دس دن رہنے کا ارادہ

ویکی شیعہ سے

دس دن رہنے کا ارادہ سے مراد مسافر کا کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کرنا مقصود ہے۔ مسافر ایسی جگہ اپنی نماز پوری پڑھے گا اور روزہ رکھنا بھی صحیح ہے۔ توضیح المسائل میں دس دن رہنے کا ارادہ کے احکام بیان ہوئے ہیں۔

معنا

مسافر کا کسی جگہ پورے دس دن رہنے کے ارادے کو قصد اقامت کہا جاتا ہے۔[1] رہنے کا قصد متحقق ہونے اور اس کے احکام لاگو ہونے کے لیے کسی خاص نیت کی بھی ضرورت نہیں ہے بلکہ مسافر کو یہ یقین ہو کہ اس جگہ پورے دس دن رہنا ہے تو یہی کافی ہے۔[2]اسی طرح اس جگہ اپنی مرضی سے رہنا بھی ضروری نہیں بلکہ اگر اسے یہ معلوم ہو کہ کسی جگہ اسے دس دن زبردستی رکھا جائے گا تو بھی رہنے کا قصد ثابت ہوتا ہے اور اس کے احکام لاگو ہونگے۔[3]

دس دن سے مراد

دس دن سے مراد یہ ہے کہ مسلسل دس دن اور نو راتیں رہنے کا ارادہ کرے جن کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو۔ لہذا اگر کوئی شخص پہلے دن سے دسویں دن کے آخر تک رہنے کا ارادہ کرے تو اقامت کا قصد کرسکتا ہے۔[4]اگر کسی نے پہلے دن کے آغاز سے رہنے کا ارادہ نہیں کیا ہے تو وہ کسی بھی ٹائم ارادہ کرسکتا ہے مثال کے طور پر اگر پہلے دن کے ظہر سے اقامت کا ارادہ کرے تو اس صورت میں گیارہویں دن کے ظہر تک رہنے کا ارادہ کرے تاکہ دس دن پورے ہوسکیں۔[5]

احکام

توضیح المسائل کے مطابق قصدِ اقامت کے بعض احکام مندرجہ ذیل ہیں:

  • جو مسافر کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس جگہ اسے نماز پوری پڑھنی چاہئے[6] اور روزہ بھی صحیح ہے۔[7]
  • کسی جگہ دس دن رہنے کا ارادہ کرنے کے بعد اس شرط کے ساتھ وہاں نماز پوری پڑھ سکتا ہے کہ پورے دس دن اسی ایک ہی جگہ رہنے کا قصد رکھتا ہو۔ لہذا اگر کسی نے دس دن نجف اور کوفہ دونوں میں رہنے کا ارادہ کرے تو نماز کو قصر پڑھنا ہوگا۔[8]
  • قصدِ اقامت یقینی ہو؛ مثال کے طور پر مسافر یوں ارادہ کرے کہ اگر کوئی مناسب جگہ ملے تو وہاں دس دن ٹھہرے گا تو ایسی صورت میں نماز قصر پڑھے۔[9]

قصد اقامت سے انصراف

جس نے دس دن رہنے کا ارادہ کیا ہے اور پھر اپنے قصد سے منصرف ہوجائے یا دس دن تک رہنے یا نہ رہنے میں شک ہو تو نماز قصر پڑھنا ہوگا اور روزہ بھی نہیں رکھ سکتا ہے؛ لیکن اگر ایک چار رکعتی نماز پڑھنے کے بعد منصرف ہوجائے یا مردد ہوجائے تو ایسی صورت میں جب تک وہاں پر رہے نماز پوری پڑھے اور روزہ بھی وہاں پر صحیح ہے۔[10]

بلاد کبیرہ اور قصدِ اقامت

تفصیلی مضمون: بلاد کبیرہ
بِلاد کبیرہ ایک فقہی اصطلاح ہے اس سے مراد عام بڑے شہر ہیں۔[11]بڑے شہروں میں اقامت کے ارادہ کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اکثر فقہاء کہ کہنا ہے کہ بڑے شہروں کے جس علاقے میں بھی رہیں سب ایک ہی جگہ شمار ہوتے ہیں؛[12] جبکہ امام خمینی جیسے بعض فقہا کا کہنا ہے کہ بلاد کبیرہ میں دس یا دس سے زیادہ دن رہنے کے قصد کے لیے وہی محلہ معتبر ہے جس میں رہنے کا قصد کیا ہے۔[13]

حوالہ جات

  1. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۱۴، ۳۰۳.
  2. نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۱۴، ۳۰۳.
  3. توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۹۱۴.
  4. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۱۴۴.
  5. یزدی، العروۃ الوثقی، ۱۴۱۹ق، ج۲، ص۱۴۴.
  6. توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۹۱۴.
  7. توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۱۱۹۵.
  8. توضیح المسائل، ج۱، ص۹۱۵، ۹۱۶.
  9. توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۹۱۸.
  10. توضیح المسائل مراجع، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۹۱۹، ۹۲۰.
  11. مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۹۲ش، ج۲، ص۱۲۶.
  12. نجفی، جواہر الکلام، ج۱۴، ص۳۰۷، ۳۰۸.
  13. مراجعہ کریں: امام خمینی، استفتائات، ۱۴۲۲ق، ص۲۱۳.

مآخذ

  • امام خمينى، سيدروح‌اللہ، استفتائات، قم، ‌دفتر انتشارات اسلامى، چاپ پنجم، ۱۴۲۲ھ۔
  • توضیح المسائل مراجع، تحقیق سيدمحمدحسين بنى‌ہاشمى خمينى‌، قم، ‌دفتر انتشارات اسلامى، چاپ ہشتم، ۱۳۹۲ھ۔
  • مؤسسہ دایرة المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ مطابق با مذہب اہل بیت علیہم السلام، چاپ اول، ۱۳۹۲ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، الطبعۃ السابعۃ، بی تا۔
  • یزدی، سیدمحمدکاظم، العروة الوثقی (المُحَشّیٰ)، تحقیق احمد محسنی سبزواری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔