ذبح شرعی

ویکی شیعہ سے

ذبح شرعی جس کا مطلب شرعی طریقہ سے جانوروں کا سر کاٹنا ہے۔ خشکی میں رہنے والے حلال جانور (اونٹ اور ٹڈی کے علاوہ) اور خون جہندہ رکھنے والے دریائی جانوروں کا ذبح کرنے سے تذکیہ ہوجاتا ہے اور ان کا گوشت حلال ہوجاتا ہے۔ اسی طرح حرام گوشت جانور ذبح کرنے کے بعد پاک ہوجاتے ہیں اور فقہا کے فتاوا کے مطابق ان کے بدن کے اجزا کو کھانے اور نماز میں استعمال کے علاوہ دیگر امور میں استعمال کر سکتے ہیں۔

اسلام میں شرعی ذبح کے شرائط یہ ہیں: ذبح کرنے کا آلہ لوہے کا ہو، جانور قبلہ رخ ہو، ذبح کرنے سے پہلے جانور زندہ ہو، ذبح کرنے والا مسلمان ہو، زبان پر اللہ کا نام جاری کرے اور گردن کی چار رگیں مکمل طور سے گلے کے نیچے سے کاٹے۔ دین یہود میں جانوروں کو ذبح کرنے کے شرائط الگ ہیں۔

دین اسلام نے جانوروں کو ذبح کرنے کے کچھ اور بھی آداب بیان کئے ہیں تاکہ اس سے حیوان کو درد کا احساس کچھ کم ہو البتہ اس کے باوجود بعض غیر اسلامی ممالک میں جانوں کو اسلامی شرعی طریقے سے ذبح کرنے کو منع کیا گیا ہے۔بعض تحقیقات کے مطابق، شرعی طریقے سے ذبح کرنے سے گوشت کی حالت بہتر اور دیر تک خراب نہیں ہوتا ہے۔

ذبح کا مفہوم

ذبح، عربی میں جانوروں کے سر کاٹنے کو کہا جاتا ہے۔[1] فقہ اسلامی میں ذبح، جانوروں کے تذکیہ کی ایک قسم ہے جو جانور کی گردن کی چار رگوں کو کاٹنے سے انجام پاتا ہے۔[2] شرعی طریقہ سے ذبح کرنے کے ذریعہ (اونٹ اور ٹڈی کے علاوہ) خشکی میں رہنے والے تمام حلال جانور اور خون جہندہ رکھنے والے دریائی جانوروں کا تذکیہ ہوجاتا ہے۔[3]

قرآن مجید نے، سورہ مائدہ کی تیسری آیت میں، جانوروں کے ذبح کے بعض طریقوں کو غلط قرار دیا ہے اور ایسے غلط طریقوں سے ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت کھانے سے مسلمانوں کو منع کیا ہے۔[یادداشت 1]

فقہی کتابوں میں، جانوروں کے ذبح کے موضوع پر ایک مستقل باب (صید و ذباحہ) کے نام سے ہوتا ہے۔[4] جو شخص جانور کو ذبح کرے اس کو «ذابح» اور جو جانور ذبح ہوا ہے اس کو «ذبیحہ» اور «مذبوح» کہتے ہیں۔[5]

شرائط

دین اسلام میں ذبح شرعی کے انجام پانے کے لئے کچھ شرائط معین ہیں جن کی رعایت ضروری ہے۔ شرائط یہ ہیں:

  • جانور کی گردن کی چار بڑی رگیں مکمل طور سے گلے کے نیچے سے کاٹی جائیں؛
  • ذبح کے وقت اللہ کا نام زبان پر جاری کیا جائے؛
  • ذبح کے وقت جانور رو بقبلہ ہو؛
  • ذبح کا ہتھیار لوہے کا ہو؛ لیکن مجبوری میں اور جانور کے تلف ہونے کا خوف ہو تو اس صورت میں پتھر یا اور دوسری تیز چیز بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
  • ذبح کرنے والا مسلمان ہو؛ اس شرط کی بنا پر ذبح کرنے والا، کافر غیر کتابی یا ناصبی نہیں ہوسکتا۔ اہل کتاب کے ذبیحہ کے سلسلہ میں دو نظریے ہیں اور اکثر شیعہ فقہا ان کے ذبح شدہ جانوروں کو حرام سمجھتے ہیں۔
  • جانور ذبح ہونے سے پہلے زندہ ہو۔ بعض فقہا کا کہنا ہے کہ ذبح ہونے کے بعد جانور اپنے بدن یا اپنے ہاتھ پیروں کو حرکت دے تاکہ واضح ہوجائے کہ ذبح سے پہلے وہ زندہ تھا۔[6]

فقہا کا نظریہ ہے کہ آج کے زمانے میں جانوروں کو ذبح کرنے والی نئی مشینوں سے جانوروں کو ذبح کرنا صحیح ہے؛ لیکن ذبح کے وقت اللہ کا نام لازمی زبان پر لانا چاہئے اور ذبح کے دوسرے شرائط کی بھی رعایت کی جائے۔ اسی طرح ایسا گوشت خریدنا جس کے بارے میں ہمیں نہیں معلوم کہ جانور شرعی طور سے ذبح ہوا تھا یا نہیں، تو یہاں پر فقہاء کہتے ہیں کہ اگر مسلمان سے یا مسلمانوں کے بازار سے خریدا گیا ہو تو حلال ہے۔[7]

مستحبات

دین اسلام میں جانوروں کو ذبح کرنے کے بارے میں بعض احکام کی رعایت کرنا مستحب سمجھا گیا ہے منجملہ:

  • ذبح کرنے والا شخص رو بقبلہ ہو۔
  • ذبح کرنے والا اوزار تیز ہو اور ذبح تیزی سے انجام پائے۔
  • ذبح کرنے سے پہلے جانور کے آگے پانی رکھا جائے۔
  • جانور کو نرمی کے ساتھ ذبح کے لئے تیار کریں۔
  • بھیڑ کو ذبح کرنے میں اس کے دونوں ہاتھ اور ایک پیر باندھا جائے اور دوسرا پیر کھلا رہنے دیا جائے۔
  • گائے کو ذبح کرنے میں اس کے چاروں ہاتھ اور پیر باندھے جائیں اور اس کی دُم کھلی ہو۔
  • مرغ کو ذبح کرنے کے بعد اس کو چھوڑدیں تاکہ وہ پروں کو پھڑپھڑائے۔[8]

مکروہات

فقہی اسناد کی بنا پر جانوروں کو ذبح کرنے میں مندرجہ ذیل کام مکروہ ہیں:

  • جانور کی جان نکلنے سے پہلے حرام مغز کا کاٹنا۔
  • دیگر جانور کے سامنے ذبح کرنا۔
  • پالتو جانور کو ذبح کرنا۔
  • جانور کو رات میں ذبح کرنا۔
  • جمعہ کے دن زوال سے پہلے ذبح کرنا۔[9]
  • حلق کے پیچھے سے چاقو گھونپنا اور اس کو آگے کی طرف اس طرح سے کھینچنا کہ پیچھے سے حلق کٹ جائے۔

آثار

فقہ اسلامی میں حلال جانوروں کے ذبح کے بعد ان کا گوشت کھانا حلال ہوجاتا ہے اور ان کے بدن کے اجزا بھی پاک رہتے ہیں۔ لیکن حرام گوشت جانور جب بھی ذبح ہوں گے تو صرف ان کے اجزائے بدن پاک ہوں گے اور بہت سے فقہا کے عقیدے کے مطابق ان جانوروں کی کھال اور چمڑے کو نماز کے علاوہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ [10] فقہ اسلامی کی بنا پر جانور جب بھی ذبح نہ ہوں یا ان کو ذبح کرنے میں ذبح شرعی کی کسی شرط کی رعایت نہ کی جائے تو جانور تذکیہ نہیں ہوگا اور اس کے بدن کے اجزا بھی مردار اور نجس ہیں۔ [11]

ذبح دوسرے ادیان و تمدن میں

دین یہود میں ذبح شرعی کو «شہیتا» اور ذبح کرنے والے کو «شوہت» کہتے ہیں۔[12] تلمود میں ذبح کرنے کے بہت زیادہ احکام ذکر ہوئے ہیں منجملہ جانور بیہوش نہ ہو یا کھڑے ہونے سے عاجز نہ ہو۔[13] اسی طرح لازم ہے کہ جس شخص نے یہودی علماء سے تعلیم حاصل کی ہو وہ ایک صحیح وار کے ذریعہ تیزی سے جانور کو ذبح کردے۔[14] زیادہ تر عیسائی ممالک میں جانوروں کو ذبح کرنے والی ترقی یافتہ مشینوں سے ذبح کیا جاتا ہے اور بعض ممالک میں جانور کو ذبح سے پہلے بے ہوش کردیتے ہیں۔[15]

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. سورہ مائدہ، آیہ ۳؛ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لحَْمُ الخِْنزِيرِ وَ مَا أُهِلَّ لِغَيرِْ اللَّهِ بِهِ وَ الْمُنْخَنِقَةُ وَ الْمَوْقُوذَةُ وَ الْمُترََدِّيَةُ وَ النَّطِيحَةُ وَ مَا أَكلَ‏َ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَ۔۔۔[؟؟]؛(لوگو) مرا ہوا جانور اور خون اور سور کا گوشت اور جس (جانور) پر (ذبح) کے وقت خدا کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا جائے اور گردن مروڑا ہوا اور چوٹ کہاکر مرا ہوا اور جو (کنویں وغیرہ) میں گرکر مرجائے اور جو سینگ سے مار ڈالا گیا ہو اور جس کو درندے نے پھاڑ کھایا ہو مگر جسے تم مرنے کے قبل ذبح کرلو اور ۔۔۔ ۔

حوالہ جات

  1. فرہنگ لغت دہخدا، لفظ ذبح کے ذیل میں۔
  2. توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ص۷۴۲۔
  3. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ۱۳۸۲ش، ج۳، ص۷۰۲۔
  4. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ۱۳۸۲ش، ج۳، ص۷۰۱۔
  5. فرہنگ لغت دہخدا، ذیل واژہ ذبیحہ و مذبوح؛ ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ۱۳۸۲ش، ج۳، ص۷۰۱۔
  6. توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۷۴۵۔
  7. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، ۱۳۸۲ش، ج۲، ص۴۲۷۔
  8. توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۷۴۷۔
  9. توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۷۴۸۔
  10. نجفی، مجمع الرسائل (محشی صاحب جواہر)، ۱۴۱۵ھ، ص۷۷۔
  11. رسالہ توضیح المسائل مراجع، ۱۳۷۲ش، ص۷۰۸۔
  12. شیخ بہایی، حرمۃ ذبائح اہل الکتاب، ۱۴۱۰ھ، ص۵۰۔
  13. کہن، گنجینہ‌ای از تلمود، ۱۳۵۰ش، ص۲۵۷۔
  14. کہن، گنجینہ‌ای از تلمود، ۱۳۵۰ش، ص۲۵۷۔
  15. سجادی، «ذبح و نحر در فقہ اسلامی»، ص۱۵۰۔

مآخذ

  • توضیح المسائل مراجع، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۹۲ش۔
  • دہخدا، علی اکبر، فرہنگ لغت، تہران، مؤسسہ لغت نامہ دہخدا، ۱۳۴۱ش۔
  • رسالہ توضیح المسائل مراجع، قم، انتشارات تفکر، ۱۳۷۲ش۔
  • سجادی، مرضیہ سادات، «ذبح و نحر در فقہ اسلامی»، در مجلہ مطالعات اسلامی، شمارہ ۴۳، بہار و تابستان ۱۳۷۸ش۔
  • شیخ بہایی، محمد بن حسین، حرمۃ ذبائح اہل الکتاب، بیروت، موسسۃالاعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۰ھ۔
  • کہن، آبراہام، گنجینہ‌ای از تلمود، ترجمہ امیر فریدون گرگانی، تہران، نشر یہودا، ۱۳۵۰ش۔
  • نجفی، محمد حسن، مجمع الرسائل (محشی صاحب جواہر)، موسسہ صاحب الزمان، مشہد، ۱۴۱۵ھ۔
  • ہاشمی شاہرودی، محمود، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت، قم، مرکز دایرۃالمعارف فقہ اسلامی، ۱۳۸۲ش۔