حمید بن مسلم ازدی
حُمَید بن مسلم ازدی واقعہ کربلا کی روایات نقل کرنے والوں میں سے ہے۔ یہ روز عاشورا عمر بن سعد کا وہ سپاہی تھا جس نے شمر بن ذی الجوشن کو حضرت امام سجاد کو قتل کرنے کے ارادہ سے باز رکھا اور خیام کو آگ لگانے میں آڑے آیا۔ عمر بن سعد کے حکم سے وہ حضرت امام حسین ؑ کا سر خولی کے ہمراہ عبید اللہ بن زیاد کے پاس لے کر گیا۔
اس نے واقعہ کربلا کے بعد توابین کے قیام میں شرکت کی۔ ان کی شکست کے بعد مختار کا قرب حاصل کرنے کی کوشش میں رہا لیکن جب دیکھا کہ وہ قاتلین امام حسین ؑ کے بدلے کے در پہ ہے تو مختار سے دور ہو گیا۔ مختار کے ساتھیوں نے اس کا پیچھا لیکن وہ اسے گرفتار نہ کر سکے۔
واقعۂ عاشورا
یہ روز عاشورا عمر بن سعد کے ان سپاہیوں میں سے تھا جس نے شمر بن ذی الجوشن کو حضرت سجاد کو قتل کرنے کے ارادہ سے باز رکھا اور خیام کو آگ لگانے میں آڑے آیا۔[1]۔عمر بن سعد کے حکم سے وہ حضرت امام حسین ؑ کا سر خولی کے ہمراہ عبید اللہ بن زیاد کے پاس لے کر گیا۔[2] اس کا عمر بن سعد[3]اور ابراہیم بن مالک اشتر[4] سے دوستانہ رابطہ تھا۔ واقعہ عاشورا کے عمر بن سعد نے اسے اپنی کامیابی اور سلامتی کی خبر اپنے اہل خانہ کو پہچانے کیلئے بھیجا۔[5] شیخ طوسی نے اسے حضرت امام سجاد کے صحابیوں میں سے شمار کیا ہے۔[6]
کربلا کا راوی
کربلا کے بہت سے واقعات اس کے توسط سے نقل ہوئے ہیں۔[7] ابو مخنف نے سلیمان بن راشد اور صقعب بن زبیر[8] جیسے افراد کے ذریعے سے حمید سے واقعہ کربلا کی روایات نقل کی ہیں۔ سلیمان کی روایت شمر بن ذی الجوشن کے کربلا کی جانب سفر سے شروع ہوتی ہے اور عبد اللہ بن عفیف کی شہادت پر ختم ہوتی ہے۔ طبری نے بھی ابو مخنف کے توسط سے اس کی اکثر روایات نقل کی ہیں اور توابین [9] اور مختار کے قیام کی روایات اسی سے منقول ہیں۔
روایات
اس سے منقول بعض روایات درج ذیل ہیں:
- عبید اللہ ابن زیاد کا عمر بن سعد کی طرف خط جس میں پانی بند کرنے کا حکم درج تھا۔[10]
٭ساتویں محرم کو حضرت عباس کا پانی لانے کیلئے جانا۔[11]
- عمر بن سعد کے حکم سے جنگ کا آغاز۔[12]
- حضرت علی اکبر کے سرہانے حضرت امام حسین ؑ کی گفتگو۔[13]
- قاسم بن حسن کی شہادت اور ان کی لاش کے پاس امام حسین ؑ کی گفتگو[14]۔
- امام حسین ؑ کی اپنےاصحاب کی شہادت کے بعد سے لے کر آپ کی شہادت تک کی آپ کی کیفیت کا بیان۔[15] ۔
- امام حسین ؑ کو شہید کرنے کے متعلق عمر بن سعد کے سپاہیوں میں اختلاف یا امام سجاد ؑ کی اسیری[16] اور شمر بن ذی الجوشن کے امام سجاد کو شہید کرنے کا ارادہ[17] ۔
- اپنے اور خولی کے عبید اللہ ابن زیاد کے پاس امام حسین ؑ کے سر لے جانے کی خبر[18]۔
- عمر بن سعد کی طرف سے اس کے اہل خانہ کو سلامتی اور کامیابی کی خبر پہنچانے اور اس کے واپس آنے کی خبر[19]۔
- دندان مبارک کے ساتھ ابن زیاد کی بے حرمتی اور زید بن ارقم کااعتراض[20]۔
- عبید اللہ کی مجلس میں حضرت زینب ؑ کے ورود اور عبید اللہ ابن زیاد سے ان کی گفتگو کی روایت[21]۔
- عبد اللہ بن عفیف کی شہادت، مسجد کوفہ میں اس کے خطبے اور اس کےاعتراض کی روایت [22]۔
قیام توابین
واقعہ کربلا کے بعد سلیمان بن صرد کے ہمراہ عین الوردہ گیا [23] اور توابین کے قیام میں شرکت کی نیز اس قیام کی روایات کا راوی بھی ہے [24]۔
قیام مختار
عبید اللہ ابن زیاد کے زندان میں مختار کی اسیری کے وقت کی اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی روایت نقل کی ہے [25]۔ مختار کے قیام سے پہلے ابراہیم بن مالک اشتر سے دوستی رکھتا تھا اور اس کے ساتھ مختار کے ساتھ ملاقاتوں میں ہمراہی کرتا تھا۔[26]
قیام مختار میں سائب بن مالک اشعری کے ذریعے اس کا تعاقب ہوا۔ وہ اور اصلخب کے دو بیٹے عبد اللہ اور عبد الرحمن کے ساتھ قبیلۂ عبد القیس[27] کی طرف فرار ہوگئے۔ دونوں بیٹے تو گرفتار ہو گئے لیکن حمید بن مسلم نجات پا نے میں کامیاب ہو گیا[28]۔اس ساری خبر کو اس نے خود نقل کیا ہے[29]۔اس حوالے سے اس نے جو اشعار کہے ان کا ترجمہ درج ذیل ہے :
جب مجھے کسی نجات کی کوئی امید نہ تھی۔ تو نے دیکھا میں کس طرح اس وحشت سے نجات پائی۔[30] ۔
حوالہ جات
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۳۸؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۱۸۳.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۵؛ ابن اثیر، الکامل، ج۴، ص۸۰؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۲۰۶؛ ابن نما، مثیر الاحزان، ص۸۴؛ سید بن طاوس، لہوف، ص۱۴۲؛ طبرسی، اعلام الوری، ص۲۵۱؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۳.
- ↑ دینوری، اخبارالطوال، ص۲۶۰.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۶، ص۱۸.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۶؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۱۹۰.
- ↑ طوسی، رجال، ص۱۱۲.
- ↑ طبری، ج۵، ص۴۱۲، ۴۱۴، ۴۲۹، ۴۳۸، ۴۴۶، ۴۴۷، ۴۵۱، ۴۵۳، ۴۵۶، ۴۵۷.
- ↑ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۱۸۸؛ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۲۹،۴۵۲.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۵۵۴، ۶۵۵-۵۸۴، ۵۹۷، ۵۹۸، ۶۰۰-۶۰۷.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۵۵۴، ۶۵۵-۵۸۴، ۵۹۷، ۵۹۸، ۶۰۰-۶۰۷.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۱۲.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۲۹.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۴۶؛ مجلسی، ج۴۵، ص۴۴.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۴۷-۴۴۸؛ ابن نما، مثیر الاحزان، ص۶۹-۷۰؛ طبرسی، اعلام الوری، ص۲۴۵؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۰۷: اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۹۳.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۱، ۴۵۲-۴۵۳؛ طبرسی، اعلام الوری، ص۲۵۰؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص111
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۴، ۴۳۸.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۳۸.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۵.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۵.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۶؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایه، ج۸، ص۱۹۰.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۸؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۱۹۴؛ ابن نما، مثیرالحزان، ص۹۰.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۹-۴۵۸.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۵۹۸؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۴۵، ص۳۶۱.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۵، ص۵۵۴، ۶۵۵-۵۸۴، ۵۹۷، ۵۹۸، ۶۰۰-۶۰۷.
- ↑ طبری، ج۵، ص۵۸۱؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۵۰.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۶، ص۱۸.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۶، ص۵۸.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۶، ص۵۸؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۶، ص۴۰۹.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۶، ص۵۸.
- ↑ طبری، تاریخ، ج۶، ص۵۸؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۶، ص۴۰۹.
مآخذ
- ابن نما حلی، مثیر الأحزان، انتشارات مدرسه امام مہدی (عج)، قم، ۱۴۰۶ق.
- ابن اثیر، علی محمد، الکامل فی التاریخ، دار صادر، بیروت، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵ء
- ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶ء
- اصفہانی، ابو الفرج علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق: سید احمد صقر، دار المعرفہ، بیروت، بیتا.
- بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف (ج۳)، البلاذری، تحقیق: محمد باقر محمودی، دار التعارف للمطبوعات، بیروت، ۱۹۷۷ق/۱۳۹۷ء
- بلاذری، احمد بن یحیی، کتاب جمل من انساب الأشراف، تحقیق: سہیل زکار و ریاض زرکلی، دار الفکر، بیروت، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶ء
- دینوری، احمد بن داود، الأخبار الطوال، تحقیق: عبد المنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، منشورات الرضی، قم، ۱۳۶۸ش.
- رازی (ابن مسکویہ)، تجاربالأمم، تحقیق: ابو القاسم امامی، تہران، سروش، ۱۳۷۹ش.
- سید طاوس، علی بن موسی، اللہوف، انتشارات جہان، تہران، ۱۳۴۸ ش.
- طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری، دار الکتب الإسلامیہ، تہران.
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق: محمد أبو الفضل ابراہیم، دارالتراث، بیروت، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷ء
- طوسی، رجال الشیخ الطوسی، انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۱۵ق.
- مجلسی، بحار الأنوار، مؤسسہ الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ق.
- مسعودی، علی بن حسین، مروجالذہب و معادن الجوہر، تحقیق: اسعد داغر، قم،دار الہجرة، چ دوم، ۱۴۰۹.
- مفید، الإرشاد، انتشارات کنگره جہانی شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ ق