حرام سفر
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
حرام سفر یا سفر معصیت، ایسا سفر ہے جو معمولا حرام کام انجام دینے کے لیے کیا جائے۔ شیعہ فقہ کے مطابق حرام سفر نماز کے قصر ہونے کا باعث نہیں بنتا۔ وہ سفر جو عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر (اس صورت میں کہ اس کے شوہر کا حق ضائع ہوتا ہو) اور بچے کا سفر جو والدین کو تکلیف پہنچنے کا سبب بنے، یہ حرام سفر کی مثالیں ہیں۔
مفہوم
سفر معصیت، ایک فقہی اصطلاح ہے اور یہ فقہ میں مسافر کی نماز[1] اور مکاسب محرمہ [2] کے باب میں ان پر بحث کی گئی ہے چونکہ یہ سفر حرام میں مرتکب ہونے کے لئے انجام دیا جاتا ہے اس لئے اسے حرام سفر کہا گیا ہے۔
حرمت کا معیار اور اس کی مثالیں
فقہی کتابوں میں حرام سفر کے بارے میں کچھ معیارات متعین ہوئے ہیں جیسے
- خود سفر کا حرام ہونا، جیسے جنگ سے فرار کے لئے سفر۔
- سفر جو حرام کام کا سبب بنے جیسے وہ سفر جس سے شوہر کا حق ضائع ہو یا والدین کی اذیت کا سبب بنے۔
- سفر کا ہدف حرام کام کی انجام دہی ہو جیسے کسی انسان کو قتل کرنے کے لیے سفر۔[3]
مثالیں
فقہی مصادر میں حرام سفر کی کچھ مثالوں کا ذکر ہوا ہے جیسے:
- عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر سفر، جس سے شوہر کا حق ضائع ہو جائے۔
- بچے کا سفر جو والدین کی تکلیف کا سبب بنے۔
- جنگ سے فرار۔
- غلام کا آقا کی اجازت کے بغیر سفر۔
- قرض دار کا قرض ادا نہ کرنے کے لئے سفر۔
- ہر حرام کام انجام دینے کے لیے سفر جیسے راہزنی کے لئے۔[4]
- ایسے شکار کے لئے سفر جس کا مقصد صرف تفریح ہو یعنی شکار تجارت و معاش کی فراہمی کے لیے نہ ہو۔[5]
- عید الفطر اور عید قربان کے دن نماز عید کی ادائیگی سے پہلے سفر، البتہ اس شرط کے ساتھ کہ نماز عید واجب ہو۔[6]
- جمعہ کے دن زوال کے بعد سفر، اس صورت میں کہنماز جمعہ، واجب تعیینی ہو۔ [7]
احکام
- شیعہ فقہ کے مطابق حرام سفر کا فاصلہ اگرچہ شرعی مسافت سے زیادہ ہو لیکن اس پر مسافر کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔
- نماز کا کامل ہونا۔ مسافر، حرام سفر میں اپنی نماز پوری پڑھے، اگرچہ وہ سفر جو حرام نہیں ہے اس میں نماز قصر پڑھی جاتی ہے۔[8] شیخ طوسی کے مطابق بعض اہل سنت جیسے شافعی، مالک بن انس اور احمد بن حنبل حرام سفر میں نماز کو کامل پڑھنے کے قائل ہیں جبکہ ابو حنیفہ، اوزاعی اور ثوری کی طرف نسبت دی ہے کہ وہ نماز کو سفر معصیت میں قصر سمجھتے تھے۔[9]
- روزہ کا واجب ہونا؛ ماہ رمضان میں حرام سفر کرنا اس بات کا سبب نہیں بنتا کہ مسافر روزہ نہ رکھے۔[10]
اس طرح کہا گیا ہے کہ حرام سفر میں نافلہ نمازیں اورنماز وتر کا پڑھنا معاف نہیں ہے۔[11]
حوالہ جات
- ↑ شیخ طوسی، الخلاف، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۶۷۔
- ↑ شیخ انصاری، مکاسب محرمہ، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۴۱۔
- ↑ خواجویی، الرسائل الفقہیہ، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۷۰۔
- ↑ خواجویی، الرسائل الفقہیہ، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۷۰۔
- ↑ علامہ حلی، قواعد الاحکام، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۳۲۵؛ علامہ حلی، تذکرة الفقہاء، مؤسسہ آل البیت علیہمالسلام لإحیاء التراث، ج۴، ص۳۳۹۔
- ↑ أبو الصلاح الحلبی، الکافی فی الفقہ، ۱۴۰۳ق، ص۱۵۵؛ نجفی، جواہر الکلام، داراحیاء التراث العربی، ج۱۱، ص۳۹۸۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، دار احیاء التراث العربی، ج۱۱، ص۲۸۲؛ شہید اول، الدروس الشرعیہ، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۲۱۰۔
- ↑ شیخ طوسی، الخلاف، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۶۷۔
- ↑ شیخ طوسی، الخلاف، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۶۸۔
- ↑ مازندرانی، شرح فروع الکافی، ۱۴۲۹ق، ج۴، ص۲۵۵۔
- ↑ یزدی، العروة الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۴۵۲۔
مآخذ
- ابو الصلاح الحلبی، تقی الدین بن نجم الدین، الکافی فی الفقہ، تحقیق: رضا استادی، اصفہان، کتابخانہ عمومی امیرالمومنین(ع)، ۱۴۰۳ق۔
- شیخ انصاری، مرتضی بن محمد امین، المکاسب المحرمہ و البیع و الخیارات، قم، کنگرہ بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، ۱۴۱۵ق۔
- خواجوئی، اسماعیل، الرسائل الفقہیہ، تصحیح: سید مہدی رجائی، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۱۱ق۔
- شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیہ فی فقہ الامامیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۷ق۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، تحقیق: علی خراسانی و دیگران، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۷ق۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، قواعد الاحکام فی معرفة الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۳ق۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، تذکرة الفقہاء، تحقیق: مؤسسہ آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث۔
- مازندرانی، محمد ہادی بن محمد صالح، شرح فروع الکافی، تصحیح: محمد جواد محمودی و محمد حسین درایتی، قم، دار الحدیث، ۱۴۲۹ق۔
- نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، تحقیق: عباس قوچانی، دار احیاء التراث العربی۔
- یزدی، سید محمد کاظم، العروة الوثقی فیما تعلم بہ البلوی (المحشی)، تصحیح: احمد محسنی یزدی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۹ق۔