غزوه بنی مصطلق

ویکی شیعہ سے
غزوہ بنی‌مصطلق
رسول خدا(ص) کے غزوات
قبیلہ بنی مصطلق کا محل وقوع
قبیلہ بنی مصطلق کا محل وقوع
تاریخشعبان 5 یا
مقاممریسیع کے تالاب کے کنارے
علل و اسباببنی‌ مصطلق کا مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لئے تیار ہونا
نتیجہمسلمانوں کی فتح
فریق 1سپاہ اسلام
فریق 2قبیلۂ بنی مصطلق اور حلیف قبائل
سپہ سالار 1حضرت محمدؐ
سپہ سالار 2حارث بن ابی ضِرار
نقصان 1ایک مسلمان شہید
نقصان 2اکثر بھاگ گئے، 10 مارے گئے اور باقی اسیر ہوئے


غزوہ بنی مُصْطَلِق، یا غزوۂ مُرَیسیع رسول خدا ؐ کے غزوات میں ہے جو قبیلے بنی مصطلق کے خلاف 5 یا کو لڑی گئی۔ اس جنگ میں ابوذر غفاری مدینہ میں پیغمبر اکرمؐ کا جانشین مقرر ہوا اور منافقین کا ایک گروہ بھی غنیمت کے حصول کے لئے لشکر اسلام کے ساتھ اس جنگ میں شامل ہو گئے۔

پیغمبر اسلامؐ نے شروع میں بنی‌ مصطلق کو اسلام کی دعوت دی؛ لیکن ان کی طرف سے اسلام قبول کرنے سے انکار اور لشکر اسلام کی طرف تیر چلائے جانے کے بعد آپ نے ان پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔

تاریخی منابع کے مطابق دشمن کو شکست دینے کے بعد مسلمانوں نے دشمن کے 200 افراد کو اسیر اور 2000 اونٹ اور 5000 گوسفندوں کو غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لیا۔ اسیروں اور غنائم کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کی گئی اور اسیروں کی رہائی کے لئے فدیہ ادا کرنے کی شرط رکھی جسے پیغمبر اکرمؐ تعیین کرتے تھے۔

جویریہ بنت حارث بنی‌ مصطلق کے سردار کی بیٹی بھی اس جنگ میں اسیر ہوئی اور پیغمبر اکرمؐ نے فدیہ دینے کے عوض اسے آزاد کر دیا۔ جویریہ نے آزادی کے بعد اسلام قبول کیا اور پیغمبر اکرمؐ سے شادی کی۔

بعض تفسیری کتب کے مطاق سورہ منافقون کی پہلی 8 آیتیں اس جنگ میں منافقین خاص کر عبد اللہ بن اُبَی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ واقعہ اِفک اس غزوے سے واپسی پر رونما ہوا۔

علل و اسباب

غزوہ بنی مُصْطَلِق[1] یا غزوہ مریسیع[2] پیغمبر اکرمؐ کے غزوات میں سے ہے جو تاریخی شواہد کی بنا پر 5[3] یا [4] کو لڑی گئی۔ بعض تاریخی قرائن و شواہد کی بنا پر پیغمبر اسلامؐ تک خبر پہنچی کہ قبیلہ بَنی‌ مُصْطَلِق کے سردار حارث بن ابی‌ ضِرار اپنی قوم اور عرب کے دیگر قبائل کے ایک گروہ کے ساتھ مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہے۔[5] بنی‌ مصطلق کے قریش کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور اپنی تجارتی مصلحتوں کو دیکھتے ہوئے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا تھا اور پیغمبر اکرمؐ بھی مختلف دلائل کی بنا پر ان کے ساتھ مدارا اور حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔[6]

پیغمبر اکرمؐ نے بنی‌ مصطلق کی طرف سے مسلمانوں پر لشکر کشی کی تصدیق کے لئے بریدۃ بن حصیب کو تحقیق کے لئے دشمن کی طرف بھیجا اور اصل حقائق سے آگاہی کے بعد بنی‌ مصطلق کی طرف لشکر روانہ کرنے کا حکم صادر کیا۔[7] واقدی لکھتے ہیں کہ لشکر اسلام کی روانگی کے وقت منافقین کا ایگ گروہ[8] بھی محل جنگ کی نزدیکی اور غنیمت کی لالچ میں لشکر اسلام کے ساتھ روانہ ہوا۔[9] اندلسی کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے مدینہ سے روانگی کے وقت ابوذر غفاری کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا؛[10] البتہ بعض مورخین نمیلۃ بن عبد اللہ اللیثی[11] اور زید بن حارثہ کا نام اس جنگ کے دوران مدینہ میں پیغمبر اکرمؐ کے جانشین کے طور پر لیتے ہیں۔[12]

غَزوہ بنی مصطلق کا نقشہ

جنگ کا انجام

دسویں صدی ہجری کے مورخ صالحی دمشقی کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی بنی‌ مصطلق ک طرف روانگی کے وقت حارث کے جاسوسوں میں سے ایک مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا؛ لیکن وہ پیغمبر اکرمؐ کو کسی قسم کی معلومات دینے پر تیار نہیں ہوا۔ لیکن اس کے باوجود پیغمبر اکرمؐ نے اسے دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی؛ لیکن اس نے اسلام قبول کرنے سے بھی انکار کیا۔ اسی بنا پر پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے اسے قتل کر دیا گیا۔[13] اس جاسوس کے مارے جانے کی وجہ سے حارث اور اس کے ساتھیوں میں وحشت پھیل گئی جس کی وجہ سے حارث کے ساتھ موجود دیگر قبائل کے افراد پراکندہ ہوئےگئے۔ آخر کار حارث اور اس کے ساتھیوں کے سوا کوئی میدان میں باقی نہیں رہا۔[14] تاریخی اسناد کے مطابق جب پیغمبر اکرمؐ مریسیع نامی مقام پر پہنچے تو اپنے اصحاب کو صفوں میں منظم کیا۔ مہاجرین کا پرچم عمار یاسر اور ایک اور قول کی بنا پر ابو بکر کے ہاتھ میں دیا اور انصار کا پرچم سعد بن عبادہ کے حوالے کیا اور جنگ کے لئے تیار ہوگئے۔[15]

پیغمبر اکرمؐ نے شروع میں انہیں اسلام کی دعوت دی؛ لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اور لشکر اسلام کی طرف تیر چلانا شروع کیا تو آپؐ نے بھی حملہ کرنے کا حکم دیا۔[16] مسلمانوں نے «یا منصور اَمِت» (اے فاتح ٹوٹ پڑو) کے نعرے کے ساتھ دشمن پر حملہ کیا۔[17]

اس جنگ میں حارث کے 10 ساتھی مارے گئے اور باقی اسیر ہوئے[18] اور بعض بھاگ جانے میں کامیاب ہوئے۔[19] اس جنگ میں لشکر اسلام کو کافی غنیمت نصیب ہوئی۔[20] طبری لکھتے ہیں کہ ہاشم بن ضبابہ دشمن کی تعقیب سے واپسی پر کسی مسلمان کے ہاتھوں غلطی سے مارا گیا،[21] جس پر پیغمبر اکرمؐ نے اس کا دیہ ادا کرنے کا حکم دیا۔[22]

تقسیم غنایم

کتاب اَلمَغازی میں واقدی کے مطابق اس جنگ کے خاتمے پر پیغمبر اکرمؐ نے بریدۃ بن حصیب کو اسرا کی نگرانی پر مأمور کیا اور اسیروں کے ساتھ نرمی اور نیک برتاؤ اپنانے کا حکم دیا۔[23] اسی طرح تمام غنایم چاہے اموال کی صورت میں ہو یا ہتھیار اور حیوانات کی شکل میں سب کو ایک جگہ جمع کیا اور پیغمبر اکرمؐ کے حکم سے اپنے خدمتکار شقرآن کو ان کی نگرانی پر مأمور کیا۔[24] خمس اور مسلمانوں کے حصوں کو معین کرنے کے لئے محمیۃ بن جزء کو انتخاب کیا گیا۔[25]

تاریخی منابع کے مطابق 200 اسیر، 2000 اونٹ اور 5000 گوسفند غزوہ بنی‌ مصطلق میں غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔[26] بعض منابع نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرمؐ نے شروع میں ان عنائم کا خمس الگ کیا اس کے بعد اموال اور حیوانوں کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کیا۔[27]

غناغم کی تقسیم کے وقت ہر اونٹ کو 10 گوسفندوں کے برابر قرار دیا گیا اور ہر گھوڑے کے لئے دو حصے اور گھوڑے کے مالک کے لئے ایک اسی طرح ہر پیادہ نظام افراد کے لئے بھی ایک ایک حصہ مقرر کیا گیا۔[28] مختلف منابع میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے اسیروں حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے انہیں مسلمانوں کے درمیا تقسیم کیا اور اسیروں کی آزادی کے لئے فدیہ معین کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ہر عورت اور بچے کا فدیہ 6 اونٹ تھا۔ بنی‌ مصطلق کے بعض افراد مدینہ آتے اور فدیہ ادا کرنے کے بدلے اپنے اسیروں کو آزاد کرا کر لے جاتے تھے۔ بعض اسناد کے مطابق بعض افراد بغیر فدیہ کے آزاد ہوئے۔[29]

جویریہ سے پیغمبر اکرمؐ کی شادی

غنائم کی تقسیم کے وقت جُوَیریہ بنت حارث کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ثابت بن قیس کے حصے میں آئیں۔[30] تاریخ طبری کے مطابق ثابت بن قیس نے جویریہ کے ساتھ یہ شرط رکھی کہ اگر وہ کچھ رقم (سونا) ادا کرے تو وہ اسے آزاد کر دے گا۔[31] جویریہ اپنی آزادی کے لئے پیغمبر اکرمؐ کے پاس گئی اور خدا کی وحدانیت کی گواہی دینے کے ساتھ رسول خدا سے اپنی آزادی ک قیمت ادا کرنے کی درخواست کی۔ پیغمبر اکرمؐ نے اس کی قیمت ادا کی اس کے بعد ان سے شادی کی۔[32] لوگوں میں جب یہ خبر پھیل گئی تو مسلمانوں نے بنی‌ مصطلق کی تمام اسیر خواتین کو پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ رشتہ داری کی بنا پر آزاد کیا۔[33] بعض منابع کے مطابق جویریہ کی پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ شادی کی شرط اپنی قوم کے تمام یا 100 یا 40 اسیروں کی آزادی تھی۔[34]

سورہ منافقون کی ابتدائی آیات کا نزول

علی بن ابراہیم قمی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس جنگ میں اصحاب میں سے دو اشخاص کے درمیان کنویں سے پانی نکالنے کے موضوع پر جھگڑا ہوا جس کے نتیجے میں انصار میں سے ایک شخص کو چوٹ لگی۔ عبد اللہ بن اُبَیّ کو اس خبر کے سننے کے بعد بہت غصہ آیا اور انہوں نے دھمکی دی کہ مدينہ واپس پر حقیر افراد کو اس شہر سے نکال باہر کیا جائے گا۔[35] زید بن اَرقم جو اس واقعے کا چسم دید گواہ تھا نے عبد اللہ بن ابی کی باتوں کو پیغمبر اکرمؐ تک پہنچائی؛ لیکن عبد اللہ بن ابی نے پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اکرمؐ کی رسالت کی گواہی دینے کے ساتھ زید کی باتوں کو جھٹلایا۔ اس واقعے کے کچھ دیر بعد سورہ منافقون کی ابتدائی 8 آیتیں نازل ہوئیں۔[36] علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں کہ عبد اللہ بن ابی کی «افراد حقیر» سے مراد پیغمبر اکرمؐ تھی اور وہ ان باتوں کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کو دھمکی دینا چاہتا تھا۔[37]

بعض تاریخی اسناد کے مطابق واقعہ افک نیز اس سفر سے واپسی کے دوران رونما ہوا۔[38]

حوالہ جات

  1. طبرسي، إعلام الورى، 1417ھ، ج‏1، ص196۔
  2. ابن سعد، الطبقات الكبرى، 1418ھ، ج‏2، ص48۔
  3. واقدی، کتاب المغازی، 1409ھ، ج1، ص404۔
  4. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج2، ص286۔
  5. كلاعی، الاکتفاء، 1420ھ، ج‏1، ص454؛ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص404۔
  6. قریبی، مرویات غزوۃ بنی المصطلق، عمادۃ البحث العلمي بالجامعۃ الإسلاميۃ، ص63۔
  7. مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص203۔
  8. دیار البکری، تاریخ الخمیس، بیروت‏، ج‏1، ص470۔
  9. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص405؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص203۔
  10. اندلسی، الدرر في اختصار المغازی و السير، 1415ھ، ص200۔
  11. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، ج‏4، ص156۔
  12. ذہبی، تاريخ الإسلام، 1409ھ، ج2، ص258۔
  13. حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، 1427ھ، ج2، ص378۔
  14. صالحی دمشقی، سبل الہدی و الرشاد، 1414ھ، ج‏4، ص344؛ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص406۔
  15. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، ج‏4، ص156؛ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص407
  16. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، ج‏4، ص156؛ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص407۔
  17. عامری، بہجۃ المحافل، بیروت، ج1، ص241۔
  18. حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، 1427ھ، ج2، ص379۔
  19. المغازی ج1 ص407۔
  20. بیہقی، دلائل النبوۃ، 1405ھ، ج‏4، ص48۔
  21. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج‏2، ص604۔
  22. عسقلانی، الإصابۃ في تمييز الصحابۃ، 1415ھ، ج1، ص308۔
  23. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص410۔
  24. ابن سید الناس، عیون الاثر، 1414، ج2، ص129۔
  25. ابن سعد، الطبقات، 1418ھ، ج2، ص49۔
  26. امین، اعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج1، ص261؛ صالحی دمشقی، سبل الہدی و الرشاد، 1414ھ، ج‏4، ص346؛ حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، 1427ھ، ج2، ص379۔
  27. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص410۔
  28. ابن سعد، الطبقات، 1418ھ، ج2، ص49؛ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص410۔
  29. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ، 1426ھ، ج11، ص289؛ حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، 1427ھ، ج2، ص383؛ واقدی، المغازی، 1409ھ، ج1، ص412۔
  30. عامری، بہجۃ المحافل، بیروت، ج2، ص143۔
  31. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج2، ص609؛ عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظمؐ، 1426ھ، ج11، ص289۔
  32. عسقلانی، الإصابۃ في تمييز الصحابۃ، 1415ھ، ج8، ص73؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص206۔
  33. مجلسی، بحار الأنوار، 1363ہجری شمسی، ج‏20، ص296؛ ابن سعد، الطبقات الكبرى،1418ھ، ج‏8، ص92؛ المنتظم، ابن الجوزي، 1412ھ، ج‏3، ص220؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج‏11، ص609۔
  34. بلاذری، أنساب الأشراف،1417ھ، ج1، ص442۔
  35. قمی، تفسیر القمی، 1367ہجری شمسی، ج2، ص368۔
  36. قمی، تفسیر القمی، 1367ہجری شمسی، ج2، ص369و370؛ ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج2، ص292۔
  37. طباطبائی، المیزان، 1390ھ، ج19، ص282۔
  38. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، بیروت، ج2، ص297؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج1، ص220۔

مآخذ

  • ابن اسحاق، محمد بن اسحاق، السیر و المغازی، تحقیق، سہیل زکار، قم، افست، 1368ہجری شمسی۔
  • ابن جوزی، ابو الفرج، المنتظم في تاریخ الأمم و الملوک، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1412ھ۔
  • ابن سيد الناس‏، محمد بن محمد يعمرى‏، عيون الأثر، بیروت، دارالقلم، چاپ اول، 1414ھ۔
  • ابن ہشام، عبدالملک، السیرۃ النبویۃ، بیروت، دارالمعرفۃ، بی‌تا۔
  • ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری‏، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ دوم، 1418ھ‏۔‏
  • ابن‌کثیر، حافظ ابن‌کثیر‏، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، بی‌تا۔
  • اندلسی، ابن عبدالبر، الدرر في اختصار المغازی و السير، قاہرہ، وزارت اوقاف مصر، چاپ اول، 1415ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف‏، بیروت، دار الفکر، چاپ اول‏، 1417ھ۔
  • بیہقی، دلائل النبوۃ، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1405ھ۔
  • حلبی، ابوالفرج، السیرۃ الحلبیۃ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ دوم، 1427ھ،
  • دیار بَکری‏، شیخ حسین، تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس، بیروت، دار الصادر، بی‌تا۔
  • ذہبی، شمس الدین، تاريخ الإسلام، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ دوم، 1409ھ۔
  • صالحی دمشقی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خبر العباد، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1414ھ۔
  • طباطبایی، محمدحسین، تفسیر المیزان، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الورى بأعلام الہدى‏، قم، آل البیت(ع)، چاپ اول، 1417ھ۔
  • طبری، محمد بن جریری، تاریخ الأمم و الملوک، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، 1387ھ،
  • عامری، عماد الدین یحیی بن ابی بکر، بہجۃ المحافل و بغيۃ الأماثل، بیروت، دارالصادر، بی تا۔
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم(ص)،قم، دارالحدیث، چاپ اول، 1426ھ،
  • عسقلانی، ابن حجر، الإصابۃ في تمييز الصحابۃ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1415ھ۔
  • قريبی، ابراہیم، مرویات غزوۃ بنی المصطلق وہی غزوۃ المریسیع، مدینہ، عمادۃ البحث العلمي بالجامعۃ الإسلاميۃ، عربستان سعودی، بی‎تا۔
  • قمی، على بن ابراہيم، تفسیر القمی، تحقیق: سيد طيب موسوى جزايرى، قم، دارالکتاب، 1367ہجری شمسی۔
  • کلاعی، ابوالربیع حمیری، الاكتفاء بما تضمنہ من مغازی رسول اللہ(ص) و الثلاثۃ الخلفاء، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1420ھ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، تہران، اسلامیۃ، چاپ دوم، 1363ہجری شمسی۔
  • مقریزی، تقی الدین أحمد بن علی، إمتاع الأسماع، تحقیق محمد عبد الحمید، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1420ھ۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، بیروت، اعلمی، چاپ سوم، 1409ھ۔
  • یاقوت حموی، معجم البلدان، بیروت، بی‎نا، 1979ء۔
پچھلا غزوہ:
دومۃ الجندل
رسول اللہ(ص) کے غزوات
بنی مصطلق
اگلا غزوہ:
خندق