نماز قصر
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
نماز قصر یا نماز مسافر پوری اور کامل نماز کے مقابلے میں استعمال ہوتی ہے. مسافر بعض شرائط کی وجہ سے، چار رکعت نماز کو دورکعت پڑھتا ہے۔ مسافر کا نماز قصر پڑھنا شیعہ مذہب میں واجب اور دوسرے مذاہب میں جائز ہے۔
قرآن و سنت میں نماز قصر قرآن
اس حکم کی سند سورہ نساء کی آیت ١٠١ ہے:
- وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا
- ترجمہ: اور جب تم سفر کے لئے نکلو تو تم پر کوئی گناہ نہیں کہ نماز میں سے کچھ کم کر دو، اگر تمہیں یہ ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے، بے شک کافر تمہارے صریح دشمن ہیں.
اہل سنت اور شیعہ کے منابع میں آیا ہے کہ پیغمبر(ص) سفر میں، چار رکعتی نماز کو دو رکعت پڑھتے تھے.[1]اور حدیثی اور فقہی منابع میں نماز قصر کے بارے میں الگ باب میں بحث ہوئی ہے.
- فقہی اسلامی مذاہب کی نگاہ میں
اسلامی مذاہب میں، شیعہ اور حنفیہ سفر میں نماز قصر پڑھنے کو واجب کہتے ہیں لیکن مالکی اس کو سنت (مستحب) مؤکد اور شافعی اور حنبلی اسے جائز سمجھتے ہیں یعنی مسافر کو اختیار ہے کہ پوری نماز پڑھے یا قصر.[2]
جو سفر میں نماز قصر کے قائل نہیں ہیں انہوں نے فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اس عبارت پر استناد کیا ہے لیکن جو نماز قصر کے وجوب کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں کہ نماز قصر کے بارے میں جو وہم موجود ہے کہ یہ نامکمل نماز ہے اور اس کا پڑھنا منع ہے، یہ آیت اس وہم کو دور کرتی ہے.[3] قرآن کی دوسری آیات میں یہ تعبیر وجوب کے معنی میں استعمال ہوئی ہیں.[4]
بعض نے آیت کے ظاہر پر تکیہ کیا ہے اور قصر کے حکم کو صرف کسی خطرناک اور ناامن سفر کے لئے کہا ہے لیکن سنت نبوی، نے دونوں حالت میں ڈر یا بغیر ڈر کے سفر کے لئے اس آیت کی تفسیر کی ہے اور پیغمبر اکرم(ص) دونوں حالت میں، نماز قصر پڑھتے تھے. اس لئے آیت میں موجود قید، بعض موارد کی طرف اشارہ ہے.[5]
مسافر فقہ اسلامی میں
اسلامی فقہ میں مسافر اسے کہتے ہیں کہ:
- جس کا سفر مسافت شرعی کی حد کو پہنچ جائے یعنی جو مسافت طے ہو گئی ہے (اگر فقط جانے کا مسیر ہو یا جانے اور واپس آنے کا اکٹھا ہو) کم از کم آٹھ شرعی فرسخ ہو.
- سفر کی ابتداء میں ہی آٹھ فرسخ سفر کرنے کا اردہ ہو اور اس مسافت تک پہنچنے سے پہلے، اپنی نیت کو تبدیل نہ کرے.
- آٹھ فرسخ ختم ہونے سے پہلے اپنے وطن سے نہ گزرے، اور نہ ہی دس دن یا اس سے زیادہ کسی جگہ پر رکے.
- کسی حرام کام کے لئے سفر نہ ہو.
- صحرا نشین نہ ہو جو ایک شہر سے دوسرے شہر آتے جاتے ہیں.
- اس کا حرفہ سفر نہ ہو.
- حد ترخص تک پہنچ جائے.[6]
نماز قصر کے احکام
- مسافر چار رکعت نماز کو دو رکعت پڑھے. اسی لئے مسافر کی نماز مغرب یا نماز صبح قصر نہیں ہے.
- اگر مسافر وطن میں پہنچنے سے پہلے اپنی نماز قصر پڑھے، تو جب وطن پہنچ جائے تو ضروری نہیں کہ اپنی نماز دوبارہ پڑھے لیکن اگر ابھی نماز نہ پڑھی ہو تو اس صورت میں نماز پوری پڑھے.
- اگر نماز قصر کی قضا بجا لانا چاہے تو اسی قصر کی صورت میں بجا لائے گا.
سفر میں نماز قصر پڑھنے کی وجہ
اسلامی احکام مصالح اور مفاسد کے تابع ہیں کہ جو بعض جگہ بیان ہوئے ہیں اور بعض جگہ ان کی طرف اشارہ نہیں ہوا. اسلامی روایات میں، سفر میں نماز قصر (اور اسی طرح روزہ افطار کرنا) خداوند کی طرف سے مسافر کے لئے ایک تحفہ ہے جو انسان کے لئے سفر کی تھکاوٹ اور مشغولیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے عطا کیا گیا ہے [7]امام صادق(ع) نے حضرت پیغمبر(ص) نے روایت نقل فرمائی ہے:
- خداوند نے مجھے اور میری امت کو ایسا ہدیہ عطا فرمایا ہے کہ جو دوسری امتوں کو نہیں دیا... سفر میں روزہ افطار کرنا اور نماز قصر پڑھنا، اور جو کوئی ایسا نہیں کرے گا، تو گویا اس نے خداوند کے عطا کردہ ہدیے کو رد کیا ہے.[8]
حوالہ جات
- ↑ صحیح البخاری، ج۲، ص۳۵، کتاب الصلاه، باب التقصیر، دارالفکر؛ اسد حیدر، الإمام الصادق و المذاهب الأربعة، ج۳، ص۳۴۵
- ↑ سبحانی، القصر فی السفر، ص۵-۶
- ↑ سبحانی، القصر فی السفر، ص۱۳ به نقل از الکشاف، ج۱، ص۲۹۴ چاپ دارالمعرفه
- ↑ سوره بقره، آیه ۱۵۸
- ↑ سبحانی، القصر فی السفر، ص۱۲
- ↑ یزدی، العروه الوثقی، ج۳، ص۴۱۴-۴۷۰
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعه، ج۸، ص۵۲۰، حدیث ۱۱۳۳۷
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعه، ج۸، ص۵۲۰، حدیث ۱۱۳۳۶
مآخذ
- حيدر، اسد، الإمام الصادق و المذاہب الأربعۃ، پنجم، بیروت، دار التعارف، ۱۴۲۲ھ۔
- حر عاملی، وسائل الشيعۃ، قم، مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام لإحياء التراث، ۱۴۱۰ھ۔
- سبحانی، جعفر، القصر فی السفر، قم، موسسہ الامام الصادق، ۱۴۲۲ھ۔
- طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، العروہ الوثقی، قم، موسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۲۰ھ۔