَاطِنَ: فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صلى الله علیه وآله وَمَسْجِدِ الْکوفَةِ وَ حَرَمِ الْحُسَینِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَیهِ"
    ترجمہ: چار مقامات پر نماز مکمل پڑھی جاتی ہے: مسجد الحرام، مسجد النبیؐ، مسجد کوفہ اور حرم حسین صلوات اللہ علیہ۔[20]۔[21]
  4. اس میں نماز حج کے برابر ہے:
    امام باقرؑ مسجد کوفہ میں نماز کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ مسجد کوفہ کیا فضیلت رکھتی ہے تو دور دراز کے علاقوں سے اس کی طرف آتے، بےشک اس میں واجب نماز حج کے برابر ہے اور نافلہ عمرہ کے برابر ہے۔[22]
نیز امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں:
"النَّافِلَةُ فِی هَذَا الْمَسْجِدِ تَعْدِلُ عُمْرَةً مَعَ النَّبِی صلى الله علیه وآله وَالْفَرِیضَةُ تَعْدِلُ حَجَّةً مَعَ النَّبِی صلى الله علیه وآله"
ترجمہ: اس مسجد (= مسجد کوفہ) میں نافلہ (= مستحب نماز) رسول اللہؐ کے ہمراہ عمرہ، کے برابر اور واجب نماز رسول اللہؐ کے ہمراہ حج کے برابر ہے۔[23]۔[24]

  1. تمام مساجد سے برتر:
    امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ اس مسجد کوفہ میں ایک نماز دوسری مساجد میں 1000 نمازوں کے برابر ہے؛
    نیز امام رضاؑ اس مقام پر نماز کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    "اگر لوگ جانتے کہ مسجد کوفہ کتنی فضیلت کی حامل ہے تو دور دراز کے علاقوں سے اس کی طرف سفر کرتے، بےشک اس مسجد میں واجب نماز حج کے برابر اور نافلہ عمرہ کے برابر ہے"۔ نیز امام صادقؑ فرماتے ہیں: "الصَّلاةُ فِی مَسْجِدِ الْکوفَةِ فُرادى أَفْضَلُ مِنْ سَبْعِینَ صَلاةً فِی غَیرِ جَمَاعَة"
    ترجمہ: مسجد کوفہ میں فرادٰی نماز [دوسرے مقامات پر] 70 فرادٰی نمازوں سے افضل ہے۔[25]۔[26]
  2. امیرالمؤمنینؑ کا حرم: جس طرح کہ [[مسجد الحرام (کعبہ) اللہ کا حرم امن ہے اور کربلا میں حائر واقع ہوا ہے، مدینہ کی بھی حدود اور حریم، ہیں، مسجد کوفہ کی بھی حدود اور حریم، ہیں۔ علامہ مجلسی بحار الانوار میں سند کے ساتھ، روایت کرتے ہیں کہ امام صادقؑ فرماتے ہیں: ... مکہ خدا کا حرم ہے، مدینہ حضرت محمدؐ کا حرم ہے اور کوفہ حضرت علیؑ کا حرم ہے اور امیرالمؤمنینؑ نے کوفہ کی اتنی ہی حدود کو حرم قرار دیا جتنی کہ حضرت ابراہیمؑ نے مکہ کے لئے اور حضرت محمدؐ نے مدینہ کے لئے حرم قرار دی تھیں۔[27]
  3. انبیائے الہی کا مقام عبور: جس طرح کہ متعدد پیغمبر کربلا سے گذرے ہیں نیز جس طرح کہ انبیائے الہی اور اور ان کے اوصیاء کربلا اور مسجد الحرام میں مدفون ہوئے ہیں، بہت سے انبیاء نے کوفہ اور اس کی مسجد میں نماز ادا کی ہے اور 370 پیغمبر اور 600 اوصیاء کوفہ میں مدفون ہیں۔
  4. امام زمانہ(عج) کی حکومت کا مرکز: چونکہ مسجد کوفہ اور شہر کوفہ کو خاص قسم کا تقدس حاصل ہے اور مسجد کوفہ پر خداوند متعال، انبیاء اور فرشتوں کی خاص توجہ اور عنایت کی بنا پر، ـ نیز یہ کہ شہر کوفہ احادیث کے مطابق امام زمانہ(عج) کا دارالخلافہ اور مسجد کوفہ آپ(عج) کے فوجی امراء کا مرکز ہے، اور چونکہ [[حضرت آدم علیہ السلام|حضرت آدمؑ نے اس مسجد کو بہت وسیع بنایا تھا ـ ظاہر یوں ہوتا ہے کہ خداوند تبارک و تعالی نے امام زمانہ(عج) کے ظہور کے پیش نظر، اس علاقے کو پہلے ہی سے آپ(عج) کی عالمی حکومت کے لئے مہیا فرمایا ہے اور مسجد کوفہ امام زمانہ(عج) کا مقام نماز ہوگی۔
  5. مسجد کوفہ حضرب خضر کی قیام گاہ۔
  6. نفخ صور کا مقام:
    اسی مقام پر اسرافیل صور میں پھونکیں گے تا کہ مردے زندہ ہوجائیں۔[28]
  7. حضرت نوح علیہ السلام کی منزل۔
  8. اس مقام سے 70000 افراد محشور ہونگے اور حساب و کتاب کے بغیر جنت میں داخل ہونگے۔[29]
  9. مسجد کوفہ میں بغیر تلاوت کے بیٹھنا بھی عبادت ہے۔[30]

مسجد کوفہ کے مقامات

مسجد کوفہ کے مقامات کا نقشہ

لوگوں کے علم اور اقوال کے مطابق مسجد کوفہ میں بعض مقامات معلوم اور مشہور ہیں جو حسب ذیل ہیں:

  1. رُحبۂ امیرالمؤمنین:
    یہ مسجد کوفہ کے اگلے حصے میں ایک مقام کا نام ہے جہاں ایک چبوترہ ہے جہاں امیرالمؤمنینؑ نماز سے قبل یا دیگر اوقات میں بیٹھتے تھے اور لوگوں کے سوالات کا جواب دیتے تھے۔ بعض احادیث اس موضوع کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔[31]
  2. دکۃ القضاء:
    یہ وہ مقام ہے جہاں امیرالمؤمنینؑ بیٹھ کر فیصلے سناتے تھے؛ اس مقام پر ایک چھوٹا سا ستون تھا جس پر لکھا تھا: "إِنَّ اللّهَ یأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِیتَاء ذِی الْقُرْبَى وَینْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکرِ وَالْبَغْی..."
    ترجمہ: بلاشبہ اللہ عدالت، حسن سلوک اور صاحبان قرابت کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے شرمی، برائی اور ظلم و تعدی سے منع کرتا ہے..۔[32]۔[33]
  3. بیت الطشت:
    یہ وہ مقام ہے جہاں امام علیؑ کا ایک معجزہ رونما ہوا ہے۔[34]
  4. مقام حضرت آدمؑ:
    مسجد کوفہ کا ساتواں ستون "مقام حضرت آدمؑ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں خداوند متعال نے حضرت آدمؑ کی توبہ قبول فرمائی ہے۔[35] نیز امیرالمؤمنینؑ اس ستون کے قریب نماز پڑھتے تھے چنانچہ مقام امیرالمؤمنین کے نام سے بھی معروف ہے۔
  5. مقام حضرت ابراہیمؑ:
    مسجد کا چوتھا ستون ستون ـ جو باب انماط کے قریب واقع ہے ـ وہ مقام ہے جہاں حضرت ابراہیمؑ نے نماز پڑھی ہے۔[36]
  6. مقام جبرئیل:
    پانچواں ستون حضرت جبرائیل سے منسوب ہے۔ شب معراج جب رسول اللہؐ مسجد الحرام سے مسجد الاقصی کی طرف جارہے تھے، جب سرزمین کوفہ میں پہنچے تو جبرائیل نے عرض کیا کہ "اے رسول خداؐ! اب آپ مسجد کوفہ کے سامنے ہیں۔ رسول اللہؐ نے خداوند متعال کی اجازت سے وہاں دو رکعت نماز پڑھی۔[37]۔[38] نیز امام حسنؑ اس مقام پر نماز بجا لایا کرتے تھے چنانچہ یہ مقام، مقام مقام امام حسنؑ کے نام سے بھی مشہور ہے۔[39]۔[40]
  7. مقام حضرت امام زین العابدین ؑ:
    تیسرا ستور وہ مقام ہے جہاں امام سجادؑ نے نماز پڑھی ہے۔ ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں: "میں نے دیکھا کہ علی بن الحسینؑ مسجد کوفہ میں داخل ہوئے اور دو رکعت نماز بجا لانے کے بعد سر دعا کے لئے اٹھایا، تھوڑی دیر کے بعد مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپؑ سے پوچھا گیا: "آپ یہاں کس لئے آئے، جہاں آپ کے والد اور دادا کو قتل کیا گیا؟"، تو آپؑ نے فرمایا: "میں نے اپنے والد کی زیارت کی اور اس مسجد میں نماز پڑھی۔[41]
مسجد کوفہ میں مقام ضربت حضرت امیر ؑ
  1. محراب امیر المؤمنینؑ:
    یہ وہ مقام ہے جہاں ابن ملجم مرادی نے امیرالمؤمنینؑ کو مجروح اور شہید کیا۔
  2. مقام امام صادقؑ:
    راوی کہتا ہے: "بنو عباس کے دور میں، ایک دن میں نے دیکھا کہ امام صادقؑ باب الفیل سے داخل ہوئے اور چوتھے ستون کے قریب کھڑے ہوکر نماز پڑھی۔[42]
  3. مقام حضرت خضرؑ
  4. کشتی نوحؑ کے خشکی پر اترنے کا مقام

مسجد کوفہ کے اعمال

مفصل مضمون: مسجد کوفہ کے اعمال مسجد کوفہ کے لئے بعض اعمال وارد ہوئے ہیں منجملہ: زیارت، نماز اور مخصوص [[دعا|دعائیں؛ جو مسجد کوفہ کے اعمال مخصوصہ میں وارد مذکور ہیں۔

مسجد کوفہ میں مدفون شخصیات

آستانۂ مسلم بن عقیل

مسلم بن عقیل کے گنبد کا عکس

مسلم اور ہانی کی شہادت کے بعد قبیلۂ مذحج نے ابن زیاد کی اجازت سے ان دو کی میتوں کو دارالامارہ کے قریب دفنا دیا؛ شاید اس مقام کو اس لئے ان کی تدفین کے لئے منتخب کیا کہ ان کی قبروں پر حکومت کی نگرانی ممکن ہو۔ سنہ 65 ہجری تک ان کی قبروں پر کوئی سائبان نہ تھا۔ اس سال مختار ثقفی نے مسلم بن عقیل کے مرقد پر پہلی عمارت تعمیر کرنے کا حکم دیا اور ان کے مرقد کے لئے حرم قرار دیا اور گنبد و بارگاہ کی بنیاد رکھی اور ان کے ناموں کو سنگ مرمر کے تختوں پر کندہ کرایا اور تختوں کو ان کی قبروں پر رکھوایا۔

سنہ 368 ہجری قمری میں آل بویہ کے حکمران عضد الدولہ دیلمی نے مسلم بن عقیل کے حرم و بارگاہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔ انھوں نے اطراف کے گھروں کو حرم قرار دیا اور آستانے کی مجاورت میں رہنے والے خاندانوں کے لئے ماہانہ تنخواہ مقرر کردی۔ سنہ 656 ہجری قمری میں محمد بن محمود رازی نے آستانے کی تعمیر نو کا انتظام کیا۔

سنہ 1263 ہجری قمری میں آیت اللہ محمد حسن صاحب جواہر، نے آستانے میں بنیادی تعمیرات کا اہتمام کیا۔

سنہ 1384 ہجری قمری میں آیت اللہ سید محسن حکیم آستانے کی تعمیر نو کا حکم دیا اور حاج محمد رشاد کے زیر اہتمام حرم کے گنبد پر طلا کاری کا کام انجام پایا اور اس منصوبے پر ایک لاکھ اسی ہزار (180000) عراقی دینار، کی لاگت آئی۔[43]

ہانی بن عروہ کا مرقد

مسلم اور ہانی کی شہادت کے بعد قبیلۂ مذحج نے ابن زیاد سے اجازت لی اور ان دو بزرگواروں کو دارالامارہ کے قریب سپرد خاک کیا۔ بعض مرویات کے مطابق، ان دونوں کی میتیں کئی روز تک زمین پر پڑی رہیں یہاں تک کہ میثم تمار کی زوجہ نے رات کے وقت ـ جبکہ سب سو رہے تھے ـ انہیں اپنے گھر منتقل کیا اور آدھی رات کو انہیں مسجد کوفہ کے قریب سپرد خاک کیا۔ ہانی بن عروہ کے حرم کی تعمیر کی تاریخ تقریبا مسلم کے حرم کے ساتھ مشترک ہے۔[44]

مختار ثقفى کا مرقد

مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کی قبر اس وقت مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کے ساتھ قریب واقع ہے۔

مسجد کوفہ امام زمانہ(عج) کے زمانے میں

متعدد روایات کے مطابق، حضرت مہدی(عج) کی عالمی حکومت کا مرکز اور دارالخلافہ شہر کوفہ ہے۔ مفضل بن عمر نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے حضرت مہدی(عج) کی عالمی حکومت کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے فرمایا: "ان کی حکومت کا مقام شہر کوفہ ہے اور ان کا مقام حکومت کوفہ کی جامع مسجد اور [ان کے زمانے میں] بیت المال اور تقسیم غنائم کا مرکز مسجد سہلہ ہے۔[45]

شہر کوفہ میں امام زمانہ کے اقدامات

  • مساجد ـ بالخصوص مسجد کوفہ ـ توسیع و ترقی
    چونکہ کثیر تعداد میں عوام [اور بالخصوص] شیعیان اہل بیتؑ امام زمانہ(عج) کے فیوضات کے ادراک اور آپ(عج) کے قریب رہنے کے لئے دنیا کے گوشے گوشے سے کوفہ کا رخ کریں گے، اور اس لئے کہ شیعہ نماز میں آسانی سے شرکت کرسکیں، مسجد کوفہ کو توسیع دی جائے گی اور 1000 دروازے مسجد کوفہ کی طرف کھلیں گے اور امام(عج) مساجد بالخصوص مسجد کوفہ کی توسیع کا اہتمام کریں گے۔


نیز امام صادقؑ فرماتے ہیں:

"ہمارے قائم قیام کریں گے تو کوفہ کی پشت پر ایک مسجد تعمیر کریں گے جس کے ایک ہزار دروازے ہونگے اور یہ مسجد کوفہ کے گھروں کو دریائے فرات سے متصل کرے گی"۔

امام علیؑ فرماتے ہیں:

"وہ دن آنے والا ہے جب کوفہ حیرہ سے متصل ہوجائے گا اور اس کی زمینیں اس قدر محبوب و مرغوب ہوجائیں گی کہ ان کا ایک ذراع (= ) کئی اشرفیوں کے عوض بیچا جائے گا اور حیرہ میں ایک مسجد تعمیر کی جائے گی جس کے 500 دروازے ہونگے اور ہمارے قائم کا نمائندہ اس میں نماز بجا لائے گا کیونکہ مسجد کوفہ ان کے لئے تنگ پڑ جائے گی"۔[46]
  • نامبارک مساجد کا انہدام
    امام زمانہ(عج) کوفہ میں داخل ہونے ہی، شہر میں تبدیلیوں کا اہتمام کریں گے؛ اور اس کے راستوں، سڑکوں اور مساجد کی توسیع کا اہتمام کریں گے؛ اور کوفہ کے گھر فرات سے جاملیں گے اور ان نامبارک مساجد کو منہدم کریں گے جو بنو امیہ نے امام حسینؑ کی شہادت کی خوشی میں تعمیر کرائی ہیں۔[47]
  • مسجد کوفہ امام زمانہ(عج) کے فیصلوں اور نظام عدل کا مرکز
    امام صادقؑ فرماتے ہیں:
"مسجد کوفہ امام مہدی(عج) کی حکومت، ان کے فیصلوں اور قضاوت کا مرکز ہے"۔[48]

متعلقہ موضوعات

حوالہ جات

  1. صدر حاج‌ سيد جوادي‌، دایرة المعارف تشیع، ج14، ص237-239۔
  2. مجلسی، بحارالانوار، ج100، ص394،شیخ مفید، کتاب المزار بحوالہ شیخ صدوق، خصال، ص153 منقول از رسول خدا ؐ۔
  3. مجلسی، بحارالانوار، ج100، ص405۔
  4. ویب سائٹ مسجد بزرگ کوفه
  5. صدوق، من لا یحضره الفقیه، ج1، ص320۔
  6. تفسیر عیاشی، ج2، ص144۔
  7. تاریخ ابن اثیر، ترجمه دکتر محمد حسن روحانى، ج4، ص1448۔
  8. کامل سلمان جبورى، تاریخ الکوفه، ج1، ص64۔
  9. گلى زواره، سیماى کوفه، ص198۔
  10. دائرة المعارف الاسلامیه، ج10، ص359۔
  11. معارف و معاریف، ج8 ، ص610۔
  12. بحارالأنوار، ج100، ص389۔
  13. حر عاملی، وسائل الشیعه، ج5 ، ص282۔
  14. تاریخ الکوفه، براقى، ص58۔
  15. همان، ص57۔
  16. سوره نوح، آیه 28۔
  17. حر عاملی، وسائل الشیعه، ج5، ص282۔
  18. الکلینی، الکافی، ج3، ص492۔
  19. صدوق، من لا یحضره الفقیه، ج1، ص231۔
  20. الکافی، ج4، ص586۔
  21. محمد بن جعفر المشهدى الحائرى، فضل المسجد الکوفة و مسجدها، ص37۔
  22. الکافی، ج4، ص28۔
  23. طوسی، تهذیب الأحکام، ج6، ص32۔
  24. مجلسی، بحارالأنوار، ج100، ص400۔
  25. مجلسی، بحارالأنوار، ج100، ص397۔
  26. حر عاملی، وسائل الشیعه، ج5، ص239۔
  27. سید حسین براقی نجفی، تاریخ کوفه، ص39۔
  28. محمد بن جعفر المشهدى الحائرى، فضل المسجد الکوفه و مسجدها، ص30۔
  29. بحارالأنوار، ج100، ص395۔
  30. وہی ماخذ، ج100، ص405۔
  31. رشاد، دانشنامه امام على، ج9، ص378۔
  32. سوره نحل، آیه 90۔
  33. شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ص387۔
  34. شیخ عباس قمی، وہی ماخذ، ص388۔
  35. شیخ عباس قمی، وہی ماخذ، ص390۔
  36. شیخ عباس قمی، وہی ماخذ، ص391۔
  37. محمد بن جعفر المشهدى الحائرى، فضل الکوفه و مسجدها، ص28۔
  38. مجلسی، بحارالأنوار، ج100، ص397۔
  39. شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، ص393۔
  40. مجلسی، بحارالأنوار، ج100، ص398۔
  41. براقى، تاریخ الکوفہ، ص47۔
  42. مجلسی، بحارالأنوار، ج100، ص402۔
  43. صدر حاج‌ سيد جوادي‌، دایرة المعارف تشیع، ج1، ص111۔
  44. جمعی از نویسندگان، پژوهشى پیرامون شهداى کربلا، ص388 بحوالہ از زنجانی، وسیله الدارین فی انصار الحسینؑ۔
  45. مجلسی، بحارالانوار، ج53، ص11۔
  46. بحارالانوار، ج52، ص374، ح173۔
  47. مجلسی، بحارالانوار، ج52، ص335۔
  48. مجلسی، بحارالانوار، ج53، ص11۔

آرٹ گیلری

مآخذ

  • عیاشی، محمد بن مسعود بن عیاش السلمی السمرقندی، تفسیر عیاشی۔
  • مجلسی، بحارالانوار۔
  • جمعی از نویسندگان، پژوهشى پیرامون شهداى کربلا.
  • حر عاملی، وسائل الشیعہ۔
  • صدر حاج‌ سيد جوادي‌، احمد، دایرة المعارف تشیع، موسسہ تحقيقات و نشر معارف اهل البيت ؑ۔
  • سید حسین براقی نجفی، تاریخ کوفہ۔
  • شیخ مفید، کتاب المزار
  • شیخ صدوق، خصال،
  • صدوق، من لا یحضره الفقیہ.
  • طوسی، تہذیب الأحکام.
  • کامل سلمان جبورى، تاریخ الکوفہ،
  • گلى زواره، سیماى کوفہ،
  • مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، دائرة المعارف الاسلامیہ۔
  • سيد مصطفى حسينى دشتى، معارف و معاریف۔
  • الکلینی، الکافی۔
  • محمد بن جعفر المشہدى الحائرى، فضل المسجد الکوفہ و مسجدها.
  • علی‌ اکبر رشاد و با همکاری بیش از 200، نفر از اساتید حوزه و دانشگاه، دانش نامہ امام علیؑ۔
  • زنجانی، سید ابراهیم موسوی، وسیلہ الدارین فی انصار الحسینؑ.

بیرونی روابط