حرم حضرت عباسؑ

ویکی شیعہ سے
حرم حضرت عباس
ابتدائی معلومات
بانیعضد الدولہ دیلمی
استعمالزیارت گاه
محل وقوعکربلا
مشخصات
رقبہتقریباً 10973 مربع میٹر
معماری
طرز تعمیراسلامی معماری


روضہ حضرت عباسؑ، کربلا میں اہل تشیع کی زیارت گاہ اور آپؑ کی جائے دفن ہے۔ حرم عباسؑ، حرم امام حسینؑ کے شمال مشرق میں واقع ہے اور ان دونوں حرموں کی درمیانی جگہ کو بین الحرمین کہا جاتا ہے۔ حرم کی حدود تقریبا 10973 مربع میٹر ہے اور اس کی عمارت اسلامی فن تعمیر کے ساتھ بنی ہوئی ضریح، رواق، صحن، گنبد، میناروں اور ایوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کی تاریخی قدمت کی بازگشت آل بویہ کے دور کی طرف ہوتی ہے تاہم صفوی اور قاجاری ادوار میں اس کی توسیع یا تعمیر نو کی گئی۔ اس کی جدید ترین ضریح 2016ء میں نصب کی گئی ہے۔

حضرت عباسؑ کا حرم، حرم حسینی کے متولیوں کے زیر انتظام رہا ہے۔ وہ کچھ افراد کو اپنی نیابت میں حرم کا انتظام چلانے کیلئے مقرر کرتے تھے۔ حضرت عباسؑ، امام حسینؑ کے بھائی اور کربلا میں آپؑ کی فوج کے علمدار تھے۔ آپؑ یوم عاشور سنہ 61 ہجری کو عمر بن سعد کے لشکر کے خلاف ایک جنگ میں شہید ہوئے۔

حضرت عباس

تفصیلی مضمون: حضرت عباس

حضرت عباس، امام علیؑ اور ام البنین کے فرزند ہیں۔ آپ سنہ 61 ہجری کو کربلا میں اپنے بھائی امام حسینؑ کی رکاب میں شہید ہوئے۔ عباس واقعہ کربلا میں امام حسینؑ کی فوج کے سپہ سالار اور علمدار تھے۔[1] امامؑ کے حکم پر عاشور کے دن پانی لانے کیلئے نہر علقمہ کی طرف گئے تھے کہ عمر بن سعد کے سپاہیوں نے انہیں شہید کر دیا۔[2] آپ کو اسی مقام پر دفن کیا گیا کہ جہاں پر آپؑ کی شہادت ہوئی تھی۔[3] بعد میں آپؑ کے مزار پر ایک بارگاہ تعمیر کی گئی کہ جو حرم حضرت عباسؑ کے نام سے معروف ہے۔ حرم حضرت عباسؑ کربلا میں حرم امام حسینؑ سے 300 میٹر کے فاصلے پر ہے۔ دونوں کی درمیانی حدود کو بین الحرمین کہا جاتا ہے۔

تاریخ

محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


حضرت عباسؑ کے حرم کی ابتدائی تعمیر کے بارے میں تاریخی معلومات کم ہیں۔[4] بعض مصنفین کا خیال ہے کہ حرم امام حسینؑ اور حرم حضرت عباسؑ کی تاریخ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے اور تعمیر، تعمیر نو، انہدام اور توسیع کے حوالے سے جو داستان حرم امام حسینؑ کی ہے، وہی حضرت عباسؑ کے حرم کی بھی ہے۔[5] حضرت عباسؑ کے حرم سے منسلک ویب سائٹ میں امام حسینؑ کے حرم کی تاریخ جیسے مختار ثقفی کے دور میں پہلی مرتبہ تعمیر، ہارون کے دور میں انہدام، مامون کی حکومت میں تعمیر نو اور 236 ہجری میں متوکل عباسی کے حکم پر انہدام[6] کا ذکر حضرت عباسؑ کے مرقد کی تاریخ میں ملتا ہے۔[7] بعض مصنفین کے بقول حضرت عباسؑ کا حرم تعمیر کیے جانے کی تاریخ دوسری صدی ہجری تک پہنچتی ہے۔[8] یہ عمارت 170 ہجری میں ہارون الرشید کے حکم پر گرا دی گئی۔[9] ان لوگوں نے امام صادقؑ سے منقول ایک روایت[یادداشت 1] سے استدلال کیا ہے کہ جس میں حضرت عباسؑ کی قبر پر موجود ایک سائبان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[10]

آل بویہ کے دور میں عمارت کی تعمیر

371ھ میں آل بویہ کی حکومت کے دوران عضد الدولہ دیلمی کے حکم پر حضرت عباسؑ کے مرقد پر ایک عمارت تعمیر کی گئی۔[11]

صفوی دور میں عمارت کی توسیع

صفوی دور میں حضرت عباسؑ کے حرم میں توسیع کی گئی۔ شاہ طہماسب نے 1032ھ میں حکم دیا کہ حرم کے گنبد کی تزئیین کی جائے اور تعویذ قبر پر ایک ضریح نصب کی جائے۔اسی طرح ان کے دور میں حرم کا صحن اور ایوان تعمیر کیے گئے۔[12]

بعد کے ادوار میں تعمیر اور تعمیر نو

مختلف ادوار میں حضرت عباسؑ کا حرم یا اس کے کچھ حصے تعمیر کیے جاتے رہے ہیں۔ جن بادشاہوں نے حرم امام حسینؑ کی تعمیر نو کی، وہ حضرت عباسؑ کے حرم کی تعمیر نو کی طرف بھی متوجہ تھے۔[13] نادر شاہ کی حکومت میں تعویذ قبر اور حرم کا ایوان، عبد المجید خان محمود عثمانی کے دور میں حرم اور قاجار کے دور میں اس کا گنبد تعمیر کیا گیا۔[14]

وہابیوں کا حملہ اور حرم کا انہدام

1216ھ میں سعود بن عبد العزیز نے کربلا پر حملہ کیا۔اس کے سپاہیوں نے حضرت عباسؑ کا حرم گرا دیا اور اس کے تبرکات اور اموال لوٹ لیے۔وہابیوں کے حملے کے بعد فتح علی شاہ قاجار کے حکم پر اسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔[15] 1411ھ کے انتفاضہ شعبانیہ میں بھی بعثی فوج کے کربلا پر حملے کے دوران حضرت عباسؑ کے حرم کو نقصان پہنچا۔[16]

معماری

حضرت عباسؑ کی ضریح جو 2016ء میں نصب کی گئی

حضرت عباسؑ کا حرم مستطیل نما ہے اور حضرت عباسؑ کی قبر اس کے وسط میں ہے۔حرم ضریح، رواق، صحن، ایوان، میناروں اور گنبد پر مشتمل ہے۔[17] حرم کی عمارت کے نیچے ایک سرنگ ہے جو رواقوں سے گزرتی ہوئی حضرت عباسؑ کے مقام دفن تک پہنچتی ہے۔[18]

ضریح

ضریح، سونے چاندی سے تیار کی جاتی ہے اور یہ تعویذ قبر کے اوپر سایہ فگن ہوتی ہے۔ صفوی دور سے حضرت عباسؑ کی قبر پر ضریح نصب تھی[19] اور بعد کے ادوار میں اسے مرمت یا تبدیل کیا جاتا رہا ہے۔ محمد شاہ قاجار کے حکم پر 1236 ھ میں حضرت عباسؑ کے مزار پر ایک چاندی کی ضریح تیار کی گئی۔[20] 1385 ھ میں سید محسن الحکیم کے تعاون سے حرم کی ضریح کو تبدیل کیا گیا۔[21] یہ ضریح ایران میں تیار کی گئی تھی اور اس میں 400 ہزار مثقال (دو ہزار کلو) چاندی اور 800 مثقال (40 کلو) سونا استعمال کیا گیا تھا۔[22] سن 2016 ء میں بھی حرم کی ضریح کو تبدیل کیا گیا۔[23] حرم کی جدید ضریح سونے اور چاندی سے تیار کی گئی ہے اور اس کی تعمیر عراق میں 5 سال کے عرصے میں مکمل ہوئی ہے۔[24]

رواق

حضرت عباسؑ کے حرم میں ضریح کے چاروں طرف چار رواق ہیں جن کی چھتوں اور دیواروں پر شیشہ کاری کی گئی ہے۔ شمالی رواق کا راستہ تہہ خانے اور قبر کی طرف نکلتا ہے جبکہ مشرقی رواق میں پانچ قبریں موجود ہیں اور جنوبی رواق تین دروازوں کیساتھ ایوان طلا کے ساتھ متصل ہے۔[25]

ایوان طلا

ایوان طلا 320 مربع میٹر پر مشتمل ہے اور یہ حرم کے مرکزی ہال کے سامنے ہے۔ ایوان طلا کے سامنے والے حصے میں سونے کی ملمع شدہ اینٹیں استعمال کی گئی ہیں۔[26]

گنبد

حرم حضرت عباسؑ کے گنبد کا قطر 12 میٹر اور اونچائی 39 میٹر ہے۔ گنبد نیم دائروی اور لمبوترا ہے اور اس کی کھڑکیاں آبروؤں سے مشابہہ کمانیوں کے ساتھ باہر کی طرف کھلتی ہیں۔ گنبد کی اندرونی سطح پر سفید رنگ سے قرآنی آیات کندہ ہیں۔ گنبد کے اوپر 1305ھ کی تاریخ درج ہے۔ 1375ھ میں عراقی حکومت نے اس پر ملمع کاری کی۔ کہا جاتا ہے کہ اس ملمع کاری میں 6418 سونے کی اینٹیں استعمال کی گئی ہیں۔ گنبد کے زیریں حصے میں قرآن کی آیات شیشہ کاری کیساتھ نقش کی گئی ہیں۔[27]

مینار

ایوان طلا کے گوشے میں اور دیوار حرم سے متصل دو مینار ہیں کہ جن کی اونچائی 44 میٹر ہے۔ ان کے نچلے حصے میں کاشی کاری کے ساتھ 1221ھ کی تاریخ کندہ ہے۔ ہر ایک مینار کا نیم بالائی حصہ سونے کی 2016 اینٹوں کے ساتھ مزین ہے جبکہ باقی آدھا نچلا حصہ اینٹوں اور کاشی کاری کا حسین شاہکار تھا۔[28] البتہ حرم کی انتظامیہ نے 2009۔2010 ء میں میناروں کی تعمیر نو کرنے کے بعد ان کے نچلے نصف حصے پر بھی طلاکاری کر دی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ اس تعمیر نو میں 108 کلو سونا استعمال کیا گیا۔[29]

صحن

حضرت عباسؑ کے حرم کا صحن 9300 مربع میٹر پر مشتمل ہے اور چار ایوانوں میں گھرا ہوا ہے۔ ایوانوں کی چھتوں پر مقرنس کاری اور اقلیدسی (جیومیٹری) نمونوں کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ہر ایوان میں ایک کمرہ ہے کہ جسے مباحثے یا دینی علوم کی تدریس کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔[30]

صحن کے دروازے

صحن کے دروازے 1394ھ (1972ء) میں تعمیر کیے گئے ہیں اور ان کے نام یہ ہیں:

  • باب القبلہ، صحن کے جنوب میں
  • باب الامام الحسن، صحن کے مغرب میں اور امام حسینؑ کے صحن کی سمت سے
  • باب الامام الحسین، باب الامام الحسن کے نزدیک
  • باب صاحب الزمان، باب الامام الحسین کے پاس
  • باب الامام موسی بن جعفر، صحن کے غربی زاویے میں
  • باب الامام محمد الجواد، صحن کے شمال میں
  • باب الامام علی الھادی، صحن کے شمال مشرقی زاویے میں
  • باب الفرات، صحن کے مشرق میں
  • باب الامیر، صحن کے مشرق میں[31]

صحن کے اضلاع

صحن کے چار اضلاع ہیں۔ ان چاروں اضلاع میں 57 حجرے ہیں۔ ہر حجرے کے سامنے ایک چھوٹا ایوان ہے۔ ہر ضلع کا وسط،ایک بڑے بیرونی ایوان پر مشتمل ہے جس کی اونچائی ان طبقات کی نسبت دوگنا زیادہ ہے کہ جن کے اندر حجرے واقع ہیں۔ ان ایوانوں میں بیل بوٹے، ہندسی شکلیں اور قرآن کریم کی آیات ہیں۔[32]

تولیت

کہا جاتا ہے کہ چوتھی صدی ہجری سے امام حسینؑ اور حضرت عباسؑ کے مزارات کا انتظام حکمرانوں کی طرف سے کسی قبیلے کے بزرگ یا کسی عالم کے سپرد کیا جاتا تھا۔[33] سلمان ہادی کے بقول کربلا میں مقیم ایک خاندان آل طعمہ، کے پاس صفوی بادشاہوں کے اس امر پر حکم نامے موجود ہیں کہ حرم کی تولیت (انتظامات) ان کے سپرد کی جاتی ہے۔عثمانی دور کے بعض متولیوں کے نام عراق کی اوقاف میں ثبت ہیں۔ عام طور پر حضرت عباسؑ کے حرم کی تولیت حرم امام حسینؑ کے متولیوں کے ذمہ تھی۔ وہ کچھ افراد کو اپنی نیابت میں اس حرم کی تولیت کیلئے مقرر کرتے تھے۔[34] عام طور پر متولیوں کا انتخاب علویوں میں سے ہوتا تھا۔ کتاب تاریخ مرقد الحسین والعباس میں حرم حضرت عباس کے 21 متولیوں کا ذکر آیا ہے۔ ان میں سے کچھ افراد آل ضیاء الدین، آل ثابت،آل طعمہ اور آل وہاب سے تعلق رکھتے تھے۔[35]

حرم کا خزانہ

حضرت عباسؑ کے حرم میں نفیس اشیا محفوظ ہیں۔ منجملہ سونے کے تاروں یا قیمتی نگینوں سے بنے ہوئے قالین، چالیس سونے کے چراغ، مرصع تلواریں اور سونے کی گھڑیاں۔[36] اسی طرح حرم کے کتب خانے میں، 109 سے زیادہ قرآن محفوظ ہیں کہ جن میں سے ایک امام علیؑ سے منسوب ہے۔[37]

حرم میں مدفون مشہور شخصیات

حضرت عباسؑ کے حرم میں مدفون بعض شخصیات یہ ہیں:

  • محمد رشید جلبی صافی
  • سید کاظم بهبهانی
  • حسین حلاوی[38]
  • سید محسن سید محمد علی آل طعمہ
  • عبد الجواد کلیدار
  • سید محمد بن محسن زنجانی (متوفی سال 1355 ھ)
  • شیخ علی ‌اکبر یزدی بفروئی (شاگرد علامہ اردکانی)
  • سید عبد الله کشمیری
  • شیخ ملا علی یزدی المعروف سیبویہ
  • شیخ کاظم الهر[39]

گیلری

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. ثُمَّ امْشِ حَتَّى تَأْتِيَ مَشْهَدَ الْعَبَّاسِ بْنِ عَلِيٍّ فَإِذَا أَتَيْتَهُ فَقِفْ عَلَى بَابِ السَّقِيفَة (مفید، المزار، 1413ھ،ص121)

حوالہ جات

  1. ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب،1379ھ،ج4،ص108۔
  2. ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی ‌طالب،1379ھ،ج4،ص108؛ قرشی، حیاة الامام الحسین علیہ ‌السلام،1413ھ،ج3،ص265-268۔
  3. معروف حسنی، سیرة الائمة الاثنی عشر علیهم‌ السلام،1382ھ،ج3،ص97؛ زجاجی کاشانی، سقای کربلا، 1379 شمسی،ص135۔
  4. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، 1416ھ،ص261۔
  5. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، 1416ھ،ص261۔
  6. طبری، تاریخ الامم و الملوک،1387ھ،ج9،ص185۔
  7. شبکة الکفیل العالمیة؛ مراحل بناء و أعمار و تطوير العتبة العباسية المقدسة، بازبینی: 31 تیر 1397 شمسی۔
  8. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، 1416ھ،ص72۔
  9. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس،1416ھ،ص74۔
  10. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس،1416ھ،ص72؛ آل شبیب، مرقد الامام الحسین(ع)،1421ھ، ص120۔
  11. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، 1416ھ،ص80،263۔
  12. آل طعمہ،تاریخ مرقد الحسین و العباس، 1416ھ،ص263۔
  13. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس،1416ھ،ص261۔
  14. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس،1416ھ،ص263-264۔
  15. آل طعمہ،تاریخ مرقد الحسین و العباس،1416ھ،ص263۔
  16. آل ‌طعمہ، الانتفاضة الشعبانیة فی کربلاء،1433ھ،ص47۔
  17. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس،1416ھ،ص262۔
  18. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس،1416ھ،ص303۔
  19. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس،1416ھ،ص263۔
  20. ملاحظہ کیجئے:‌ آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس،1416ھ،ص263۔
  21. ملاحظہ کیجئے:‌ آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس،1416ھ،ص263۔
  22. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، 1416ھ، ص265-267۔
  23. شفقنا؛ ضریح جدید حضرت عباسؑ رسما افتتاح شد، اشاعت: 31 فروردین 1395شمسی، بازبینی:‌ 2 مرداد 1397 شمسی۔
  24. خبرگزاری فارس؛ آغاز مرحلہ قلمزنی ضریح جدید حضرت عباسؑ، اشاعت:‌ 1 آبان 1393، بازبینی:‌ 2 مرداد 1397 شمسی۔
  25. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس،1416ھ،ص271-272۔
  26. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، 1416ھ، ص278۔
  27. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، 1416ھ، ص297-298۔
  28. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس،1416ھ،ص303۔
  29. مجلہ اخبار شیعیان شماره 57،مرداد 1389 شمسی، پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه، اشاعت: 19 آذر 1392 شمسی، بازبینی: 2 مرداد 1397 شمسی۔
  30. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، 1416ھ،ص287-288۔
  31. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، 1416ھ،ص289-295۔
  32. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس،1416ھ،ص 295-296۔
  33. آل طعمہ،تاریخ مرقد الحسین و العباس،1416ھ،ص307۔
  34. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس،1416ھ،ص307۔
  35. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، 1416ھ،ص 308-311۔
  36. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، 1416ھ،ص 273-275۔
  37. مقدس، راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق،1388 شمسی،ص 238۔
  38. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، 1416ھ، ص 271۔
  39. مقدس، راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق،ص 239 -238۔

مآخذ

  • ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌ طالب، قم، علامہ، 1379ھ۔
  • آل شبیب، سید تحسین، مرقد الامام الحسین (ع)، قم، دار الطباعہ، 1421ھ۔
  • آل طعمہ، سلمان ہادی، الانتفاضہ الشعبانیہ فی کربلاء، قم،‌ کتابخانہ تخصصی تاریخ اسلام و ایران، 1433ھ۔
  • آل طعمہ، سلمان ہادی، تاریخ مرقد الحسین و العباس، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1416ھ/1996ء۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، 1387ھ/1967ء۔
  • قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الحسین علیہ‌السلام، قم، مدرسہ علمیہ ایروانی، 1413ھ۔
  • معروف حسنی، ہاشم، سیرۃ الائمۃ الاثنی عشر علیہم‌السلام، نجف، المکتبۃ الحیدریۃ، 1382ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، کتاب المزار، تصحیح: محمد باقر ابطحی، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • مقدس، احسان، راہنمای اماکن زیارتی و سیاحتی در عراق، تہران، مشعر، 1388شمسی۔
  • مجلہ اخبار شیعیان شمارہ 57، مرداد 1389شمسی۔