صلح حدیبیہ

ویکی شیعہ سے
منطقۂ حدیبیہ کا نقشہ

صلح حُدَیبیہ اس صلح کو کہا جاتا ہے جو سنہ 6 ہجری کو حدیبیہ کے مقام پر رسول خداؐ اور مشرکین مکہ کے درمیان منعقد ہوا۔ سورہ فتح میں اس کا تذکرہ آیا ہے۔

رسول خداؐ مسلمانوں کے ہمراہ حج کی نیت سے مکہ روانہ ہوئے لیکن انہیں مشرکین قریش کی مزاحمت اور ممانعت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپؐ نے قریش کے یہاں مذاکرات کے لئے ایک شخص کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لئے ابتداء میں حضرت عمر کو منتخب کیا گیا تھا لیکن انھوں نے جانے سے انکار کرتے ہوئے حضرت عثمان کا نام تجویز کیا۔ حضرت عثمان چلے گئے تو ابتداء میں ان کے قتل کی خبر آئی جس کے بعد مسلمانوں نے رسول خداؐ کے ہاتھ پر از سر نو بیعت کی جو بیعت رضوان سے مشہور ہوئی۔ آخر کار فریقین کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں دس سالہ صلح کا معاہدہ طے ہوا جو صلح حدیبیبہ کے نام سے مشہور ہے جس کے تحت مسلمان اس سال حج انجام دئے بغیر مدینہ واپس لوٹ آئے اور اگلے سال عمرہ کے لئے مکہ روانہ ہوئے۔

تاریخ

غزوہ حدیبیہ تاریخ اسلام کے اہم واقعات میں شمار ہوتا ہے جو سنہ 6 ہجری میں[1] میں رونما ہوا اور بالآخر مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان صلح نامے پر منتج ہوا۔ رسول خداؐ نے اس سال ماہ ذوالقعدہ میں عمرہ بجا لانے کا ارادہ کیا اور تمام مسلمانوں ـ حتی کہ غیر مسلموں ـ کو عمرہ بجا لانے کی ترغیب دلائی۔ رسول اللہؐ خود بھی گھر تشریف لے گئے غسل کیا اور دو لباس پہنے اور اپنی ناقہ "قصواء" پر سوار ہوکر باہر آئے۔ یہ دوشنبہ (= سوموار)[2] اور یکم ذوالقعدہ کا دن تھا۔[3] اس سفر میں ام المؤمنین ام سلمہ بھی آپؐ کے ہمراہ تھیں۔ رسول اللہؐ نے ابن ام مکتوم کو مدینہ میں جانشین مقرر فرمایا۔[4]

مقام

حدیبیہ ایک قریہ ہے جو مکہ سے ایک منزل (24 کلومیٹر) اور مدینہ سے 9 منازل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس قریئے کو اہلیان حجاز تشدید کے ساتھ "حدیبیّہ" اور اہلیان عراق تشدید کے بغیر تلفظ کرتے ہیں۔ اس قریئے کی حدود کچھ حرم میں واقع ہیں اور کچھ حِلّ میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس کا نام حدیبیہ نامی کنویں یا حدباء نامی درخت سے ماخوذ ہے جو اس علاقے میں تھا۔[5] آج کل یہ علاقہ شمیسی کہلاتا ہے۔[6]

مسلمانوں کا عزم حج

ماہ ذوالقعدہ میں رسول خداؐ نے خواب دیکھا کہ گویا آپؐ اپنے اصحاب کے ہمراہ مکہ تشریف فرما ہوکر مناسک عمرہ بجا لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ مذکورہ خواب کو خداوند متعال نے قرآن میں بیان فرمایا ہے:

لَقَدْ صَدَقَ اللَّہُ رَسُولَہُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاء اللَّہُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَلِكَ فَتْحاً قَرِيباً۔[؟؟]
ترجمہ: اللہ نے اپنے رسول کو حقیقتاً بالکل ہی سچا خواب دکھایا [جو آپؐ نے دیکھا تھا:] کہ تم لوگ انشاء اللہ ضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے اطمینان کے ساتھ اپنے سروں کو منڈوائے اور اپنے کچھ بال یا ناخن کترے ہوئے تمہیں کچھ خوف نہ ہو گا، پھر بھی اس نے جانا وہ جو تم نہیں جانتے تھے تو اس کے پہلے اس نے [آپ کے لئے] ایک دوسری فتح عطا کر دی۔[7]

پیغمبر اکرمؐ نے مسلمانوں کے لئے اپنا رؤیائے صادقہ بیان فرمایا اور انہیں فتح کی نوید سنائی[8] اور انہیں مکہ عزیمت کرنے اور اعمال عمرہ بجا لانے کی دعوت دی اور چونکہ آپؐ قریش کی کینہ پروری اور جنگ افروزی یا ممانعت سے فکرمند تھے؛ چنانچہ آپؐ نے مدینہ کے نواح میں سکونت پذیر اعراب (= بادیہ نشینوں) کو اس سفر میں ساتھ جانے کی دعوت دی؛ پس اعراب کی اکثریت نے دعوت رسالت کو لبیک کہنے میں میں سستی سے کام لیا؛۔[9] چنانچہ آپؐ کا ساتھ صرف مدینہ کے مہاجرین اور انصار نے دیا جو عزیمت کے لئے تیار ہوئے اور آپؐ کے ساتھ مکہ کی جانب روانہ ہوئے۔

مسلمانوں کی تعداد

مہاجرین ،انصار اور کچھ اعراب پر مشتمل مسلمانوں کا قافلہ مؤرخہ یکم ذوالقعدہ پیر سنہ 6 ہجری کو مدینہ چھوڑ کر مکہ کی جانب روانہ ہوا۔[10]

اس سفر میں رسول خداؐ کے ساتھیوں کی تعداد کے بارے میں اقوال مختلف ہیں[11] اور جابر عبداللہ انصاری کا قول ـ جنہوں نے کہا ہے کہ ہم اصحاب حدیبیہ 1400 افراد تھے ـ زیادہ مشہور ہے۔[12] اس قافلے میں 4 خواتین بھی شامل تھیں جن میں سے ایک زوجۂ رسولؐ ام سلمہ تھیں۔[13] رسول خداؐ نے عبداللہ بن ام مکتوم[14] یا نمیلہ بن عبداللہ لیثی کو[15] مدینہ میں جانشین مقرر کیا۔

وہ راستہ جس سے گذر کر پیغمبر اکرم حدیبیہ پہنچے

مسلمانوں کا مُحرِم ہوجانا

مسلمانوں نے رسول خداؐ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسلحۂ مسافر (نیام میں رکھی ہوئی تلوار) کوئی اسلحہ نہیں اٹھایا۔ اور "ذوالحلیفہ" نامی مقام پر ـ جو وہاں تعمیر ہونے والی مسجد کی وجہ سے "مسجد شجرہ" کے نام سے مشہور ہے ـ پہنچے اور محرم ہوئے اور ان 70 اونٹوں پر قربانی کے نشانات لگائے اور انہیں آگے ہانک لیا تا کہ قریش کے لئے خبر پہنچانے والوں کو سمجھایا جائے کہ آپؐ جنگ کے لئے نہیں نکلے بلکہ آپؐ کا مقصد صرف عمرہ کی بجاآوری اور خانۂ خدا کا طواف انجام دینا ہے۔[16]

مروی ہے کہ قربانی کے ان 70 اونٹوں میں – علامتی طور پر -- ابو جہل کی وہ اونٹنی بھی شامل تھی جو جنگ بدر میں بطور غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگی تھی۔[17]

پیغمبر اسلامؐ اور آپؐ کے اصحاب نے لبیک کہتے ہوئے "عسفان" تک کا سفر کیا جو مکہ سے دو منزلوں کے فاصلے پر اواقع تھا۔ اس مقام پر آپؐ کو اطلاع ملی کہ مشرکین قریش آپؐ اور مسلمانوں کی عزیمت کی خبر مل چکی ہے اور مشرکین نے قسم اٹھائی ہے کہ مسلمانوں کے مکہ میں داخلے کا سدّ باب کریں گے۔[18] قریش نے اپنے جنگجؤوں کو مکہ کے باہر تعینات کیا اور خالد بن ولید کو 200 سواروں کا لشکر دے مسلمانوں کا مقابلہ کرنے "کراع الغمیم" روانہ کیا۔[19] رسول خداؐ قریش کے اس اقدام سے باخبر ہوئے تو فرمایا: يا ويح قريش ! لقد أكلتہم الحرب۔۔۔ یعنی وا‏ئے بحال ہو قریش کے، جنہیں جنگ نابود کر گئی۔۔۔ اور پوچھا: کیا ہے کوئی جو ہمیں ایسے راستے سے لے جائے کہ ہمیں قریش کا سامنا نہ کرنا پڑے؟[20]

رسول خداؐ نے بنو اسلم کے ایک فرد کی راہنمائی سے ایک ذیلی راستے سے مکہ کی جانب اپنا سفر جاری رکھا تا کہ قریش کے جنگجؤوں کا مقابلہ نہ کرنا پڑے۔[21] رسول اللہؐ نے پہلی بار اسی راستے میں نماز خوف ادا کی۔[22] تا کہ اطراف ميں موجود ممکنہ دشمنوں کی طرف سے ہوشیار ہوں۔[23]

منطقۂ حدیبیہ میں داخلہ

مسلمانوں کا قافلہ منطقۂ حدیبیہ میں داخل ہوا تو آپؐ کی اونٹنی "قصواء" زمین پر بیٹھ گئی۔ مسلمین نے رسول اللہؐ کے فرمان پر اسی علاقے میں پڑاؤ ڈال دیا۔ رسول خداؐ کے معجزے سے وہاں موجود ایک خشک کنواں پانی سے بھر گیا اور سب اس کنویں سے سیراب ہوئے اور کئی مرتبہ بارش بھی ہوئی۔[24]

رسول خداؐ حدیبیہ میں اترے تو بُدَیل بن وَرقاء خُزاعی اور قبیلۂ خزاعہ کی ایک جماعت آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ آپؐ نے فرمایا کہ جنگ کے ارادے سے نہیں آئے ہیں اور خانۂ خدا کی زیارت کی غرض سے آئے ہیں۔ خزاعیوں نے یہ پیغام قریش تک پہنچایا لیکن قریش نے کہا: کہ خواہ محمد جنگ کی نیت سے نہ بھی آئے ہوں وہ ہرگز انہیں مکہ میں زبردستی داخل نہیں ہونے دیں گے کہ اس کے نتیجے میں عرب ان پر لعنت ملامت کرے۔[25] بعدازاں قریش نے چند نمائندے مسلمانوں کے پاس روانہ کئے لیکن فریقین کے درمیان کسی بات پر اتفاق حاصل نہ ہوسکا۔[26]

حقیقت یہ تھی کہ ابو سفیان سمیت قریش کے تمام زعماء (سنہ 5 ہجری کے دوران جنگ احزاب میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکے تھے اور عربوں کے درمیان خجلت زدہ تھے اور وہ) مسلمانوں کی مکہ آمد کو اپنی تذلیل اور عربوں کی طرف سے زیادہ سے زيادہ طعن و تشنیع کا سبب گردانتے تھے۔

کچھ افراد کی گرفتاری

قریش عجیب مخمصے میں پڑ گئے تھے چنانچہ انھوں نے مکرز بن حفص کو ـ جو شجاعت اور بےباکی کے حوالے سے مشہور تھا ـ 40 یا 50 سواروں کا ایک دستہ دے کر مسلمانوں کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ مسلمانوں کے گرد ایک جولان دے اور اگر ہو سکے تو ان میں چند افراد کو گرفتار کرکے لائے تاکہ مسلمانوں کے چند یرغمالی ان کے ہاتھ میں ہوں اور یوں اپنی تجاویز مسلمانوں پر مسلط کرسکیں۔ لیکن مکرز اور اس کے ساتھی نہ صرف کسی کو گرفتار نہ کرسکے بلکہ وہ سب مسلمان پہرےداروں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ انہیں رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر کیا گیا تو آپؐ نے ـ اسی سبب کہ جنگ پر مامور نہ تھے ـ ان کی رہائی کا فرمان جاری کیا؛ حالانکہ مکرز اور اس کے ساتھیوں نے گرفتاری سے قبل مسلمانوں کی طرف تیر پھینکے تھے اور مسلمانوں کو آزار و اذیت پہنچائی تھی اور حتی کہ بعض روایات کے مطابق ابن زنیم نامی مسلمان کو قتل بھی کیا تھا۔ بہر حال وہ رسول اللہؐ کے حکم پر رہا کئے گئے اور قریش کی طرف پلٹ گئے۔[27]

نمائندے کی روانگی

رسول اللہؐ نے قریش کی طرف نمائندہ روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابتداء میں عمر کو اس مہم کے لئے منتخب کیا لیکن عمر نے کہا: مکہ میں میرے اعزاء اور اقارب طاقتور نہیں ہیں جو مجھے قریش کی دست درازی سے تحفظ دیں اور میری حمایت کریں اور قریش جانتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ کس قدر دشمنی رکھتا ہوں لہذا عین ممکن ہے کہ وہ مجھے قتل کریں!؛ چنانچہ انھوں نے جانے سے انکار کیا اور عثمان کے بطور نمائندہ بھیجنے کی تجویز دی؛ کیونکہ عثمان کا تعلق بنو امیہ سے تھا اور قریش کے درمیان ان کے اعزاء و اقارب با اثر تھے۔[28]

پیغمبر اکرمؐ نے عثمان کو مکہ روانہ کیا اور مکیوں کو ایک بار پھر اپنے ارادے (یعنی خانۂ خدا کی زیارت اور مدینہ واپس جانے) سے آگاہ کیا؛ لیکن وہ پھر بھی نہ مانے اور عثمان کو واپس نہیں جانے دیا جس کے نتیجے میں افواہ اڑی کہ عثمان کو قریش نے قتل کردیا ہے۔ یہ خبر آنے کے بعد رسول خداؐ نے اصحاب کو بیعت کے لئے بلایا جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہوئی۔[29] جَدّ بن قَیس کے سوا حدیبیہ میں موجود باقی تمام اصحاب نے رسول خداؐ کے ہاتھ پر بیعت کی۔[30]

صلح کی قرارداد

کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ عثمان قتل نہیں ہوئے تھے بلکہ مکہ میں قید تھے۔[31] قریش نے ایک نمائندہ مسلمانوں کی طرف روانہ کیا تاکہ ان کے ساتھ صلح کے معاہدے پر دستخط کرے جس کے تحت مسلمان اس سال خانۂ خدا کی زیارت کئے بغیر مدینہ واپس چلے جائیں اور اگلے سال مکہ کا سفر کریں تا کہ قریش کو دوسرے عربوں کی ملامت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس شخص کا نام "سہیل بن عمرو" تھا اور رسول خداؐ نے سہیل کو دیکھ کر فرمایا: "قریش اس شخص کو بھیج کر، مصالحت کا ارادہ رکھتے ہیں"۔[32] فریقین کے درمیان قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق ہونے کے بعد، صلح نامے پر رسول اللہؐ اور قریش کے نمائندے نے دستخط کئے۔ رسول خداؐ ـ جو صلح کے فوائد سے بخوبی آگاہ تھے ـ نے زیادہ لچکدار رویہ اپنایا۔ اس لچکدار رویئے کا ایک نمونہ یہ تھا کہ آپؐ نے سہیل بن عمرو کے اس مطالبے سے اتفاق کیا کہ "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کو معاہدے کے سرنامے سے حذف کیا جائے اور اس کے بجائے "باسمک اللہم" لکھا جائے؛ نیز آپؐ نے سہیل کا یہ مطالبہ بھی قبول کیا کہ رسول اللہ کا عنوان حذف کیا جائے اور اس کے بجائے محمد بن عبداللہ لکھا جائے۔[33]

بعض صحابہ کی مخالفت

رسول خداؐ کا لچکدار رویہ بعض صحابہ کی تنقید اور غیظ و غضب کا سبب بنا!! اور بعض صحابہ نے درشت لہجہ استعمال کیا اور ان کی زبان سے طعن آمیز سوالات سنے گئے؛ ان صحابہ میں سے ایک عمر بن خطاب بھی تھے جنہوں نے آپؐ کے ساتھ تند رویہ روا رکھا![34] عمر نے اس صلحنامے کو مسلمانوں کی حقارت کا سبب قرار دیا،[35] اور اپنی رائے پر اس قدر اصرار کیا کہ ابو عبیدہ جراح نے جاکر ان سے کہا: "شیطان کے شر سے خدا کی پناہ مانگو اور اپنی رائے کو غلط سمجھو"،[36] عمر خود بھی معترف ہیں اور کہتے ہیں: خدا کی قسم میں نے اسلام قبول کرنے سے لے کر واقعۂ حدیبیہ تک آپؐ کی رسالت میں اس قدر شک نہیں کیا تھا؛ چنانچہ میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا "کیا آپ پیغمبر نہیں ہیں؟![37] نیز عمر کا کہنا تھا: "میں اپنی تشخیص سے رسول اللہؐ کے احکامات کی کو رد کیا کرتا تھا۔[38]

صلح نامے کے نکات

سہیل بن عمرو کے ساتھ مذاکرات کے بعد رسول خداؐ نے علی(ع) کو طلب کیا اور فرمایا: لکھو: "بسم اللہ الرحمن الرحیم

سہیل نے کہا: میں اس عنوان کو تسلیم نہیں کرتا؛ آپ کو ہمارا وہی مرسوم عنوان تحریر کرنا چاہئے: "باسمک اللہم"؛ اور علی(ع) نے رسول خداؐ کے حکم پر وہی عنوان تحریر کیا۔

بعد ازاں رسول اللہؐ نے فرمایا: لکھو: "یہ ہے وہ عہدنامہ جس پر رسول اللہ نے سہیل بن عمرو کے ساتھ اتفاق کیا۔

سہیل نے کہا: اگر ہم آپ کو پیغمبر خدا کے عنوان سے تسلیم کرتے تو آپ کے ساتھ اس قدر جنگ و جدل نہ کرتے؛ اس عنوان کو مٹنا چاہئے اور اس کے بجائے "محمد بن عبداللہ" لکھنا چاہئے۔ آپؐ نے اس کا یہ مطالبہ بھی قبول کیا اور جب آپؐ متوجہ ہوئے کہ علی بن ابی طالب کے لئے "رسول اللہ" کا عنوان مٹانا دشوار ہے تو آپؐ نے اپنی انگلی آگے بڑھا دی اور فرمایا: یا علی! مجھے یہ عنوان دکھا دو تاکہ میں خود اس کو مٹا دوں۔

صلح حدیبیہ کے نکات حسب ذیل تھے:

  1. 10 سال تک فریقین کے درمیان صلح برقرار ہو تاکہ لوگ امن و سکون میں زندگی بسر کریں؛[39]
  2. مسلمان اُس سال خانۂ خدا کی زیارت کئے بغیر مدینہ پلٹ کر چلے جائیں اور اگلے سال عمرہ کی بجا آوری کے لئے مکہ آئیں بشرطیکہ اسلحۂ مسافر کے سوا کوئی ہتھیار اٹھا کر نہ آئیں اور مکہ میں 3 دن سے زائد عرصہ نہ گذاریں؛ قریش بھی ان ایام میں شہر چھوڑ کر چلے جائیں گے؛
  3. مسلمانوں نے عہد کیا کہ ان افراد کو پلٹا دیں گے جو مکہ سے بھاگ کر مدینہ چلے جاتے ہیں لیکن فریق مخالف مدینہ سے فرار ہوکر مکہ آنے والوں کی نسبت اس قسم کے اقدام کے پابند نہ ہونگے؛
  4. دوسرے قبائل کو پوری آزادی حاصل ہوگی کہ وہ قریش یا مسلمانوں کے ساتھ معاہدے منعقد کریں۔[40]

صحیح مسلم میں منقول ہے کہ جب سورہ فتح نازل ہوئی تو رسول خداؐ نے عمر بن خطاب کو بلوایا اور اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی انہیں سنا دی۔ عمر نے کہا: کیا واقعی یہ صلح، فتح ہے؟! فرمایا: ہاں یہ فتح ہے۔[41]

مدینہ واپسی

مختلف روایات کے مطابق مسلمانوں نے 10 سے کچھ زیادہ دن اور ایک قول کے مطابق 20 دن سرزمین حدیبیہ میں قیام کیا۔[42] رسول خداؐ نے اپنا خیمہ حرم کی حدود سے باہر نصب کیا تھا لیکن نماز حرم کی حدود میں بجا لاتے تھے۔ جب معاہدے پر دستخط ہوئے اور مسلمانوں اور مشرکین میں سے بعض افراد اس کے انعقاد کے گواہ بنے تو رسول خداؐ نے حکم دیا کہ اپنے اونٹوں کو قربانی کے عنوان سے نحر کریں اور اپنے سر منڈوا دیں۔ زیادہ تر مسلمانوں نے ـ جو صلح حدیبیہ کے انعقاد اور مناسک حج بجا نہ لانے سے ناراض تھے اور اس کو مسلمانوں کی شکست سمجھتے تھے ـ رسول اللہؐ کی حکم عدولی کی؛ لیکن جب آپؐ نے بذات خود ان مناسک کے بجا لانے کا اہتمام کیا تو مسلمانوں نے بھی پیروی کی۔[43] بعذ ازاں مسلمان مدینہ واپس آئے۔[44]

حدیبیہ کے معاہدہ صلح کے مطابق، اگلے سال (سنہ 7 ہجری میں) رسول اللہؐ اور مسلمان مکہ چلے گئے اور تین روز تک قریش کی عدم موجودگی میں وہیں قیام کیا اور عمرہ کے اعمال انجام دیئے۔ یہ واقعہ عمرۃ القضاء کے نام سے مشہور ہے۔[45]

حدیبیہ سے مدینہ واپسی کے دوران راستے میں ہی سورہ فتح نازل ہوئی اور اس سورت میں خداوند متعال نے صلح حدیبیہ کو "فتح مبین" کا نام عطا کیا اور بیعت کرنے والوں سے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان فرماتے ہوئے مسلمانوں کو عظیم فتوحات اور بہت سے اموال غنیمت کا وعدہ دیا۔[46] اکثر مفسرین کی رائے کے مطابق اس وعدے کا تعلق فتح خیبر سے ہے جو سنہ 7 ہجری میں انجام پایا اور بہت سے اموال غنیمت مسلمانوں کے نصیب ہوئے۔[47] تاہم بعض مفسرین نے آیت فتح مبین کی آیت کو فتح مکہ سے متعلق سمجھا ہے۔[48]

معاہدے کی خلاف ورزی

صلح حدیبیہ سے کچھ ہی عرصہ بعد مکہ سے ایک شخص بھاگ کر مدینہ پہنچا۔ رسول اللہؐ نے معاہدے کی رو سے اس کو مکہ واپس بھجوایا؛ لیکن متذکرہ مسلمان بیچ راستے قریشیوں کے نرغے سے نکل کر بھاگ گیا اور چند دیگر افراد سے مل کر قریشیوں پر حملہ کیا اور حملوں کا یہ سلسلہ جاری رکھا۔ یہاں تک کہ قریش نے رسول خداؐ سے درخواست کی کہ ان چند مسلمانوں کو مدینہ میں بسا دیں؛ اور یوں قریش نے بھاگنے والوں کے لوٹانے کی یک طرفہ پابندی والے نکتے کو خود ہی منسوخ کردیا۔[49] گوکہ اس سے کچھ عرصہ پہلے ہی سورہ ممتحنہ کی دسویں آیت کی رو سے ان مؤمنہ خواتین کا واپس بھجوانا ممنوع ہوچکا تھا جو مکہ سے مدینہ فرار ہوکر آتی تھیں۔[50]

ابھی صلح حدیبیہ کو دو سال کا عرصہ نہیں گذرا تھا کہ مشرکین نے اس کو پامال کیا اور اس کے پہلے نکتے یعنی جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سنہ 8 ہجری میں مسلمانوں کے حلیف قبیلے بنو خزاعہ کے ساتھ اپنے حلیف قبیلے بنو بکر کی جنگ میں شرک ہوئے اور قریش کے افراد نے بنو خزاعہ کے کئی افراد کو قتل کیا۔ قریش کا یہ اقدام صلح حدیبیہ کی کھلی خلاف ورزی سمجھا جاتا تھا۔ اس واقعے کے بعد ابو سفیان ذاتی طور پر مسلمانوں سے معافی مانگنے مدینہ چلا گیا لیکن اس کی معذرت مسترد ہوئی اور کچھ ہی عرصہ بعد رسول اللہؐ نے، ایک عظیم لشکر کے ساتھ ـ جو صلح کے ایام اور اسلام کے فروغ کے زمانے میں فراہم ہوا تھا ـ فتح مکہ کی غرض سے، عزیمت فرمائی۔[51]

صلح حدیبیہ کی برکات

صلح حدیبیہ تاریخ کی گواہی اور رسول خداؐ کی پیشنگوئیوں اور قرآن کے وعدوں کے عین مطابق، مسلمانوں کے لئے بہت سی برکات کا سبب ہوئی۔ مؤرخین کے مطابق، اسلام کے صدر اول میں فتح حدیبیہ سے عظیم تر کوئی فتح مسلمانوں کے نصیب نہیں ہوئی کیونکہ اس کی روشنی میں جنگ کے بادل چھٹ گئے اور دعوت اسلام کو فروغ ملا اور اسلام پورے جزیرۃ العرب میں پھیل گیا؛ یہاں تک کہ معاہدہ صلح سے اس کی پامالی تک صرف 22 مہینوں کے عرصے میں اسلام قبول کرنے والے افراد کی تعداد اس زمانے تک اسلام قبول کرنے والے افراد سے کہیں زیادہ تھی۔ چنانچہ سنہ 8 ہجری میں فتح مکہ کے لئے عزیمت کرتے وقت رسول اللہؐ کی سپاہ 10000 افراد پر مشتمل تھی اور قریش کے عمائدین ـ منجملہ ابو سفیان، خالد بن ولید اور عمرو عاص نے ان ہی ایام میں اسلام قبول کیا۔[52] گوکہ ابو سفیان کے قبول اسلام کے بارے میں اختلاف ہے اور زیادہ مستند قول یہ ہے کہ اس نے رسول خداؐ اور اسلام کے خلاف بےحد وحساب ریشہ دوانیوں کے بعد، سنہ 8 ہجری میں فتح مکہ کے دوران عباس بن عبد المطلب کی وساطت سے رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا[53] اور آپؐ نے اس کے گھر کو پرامن پناہ گاہ قرار دیا۔[54]

اسی اثناء میں، صلح حدیبیہ سے حاصل ہونے والے امن و سکون کے نتیجے میں رسول اللہؐ نے جزیرۃ العرب میں اپنی تبلیغی فعالیت کو شدت بخشی اور بیرونی سرزمینوں کی طرف بھی اپنی توجہ مبذول فرمائی۔ سنہ 7 ہجری میں آپؐ نے ارد گرد کے بادشاہوں اور سربراہوں کو بھی اسلام کی دعوت دی؛ لیکن صلح کا سب سے اہم فائدہ فتح مکہ کے لئے ماحول اور اسباب کی فراہمی سے عبارت تھا جو صلح حدیبیہ کے بعد مختصر سے عرصے میں انجام پائی۔

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. ابن عقبۃ، المغازی النبویۃ، ص320۔
  2. بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص463۔
  3. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص95۔
  4. ابن سعد، وہی ماخذ۔
  5. الحموي، معجم البلدان، ج2، ص229۔
  6. غزوۃ الحديبيۃ۔
  7. سورہ فتح، آیہ 27۔
  8. رجوع کریں: سورہ فتح، آیہ 27۔
  9. ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص774۔
  10. الواقدی، المغازی، ج2، ص573؛ ابن سعد، الطبقات، ج2، ص95۔
  11. رجوع کنید بہ ابن سعد، الطبقات، ج2، ص95؛ طبری، تاریخ، ج2، ص620۔
  12. رجوع کنید بہ ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج2، ص774۔
  13. الواقدی، المغازی، ج2، ص574۔
  14. الواقدی، المغازی، ج2، ص573؛ ابن سعد، الطبقات، ج2، ص95۔
  15. ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج2، ص776۔
  16. ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص774؛ ابن سعد، الطبقات، ج2، ص95۔
  17. الواقدی، المغازی، ج2، ص574۔
  18. ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص775۔
  19. ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، وہی ماخذ۔
  20. ابن ہشام، وہی ماخذ۔
  21. ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص775۔
  22. رجوع کریں: سورہ نساء، آیات 101 و 102۔
  23. رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج2، ص582ـ583۔
  24. ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص776؛ ابن سعد، الطبقات، ج2، ص96۔
  25. ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص777۔
  26. رجوع کریں: ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص777؛ ابن سعد، الطبقات، ج2، ص96؛ الیعقوبی، تاریخ، ج2، ص54۔
  27. رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج2، ص602؛ ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص779؛ ابن سعد، الطبقات، ج2، ص96ـ97۔
  28. ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص782؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص89۔
  29. رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج2، ص603؛ ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص782؛ طبری، تاریخ، ج2، ص632۔
  30. ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص782۔
  31. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص89۔
  32. ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص781۔
  33. رجوع کریں: الیعقوبی، تاریخ، ج2، ص54؛ الطبرسی، اعلام الوری، ج1، ص371ـ 372؛ الحلبی، السيرۃ الحلبيۃ، ج3، ص20۔
  34. رجوع کریں: ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص783؛ نیز رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج2، ص609ـ611؛ ابن سعد، الطبقات، ج2، ص101۔
  35. بیہقی، دلایل النبوۃ، ج4، ص106؛ الذہبی، تاريخ الإسلام و وفيات المشاہير والأعلام، ج2، ص371۔
  36. سبل الہدى و الرشاد في سيرۃ خير العباد، ج‏5، ص53۔
  37. قال عمر: واللَّہ ما شككت منذ أسلمت إلّا یومئذ فأتیت النّبیّ، صلّی اللَّہ علیہ و سلّم فقلت: یا رسول اللَّہ، أ لست نبیّ اللَّہ؟: الذہبی، تاريخ الإسلام و وفيات المشاہير والأعلام، ج‏2 ،ص372؛ بیہقی، ابوبکر،ج‏4،ص:106؛ الصالحي الشامي، سبل الہدى والرشاد، ص53؛ الواقدی نقل کرتے ہیں: کہ عمر نے کہا: ارتبت ارتیابا لم أرتبہ منذ أسلمت: المغازی، ج2، ص607۔
  38. الصالحي الشامي، سبل الہدى والرشاد، ج‏5، ص85۔
  39. قس الیعقوبی، تاریخ، ج2، ص54۔
  40. الواقدی، المغازی، ج2، ص611ـ612؛ ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص784؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص204؛ قس الیعقوبی، تاریخ، ج2، ص54۔
  41. نیسابوری، صحیح، ج2، باب صلح الحديبيۃ في الحديبيۃ، ص175، ح1785۔
  42. رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج2، ص616؛ ابن سعد، الطبقات، ج2، ص98۔
  43. الواقدی، المغازی، ج2، ص613؛ الیعقوبی، تاریخ، ج2، ص55؛ قس ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص785۔
  44. الیعقوبی، تاریخ، ج2، ص55۔
  45. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص227۔
  46. الواقدی، المغازی، ج2، ص617ـ623؛ ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص786ـ788۔
  47. رجوع کریں: طبری، جامع البيان، ج26، ص90 اور بعد کے صفحات؛ الطبرسی، مجمع البیان، ج9، ص181 اور بعد کے صفحات؛ رجوع کریں: الطباطبائی، تفسیر الميزان، ج18، ص251 اور بعد کے صفحات۔
  48. رجوع کریں: الطباطبائی، تفسیر الميزان، ج18، ص251 اور بعد کے صفحات۔
  49. رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج2، ص624ـ629؛ ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، 788ـ789۔
  50. ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص790ـ791۔
  51. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص239ـ244۔
  52. رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج2، ص624؛ ابن ہشام، السيرۃ النبويۃ، ج3، ص788۔
  53. الواقدی، المغازی، ج2، ص817-818۔
  54. الواقدی، وہی ماخذؐابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج4، ص44۔

مآخذ

  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۳۸۵ – ۱۳۸۶ / ۱۹۶۵ – ۱۹۶۶۔
  • ابن سعد، کتاب الطبقات الکبیر، تحقیق ادوارد زاخاو، لیدن ۱۳۲۱ – ۱۳۴۷ / ۱۹۰۴ – ۱۹۴۰، چاپ افست تہران [بی‌تا۔]
  • ابن ہشام، عبدالملک بن ہشام، السیرۃ النبویۃ، تحقیق سہیل زکار، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۲/ ۱۹۹۲۔
  • بیہقی، ابوبکر، دلائل النبوۃ و معرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، ۱۴۰۵ق۔
  • حلبی، علی بن ابراہیم، السیرۃ الحلبیۃ، بیروت، [۱۳۲۰]، چاپ افست [بی تا]۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الإسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، بیروت، دارالکتاب العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق۔
  • رسولی، سید ہاشم، زندگانی محمد(ص)، تہران، انتشارات کتابچی، چاپ پنجم، ۱۳۷۵ش۔
  • محمدحسین طباطبائی، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت ۱۳۹۰ – ۱۳۹۴ / ۱۹۷۱ – ۱۹۷۴۔
  • صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد في سيرۃ خير العباد، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۴۱۴ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الہدی، قم، م‍وس‍س‍ہ‌ آل‌ال‍ب‍ی‍ت‌(ع‍ل‍ی‍ہ‍م‌ال‍س‍لام‌) لاح‍ی‍اآ ال‍ت‍راث‌، ۱۴۱۷ق۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، چاپ ہاشم رسولی محلاتی و فضل اللّہ یزدی طباطبائی، بیروت، ۱۴۰۸/ ۱۹۸۸۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری: تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، ۱۳۸۲ – ۱۳۸۷ / ۱۹۶۲ – ۱۹۶۷۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان عن تأویل‌ای القرآن، مصر ۱۳۷۳ / ۱۹۵۴۔
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، تحقیق مارسدن جونز، لندن، بی‌نا، ۱۹۶۶م۔
  • یاقوت حموی، کتاب معجم البلدان، چاپ فردیناند ووستفلد، لایپزیگ ۱۸۶۶ – ۱۸۷۳، چاپ افست تہران ۱۹۶۵۔
  • یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، [بی‌تا۔]، چاپ افست قم [بی‌تا۔]۔