فتوا

ویکی شیعہ سے
(فتاوی سے رجوع مکرر)

فتوا مکلف کی شرعی ذمہ داری کے بارے میں مجتہد یا مرجع تقلید کی رائے کو کہا جاتا ہے جو ادلہ اربعہ (قرآن، سنت، اجماع اور عقل) سے مستنبط ہوتی ہے۔ شیعہ فقہاء کے مطابق عدالت، شیعہ اثناعشری ہونا، اعلم ہونا، حلال‌زادہ ہونا اور شرعی حکم کے استبناط میں درکار علوم اور طریقوں سے آشنا ہونا فتوا دینے والے کی شرائط میں سے ہیں۔

بسا اوقات فتوا واجب، حرام، مکروہ، مستحب اور مباح جیسے الفاظ میں بیان ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار فتوا بیان کرنے کے لئے «اقوی یہ ہے»، «بنا براقوی» اور «اظہر یہ ہے» جیسے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ خود مفتی کی زبان سے سننا، دو عادل اشخاص کی گواہی، یا ایک عادل یا مورد اطمینان جس کے کہنے پر اطمینان حاصل ہو کی طرف سے خبر دینے، یا متعلقہ مرجع تقلید کی توضیح المسائل میں فتوا کا پانا فتوے تک رسائی کے طریقوں ہیں۔

فتوی اور حکم کے فرق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فتوا مجتہد کی طرف سے اپنے مقلدوں کے لئے بیان ہونے والا حکم ہے؛ جبکہ حکم کسی خاص کام کی انجام دہی یا ترک کرنے کے بارے میں دیا جانا والے حکم کو کہا جاتا ہے جو تمام لوگ جن کے لئے یہ حکم صادر ہوا ہے پر اس کا ماننا واجب ہے۔

شیعہ فقہا کی طرف سے صادر ہونے والے بعض تاریخی فتوے مندرجہ ذیل ہیں: تحریم تنباکو، داعش کے خلاف جہاد اور اہل سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہونا۔

مفہوم شناسی

کسی بھی شرعی حکم کے بارے میں مجتہد کی نظر اور رائے کا اظہار اور مقلد کی آگاہی کے لئے اعلان کرنے کو فتوا کہا جاتا ہے۔[1] مجتہد سے کسی شرعی مسئلہ کے بارے میں نظر دریافت کرنے کو استفتاء کہا جاتا ہے۔[2] فتوا دینے والے کو «مفتی» اور ان سے فتوی لینے والے کو «مستفتی» کہا جاتا ہے۔[3]

فتوا کے احکام اجتہاد و تقلید کے باب میں ذکر ہوتے ہیں۔[4]

حکم اور فتوے میں فرق

فقہاء نے حکم اور فتوے کے درمیان کچھ فرق ذکر کئے ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  1. فتوا اس کلی حکم کو کہا جاتا ہے جو عام لوگوں کے لئے بیان ہوتا ہے مثلا: منشیات کا استعمال تمام لوگوں پر حرام ہے؛ جبکہ حاکم کا حکم کسی خاص کام کے کرنے یا ترک کرنے کے بارے میں صادر ہوتا ہے۔ مثلا: اسرائیلی چیزوں کا حرام ہونا۔[5]
  2. فتوا مطلب شرعی حکم کو اس کے مورد سے تطبیق دینا ہے جبکہ موضوع کی شناخت مکلف کے ذمے ہے۔ لیکن حکم کا تطبیق دینا حاکم کی نظر کے مطابق ہے اور حکم کے مخاطب کا حکم اور موضوع کی تطبیق میں کوئی کردار نہیں ہے۔ مثلا: ماہ رمضان کے چاند کے بارے میں حاکم کا حکم۔[6]
  3. مجتہد کا فتوا صرف ان کے مقلدوں کے لئے حجت ہے؛ جبکہ حاکم شرع کا حکم مقلد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ سب پر حجیت رکھتا ہے۔[7] یہاں تک کہ دوسرے مجتہدوں پر بھی واجب ہے اگرچہ وہ حاکم شرع سے اعلم ہی کیوں نہ ہو۔ ان پر بھی حاکم کے حکم کی اتباع ضروری ہے۔[8]

فتوا کے مآخذ

تفصیلی مضمون: ادلہ اربعہ

فتوا اگر کسی شرعی معتبر دلیل سے مستند ہو تو حجت ہے؛ بصورت دیگر اس پر عمل کرنا حرام ہے۔[9] فتوا دینے کے لئے شرعی معتبر دلیل چار مآخذ سے حاصل ہوتی ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:

  1. قرآن مجید: جس کے 6660 آیات میں سے تقریبا 500 آیتیں شرعی احکام سے مربوط ہیں[10]
  2. سنت: معصوم کا قول، فعل یا تقریر کو کہا جاتا ہے۔[11] شیعہ، رسول اکرمؐ اور ائمہؑ کی سنت کو حجت سمجھتے ہیں؛ لیکن اہل سنت کے ہاں صرف رسول اللہؐ کی سنت حجت ہے۔[12]
  3. اجماع: مسلم علماء کا نظریہ کسی مسئلے میں متفق ہونے کو کہا جاتا ہے۔[13] شیعوں کی نظر میں اجماع اس وقت حجت ہوگا جب اس سے پیغمبر اکرمؐ یا ائمہؑ کا قول کشف ہوجائے۔[14]
  4. عقل: دلیل عقلی، وہ حکم ہے جس سے شرعی حکم تک رسائی ممکن ہوسکتی ہے۔[15] شیعوں کا اخباری گروہ عقل کو شرعی حکم کے استنباط میں ایک دلیل کے طور پر معتبر نہیں جانتے ہیں۔[16]

مجتہد کی شرائط

بلوغ، عقل، عدالت، شیعہ اثنا عشری، اعلم ہونا اور حلال زادہ ہونا فتوا دینے والے کی شرائط میں سے ہیں۔[17] اسی طرح مفتی کو شرعی احکام کے حصول اور استنباط کے طریقوں کا بھی علم ہونا چاہئے تیز تمام وہ علوم جو احکام کے حصول میں موثر ہیں ان کا جاننا بھی ضروری ہے؛ اس طرح سے کہ اگر فتوا میں موجود حکم کی وجہ پوچھی جائے تو اس پر استدلال اور اس کے مبانی کو بیان کرسکے۔[18] اس لئے مفتی کو قرآن و سنت کا عالم ہونا چاہئے اور ناسخ و منسوخ، عام و خاص، مطلق و مقید اور حقيقت وہ مجاز کی شناخت ہو۔[19]

احکام

  • مجتہد کے لئے جائز نہیں کہ وہ استنباط کے اصولوں کی شناخت اور ان پر تسلط کے بغیر فتوا دینے کی کوشش کرے۔[20]
  • جو شخص خود سے شرعی احکام استنباط کرسکتے ہیں اسے کسی مجتہد کی طرف رجوع کرنا اور کسی کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے۔[21]
  • جو شخص شرعی احکام کو ان کے ادلہ سے استنباط کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے ایسے شخص کا فتوا دینا حرام ہے۔[22]
  • فتوا جاننے کے طریقے: خود مجتہد سے سنے، دو عادل کی گواہی، ایک عادل یا ایسے شخص کی گواہی جس کی بات سے اطمینان حاصل ہوجائے، یا توضیح المسائل میں موجود ہو[23]
  • اگر مجتہد کا فتوا تبدیل ہوجائے تو مقلدوں تک پہنچانا واجب ہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے۔[24] بعض فقہا کی نظر کے مطابق اگر سابقہ فتوا احتیاط کے موافق تھا تو فتوے کی تبدیلی کا مقلدوں کو اعلان واجب نہیں ہے۔[25] بعض دیگر فقہاء، جدید فتوے کے اعلان کرنے کو کسی بھی حالت میں واجب نہیں سمجھتے ہیں؛ کیونکہ سابقہ فتوا بھی اجتہاد کے اصول و شرائط کے مطابق صادر ہوا ہے۔[26]
  • اگر اعلم مجتہد، کسی مسئلے میں فتوا دے تو انک مقلد اسی مسئلے میں کسی اور مجتہد کے فتوے پر عمل نہیں کرسکتے ہیں۔[27]

فتوے کی نشاندہی کرنے والے الفاظ

فتوا کی نشاندہی کرنے والے الفاظ دو طرح کے ہیں:

  • بعض تعبیریں، براہ راست فتوا ہیں جیسے؛ واجب، حرام، مکروہ، مستحب اور مباح۔[28]
  • بعض عبارتیں مثلا: «اقویٰ یہ ہے»، «بنا براقوی»، «اظہر یہ ہے»، «بعید نہیں ہے»، «قوت سے خالی نہیں ہے» اور «احوط اقوی» جیسی عبارتیں فقہا کے کلام اور توضیح المسائل میں ذکر ہوئی ہیں یہ بھی فتوا ہیں۔[29] اور بعض دیگر عبارتیں جیسے: «بعید نہیں ہے لیکن مسئلہ مشکل ہے»، «احوط یہ ہے اگرچہ اقوا نہیں ہے»، «وجہ سے خالی نہیں ہے»، «مشکل ہے اگرچہ قرب سے خالی نہیں» اور «اس کے مطابق قول ممکن ہے لیکن اشکال سے خالی نہیں» ایسی عبارتیں فتوا کے حکم میں ہیں جن میں مقلد کسی اور مجتہد کی طرف رجوع نہیں کرسکتا ہے۔[30]

اہم فتوے

شیعہ فقہا کے بعض اہم فتوے مندرجہ ذیل ہیں:

  • تحریم تنباکو کا فتوا: میرزای شیرازی نے سنہ 1890ء کو ایران کے بادشاہ ناصرالدین شاہ کی طرف سے تنباکو کے اختیارات کو انگلینڈ کی رژی نام کمپنی کے سپرد کرنے پر ایران کے چار شہروں میں فتوا صادر کیا جس کے نتیجے میں مذکورہ قرارداد ختم ہوگئی۔[31]
  • انگلینڈ کے خلاف جہاد اور مقابلے کے بارے میں ‌میرزا محمد تقی شیرازی کا فتوا: یہ فتوا سنہ 1338ھ کو صادر ہوا جس کے نتیجے میں عراق کی عوام نے برطانیہ کی غاصب حکومت کے خلاف قیام کیا[32] اور برطانیہ کے تسلط سے عراق کو آزادی ملی۔[33]
  • کمیونسٹ پارٹی میں عضویت کے حرمت پر سید محسن حکیم کا فتوا: یہ فتوا سنہ 1380ھ کو عبدالکریم قاسم کا برسر اقتدار آنے اور غیردینی افکار کی ترویج کے بعد صادر ہوا۔ سید محسن طباطبائی حکیم نے اس بارے میں دو فتوے صادر کئے جن میں کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت کو غیر مجاز قرار دیا اور اسے کفر اور الحاد کے برابر قرار دیا۔[34]
  • داعش کے خلاف جہاد کا فتوا: عراق کے مرجع تقلید سید علی سیستانی نے سنہ 2015ء میں داعش کے خلاف فتوا صادر کیا اور انہوں نے اس فتوے میں عراق اور اس کے مقدسات کا دفاع واجب کفائی قرار دیا اور عراق کی عوام سے درخواست کی کہ وہ تکفیریوں کے مقابلے میں کھڑے ہوجائیں۔ اس فتوے کے بعد حشدالشعبی تشکیل پائی جس کے نتیجے میں داعش عراق کی سرزمین چھوڑنے پر مجبور ہوگئی۔[35]
  • اہل سنت کے مقدسات کی توہین حرام ہونے کا فتوا: آیت‌اللہ خامنہ ای نے یاسر الحبیب نامی شخص کی طرف سے عایشہ زوجہ رسول خدا، کی توہین کرنے پر سعودی عرب کے احساء علاقے کے بعض شیعہ علماء کے استفتاء کے جواب میں سنہ 2010ء میں یہ فتوا دیا۔ [36]
  • مذہب شیعہ کے مطابق عمل جائز ہونے کا شیخ شلتوت کا فتوا: اہل سنت کے فقیہ اور الازہر یونیورسیٹی کے پروفیسر محمود شلتوت نے سنہ 1999ء کو اپنے ایک فتوے میں مذہب جعفری کی پیروی کو دیگر اہل سنت کے مذاہب کی طرح جائز قرار دیا۔[37]

فتوا کی شورا

فتوا کی شورا سے مراد یہ ہے کہ لوگ کسی خاص شخص کی تقلید کرنے کے بجائے فقہاء کے ایک گروہ کی تقلید کرے۔ اس صورت میں چونکہ تمام فقہاء کی نظر متحد ہونا ممکن نہیں اس لئے اکثریت کی بات مانی جائے۔[38]

شورائی فتوا کے معتقدین کا کہنا ہے کہ فتوا کی حجیت اور مجتہد کی تقلید واجب قرار دینے والی ادلہ پر تحقیق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حجیت کا معیار فرد اور گروہی دونوں فتووں میں موجود ہے؛ یعنی تقلید لازم ہونے کے دلائل فرد اور شورا دونوں کی تقلید ثابت کرتی ہیں۔[39] اس نظرئے کو بعض محققین نے نقد کی ہے۔[40]

شورائے استفتاء

مجتہدوں کے اس مجموعے کو کہا جاتا ہے جو کسی شرعی مسئلے پر تحقیق کرتے ہیں اور اس مسئلے میں مرجع تقلید کو مشورہ دیتے ہیں۔[41] مرجع تقلید اپنے مقلدوں کو جواب دینے سے پہلے اپنی نظر اس شورا کے اعضاء کو پیش کرتا ہے اور وہ اس پر اپنی نظر پیش کرتے ہیں لیکن فتوا کے بارے میں آخری فیصلہ مرجع تقلید ہی کا ہوتا ہے۔[42]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، ۱۳۸۹ش، ص۶۰۰.
  2. عمید، فرہنگ عمید، لفظ «فتوا» کے ذیل میں؛ سجادی، فرہنگ معارف اسلامی، «اسفتاء» کے ذیل میں
  3. مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ۱۳۸۷ش، ج۵، ص۶۴۴.
  4. مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ۱۳۸۷ش، ج۵، ص۶۴۴.
  5. مکارم شیرازی، دایرة المعارف فقہ مقارن، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۴۳۷.
  6. خویی، مبانی تکملۃ المنہاج، موسسۃ احياء آثار الامام الخوئی، ج۱، ص۳.
  7. مکارم شیرازی، دایرة المعارف فقہ مقارن، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۴۳۷.
  8. طباطبایی یزدی، العرو، الوثقی، مکتبۃ آیت اللہ سیستانی، ج۱، ص۲۳؛ غروی تبریزی، الاجتہاد و التقلید، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۳۸۸.
  9. مؤسسہ دایرۃ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ۱۳۸۷ش، ج۵، ص۶۴۴.
  10. مطہری، کلیات علوم اسلامی: اصول فقہ و فقہ، ۱۳۹۴ش، ج۳، ص۱۹.
  11. مطہری، کلیات علوم اسلامی: اصول فقہ و فقہ، ۱۳۹۴ش، ج۳، ص۱۷.
  12. مرکز اطلاعات و منابع اسلامی، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۳۱.
  13. مطہری، کلیات علوم اسلامی: اصول فقہ و فقہ، ۱۳۹۴ش، ج۳، ص۲۰.
  14. گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ۱۳۷۹ش، ص۶۸.
  15. کلانتری، مطارح الانظار، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۳۱۹.
  16. مطہری، کلیات علوم اسلامی: اصول فقہ و فقہ، ۱۳۹۴ش، ج۳، ص۲۲.
  17. سیستانی، توضیح المسائل، ۱۴۱۵ق، ص۶.
  18. محقق حلی، معارج الاصول، ۱۴۲۳ق، ص۲۰۰-۲۰۱.
  19. مؤسسہ دایرہ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ۱۳۸۷ش، ج۵، ص۶۴۴.
  20. محقق حلی، معارج الاصول، ۱۴۲۳ق، ص۲۰۱
  21. شیخ طوسی، العدہ فی اصول الفقہ، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۷۲۹.
  22. طباطبایی یزدی، العروہ الوثقی، مكتب آية اللہ العظمى السيد السيستانی، ج۱، ص۱۹.
  23. طباطبایی یزدی، العروہ الوثقی، مكتب آيۃ اللہ العظمى السيد السيستانی، ج۱، ص۱۸.
  24. طباطبایی یزدی، العروہ الوثقی، مكتب آيۃ اللہ العظمى السيد السيستانی، ج۱، ص۲۶.
  25. طباطبایی یزدی، العروہ الوثقی، مكتب آيۃ اللہ العظمى السيد السيستانی، ج۱، ص۲۶.
  26. طباطبایی یزدی، العروہ الوثقی، مكتب آيۃ اللہ العظمى السيد السيستانی، ج۱، ص۲۷.
  27. اصولی، بنی ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسایل (مراجع)، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ج۱، ص۱۹.
  28. مؤسسہ دایرہ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۶۷۱.
  29. اصولی، بنی‌ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسایل (مراجع)، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ج۱، ص۱۹.
  30. عاملی، الاصطلاحات الفقہیہ، ۱۴۱۳ق، ص۱۵۷.
  31. اصفہانی کربلایی، تاریخ دخانیہ، ۱۳۷۷ش، ص۱۱۷-۱۱۸.
  32. آقابزرگ تہرانی، طبقات الاعلام الشیعہ، دارالمرتضی، ج۱، ص۲۶۳.
  33. فقیہ بحرالعلوم، زيارتگاہ‌ہاى عراق، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۲۱۲.
  34. دادفر، «جماعۃ العلماء، احیاگر ہویت سیاسی شیعیان عراق، ص۳۵.
  35. «۹ فتوای تاریخ‌ساز معاصر»، سایت شبکہ اجتہاد.
  36. «قائد الثورة يحرم النيل من رموز اہل السُنة و نساء النبي(ص)»، خبرگذاری مہر.
  37. بی‌آزار شیرازی، شیخ محمود شلتوت طلایہ‌دار تقریب در عقاید، تفسیر، حدیث، فقہ مقارن و ہمبستگی مذاہب اسلامی، ص۱۷۱.
  38. جزایری، بحثی دربارہ روحانیت و مرجعیت، ۱۳۴۱ش، ص۲۱۷-۲۱۸.
  39. ورعی، «اجتہاد و افتای شورایی»، ص۱۱۷.
  40. بہرامی خوشکار، «شورای فقہی يا فتواي شورایی در استنباط احكام شرعی»، ص۴۰.
  41. «شورای استفتاء چگونہ کار می‌کند؟»، سایت تبیان.
  42. ہاشمی شاہرودی، «شورای افتاء مقام معظم رہبری: در مصاحبہ با حضرات آیات ہاشمی و مؤمن»، ص۲۵۷.

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمدحسن، طبقات الاعلام الشیعہ و ہو نقباء البشر فی القرن الرابع عشر، مشہد، دارالمرتضی، ۱۴۰۴ھ۔
  • اصفہانی کربلایی، حسن، تاریخ دخانیہ، قم، نشر الہادی، ۱۳۷۷شمسی ہجری۔
  • اصولی، احسان و محمدحسن بنی‌ہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسایل (مراجع)، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، بی‌تا.
  • بہرامی خوشکار، محمد، «شورای فقہی يا فتواي شورایی در استنباط احكام شرعی»، حکومت اسلامی، شمارہ۲، تابستان ۱۳۹۱شمسی ہجری۔
  • بی‌آزار شیرازی، عبدالکریم، شیخ محمود شلتوت طلایہ‌دار تقریب در عقاید، تفسیر، حدیث، فقہ مقارن و ہمبستگی مذاہب اسلامی، تہران، مجمع جہانی تقریب مذاہب، ۱۳۸۵شمسی ہجری۔
  • پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامى، فرہنگ‌نامہ اصول فقہ،قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامى، ۱۳۸۹شمسی ہجری۔
  • جزایری و دیگران، بحثی دربارہ روحانیت و مرجعیت، تہران، شركت سہامی انتشار، ۱۳۴۱شمسی ہجری۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، مبانی تکملہ المنہاج، موسسۃ احياء آثار الامام الخوئی، نجف اشرف، بی‌تا.
  • دادفر، سجاد، «جماعۃ العلماء، احیاگر ہویت سیاسی شیعیان عراق»، تاریخ اسلام در آینہ پژوہش، شمارہ۲۴، زمستان ۱۳۸۸شمسی ہجری۔
  • سجادی، جعفر، فرہنگ معارف اسلامی، تہران، انتشارات کومش، ۱۳۷۳شمسی ہجری۔
  • سیستانی، سیدعلی، توضیح المسائل، قم، مہر، چاپ چہارم، ۱۴۱۵ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، العدہ فی اصول الفقہ، قم، انتشارات تیزہوش، ۱۴۱۷ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروہ الوثقی، مكتب آيۃ اللہ العظمى السيد السيستانی، بی‌جا، بی‌تا.
  • عاملی، یاسین عیسی، الاصطلاحات الفقہیہ، بیروت، دار البلاغۃ، چاپ اول، ۱۴۱۳ھ۔
  • عمید، حسن، فرہنگ عمید، تہران، انتشارات آگاہ، ۱۳۹۰شمسی ہجری۔
  • غروی تبریزی، علی، الاجتہاد و التقلید، قم، دار الہادی، ۱۴۱۰ھ۔
  • فقیہ بحرالعلوم، محمدمہدی، زيارتگاہ‌ہاى عراق، تہران، سازمان حج و زیارت، ۱۳۹۳شمسی ہجری۔
  • کلانتری، ابوالقاسم، مطارح الانظار، قم، مجمع الفكر الإسلامی، چاپ اول، ۱۴۲۵ھ۔
  • گرجی، ابوالقاسم، تاریخ فقہ و فقہا، تہران، انتشارات سمت، ۱۳۷۹شمسی ہجری۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، معارج الاصول، قم، مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث، ۱۴۲۳ھ۔
  • مطہری، مرتضی، کلیات علوم اسلامی: اصول فقہ و فقہ، قم، انتشارات صدرا، ۱۳۹۴شمسی ہجری۔
  • مؤسسہ دایرہ المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، قم، مؤسسہ دایرہ المعارف الفقہ الاسلامی، ۱۳۸۷شمسی ہجری۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، دایرۃ المعارف فقہ مقارن، قم، مدرسہ الامام على بن ابى طالب( ع)، چاپ اول، ۱۴۲۷ھ۔
  • «۹ فتوای تاریخ‌ساز معاصر»، سایت شبکہ اجتہاد، تاریخ درج مطلب: ۷ بہمن ۱۳۷۹شمسی ہجری، تاریخ بازدید: ۴ بہمن ۱۳۹۹شمسی ہجری۔
  • «قائد الثورۃ يحرم النيل من رموز اہل السُنۃ و نساء النبي(ص)»، خبرگذاری مہر، تاریخ بازدید: ۴ بہمن ۱۳۹۹شمسی ہجری۔
  • ورعی، سیدجواد، «اجتہاد و افتای شورایی»، نشریہ فقہ، شمارہ ۹۸، تابستان ۱۳۹۸شمسی ہجری۔
  • «شورای استفتاء چگونہ کار می‌کند؟»، سایت تبیان، تاریخ درج مطلب: ۲۸ دی‌ماہ ۱۳۹۰شمسی ہجری، تاریخ بازدید: ۴ بہمن ۱۳۹۹شمسی ہجری۔
  • ہاشمی شاہرودی، سیدمحمود و محمد مؤمن، «شورای افتاء مقام معظم رہبری: در مصاحبہ با حضرات آیات ہاشمی و مؤمن»، فقہ اہل بیت، شمارہ ۲، تابستان ۱۳۷۴شمسی ہجری۔