عبد اللہ بن ابی

ویکی شیعہ سے
عبد اللہ ابن ابی
کوائف
مکمل نامعبد اللہ ابن ابی
کنیتابو الحباب
لقبراس المنافقین
محل زندگیمدینہ
مہاجر/انصارانصار
نسب/قبیلہخزرج
دینی معلومات
وجہ شہرتصحابی، نفاق


عبداللہ بن ابی معروف بہ ابن سلول (متوفی 9 ھ) پیغمبرؐ کے دور میں مدینہ میں ایک منافق اور یہودیوں کا ہم پیمان تھا۔ اس نے مدینہ میں پیغمبرؐ کے دور حکومت میں اسلامی معاشرے کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کیں جن میں جنگ احد، جنگ بنی قینقاع اور جنگ بنی نضیر میں اس کی وعدہ خلافی اور دھوکے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود پیغمبر اکرمؐ اس کے ساتھ رواداری سے کام لیا کرتے تھے۔ بعض قرآنی محققین کی نظر میں قرآن کی متعدد آیات جیسے سورہ نور کی آیت 11 تا 16 اور سورہ منافقون عبداللہ بن ابی کے نفاق کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ اس کا انتقال غزوہ تبوک کے بعد ہوا۔ خدا نے پیغمبرؐ کو اس کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع فرمایا۔

نام و نسب

عبداللہ ابن ابی ابن مالک ابن حارث ابن عبید ابن مالک معروف بہ ابن سلول قبیلہ خزرج کا ایک سردار تھا۔[1] سلول اس کی دادی[2] یا اس کے دادا کی ماں کا نام تھا۔ [3] عبداللہ بن ابی کی کنیت ابو الحباب بیان ہوئی ہے۔[4]

پیغمبر اکرم (ص) کی مخالفت

عبداللہ بن ابی نے متعدد بار پیغمبر کی مخالفت کی جیسے جنگ احد، غزوہ بنی قینقاع اور غزوہ بنی نضیر میں۔[5] غزوہ تبوک میں منافیقین نے ابی سلول کی سرکردگی میں پیغمبرؐ کا ساتھ دینے سے انکار کیا اور جنگ سے واپس پلٹ گئے۔[6] اسی طرح عبداللہ بن ابی اپنے پیروکاروں سے مل کر یہودیوں کے نامور افراد جیسے حی بن اخطب اور یاسر بن اخطب کا ساتھ دیا کرتا تھا۔[7]

مورخین کے مطابق عبد اللہ ابی منافقین مدینہ کا سرکردہ تھا۔[8] خزرج والے چاہتے تھے کہ اسے اپنا لیڈر تسلیم کریں لیکن پیغمبرؐ کی یثرب میں آمد سے انہوں نے آپ کی پیروری کی اور ابن سلول کو چھوڑ دیا۔ اس طرح عبداللہ ابن ابی کو پیغمبرؐ سے حسد ہو گیا جو نفاق میں بدل گیا۔ [9]

جنگ احد

تاریخی اسناد کے مطابق عبداللہ بن ابی جنگ احد میں دشمن سے مقابلے کے لیے دہئے گئے مشورے کے قبول نہ کیے جانے پر رسول اسلامؐ پر اعتراض کرتے ہوئے تین سو سپاہیوں کے ہمراہ پیغمبرؐ سے جدا ہوا اور مدینہ واپس چلا گیا۔[10] اس جنگ میں دشمن کے لشکر سے جنگ کے طریقے کار پر اصحاب پیغمبر میں اختلاف تھا حمزہ بن عبدالمطلب اور جوان شہر سے باہر کفار سے جنگ کرنے کے حق میں تھے[11] لیکن کچھ افراد جیسے عبداللہ بن ابی شہر میں جنگ کرنے کے حق میں تھے۔[12] شیعہ تاریخ نگار سید جعفر مرتضی عاملی (1364۔1441ھ) کے مطابق بعض روایات کے مطابق جنگ احد میں پیغمبرؐ کی نظر شہر میں رہنے کی تھی لیکن بعض شہر سے باہر جانے پر بعض اصحاب کے اصرار پر پیغمبرؐ نے ان کی رائے کو قبول کیا۔[13]

غزوہ بنی قنیقاع

عبداللہ بن ابی کا کردار غزوہ بنی قنیقاع میں منافقانہ تھا۔ وہ بنی قینقاع کے یہودیوں سے ہم پیمان تھا۔ اس نے انہیں جنگ اور مسلمانوں کا محاصرہ کرنے پر اکسایا اور دوسری طرف ان کا ساتھ دینے سے بھی گریز کیا۔ اس نے یہودیوں کے اسیر ہونے کے بعد پیغمبرؐ سے مطالبہ کیا کہ ان کا خون معاف کیا جائے۔ اس نے اپنے مطالبے پر اس قدر اصرار کیا کہ پیغمبرﷺ نے اس پر اور یہودیوں پر لعنت کی اور یہودیوں کی جلاوطنی کا حکم دیا۔[14]

غزوہ بنی نضیر

عبد اللہ ابن ابی نے غزوہ بنی نضیر میں یہودیوں کے دفاع میں ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ جب پیغمبرؐ وحی کے توسط سے بنی نضیر کے یہودیوں کے ذریعہ اپنے قتل کی سازش سے باخبر ہوئے تو آپ نے انہیں دس دنوں میں مدینے سے چلے جانے کا وقت دیا۔[15] عبداللہ بن ابی نے بن نضیر کے سرکردہ افراد کو پیغمبرؐ کی حکم عدولی کا پیغام بھیجا اور ان سے وعدہ کیا کہ ایک مضبوط لشکر کے ساتھ ان کا دفاع کرے گا ۔[16]

عبداللہ بن ابی کے ساتھ پیغمبرؐ کا برتاو

شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے مطابق اگرچہ تمام مسلمان عبداللہ بن ابی کے نفاق سے آشنا تھے لیکن پھر بھی پیغمبرؐ اس کے ساتھ رواداری کے ساتھ پیش آ رہے تھے۔[17] پیغمبرؐ بیت المال سے دوسرے مسلمانوں کی طرح عبداللہ بن ابی کا حصہ اسے دیتے تھے اور اس کے احترام اور امن کا پاس و لحاظ کرتے تھے۔ [18] اور جب بعض صحابہ نے عبداللہ بن ابی کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو پیغمبر اکرمؐ نے ان کو اس کام سے روکا۔[19]

عبداللہ بن ابی کے نفاق کے بارے میں نازل ہونے والی آیات

مورخین کی نظر میں عبداللہ بن ابی کی مذمت میں متعدد آیات نازل ہوئی ہیں جیسے سورہ حشر [20] کی 11 تا 13 آیات سورہ توبہ کی 64 تا[21]66 اور 94 تا[22]96، سورہ نسا کی [23]173 اور 64 [24] اور سورہ آل عمران کی [25]122 اور 141 [26]۔آیات۔

سورہ منافقون کا نزول

بعض اسناد کے مطابق سورہ منافقون کے نازل ہونے کا سبب عبداللہ بن ابی کے نفاق کو واضح کرنا تھا۔ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر راستے میں کچھ مہاجرین اور انصار میں جھگڑا ہو گیا اور عبداللہ بن ابی انصاری شخص کے دفاع میں کھڑا ہو گیا اور دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ جب مدینہ پہنچ کر عزت رکھنے والے (یعنی انصار) صاحبان ذلت (یعنی مہاجرین) کو مدینہ سے نکال دیں گے۔ یہ گفتگو پیغمبرؐ تک پہنچی لیکن عبداللہ بن ابی ان کے پاس گیا اور ان باتوں کا انکار کیا اس واقعہ کے بعد سورہ منافقون نازل ہوا۔ [27]

سورہ نور 11 تا 16 آیات کا نزول

بعض شیعہ اور اہل سنت مورخین اور قرآنی محققین کا سورہ نور کی 11 سے 16 آیات کو عبداللہ بن ابی سے متعلق ماننا ہے کہ ان آیات کی بنیاد پر منافقین کے ایک گروہ جیسے عبداللہ بن ابی نے غزوہ مصطلق کی وآپسی پر پیغمبرؐ کی زوجہ عائشہ پر بے عفتی کی تہمت لگائی لیکن خداوند متعال نے ان آیات کے نزول سے پاک دامن خواتین پر تہمت کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے اور انہیں اس طرح کی تہمت سے مبرا قرار دیا۔[28] یہ واقعہ جو حادثہ افک کے نام سے مشہور ہے بعض شیعہ مفسرین اس پر تنقید کرتے ہیں[29] جبکہ بعض شیعہ مفسرین اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ عائشہ نے پیغمبرؐ کی دوسری زوجہ ماریہ پر بے عفتی کی تہت لگائی تھی جس کے تناظر میں سورہ نور کی یہ آیات نازل ہوئیں۔[30]

وفات

غزوہ تبوک کے بعد عبداللہ بن ابی بیمار ہوا اور نویں ہجری ماہ ذی القعدہ میں وفات پا گیا۔[31] پیغمبرؐ روز وفات اس کے سرہانے پر گئے اور فرمایا: میں نے تمھیں یہودیوں سے دوستی سے منع کیا تھا۔[32] اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی نے پیغمبرؐ سے درخواست کی اس کے والد کے جنازے پر نماز پڑھیں لیکن سورہ توبہ کی آیت 84 نازل ہوئی جس میں خدا نے پیغمبرؐ کو منافقین کے جنازے پر نماز پڑھنے سے منع کیا۔ عبداللہ بن عبداللہ بن ابی نے پیغمبرؐ سے درخواست کی کہ اپنا پیراہن (کرتہ) عنایت کریں تاکہ والد کے جنازے کو اس کا کفن دینے سے اس کے عذاب میں کمی ہو سکے۔ پیغمبرؐ نے اسکی درخواست قبول کی اس اپنا پیراہن اسے عطا کیا۔[33]

اہل سنت کی بعض روایات کے مطابق جب پیغمبرؐ نے عبداللہ ابن ابی کے جنازے پر نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو عمر بن خطاب نے اس استدلال کے ساتھ کی خدا نے آپ کو منافقین کی نماز پڑھانے سے منع کیا ہے پیغمبر کو اس کام سے روکا لیکن پیغمبرؐ نے عمر کی بات کو قبول نہیں کیا اور اس کے جنازے پر نماز پڑھی۔ اس واقعہ پر خداوند نے عمر کی بات کی تایید کے لیے سورہ توبہ کی آیت 84 نازل کی اور پیغمبرؐ کو منافقین پر نماز پڑھانے سے منع کیا ہے۔ [34] شیعہ محقق سید جعفر مرتضی عاملی کا نظریہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ سورہ توبہ کی آیت 84 کے نازل ہونے سے پہلے پیغمبرؐ کو منافقین پر نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا تھا۔[35] اسی طرح شیعہ روایات میں یہ واقعہ دوسرے انداز میں بیان ہوا ہے۔ ان روایات کی بنیاد پر جب پیغمبرؐ عبداللہ بن ابی کی قبر پر تشریف لے گئے عمر بن خطاب نے پوچھا کہ کیا خدا نے آپ کو منافقین کی قبر پر آنے سے منع نہیں کیا ہے؟ پیغمبرؐ نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا اس نے اپنا سوال دہرایا پیغمبرؐ نے اس موقع پر فرمایا: تم کیا جانتے ہو میں نے کیا دعا کی ہے۔ میں نے خدا سے درخواست کی ہے کہ اس کی قبر اور اس کے اندر (باطن) کو آگ سے بھر دے۔[36]

حوالہ جات

  1. مسعودی، التنبیہ و الإشراف، دار الصاوی، ص۲۳۸؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، دار الکتب العلمیہ، ج۱۴، ص۳۴۳۔
  2. مسعودی، التنبیہ و الإشراف، دار الصاوی، ص۲۳۸؛ ابن‌ ہشام، السیرة النبویہ، دار المعرفہ، ج‏۱، ص۴۴۶؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، دار الکتب العلمیہ، ج۱۴، ص۳۴۳۔
  3. مقریزی، إمتاع الأسماع، دار الکتب العلمیہ، ج۱۴، ص۳۴۳۔
  4. ابن‌ عبدالبرّ، الاستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج‏۳، ص۹۴۰؛ ابن‌ اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج‏۳، ص۱۹۲۔
  5. حمیدی، «منافقان عصر پیامبر اکرم(ص)»، ۱۳۸۶ش، ص۸۷۔
  6. نوری، «ویژگی‌ہای جریان نفاق در عصر نبوی»، ۱۳۸۵ش، ص۱۱۵۔
  7. حمیدی، «منافقان عصر پیامبر اکرم(ص)»، ۱۳۸۶ش، ص۸۷۔
  8. مقریزی، إمتاع الأسماع، دار الکتب العلمیہ، ج۱۴، ص۳۴۳۔
  9. ابن‌ عبدالبرّ، الاستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۳، ص۹۴۰ و ۹۴۱؛ ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج‏۳، ص۴۰۸؛ ابن‌جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ھ، ج‏۳، ص۳۷۷۔
  10. ابن‌ ہشام، السیرة النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۶۴؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، دار الکتب العلمیہ، ج۱، ص۱۳۷؛ ابن‌ خلدون، تاریخ ابن‌ خلدون، ۱۴۰۸ھ، ج‏۲، ص۴۳۴۔
  11. مقریزی، إمتاع الأسماع، ج۹، ص۲۴۹۔
  12. ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، ۱۴۱۵ھ، ج۱۵، ص۱۲۲ و ۱۲۳؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، دار الکتب العلمیہ، ج۹، ص۲۴۹۔
  13. عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، ۱۴۲۶ھ، ج۸، ص۸۸۔
  14. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ق، ج‏۱، ص۱۷۷-۱۷۹۔
  15. مقریزی، إمتاع الأسماع، دار الکتب العلمیہ، ج‏۱، ص۱۸۸؛ ابن سید الناس، عیون الأثر، ۱۴۱۴ھ، ج‏۲، ص۷۰۔
  16. واقدی، المغازی، ۱۴۰۹ھ، ج‏۱، ص۳۶۸؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج‏۲، ص۵۵۳۔
  17. «دشمنان اصلی جامعہ اسلامی دوران پیامبر (ص) در مدینہ»؛ سایت دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنہ‌ای۔
  18. «دشمنان اصلی جامعہ اسلامی دوران پیامبر (ص) در مدینہ»؛ سایت دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنہ‌ای۔
  19. ابن‌ اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج‏۳، ص۱۹۳؛ مقریزی، امتاع الاسماع، دار الکتب العلمیہ، ج‏۱، ص۲۰۸۔
  20. ابن‌ عطیہ، المحرر الوجیز، ۱۴۱۳ھ، ج۵، ص۲۸۹۔
  21. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج‏۵، ص۷۱۔
  22. طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج‏۵، ص۹۳۔
  23. حویزی، تفسیر نور الثقلین، ۱۴۱۵ھ، ج‏۱، ص۵۶۳۔
  24. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی‏، ج‏۳، ص۲۴۱۔
  25. قمی، تفسیر القمی، ۱۳۶۳ش، ج‏۱، ص۱۱۰۔
  26. قمی، تفسیر القمی، ۱۳۶۳ش، ج‏۱، ص۱۴۱۔
  27. ابن‌ ہشام، السیرۃ النبویہ، دار المعرفہ، ج۲، ص۲۹۰ و ۲۹۱؛ بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۴۰۵ھ، ج۴، ص۵۲ و ۵۵۔
  28. ابن‌ ہشام، السیرة النبویہ، دار المعرفہ، ج‏۲، ص۲۹۷-۳۰۳؛ مقریزی، إمتاع الأسماع، دار الکتب العلمیہ، ج‏۱، ص۲۱۳- ۲۱۶؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج‏۷، ص۲۰۴-۲۰۶۔
  29. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۱۵، ص۱۰۱؛ مکارم شیرازی، الامثل، ۱۴۲۱ھ، ج۱۱، ص۴۰۔
  30. قمی، تفسیر قمی، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۹۹؛ عاملی، الصحیح من سیره النبی الاعظم، ۱۴۲۶ھ، ج۱۲، ص۳۲۰، ۳۲۶۔
  31. بیہقی، دلائل النبوۃ، ۱۴۰۵ھ، ج۵، ص۲۸۵۔
  32. بیہقی، دلائل النبوة، ۱۴۰۵ھ، ج۵، ص۲۸۵۔
  33. ابن‌ عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۳، ص۴۹۱۔
  34. بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۲۲ھ، ج۶، ص۶۸؛ بیہقی، دلائل النبوة، ۱۴۰۵ھ، ج۵، ص۲۸۷۔
  35. عاملی، الصحیح من سیرة النبی الأعظم، دار الحدیث، ج۲۶، ص۱۰۷۔
  36. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج‏۳، ص۱۸۸؛ شیخ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ھ، ج۳، ص۱۹۶۔

مآخذ

  • ابن‌ اثیر، عزالدین، اسد الغابہ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹ھ۔
  • ابن‌ جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۲ھ۔
  • ابن‌ خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن‌ خلدون، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۸ھ۔
  • ابن‌ سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۰ھ۔
  • ابن‌ سیدالناس، محمد، عیون الاثر، بیروت، دار القلم، ۱۴۱۴ھ۔
  • ابن‌ عبدالبر، یوسف بن عبدالله، الاستیعاب، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۲ھ۔
  • ابن‌ عطیہ، عبدالحق، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۲۲ھ۔
  • ابن‌ ہشام، عبدالملک، السیره النبویہ، بیروت، دار المعرفہ، [بے ‌تا]۔
  • ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۱۵ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بے‌جا، دار الطوق النجاه، ۱۴۲۲ھ۔
  • بیہقی، احمد بن الحسین، دلائل النبوه، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۰۵ھ۔
  • حمیدی، رضا، «منافقان عصر پیامبر اکرم(ص»، در مجلہ جستار، شماره۱۳ و ۱۴، بہار ۱۳۸۶۔
  • حویزی، عبد علی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، قم، اسماعیلیان، ۱۴۱۵ھ۔
  • خامنہ‌ای، سید علی، «دشمنان اصلی جامعه اسلامی دوران پیامبر (ص) در مدینہ»؛ سایت دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت الله العظمی خامنہ‌ای، تاریخ درج: ۲۸ اردیبہشت ۱۳۸۰، دیکھے جانے کی تاریخ: ۲۰ تیر ۱۴۰۰۔
  • طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، ۱۴۱۷ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو، ۱۳۷۲ش۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، دار التراث، ۱۳۸۷ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بے ‌تا۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام،تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم صلّی الله علیه و آلہ، قم، موسسہ علمی فرہنگی دار الحدیث، ۱۴۲۶ھ۔
  • قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دار الکتاب، ۱۳۶۳ش۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مسعودی، ابوالحسن علی بن الحسین، التنبیہ و الاشراف، قاہره، دار الصاوی، بے‌تا۔
  • مقریزی، احمد بن علی، امتاع الاسماع بما للنبی من الاحوال و الاموال و الحفده و المتاع، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۲۰ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، الامثل فی تفسیر کتاب المنزل، قم، مدرسہ امام علی بن ابی‌طالب، ۱۴۲۱ھ۔
  • نوری، محمد موسی، «ویژگی‌ہای جریان نفاق در عصر نبوی(صلی الله علیه وآلہ)»، در مجلہ معرفت، شماره۱۰۸، ۱۳۸۵ش۔
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، بیروت، موسسہ الاعلمی، ۱۴۰۹ھ۔