نمازی کا لباس

ویکی شیعہ سے

نمازی کا لباس سے مراد وہ کپڑے ہیں جسے نمازی، حالت نماز میں پہن رکھے ہوں۔ فقہ میں دوران نماز پہنے جانے والے لباس کی نوعیت اور اس کہ خاص شرطوں کے سلسلے میں کچھ شرعی احکام بیان ہوئے ہیں۔ تمام فقہا کا اس بات پر اجماع ہے کہ نمازی عورت پر واجب ہے کہ کوئی محرم ہو یا نہ ہو؛ دوران نماز سوائے چہرے اور ہاتھ کی کلائیوں سے لے کر انگلیوں کے سروں تک، باقی پورے جسم اور سر کے بالوں کو ڈھانپے۔ مردوں پر شرم گاہ کے علاوہ پورے بدن کا ڈھانپنا واجب نہیں ہے۔

نمازی کے لباس کی شرط یہ ہے کہ پاک ہو نجس نہ ہو، مباح ہو اور غصبی نہ ہو، حرام گوشت جانور کے اجزا سے نہ بنا ہو اسی طرح مردار حیوان(ذبح شرعی کے بغیر مرا ہوا جانور) کے اجزا سے نہ ہو چاہے وہ حلال گوشت ہو یا حرام گوشت۔

فقہاء کے فتوی کے مطابق مردوں کے لیے سونے یا سونے کے تاروں سے بنا ہو لباس؛ اسی طرح خالص ریشم سے بنا لباس پہننا حرام ہے۔ بحالت نماز ایسا لباس پہننے سے نماز باطل ہوگی۔ مجتہدین نے نماز پڑھنے والے کے کپڑوں سے متعلق کچھ مستحب اور مکروہ احکام بھی بیان کیے ہیں۔

اہمیت و مقام

نماز کے دوران پہنے جانے والے لباس کے کچھ احکام اور شرائط ہیں؛ فقہاء نے فقہی ابواب جیسے باب طہارت اور باب صلاۃ میں ان احکام کو بیان کیا ہے۔[1] حُرّ عامِلی نے اپنی کتاب وسایل‌الشّیعہ کے ایک خاص حصے کو «ابواب لباس المُصَلّی» کے عنوان سے نمازی کے لباس کے بارے میں مرتب کیا ہے اور اس سلسلے میں وارد شدہ مختلف روایات کو 62 مختلف ابواب میں تقسیم کیا ہے اور ان کے احکام بیان کیے ہیں۔ [2]

دوران نماز لباس کی مقدار

فقہاء کی نظر میں مرد اور عورت کے بحالت نماز پہنے جانے والے لباس کی مقدار حکم شرعی کے لحاظ سے مختلف ہے:

حالت نماز میں عورت کے لباس کا حکم

بعض فقہاء کے مطابق تمام مجتہدین کا اس بات پر اجماع ہے[3] کہ کوئی نامحرم ہو یا نہ ہو، نماز کی حالت میں عورتوں پر واجب ہے[4] کہ سوائے اپنے چہرے (جس مقدار کو وضو میں دھویا جاتا ہے) اور ہاتھوں کی کلائیوں سے لے کر انگلیوں کے سروں تک، سر کے بالوں سمیت باقی تمام بدن کو ڈھانپے۔[5] البتہ بعض شیعہ فقہاء نے سر کے بالوں کا چھپانا واجب ہونے کے سلسلے میں شک و تردید کی ہے۔[6] چوتھی صدی ہجری کے فقیہ ابن جنید اسکافی کے فتوی کے مطابق اگر دوران نماز کوئی نامحرم نہ ہو تو عورت برہنہ سر نماز پڑھ سکتی ہے۔[7]

بعض فقہاء کی نظر میں چہرہ اور ہاتھوں کے علاوہ پاؤں کے ٹخنوں کے ظاہری حصے کا ڈھانپنا ضروری نہیں۔[8] مولف کتاب عروۃ الوثقیٰ طباطبایی یزدی کا کہنا ہے کہ حالت نماز میں عورت کے پاؤں کا تلوہ برہنہ ہو تو کوئی اشکال نہیں۔[9]

حالت نماز میں مردوں کے لباس کا حکم

اجماع فقہاء[10] کے مطابق دوران نماز مردوں پر شرم گاہ کے علاوہ باقی بدن کا چھپانا واجب نہیں ہے۔[11]طباطبائی یزدی کے مطابق احتیاط مستحب یہ ہے کہ حالت نماز میں ناف سے لیکر زانو تک ڈھانپ لے.[12] صاحبْ‌ جواہر کا کہنا ہے کہ مردوں کے لیے شرم گاہ کو چھپا کر برہنہ حالت میں نماز پڑھنا اگرچہ جائز ہے لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے۔[13]

دوسرے شرعی احکام

نمازی کے لباس سے مربوط کچھ دوسرے احکام درج ذیل ہیں:

پاکی اور طہارت

تمام شیعہ فقہاء کا فتوی ہے کہ نمازی کا لباس پاک ہونا چاہیے[14]اور اگر نجس ہو تو واجب ہے اسے پاک کرے۔[15]البتہ فقہاء نے زخموں، پھوڑوں (اور وہ زخم جس سے خون بند نہیں ہوتا) کے خون سے آلودہ لباس کو اس حکم سے خارج کیا ہے، نیز وہ خون(حیض، نفاس اور استحاضہ کے خون کے علاوہ) جو ایک درہم سے کم ہو، اس حکم سے خارج ہے۔[16]

فقہاء کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقدار کے لحاظ سے وہ لباس جن سے نماز پوری نہیں ہوتی (یعنی ان سے شرم گاہ کو ڈھانپنا ممکن نہیں)، جیسے جوراب، ٹوپی، رومال، دستانے وغیرہ، اگر نجس ہوں تو نماز میں کوئی اشکال نہیں۔[17] بعض فقہاء کے مطابق چھوٹی چیزیں جیسے انگوٹھی، گھڑی، چابی، سکہ وغیرہ نجس ہونے کی صورت میں بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔[18]

شیعہ مشہور فقہاء کے مطابق[19] ماں یا دایہ (جو بچے کی تربیت کرتی ہے) کے پاس اگر صرف ایک لباس ہو اور وہ بچے کے پیچھاپ سے نجس ہوجائے تو پورے دن میں صرف ایک بار اسے دھو لے؛ ہر نماز میں اسے پاک کرنا ضروری نہیں۔[20]

لباس کے مباح ہونے کا حکم

فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ نمازی کا لباس مباح ہو یعنی غصبی نہ ہو۔[21] بنابر ایں، اگر نمازی غصبی لباس کا استعمال حرام ہونے کو جانتے ہوئے اس لباس میں نماز پڑھ لے تو اس کی نماز باطل ہے۔[22] البتہ اگر اس حکم کو نہیں جانتا یا لباس کے غصبی ہونے کو بھول جائے تو اس صورت میں اس کی نماز صحیح ہے؛[23] لیکن اگر اسے دوران نماز یاد آجائے اور غیر غصبی لباس میں نماز پڑھنا اسے کے لیے ممکن ہو تو اسے چاہیے کہ فورا غصبی لباس کو خود سے الگ کرے، یہاں تک کہ اگر ایک رکعت بھی اپنے وقت میں ادا کی جاسکتی ہے تو اسے چاہیے کہ غصبی لباس کو اتار دے۔ البتہ اگر اپنی جان کی حفاظت کے لیے یا مجبوری کی حالت میں غصبی لباس میں نماز پڑھ لی جائے تو اس کی نماز صحیح ہے۔[24] اگر نمازی خمس یا زکات واجب شدہ مال سے لباس خریدے اور اس میں نماز پڑھ لے تو اس کی نماز باطل ہے۔[25] اس سلسلے میں ایک فتوی یہ ہے کہ اگرچہ بحالت نماز غصبی مال میں تصرف حرام ہے لیکن غصبی انگوٹھی، موبائل یا پینٹ بلیٹ وغیرہ ساتھ ہو تو نماز باطل نہیں ہوتی۔[26]

لباس کی نوعیت

فقہاء کے فتوی کے مطابق ضروری ہے کہ نمازی کا لباس حرام گوشت جانور کے اجزا سے نہ بنا ہو۔ بنابر ایں، اگر نمازی کا لباس حرام گوشت جانور کی کھال، چمڑے یا اون سے بنا ہو یا ان میں سے کوئی چیز اسے کے ساتھ ہو یا اس کے لباس کے ساتھ ملا ہوا ہو تو نماز باطل ہے۔[27] ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کپڑوں پر حرام گوشت جانوروں اور پرندوں کا لعاب اور فضلہ لباس پر لگے تو اس میں نماز نہیں پڑھی جاسکتی اور نماز باطل ہے۔[28] اسی طرح حرام گوشت جانور اور وہ حلال گوشت جانور جسے تذکیہ نہ کیا ہو، ان کے اجزا سے بنے لباس میں بھی نماز باطل ہے۔[29] سونے کے سلے ہوئے یا سونے کا پانی چڑھا ہوا لباس پہننا مرد کے لیے حرام ہے اور اس کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز باطل ہے۔[30] نیز مردوں کے لیے سونے کی زنجیر، انگوٹھی گھڑی پہننا بھی حرام ہے اور بعض فقہاء کے فتاویٰ کے مطابق نماز کے دوران ان کے استعمال اجتناب کرنا واجب ہے۔[31]

فقہاء کے فتویٰ کے مطابق مرد کے لیے ریشمی لباس پہننا حرام ہے اور اس کے ساتھ نماز پڑھنا باطل ہے۔[32] بعض فقہاء کے نزدیک رومال، موزے، ٹوپیاں، کپڑوں کے استر وغیرہ اگر خالص ریشم سے بنے ہوں تو نماز باطل ہو جاتی ہیں۔[33]

مستحبات و مکروہات

فقہائے شیعہ نے ائمہ معصومینؑ کی روایتوں کو مد نظر رکھ کر نمازی کے لباس کی شرائط کے علاوہ کچھ مستحب اور مکروہ احکام بھی بیان کیے ہیں:[34]

مستحبات

بعض چیزیں نمازی کے لباس میں مستحب ہے:

  • سفید لباس ہو؛
  • مرد عبا پہن لے اور عورت چادر پہن لے؛
  • اپنے پاک ترین لباس کو پہنے؛
  • خوشبو استعمال کرے؛
  • ہاتھ میں عقیق کی انگوٹھی پہنے۔[35]

مکروہات

صاحبْ‌عروہ نے نمازی کے لباس سے متعلق33 مکروہات بیان کیے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں:

  • سیاہ لباس پہننا؛
  • گندہ لباس پہننا؛
  • ایسا لباس پہننا جس پر انسان یا حیوان کی تصویر بنی ہو؛
  • عورتوں کے لیے نقاب لگانا؛
  • تنگ لباس پہننا؛
  • صرف ایک نازک لباس پہننا؛
  • انگشت نما اور لباس شہرت پہننا.[36]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: بحرانی، حدائق الناضرۃ، 1363ہجری شمسی، ج5، ص290؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج2، ص327.
  2. ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج4، ص343-465.
  3. محقق حلی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص101؛ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1387ھ، ج5، ص250.
  4. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج2، ص318؛ مرعشی نجفی، منہاج المؤمنین، 1406ھ، ج1، ص143.
  5. محقق حلی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص101؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج2، ص318؛ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1387ھ، ج5، ص250.
  6. ملاحظہ کریں: محقق اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، 1403ھ، ج2، ص105؛ موسوی عاملی، مدارک الاحکام، 1429ھ، ج3، 189؛ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، 1387ھ، ج5، ص255.
  7. ابن‌جنید، مجموعہ فتاوی ابن‌جنید، 1416ھ، ص51.
  8. شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج1، ص87؛ محقق حلی، المعتبر، 1407ھ، ج2، ص101؛ شہید اول، الالفیۃ و النفلیۃ، 1408ھ، ص50.
  9. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج2، ص319.
  10. سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج5، ص243.
  11. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج8، ص175.
  12. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج2، ص319.
  13. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج8، ص175.
  14. سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج5، ص262.
  15. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج1، ص289؛ بحرانی، الحدائق الناضرۃ، 1362ہجری شمسی، ج5، ص290.
  16. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج1، ص289؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص210.
  17. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص219.
  18. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص219؛ حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، ج1، ص582.
  19. بحرانی، حدائق الناضرۃ، 1363ہجری شمسی، ج5، ص345.
  20. بحرانی، حدائق الناضرۃ، 1363ہجری شمسی، ج5، ص345؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج1، ص221.
  21. حکیم، مستمسک العروۃ الوثقی، ج5، ص278.
  22. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج2، ص328.
  23. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج2، ص328-329.
  24. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص232.
  25. خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1434ھ، ج1، ص151.
  26. «شرایط لباس نمازگزار»، سایت جامع المسائل، مرکز پاسخگویی بہ احکام شرعی و مسائل فقہی، دفتر آیت‌اللہ مکارم شیرازی.
  27. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج2، ص337.
  28. خمینی، تحریر الوسیلہ، 1434ھ، ج1، ص151.
  29. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج2، ص334.
  30. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج2، ص341؛ خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1434ھ، ج1، ص152.
  31. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج2، ص341-342.
  32. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج2، ص343-344؛ خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1434ھ، ج1، ص153.
  33. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج2، ص343-344.
  34. ملاحظہ کریں: سبزواری، مہذب الاحکام، دار التفسیر، ج5، ص347.
  35. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ھ، ج2، ص361.
  36. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1417ق، ج2، ص360.

مآخذ

  • ابن‌جنید، محمد بن احمد، مجموعہ فتاوی ابن‌جنید، تحقیق علی‌پناہ اشتہاردی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1416ھ.
  • بحرانی، یوسف، حدائق الناضرۃ، قم، مؤسسۃ الفکر الاسلامی، 1363ہجری شمسی.
  • حکیم، سیدمحسن، مستمسک العروۃ الوثقی، بیروت، دار إحیاء تراث العربی، 1391ھ. 1387ہجری شمسی.
  • حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت، 1416ھ.
  • خمینی، سید روح‌اللہ، تحریر الوسیلۃ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، چاپ اول، 1434ھ.
  • سبزواری، سید عبدالاعلی، مہذب الاحکام، قم، دار التفسیر، بی‌تا.
  • «شرایط لباس نمازگزار»، سایت جامع المسائل، مرکز پاسخگویی بہ احکام شرعی و مسائل فقہی، دفتر آیت‌اللہ مکارم شیرازی، تاریخ بازدید: 26 مرداد ماہ 1402ہجری شمسی.
  • شہید اول، محمد بن مکی، الالفیۃ و النفلیۃ، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، 1408ھ.
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تحقیق و تعلیق سیدمحمد کلانتر، قم، انتشارات داوری، 1410ھ.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، تہران، المکتبۃ المرتضویۃ لإحیاء الاثار الجعفریۃ، چاپ سوم، 1387ھ.
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1417ھ.
  • طباطبایی یزدی، محمدکاظم، العروۃ الوثقی، تحقيق: مؤسسۃ النشر الإسلامي، قم، چاپ اول، 7 1419ھ.
  • محقق اردبیلی، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و البرہان، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1403ھ.
  • محقق سبزواری، محمدباقر، کفایۃ الاحکام، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1381ہجری شمسی.
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، قم، مؤسسہ سید الشہداء(ع)، چاپ اول،
  • مرعشی نجفی، سید شہاب‌الدین، منہاج المؤمنین، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، 1406ھ۔
  • موسوی عاملی، سیدمحمد، مدارک الاحکام، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، 1429ھ.
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام، بیروت، دار إحیاء تراث العربی، 1362ہجری شمسی.
  • نراقی، ملااحمد، مستند الشیعہ، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1415ھ.