"عمرۃ القضاء" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Mabbassi |
imported>Mabbassi |
||
سطر 94: | سطر 94: | ||
یہ [[عمرہ]] اسی خواب کی تعبیر ہے جو آپ(ص) نے [[حدیبیہ]] جانے سے قبل [[مدینہ]] میں دیکھا تھا۔<ref>ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص9۔</ref> | یہ [[عمرہ]] اسی خواب کی تعبیر ہے جو آپ(ص) نے [[حدیبیہ]] جانے سے قبل [[مدینہ]] میں دیکھا تھا۔<ref>ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص9۔</ref> | ||
== | ==حوالہ جات== | ||
<div class="reflist4" style="height: 220px; overflow: auto; padding: 3px" > | <div class="reflist4" style="height: 220px; overflow: auto; padding: 3px" > | ||
{{حوالہ جات}} | {{حوالہ جات}} |
نسخہ بمطابق 19:13، 22 جولائی 2015ء
غزوہ عمرۃ القضاء | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
سلسلۂ محارب: | |||||||||||||
| |||||||||||||
فریقین | |||||||||||||
مسلمین | مشرکین قریش | ||||||||||||
قائدین | |||||||||||||
حضرت محمد(ص) | |||||||||||||
عمرۃ القضاء کی شان میں دو آیتیں نازل ہوئی ہیں جن کی طرف متن میں اشارہ ہوا ہے۔ |
غزوہ عمرۃ القضاء رسول خدا(ص) کے غزوات ميں سے ایک ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ رسول اللہ(ص) نے ذوالحلیفہ (آبار علی(ع)) سے احرام باندھا اور مکہ کے قریب پہنچے تنعیم کے قریب حرم سے 10 کلومیٹر دور نتنغیم کے قریب ہتھیار اور 200 مسلح افراد متعین کئے۔ اکثر قریشی قریبی پہاڑوں میں چلے گئے مسلمان صرف تلوار لے کر داخل وہئے اور مناسک حج ادا کئے اونٹوں کی قربانیاں دیں۔ 3 دن تک مکہ میں قیام کیا اور قریش نے ان کے جانے کا مطالبہ کیا اور آپ مدینہ واپس چلے آئے۔
عمرۃ القضاء کے اسماء
عمرۃ القضاء کو عمرۃ القضیہ، عمرۃ القصاص، عمرۃ الصلح، بھی کہا گیا ہے۔[1]
غزوہ قضیہ (عمرۃ القضاء)
ذوالقعدہ سنہ 7 ہجری میں رسول خدا(ص) نے عمرۃ القضاء کی غرض سے مکہ کی جانب عزیمت فرمائی کیونکہ سنہ 6 ہجری میں قریش نے آپ(ص) کو عمرہ بجا لانے نہیں دیا تھا۔ آپ(ص) نے ابو رہم الغفاری یا ابو ذر الغفاری[2]۔[3] یا صالحی شامی کے بقول عویف بن اضبط دیلی کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا۔[4]۔[5] اور ایک سو گھڑ سوار اور بڑی مقدار میں اسلحہ لے کر روانہ ہوئے۔ رسول اللہ(ص) نے میثاق حدیبیہ کے باوجود، ہتھیار اٹھانے کے اہتمام کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: "ہم ہتھیار لے کر حرم میں داخل نہیں ہونگے تاہم ممکنہ خطرات کا سامنا کرنے کے لئے ہتھیار ہماری دسترس میں ہونے چاہئے۔[6]۔[7]
رسول اللہ(ص) نے ہتھیار اس مقام پر منتقل کئے جہاں حرم کے علائم نصب ہوئے تھے اور ہتھیاروں کی حفاظت پر 200 افراد مامور کئے اور خود حرم کی حدود میں داخل ہوئے۔ آپ(ص) نے باقی مسلمانوں کے ساتھ عمرہ کے اعمال بجالانے کے بعد 200 افراد کو ہتھیاروں کی حفاظت کے لئے روانہ کئے۔[8]
مشرکین مکہ مسلمانوں کے آنے کے خبر ملنے کے بعد پہاڑوں پر چلے جانے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ وہ حتی مسلمانوں پر ایک نظر بھی نہیں ڈالیں گے۔[9] اس کے باوجود بعض مشرکین نے آپ(ص) کو دیکھنے کے لئے دار الندوہ کی دیوار کے ساتھ قطار باندھ لی۔[10]
رسول اللہ(ص) اپنے اصحاب کے درمیان ـ جبکہ وہ تندہی سے تلواریں ہاتھ میں لے کر سختی سے آپ(ص) کی حفاظت میں مصروف تھے[11] ـ مکہ میں داخل ہوئے۔
ابن رواحہ کے اشعار
مکہ میں داخل ہوتے وقت عبداللہ بن رواحہ رسول اللہ(ص) کی اونٹنی [قصواء] کی لگام کھینچ رہے تھے اور ذیل کے اشعار پڑھ رہے تھے:
خلوا بني الكفّار عن سبيله
انّي شهدت انّه رسوله
حقاً وكل الخير في سبيله
نحن قتلناكم علي تأويله
كما ضربناكم علي تنزيله
ضرباً يزيل الهام عن مقيله
ويذهل الخليل عن خليله۔
ترجمہ:
اے کافروں کے بیٹو آپ(ص) کے راستے سے ہٹ جاؤ
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ(ص) حقیقتاً اللہ کے رسول ہیں
پوری خیر اور نیکی آپ(ص) ہی کے راستے میں ہے
ہم قرآن کی تاویل پر تمہارے سے لڑ رہے ہیں
جس طرح کہ اس کی تنزیل پر تمہارے ساتھ لڑے
تم پر ایسی ضربیں مارتیں ہیں
جو سروں کو جدا کرتی ہیں اور
دوست کو دوست سے باز رکھتی ہیں۔[12]
اشعار پر بحث
ابن اسحاق نے بھی یہ اشعار مختصر سے اختلاف کے ساتھ نقل کئے ہیں اور ابن ہشام نے کہا ہے کہ عبارت "نحن قتلناكم علي تأويله" سے لے کر آخری مصرع تک عمار یاسر کے اشعار ہیں جو انھوں نے کسی اور موقع پر پڑھے تھے! (ہم جانتے ہیں کہ عمار یاسر نے یہ اشعار جنگ صفین کے دوران پڑھے تھے اور ابن ہشام نے اس حقیقت کی طرف اشارہ نہیں کرنا چاہا ہے[13])؛ ابن ہشام کے بقول عبداللہ بن رواحہ کا خطاب مشرکین سے تھا اور وہ تنزیل ہی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کرتے تھے اور امر واضح ہے کہ تاویل پر ان لوگوں کے خلاف جنگ لڑی جاتی ہے جو تنزیل پر ایمان رکھتے ہوں۔[14]
شخصیتها | |
---|---|
پیغمبر اسلامؑ • حضرت علیؑ • حضرت فاطمہؑ • صحابہ | |
غزوات | |
غزوہ بدر • غزوہ احد • غزوہ خندق • غزوہ خیبر • غزوہ فتح مکہ • دیگر غزوات | |
شہر اور مقامات | |
مکہ • مدینہ • طائف • سقیفہ • خیبر • جنۃ البقیع | |
واقعات | |
بعثت • ہجرت حبشہ • ہجرت مدینہ • صلح حدیبیہ • حجۃ الوداع • واقعۂ غدیر | |
متعلقہ مفاہیم | |
اسلام • تشیع • حج • قریش • بنو ہاشم • بنو امیہ | |
ہجرت نبوی | 622ء بمطابق 1ھ |
معراج | 622ء بمطابق 1ھ |
غزوہ بدر | 624ء بمطابق 17 رمضان 2ھ |
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی | 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ 2ھ |
بنیقینقاع کی شکست | 624ء بمطابق 15 شوال 2ھ |
غزوہ احد | 625ء بمطابق شوال 3ھ |
بنو نضیر کی شکست | 625ء بمطابق 4ھ |
غزوہ احزاب | 627ء بمطابق 5ھ |
بنو قریظہ کی شکست | 627ء بمطابق 5ھ |
غزوہ بنی مصطلق | 627ء بمطابق 5ھ یا 6ھ |
صلح حدیبیہ | 628ء بمطابق 6ھ |
غزوہ خیبر | 628ء بمطابق 7ھ |
پہلا سفرِ حجّ | 629ء بمطابق 7ھ |
جنگ مؤتہ | 629ء بمطابق 8ھ |
فتح مکہ | 630ء بمطابق 8ھ |
غزوہ حنین | 630ء بمطابق 8ھ |
غزوہ طائف | 630ء بمطابق 8ھ |
جزیرة العرب پر تسلط | 631ء بمطابق 9ھ |
غزوہ تبوک | 632ء بمطابق 9ھ |
حجۃ الوداع | 632ء بمطابق 10ھ |
واقعۂ غدیر خم | 632ء بمطابق 10ھ |
وفات | 632ء بمطابق 11ھ |
عمر کا اعتراض اور رسول خدا(ص) کا جواب
مذکورہ بالا اشعار سن کر عمر بن خطاب نے اعتراض کرتے ہوئے ابن رواحہ سے کہا: تم رسول اللہ(ص) کے سامنے اشعار پڑھتے ہو؟! اور آپ(ص) نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: [اے عمر] انہیں پڑھنے دو میں خود ان کے اشعار سن رہا ہوں اور یوں آپ(ص) نے عمر کو خاموش کرا دیا۔[15]۔[16]
ترمذی کی خطا
ترمذی اپنی کتاب السنن میں لکھتے ہیں کہ "مروی ہے کہ عمرۃ القضاء کے دوران حرم میں داخل ہوتے وقت کعب بن مالک رسول اللہ کی خدمت میں تھے اور [میری رائے میں بھی] یہ روایت زیادہ صحیح ہے کیونکہ عبداللہ بن رواحہ جنگ موتہ میں شہید ہوگئے تھے؛[17] حالانکہ جنگ موتہ عمرۃ القضاء کے بعد جمادی الاول سنہ 8 ہجری میں انجام پائی ہے۔[18] مذکورہ اشعار دوسرے مآخذ میں نقل ہوئے ہیں[19]۔[20]
ابن ہشام کے شبہے کا جواب
محمد محمود شاکر طبقات الشعراء کی شرح میں لکھتا ہے: ابن رواحہ کے شعر میں "تاویل" سے مراد اس کلام کی تفسیر نہیں ہے جس کے معانی مختلف ہوں بلکہ مراد حوالہ ہے ان وعدوں کا حوالہ ہے جو اللہ نے نبی(ص) کو دیا تھا۔[21] ہاں البتہ اس میں شک نہیں ہے کہ عمار یاسر یہ اشعار سپاہ معاویہ کا مقابلہ کرتے ہوئے پڑھتے رہے ہیں۔[22]
شعار فتح
رسول اللہ(ص) نے عبداللہ بن رواحہ کو حکم دیا کہ یہ ذکر پڑھیں:لا إله إلا الله وحده نصر عبده وأعز جنده وهزم الاحزاب وحده۔
ترجمہ: نہیں ہے کوئی معبود سوا اللہ کے جو یکتا ہے؛ جس نے اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور اپنے لشکر کو عزت بخشی اور تن تنہا (کفار) کے تمام احزاب کو ہرا دیا۔
پس مسلمانوں نے یہ شعار زبان پر جاری کیا اور لوگوں نے بھی یہ الفاظ دہرائے جو ابن رواحہ نے کہے تھے۔[23]
اعمال عمرہ
مشرکین کا کہنا تھا کہ "ایسی قوم مکہ آرہی ہے جس کو یثرب کی گرمی نے سست کررکھا ہے؛ چنانچہ رسول خدا(ص) نے اصحاب کو حکم دیا کہ طواف کے تین شوطوں میں دُلکی چال چلیں اور آہستگی سے دوڑیں تاکہ مشرکین ان کی قوت کا مشاہدہ کریں؛ اور فرمایا کہ خداوند متعال رحمت نازل کرے اس شخص پر جو قوت کا اظہار کرے۔[24]۔[25]۔[26]
رسول خدا(ص) طواف اور سعی کے بعد کعبہ میں داخل ہوئے اور اس وقت تک کعبہ میں رہے جب بلال حبشی نے بام کعبہ پر اذان کہی۔
اس موقع پر عکرمہ بن ابی جہل نے کہا: خداوند متعال نے میرے باپ کو قتل کے ذریعے یہ کرامت عطا کی کہ اس غلام کی آواز کی گونج کو کعبہ کے اوپر سے نہ سنے۔
سہیل بن عمرو اور قریش کے بعض دوسرے عمائدین نے یہ حال دیکھ کر ـ غصے یا خجلت کے مارے ـ اپنے چہرے چھپا دیئے۔[27]۔[28]
مکہ میں مسلمانوں کی موجودگی کے اثرات
یوں مسلمان 3 دن تک مکہ میں تھے؛ وہ نماز کے لئے مسجد الحرام میں آتے تھے، نماز ادا کرتے تھے۔ مہاجرین ان ایام میں اپنے گھروں میں جاتے تھے اور شہر کی گلیوں میں آزادانہ گھومتے پھرتے تھے؛ جبکہ قریش دور اور نزدیک سے ان کے افعال و اعمال کا مشاہدہ کررہے تھے۔ قریش میں سے بہت سے ایسے افراد ایسے تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلوص اور ہم دلی کا قریب سے مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ ـ مشرکین اور دشمنان اسلام کی تشہیری مہم کے بر عکس جن کا کہنا تھا کہ مسلمان کعبہ کے لئے احترام کے قائل نہیں ہیں اور وہ صرف کینہ پرور اور جنگجو لوگ ہیں ـ رسول خدا(ص) اور مسلمان کس قدر کعبہ کی تجلیل و تعظیم کے لئے کوشاں ہیں اور کس قدر محبت اور اخلاص مسلمانوں کے درمیان حکم فرما ہے ـ تو وہ دلی طور پر اسلام کی طرف مائل ہوئے اور مسلمانوں کے مدینہ واپس چلے جانے کے بعد مسلمان ہوئے۔ یوں اس تین روزہ سفر نے مکہ کے عوام کے دلوں پر گہرے اثرات مرتب کئے اور فتح مکہ اور بعد کے واقعات میں اسلام کی پیشرفت و فروغ نیز اگلی جنگوں اور غزوات کے لئے بہت زیادہ ممد و معاون ثابت ہوئے۔[29]
میمونہ بنت حارث سے شادی
رسول اللہ(ص) نے اسی سفر کے دوران عباس بن عبدالمطلب کی سالی اور ام الفضل کی بہن میمونہ بنت حارث بن حزن[30] سے شادی کرلی؛ جو اس دنیا میں آپ(ص) کی آخری شادی تھی۔ ایک روایت کے مطابق آپ(ص) نے چچا عباس کی تجویز پر میمونہ سے شادی کرلی اور سبب یہ تھا کہ میمونہ نے اپنی شادی کا اختیار عباس کو دیا تھا اور عباس کو رسول خدا(ص) سے میمونہ کی محبت کا علم اس وقت ہوا جب آپ(ص) عمرہ قضاء کی غرض سے مکہ تشریف فرما ہوئے۔[31]
مدینہ واپسی
میمونہ سے نکاح مکہ میں قیام کے تیسرے روز ہوا اور زفاف مکہ سے باہر "سرف" نامی مقام پر انجام پایا۔ رسول خدا(ص) اس خاتون کے ساتھ شادی کی رسم مکہ میں ہی ہو اور آپ(ص) ایک بڑی ضیافت دے کر قریش کے عمائدین اور میمونہ کے اعزاء و اقارب کو دعوت دیں اور قریب سے ان کے ساتھ بات چیت کریں اور دشمنی اور اختلافات کا خاتمہ کریں لیکن قریش اس کے لئے تیار نہیں ہوئے۔[32]
اور جب آپ(ص) نے سہیل بن عمرو سے ـ جو چند قریشی عمائدین کے ہمراہ آپ(ص) کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کی مہلت اختتام پذیر ہوچکی ہے لہذا مزید مکہ میں نہ رہیں ـ فرمایا: اس میں کیا حرج ہے کہ میں تمہارے شہر میں شادی کی رسم بجا لاؤں اور تمہیں ولیمہ کے لئے دعوت دوں؛ لیکن سہیل نے کہا: ہمیں آپ کے طعام اور ضیافت کی ضرورت نہیں ہے بس آپ چلے جائیں۔ لہذا رسول خدا(ص) نے مکیوں کا رویہ دیکھ کر صلح حدیبیہ کے مطابق مکہ چھوڑ کر چلے گئے اور برویتے اپنے غلام ابو رافع کو مکہ میں رہنے دیا تا کہ میمونہ کو ساتھ لے آئیں۔۔[33]
طبری کی روایت کے مطابق تین روزہ مہلت کے اختتام پر سہیل بن عمرو حاضر ہوا اور رسول اکرم(ص) سے مطالبہ کیا کہ مکہ کو ترک کر دیں؛ چنانچہ آپ(ص) نے ابو رافع کو حکم دیا کہ مکہ سے کوچ کی منادی کر دیں اور یہ کہ کوئی بھی مکہ میں نہ رہے۔ آپ(ص) نے بلال حبشی کو بھی ہدایت کی کہ غروب آفتاب سے قبل تک کوئی مسلمان مکہ میں نہ رہے۔[34]
عمرۃ القضاء کی شان میں آیات کریمہ
بہت سے مفسرین کا کہنا ہے کہ میمونہ وہی خاتون تھیں جنہوں نے اپنا وجود رسول اللہ(ص) کو بخشا اور خداوند متعال نے قرآن کریم میں ان کی داستان بیان فرمائی:
- وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ۔
ترجمہ=اور وہ با ایمان عورت اگر وہ اپنا نفس پیغمبر کو ہبہ کر دے اگر پیغمبر چاہیں کہ اس سے ازدواجی تعلق قائم کریں، یہ بات تمام دوسرے مسلمانوں سے الگ آپ کے ساتھ مخصوص ہے۔[35]
بے شک اس خاتون کی محبت کا سرچشمہ اس کا ایمان تھا اور آپ(ص) نے اس ایمان اور اخلاص کے جواب میں ان سے نکاح کیا۔[36]
ابن ہشام أبو عبیدہ سے نقل کرتا ہے کہ سورہ فتح کی آیت 24 عمرۃ القضاء کی شان میں نازل ہوئی ہے جہاں خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:
- لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاء اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَلِكَ فَتْحاً قَرِيباً۔
ترجمہ: اللہ نے اپنے رسول کو حقیقتاً بالکل ہی سچا خواب دکھایا کہ تم لوگ انشاء اللہ ضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے اطمینان کے ساتھ اپنے سروں کو منڈوائے اور اپنے کچھ بال یا ناخن کترے ہوئے تمہیں کچھ خوف نہ ہو گا، پھر بھی اس نے جانا وہ جو تم نہیں جانتے تھے تو اس کے پہلے اس نے ایک دوسری فتح (فتح خیبر) عطا کر دی۔۔[37]
یہ عمرہ اسی خواب کی تعبیر ہے جو آپ(ص) نے حدیبیہ جانے سے قبل مدینہ میں دیکھا تھا۔[38]
حوالہ جات
- ↑ مبارکفوری، الرحیق المختوم، ص354۔
- ↑ ابن الجوزی، المنتظم، ج3، ص305۔
- ↑ المقریزی، امتاع الاسماع، ج9، ص227۔
- ↑ صالحی شامی، سبلالهدي والرشاد، ج5، ص289۔
- ↑ رجوع کریں: ابنهشام، السيرةالنبويه، ابنهشام، ج4، ص5۔
- ↑ المغازي، ج 2، ص 733۔
- ↑ صالحی شامی، سبلالهدي والرشاد، ج5، ص289۔
- ↑ الواقدی، المغازي، ج2، ص733۔
- ↑ الواقدی، المغازي، ج2، ص734۔
- ↑ ابنهشام، السيرةالنبويه، ابنهشام، ج4، ص6۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج2، ص121، والمسلمون متوشحون السيوف محدقون برسول الله صلى الله عليه وآله۔
- ↑ الواقدی، المغازي، ج2، ص736۔
- ↑ روى الإمام أحمد في المسند بسنده عن أبي سعيد قال: كنا نمشي مع النبي صلى الله عليه [وآله] وسلم: فانقطع شسع نعله فتناولها علي يصلحها ثم مشی فقال: إن منكم من يقاتل على تأويله، كما قاتلت على تنزيله، قال أبو سعيد فخرجت فبشرته بما قال رسول الله صلى الله عليه [وآله] وسلم فلم يكبر به فرحا كأنه شيء قد سمعه۔
ترجمہ: ابن حنبل، فضائل الصحابة، ج2، ص627: احمد بن حنبل نے اپنے حوالے سے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ "ہم رسول اللہ(ص) کے ساتھ پیدل چل رہے تھے کہ آپ(ص) کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا؛ پس علی(ع) نے آپ(ص) کا جوتا مرمت کے لئے اٹھایا اور چلے گئے؛ پس آپ(ص) نے فرمایا: تم میں سے ایسا شخص بھی ہے جو قرآن کی تاویل پر جنگ لڑے گا جس طرح کہ میں اس کی تنزیل پر جنگ لڑی۔ پس میں نکلا اور علی(ع) کے پاس گیا اور انہیں وہ خوشخبری سنائی جو آپ(ص) نے سنائی تھی پس انھوں نے خوشی کا اظہار نہیں کیا؛ گویا کہ وہ پہلے سے جانتے تھے۔ - ↑ ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، صص7-8۔
- ↑ الواقدی، المغازي، ج2، ص736۔
- ↑ ابن سعد، طبقات الكبري، ج2، صص121-122۔
- ↑ الترمذی، السنن، ج4، صص217-218۔
- ↑ سبل الهدی و الرشاد، ج6، ص288۔
- ↑ الجمحي، طبقات فحول الشعراء، ص59۔
- ↑ مختصر تاريخ دمشق، ج12، ص154۔
- ↑ الجمحي، طبقات الشعراء، (ط محمد شاكر) ج1، حاشیه ص224۔
- ↑ المنقري، وقعة صفين، ص341۔
- ↑ مختصر تاريخ دمشق، ج12، ص155۔
- ↑ ابن سعد، الطبقات الكبری، ج2، ص 123۔
- ↑ الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص292۔
- ↑ ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص6۔
- ↑ الواقدي، المغازي، ج2، ص738۔
- ↑ الصالحي الشامي، سبل الهدی والرشاد، ج5، ص294۔
- ↑ رسولی محلاتی، زندگانى حضرت محمد(ص) ص524۔
- ↑ میمونہ زوجات رسول(ص) میں سے ایک تھیں جو سنہ 61 ہجری تک بقید حیات تھیں۔
- ↑ رسولی محلاتی، وہی ماخذ۔
- ↑ رسولی محلاتی، زندگانى حضرت محمد(ص) ص525۔
- ↑ رسولی محلاتی، وہی ماخذ۔
- ↑ الطبري، المنتخب من كتاب ذيل المذيل، ص22۔
- ↑ سوره احزاب، آیه 50۔
- ↑ رسولی محلاتی، زندگانى حضرت محمد(ص) ص525۔
- ↑ سوره فتح، آیه 27۔
- ↑ ابن هشام، السيرة النبوية، ج4، ص9۔
مآخذ
- قرآن کریم، اردو ترجمہ: سید علی نقی نقوی (لکھنوی)۔
- ابن الجوزي، أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم، التحقيق: محمد عبد القادر عطا، مصطفی عبد القادر عطا، تصحيح: نعيم زرزور، دار الكتب العلمية، بيروت ـ لبنان 1415 هجری قمری / 1995 عیسوی۔
- إبن حنبل، أحمد بن محمد، فضائل الصحابة، المحقق: وصي الله بن محمد عباس، مركز البحث العلمي وإحياء التراث الإسلامي، جامعة أم القرى، مكة المكرمة، الطبعة الاولی، سنة النشر: 1403 هجری قمری / 1983 عیسوی۔
- ابن سعد، أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي (المتوفى: 230هـ)، المحقق: إحسان عباس، الناشر: دار صادر - بيروت الطبعة: الأولى، 1968عیسوی۔
- ابن منظور، محمد بن مكرم الشهير، مختصر تاريخ دمشق لابن عساكر، المحقق: روحیه نحاس و ریاض عبدالحمید مراد و محمد مطیع حافظ، دار الفکر، دمشق، الطبعة الاولی، 1408 هجری قمری / 1987 عیسوی۔
- ابن هشام، عبد الملك، أبو محمد، السيرة النبوية، عمر عبد السلام تدمري، دار الكتاب العربي، الطبعة الثالثة ـ بيروت، 1410 هجری قمری / 1990 عیسوی۔
- الترمذي، أبو عيسى محمد بن عيسى، (209 - 279ه)، "سنن الترمذي وهو الجامع الصحيح"، المحقق: عبد الرحمن محمد عثمان، دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع : الطبعة الثانية بيروت ـ لبنان، 1403 هجری قمری / 1983 عیسوی۔
- جعفریان، رسول (ولادت 1343 ه ش)، صفویه در عرصه دین فرهنگ و سیاست، صفویه در عرصه دین، فرهنگ و سیاست، پژوهشگاه حوزه و دانشگاه، قم: 1389 هجری شمسی۔
- (ڈاؤن لوڈ) الجمحي، محمد بن سلام، طبقات فحول الشعراء۔
- الصالحي الشامي، محمد بن يوسف، سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد، المحقق: مصطفى عبد الواحد - وآخرون، الناشر: المجلس الأعلى للشئون الإسلامية ـ قاهرة . 1418 هجری قمری/ 1997 عیسوی۔
- الطبري، أبو جعفر محمد بن جرير، المنتخب من كتاب ذيل المذيل من تاريخ الصحابة والتابعية، تصنيف: 1358 هجری قمری / 1939 عیسوی، مؤسسة الاعلمي للمطبوعات بيروت لبنان۔
- المقريزي، تقي الدين أحمد بن علي بن عبد القادر بن محمد، إمتاع الأسماع بما للنبي صلى الله عليه وسلم من الأحوال والأموال والحفدة المتاع، محقق: محمد عبد الحميد النميسي، دار الكتب العلمية، 1420 هجری قمری / 1999 عیسوی۔
- الواقدی، محمد بن عمر، المغازی، محقق: Marsden Jones مطبعة: Oxford University Press, London سنة الطبع: 1966 عیسوی۔ الطبعة الثالثة افست 1404 هجری قمری / 1984 عیسوی۔
بیرونی روابط
- مضمون کا ماخذ: سيره رسول خدا صليالله عليه و آله وسلم - رسول جعفريان، قم: دليل ما، 1387؛ کچھ اضافات کے ساتھ۔
- الشیعة: عمرة القضاء پيامبر (صلى الله عليه وآله)
- دانشنامه اسلامی: عمرة القضاء۔
- دائرة المعارف طهور: عمرة القضاء۔
- ویکی مصدر: السيرة الحلبية/عمرة القضاء۔
- پایگاه جامع استاد شهید مطهری: دستور پیغمبر در عمرة القضاء۔
- پایگاه اطلاع رسانی آیت الله مکارم شیرازی: عمرة القضاء۔
- رسول نور(ص): عمره قضاء۔
پچھلا غزوہ: خیبر |
رسول خدا(ص) کے غزوات غزوہ عمرۃ القضاء |
اگلا غزوہ: فتح مکہ |