حَرامْ ‌گوشْت جانور ان حیوانات کو کہا جاتا ہے جن کا گوشت کھانے سے اسلام میں منع ہوا ہے۔ فقہ اسلامی میں متعدد چوپائے، بحری جانور اور پرندوں کے اجزاء کھانے کو حرام قرار دیا گیا ہے شیعہ امامیہ کے فقہی متون میں حرام گوشت جانوروں کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں، ایک ذاتی دوسری عرضی۔

بری (خشکی کے) جانوروں میں سے تمام درندے، تمام رینگنے والے جانور، تمام مسخ شدہ جانور، تمام کیڑے مکوڑے اور تمام پنجہ دار پرندے، حرام گوشت جانوروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح چھلکے دار مچھلی کے علاوہ پانی کے تمام جانور حرام گوشت ہیں۔ حرام گوشت جانور سے بنی ہوئی چیزیں جیسے چمڑا، دوائی، کاسمیٹک چیزیں اس صورت میں پاک ہیں جب جانور کا تذکیہ ہوا ہو اور نماز کے علاوہ دوسری جگہ پر ہی ان کا استعمال جائز ہے۔

حرام گوشت کا مفہوم

مسلمانوں کے لئے جن جانوروں کے اجزاء کا کھانا حرام ہے انہیں حرام گوشت کہا جاتا ہے۔ بعض فقہی کتب میں حرام گوشت جانوروں کی دو قسمیں کی گئی ہیں۔ ایک ذاتی اور دوسری عرضی۔[1]

پہلی قسم میں وہ جانور آتے ہیں جن کا گوشت کھانا شروع سے ہی حرام رہا ہو، جیسے خرگوش۔ دوسری قسم ان جانوروں کو شامل ہوتی ہے جن کا گوشت کھانا عام حالات میں حرام نہیں ہے لیکن کچھ حالات اور اسباب کے تحت جیسے جانور کے نجاست خوار ہونے یا صحیح طریقہ سے ذبح نہ ہونے کی وجہ سے اس کا کھانا حرام ¬ہوگیا ہو۔ بعض کتابوں میں دوسری قسم کو عرضی حرام گوشت (عارضی حرام گوشت) بھی کہا گیا ہے۔[2]

قرآن نے چار سوروں سورہ بقرہ، سورہ مائدہ، سورہ نحل اور سورہ انعام میں حرام کھانوں کے تذکرہ کے ساتھ حرام گوشت جانوروں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔[3]

حرام گوشت جانور کی قسمیں

شیعہ فقہ میں جانوروں کی تینوں قسموں یعنی بری، بحری اور پرندوں میں سے کچھ کا گوشت کھانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔[4]

بری جانور

بری جانوروں میں تمام درندے جیسے چیتا اور بھالو؛ تمام رینگنے والے جانور جیسے سانپ؛ تمام کیڑے مکوڑے جیسے مکھی اور مکڑی؛ زمین کے اندر بلوں میں رہنے والے جانور جیسے چوہا اور بچھو؛ مسخ شدہ جانور جیسے ہاتھی اور گوہ، حرام گوشت میں شمار ہوتے ہیں۔[5]

بحری جانور

مزید دیکھئے: چھلکے والی مچھلی

شیعہ فقہ میں چھلکے والی مچھلی اور جھینگے کے علاوہ باقی تمام پانی کے جانور حرام گوشت ہیں۔[6] اہل سنت کے بعض مذاہب جیسے مالکی اور حنبلی کے یہاں پانی کے تمام جانور حلال گوشت ہیں۔[7]

پرندے

شیعہ فقہاء نے حرام گوشت پرندوں کی تین قسمیں بیان کی ہیں: پنجہ دار پرندے؛ مسخ شدہ پرندے؛ اور گندے پرندے (خبائث)۔ پنجہ دار جیسے عقاب، باز اور گدھ۔ مسخ شدہ جیسے مور، شہد کی مکھی، چمگادڑ۔

خبائث ان پرندوں کو کہا گیا ہے جن کے کھانے میں انسانی فطرت کو گھن محسوس ہو۔[8] بعض فقہی کتب میں مکھی اور مچھر کو خبائث کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔[9]

حرام ہوجانے والے حلال گوشت جانور

شیعہ فقہ میں کچھ شرائط کے تحت حلال گوشت جانور بھی حرام گوشت جانور کے حکم میں شمار ہوسکتے ہیں۔ اس بنیاد پر جن جانوروں کا تذکیہ نہ ہوا ہو یا جو نجاست کھانے لگے ہوں یا جن کے ساتھ (نعوذ باللہ) کسی انسان نے وطی کی ہو وہ حرام گوشت ہو جاتے ہیں۔[10]

حرام استعمال

شیعہ فقہ میں حرام گوشت جانور کا گوشت کھانا اور کسی بھی طرح سے اس کو کھانے کی چیزوں میں استعمال کرنا حرام ہے۔[11] پرندوں کے انڈوں کے کھانے کا حکم یا جانوروں کا دودھ پینے کا حکم ان کے گوشت کھانے کی طرح سے ہے۔ اگر حرام پرندے ہیں تو ان کے انڈے اور دودھ حرام ہے اور اگر حلال پرندے ہیں تو ان کے انڈے اور دودھ حلال ہے۔ [12]

حلال استعمال

کھانے پینے کے علاوہ دوسرے مقامات پر حرام گوشت جانوروں کے اجزاء کا استعمال، شیعہ فقہاء کی نظر میں جائز ہے۔

کپڑوں میں استعمال

کتے اور سور کے علاوہ دوسرے حرام گوشت جانوروں کے اجزاء کا کسی کپڑے میں استعمال جائز ہے بشرطیکہ ان کا تذکیہ کیا گیا ہو۔ اسی طرح حیوانات کے اجزاء جیسے چمڑے سے بنی ہوئی چیزوں کے استعمال میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔[13] حرام گوشت جانور کے تذکیہ کی وجہ سے ان کے اجزاء سے بنی چیزوں کے پاک ہوجانے کے باوجود، نماز میں ان کا استعمال جائز نہیں ہے۔[14]

فقہاء نے نماز کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی ان جانوروں کے اجزاء کے استعمال کو حرام قرار دیا ہے جن کا تذکیہ نہ ہوا ہو۔[15]

دوا اور کاسمیٹک میں استعمال ہونے والے مواد

شیعہ فقہاء ان دواؤں اور کاسمیٹک اشیاء جیسے کریم کے استعمال کو جائز قرار دیتے ہیں جنھیں حرام گوشت جانور کا تذکیہ کرنے کے بعد ان کے اجزاء سے تیار کیا گیا ہے۔[16] اگر حرام گوشت جانور کا تذکیہ نہ کیا گیا ہو تو اس سے بننے والی دوائیں اور کاسمیٹک چیزیں نجس ہیں اور نماز کے لئے ان کی وجہ سے آلودہ ہونے والے مقامات کا پاک کرنا واجب ہے۔[17]

بعض فقہاء کے مطابق اگر دوا یا خوراکی چیزیں جیسے جیلیٹین (gelatin) کو تذکیہ نشدہ حرام گوشت جانوروں کے اجزاء سے بنایا گیا ہو تو ایک صورت میں وہ پاک اور حلال ہوجاتی ہیں اور وہ صورت یہ ہے کہ دوا وغیرہ بناتے وقت کیمیائی کام کے دوران ان جانوروں کے اجزاء ایک نئے مادہ میں تبدیل ہوگئے ہوں۔ یا فقہ کی اصطلاح میں یوں کہا جائے کہ ان کا استحالہ ہوگیا ہو۔[18]

اجزاء کا پاک یا نجس ہونا

شیعہ فقہی کتب کے مطابق، اگر حرام گوشت جانوروں کو شرعی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہو تو ان کے اجزاء پاک ہوتے ہیں۔ [19] لیکن اگر ان کا تذکیہ نہ ہوا ہو اور وہ خون جہندہ رکھنے والے جانور ہوں تو ان کے اجزاء نجس ہوں گے۔[20]

پیشاب پاخانے کا نجس ہونا

خون جہندہ رکھنے والے حرام گوشت جانوروں کا پیشاب اور پاخانہ، نجس ہوتا ہے۔ خون جہندہ رکھنے والے جانور ان جانوروں کو کہا جاتا ہے جن کی گردن کی رگ حیات کاٹنے سے خون اچھل کر نکلتا ہے۔[21]

نماز میں استعمال کی ممانعت

نمازی کے لباس میں حرام گوشت جانور کے اجزاء استعمال نہیں کیا جاسکتا، چاہے اس جانور کا تذکیہ ہی کیوں نہ ہوگیا ہو۔ اسی وجہ سے اگر بلی کا بال، نمازی کے لباس میں ہو تو نماز، باطل ہوگی۔[22]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۷ش، ج۲، ص۲۵۵.
  2. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۷ش، ج۲، ص۲۵۵.
  3. سورہ بقرہ، آیہ۱۷۳؛ سورہ مائدہ، آیہ۳؛ سورہ انعام، آیہ۱۴۵؛ سورہ نحل، آیہ۱۱۵.
  4. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۷ش، ج۲، ص۲۵۵.
  5. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۷ش، ج۳، ص۴۰۸.
  6. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۷ش، ج۳، ص۴۰۸.
  7. «حکم خوردن گوشت خرچنگ و ماہی مرکب».
  8. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۷ش، ج۳، ص۴۲۲.
  9. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ھ، ج۳۶، ص۳۱۹.
  10. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۷ش، ج۳، ص۴۰۸.
  11. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۲۵۵؛ «حکم شرعی خوردن حیوانات حرام‌گوشت».
  12. نجفی، جواہر الکلام، ۱۹۸۱ء۔ ج۳۶، ص۳۹۴-۳۹۵.
  13. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۴۲۷.
  14. امام خمینی، توضیح المسائل، ۱۴۲۶ھ، ص۱۸۴.
  15. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۲۸۰.
  16. «استفتاء از آیت اللہ سیستانی دربارہ استفادہ از داروہای فراوری شدہ از حیوانات حرام‌گوشت».
  17. «استفتاء از آیت اللہ مکارم شیرازی دربارہ استفادہ از ژلاتین، مواد دارویی و آرایشی فراوری شدہ از حیوانات حرام‌ گوشت تذکیہ نشدہ».
  18. «حکم استفادہ از مواد دارویی فراوری شدہ از حیوانات حرام‌ گوشت تذکیہ نشدہ».
  19. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۴ش، ج۲، ۴۲۶ و ۴۲۷.
  20. بنی‌ہاشمی خمینی، توضیح المسائل مراجع، مسألہ ۸۸.
  21. سیستانی، رسالہ توضیح المسائل، مسألہ ۹۶.
  22. ہاشمی شاہرودی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۲۸۰.

مآخذ