حد ترخص
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
حد ترخص وہ مسافت ہے جس کے بعد مسافر پر نماز قصر پڑھنا اور روزہ افطار کرنا ضروری ہے۔ احادیث کے مطابق یہ وہ جگہ ہے جہاں پر شہر کی اذان سنائی نہ دے یا شہر کی دیواریں دکھائی نہ دیں۔
شرعی مسافت اور حد ترخص کا فرق
سفر میں نماز قصر ہونے کے شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ مسافر اپنے گھر سے نکلنے اور کم از کم 8 فرسخ (تقریبا40 سے 45 کلومیٹر) سفر کرنے کے ارادہ کرے۔اس 8 فرسخ کو مسافت شرعی کہتے ہیں[1] جبکہ حد ترخص اس جگہے کو کہا جاتا ہے جہاں پہنچنے کے بعد مسافر سفر پر جاتے ہوئے نماز کو قصر اور روزہ افطار کرسکتا ہے ۔احا دیث میں حد ترخص اس جگہے کو کہا جاتا ہے جہاں سے شہر کی اذان سنائی نہ دے یا شہر کی دیواریں نظر نہ آئیں۔ یہی معیار وطن یا اس جگہے کی طرف سفر سے واپس آتے ہوئے بھی ہے جہاں دس دن ٹھہرنے کا قصد ہو یعنی حد ترخص تک پہنچنے کے بعد وہ مسافر نہیں کہلائے گا۔[2]
حد ترخص کی مقدار
آئمہ معصومین(ع) کی احادیث کے مطابق، حد ترخص وہ جگہ ہے جہاں شہر یا دیہات کی اذان کی آواز سنائی نہ دے اور وہاں کی دیواریں دکھائی نہ دیں۔ [3]اور شیعہ فقہاء کا اس بارے میں کہ کیا دونوں شرط اکٹھی ہوں یا ایک شرط ہی کافی ہے، اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[4]
فقہاء کی نظر میں جہاں شہر کی دیوار دکھائی نہ دے، وہ ایک صاف زمین کے بارے میں ہے۔ لیکن آج کل کے زمانے میں جہاں شہر بڑے ہو گئے ہیں اور اذان کی آواز بھی ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے سنائی دینے لگی ہے تو حدترخص کا تعیین مشکل ہو گیا ہے۔ بعض فقہاء کا عقیدہ ہے کہ حدترخص کا معیار محلہ کی آخری دیوار ہے نہ کہ شہر کی دیوار۔[5]
اکثر فقہاء کے فتوے کے مطابق اگر روزہ دار حدترخص پر پہنچنے سے پہلے ہی اپنا روزہ افطار کر دے، تو اسے قضا کے علاوہ کفارہ بھی دینا ہو گا۔ [6]
احکام
- بہت سارے شیعہ فقہا کے مطابق اگر روزہ دار سفر پر جاتے ہوئے حد ترخص پر پہنچنے سے پہلے روزہ افطار کرے تو اس پر قضا کے علاوہ کفارہ بھی واجب ہے۔[7]
- بعض فقہا کے مطابق جس جگہ دس دن ٹھہرنے کی نیت کیا ہے اس جگہ کے حد ترخص سے باہر جانے پر نماز قصر ہوگی۔ البتہ بعض کا کہنا ہے کہ دن میں ایک دو گھنٹے کے لئے حد ترخص سے باہر جانایا دس دنوں میں کئی گھنٹے کے لئے جانا مجاز ہے اور بعض نےمقدار کی تشخیص کو عرف پر چھوڑا ہے۔[8]
حوالہ جات
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، 1420ھ، ج3، ص414
- ↑ فرہنگ فقہ، ج3، ص 245۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج۸، ص470 باب اشتراط وجوب القصر بخفاء الجدران
- ↑ فرہنگ فقہ، ج3، ص245۔
- ↑ یزدی، العروہ الوثقی، ج3، ص 463
- ↑ یزدی، العروۃ الوثقی، ج3، ص624
- ↑ یزدی، العروة الوثقی، 1420ھ، ج3، ص624.
- ↑ بنیہاشمی خمینی، رسالہ توضیح المسائل مراجع، بیتا، ج1، ص719.
مآخذ
- حر عاملی، وسايل الشیعہ، موسسہ آل البیت، قم۔
- فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت علیہمالسلام۔ موسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، قم، 1390ہجری شمسی۔
- یزدی، سید محمدکاظم، العروہ الوثقی مع تعلیقات عدہ من الفقہاء العظام، موسسہ النشر الاسلامی، قم، 1420ھ۔