عبد اللہ بن عامر

ویکی شیعہ سے
(عبداللہ بن عامر سے رجوع مکرر)

عبداللہ بن عامِر بن کُرَیز (4-59ھ) امام علیؑ کا مخالف تھا جس نے جنگ جمل میں طلحہ و زبیر کے بہکاوے میں آکر امام علیؑ سے جنگ کی۔ وہ جنگ صفین میں بھی لشکر معاویہ کے ساتھ موجود تھا۔

ابن عامر کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا اور عثمان بن عفان کے ماموں کا بیٹا تھا۔ سنہ 29 ہجری قمری میں عثمان نے اس کو بصرہ کا حاکم مقرر کیا۔ اس شہر میں ابن عامر نے آبادکاری کے اقدامات کئے اور عثمان کے حکم سے ایران پر حملہ کیا۔ اسی طرح امام حسنؑ کا معاویہ سے مقابلہ ہوا تو معاویہ کے لشکر کا سپہ سالار بھی یہی تھا۔ معاویہ کے خلافت پر پہنچنے کے بعد اس نے دوبارہ ابن عامر کو بصرہ کی حکومت دے دی۔ عبداللہ ابن عامر سنہ 59 ہجری قمری میں مکہ میں مرا اور عرفات میں دفن ہوا۔

نسب اور پیدائش

عبداللہ ابن عامر بن کُرَیز کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا اور عثمان بن عفان کے ماموں کا بیٹا تھا۔[1] اس کی ماں دجاجہ تھی جو اسماء سَلَمی کی بیٹی تھی اور اس کے والد (عامر)، پیغمبر اسلامؐ کے چچا زاد تھے جو فتح مکہ کے وقت اسلام لائے تھے۔[2] ابن عامر کی پیدائش چوتھی ہجری میں مکہ میں ہوئی۔ جب پیغمبر اکرمؑ عمرۃ القضاء کے لئے مکہ تشریف لے گئے، تو اس وقت ابن عامر تین سال کا تھا اسے آنحضرتؐ کے پاس لایا گیا، آنحضرت نے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ پھیرکر[3] اس کے لئے دعا کی: إنّی لَأرجو أن یَکون مَسقِیّاً،مجھے امید ہے کہ وہ سیراب ہو گیا ہوگا۔ [4] ابن قتیبہ نے پیغمبر اکرمؐ کی دعا کو اس طرح نقل کیا ہے: إنّی لَأرجو أن یَکون مُتَّقِیا، مجھے امید ہے کہ یہ متقی و پرہیزگار ہوگا)۔ [5] ابن عامر کے بارہ بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔[6] اس کا بڑا بیٹا عبدالرحمن جنگ جمل میں مارا گیا اور اسی کے بعد سے ابن عامر کی کنیت ابو عبدالرحمن مشہور ہو گئی۔[7]

بصرہ کی حکومت

عثمان بن عفان نے 29 ہجری قمری میں ابو موسی اشعری کو بصرہ کی حکومت سے معزول کر کے 25 سالہ عبداللہ بن عامر کو وہاں کا حاکم بنا دیا۔[8] عثمان نے موسی کو نامہ لکھا کہ: «میں نے تم کو تمہاری نااہلی یا خیانت کی وجہ سے برخاست نہیں کیا، میں تمہارے فضل سے واقف ہوں لیکن میں عبداللہ بن عامر کے ساتھ اپنے تعلقات کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہوں اور میں نے اسے حکم دیا کہ وہ تم کو تیس ہزار درہم ادا کرے ۔۔۔»۔ [9]

آبادکاری سرگرمی

عبداللہ بن عامر نے بصرہ میں مکانات خرید کر مسمار کئے اور انہیں بازاروں میں تبدیل کردیا۔[10] نیز بصرہ کے مشرق میں اپنی ماں (ام عبداللہ) کے نام سے ایک دریا [11] اور اسی طرح دو نہریں «نہر الابلہ» اور «نہر الاساورہ» بھی جاری کراوئی۔[12] وہ پہلا شخص تھا جس نے عرفات میں حوض اور تالاب بنایا اور وہاں پانی کے چشمے جاری کئے۔[13]

ابن عامر کی فتوحات

اقتدار میں آنے کے بعد عبداللہ ابن عامر کو دوسرے خلیفہ کے وقت سے شروع ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ عثمان نے ایران کے خلاف لشکر کشی کا کام سونپا تھا۔[14] عثمان اور معاویہ کے دور اقتدار میں اس نے ایران کے کچھ حصوں کو فتح کیا کچھ جنگ کے ذریعے اور کچھ صلح سے۔[15] وہ علاقے تھے: شاپور کے شہر، فسا، دارابگرد، رفسنجان، اصطخر مرکز ایران کے عالاقے میں اور سجستان کے شہر، سیستان، زرنج، نیشابور، طوس، کابل، ہرات، مرو، بلخ، طالقان، جوین، فاریاب، طخارستان و سرخس مشرق ایران میں تھے۔[16]

جنگ جمل میں حضور

اپنی حکومت کے آغاز میں امام علی علیہ السلام نے ابن عامر کو بصرہ کی حکمرانی سے ہٹا دیا اور ان کی جگہ عثمان بن حنیف کو دے دیا۔[17] ابن عامر [بیت المال] کا سرمایہ لے کر مکہ چلا گیا۔ جب طلحہ و زبیر اور عائشہ مکہ میں امام علی (ع) کے خلاف بغاوت کے لیے جمع ہوکر شام جانا چاہتے تھے، لیکن ابن عامر نے انہیں اس فیصلے سے باز رکھا اور یہ مشورہ دیا کہ بصرہ میں بہت زیادہ مال و دولت ہے پھر وہ سب کے سب بصرہ چلے گئے۔[18]۔ ابن عامر نے انہیں جنگ کی تیاری کے لیے بہت سارا مال دیا۔[19] عبداللہ نے جنگ جمل میں امام علیؑ کے خلاف جنگ کی۔[20]۔ اور اس کا بیٹا عبدالرحمن بھی اس جنگ میں مارا گیا۔[21] عائشہ کی فوج کی شکست اور طلحہ اور زبیر کے قتل کے بعد ابن عامر دمشق چلا گیا اور وہیں بس گیا۔[22]

معاویہ کی ہمراہی

ابن عامر جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر میں تھا۔[23] اگرچہ بعض نے جنگ صفین میں اس کے کردار کو ذکر نہیں کیا ہے۔[24] معاویہ نے امام علیؑ کی شہادت اور لوگوں کی امام حسنؑ کی بیعت کے بعد عبداللہ بن عامر کو امام حسنؑ سے جنگ کرنے کے لئے ایک لشکر کے ساتھ مدائن روانہ کر دیا تھا۔ لیکن یہ کام امام حسنؑ اور معاویہ کے مابین صلح نامہ پر دستخط کے ساتھ تمام ہوا۔[25] جب معاویہ مسند خلافت پرآیا تو اس نے ابن عامر کو اسی کی درخواست پر تین سال کے لیے دوبارہ بصرہ کا حاکم بنا دیا۔[26] اور اپنی بیٹی ہند کی شادی بھی اسی سے کر دی۔[27] ابن عامر، معاویہ سے ایک سال پہلے سنہ ۵۹ ہجری قمری کو مکہ میں مرا اور عرفات میں دفن ہوا۔[28] اس نے مرنے سے پہلے عبداللہ بن زبیر کو اپنا وصی مقرر کر دیا تھا۔[29]

حوالہ جات

  1. ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۵، ص۳۲؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج‏۳، ص۹۳۲۔
  2. ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۳۲۰-۳۲۱۔
  3. ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۵، ص۳۳۔
  4. بلاذری، انساب الاشراف‏، ۱۴۱۷ھ، ج۹، ص۳۵۶؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج‏۳، ص۹۳۲۔
  5. ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۳۲۱۔
  6. ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۵، ص۳۲۔
  7. ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۵، ص۳۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ھ، ج‏۹، ص۳۵۸۔
  8. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۴، ص۲۶۴۔
  9. ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۵، ص۳۳۔
  10. ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۳۲۱۔
  11. ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۳۲۱۔
  12. بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۸۸م، ص۳۴۸-۳۴۹۔
  13. ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۵، ص۳۵۔
  14. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص۱۶۶۔
  15. ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۵، ص۳۴۔
  16. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص۱۶۶-۱۶۷؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۵، ص۳۴۔
  17. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج۵، ص۲۱۰۔
  18. ثقفی، الغارات، ۱۳۵۳ش، ج‏۲، ص۶۴۶
  19. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۴، ص۴۵۲۔
  20. ثقفی، الغارات، ۱۳۵۳ش، ج‏۲، ص۶۴۶
  21. ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۵، ص۳۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ھ، ج‏۹، ص۳۵۸۔
  22. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۴، ص۵۳۶؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشھ، ۱۴۱۵ھ، ج۲۹، ص۲۶۱۔
  23. منقری، وقعۃ الصفین، ۱۳۸۲ھ، ص۲۴۶ و ۴۱۷۔
  24. ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۵، ص۳۶۔
  25. دینوری، الاخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۱۶۔
  26. ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۵، ص۳۶۔
  27. بلاذری، انساب الاشراف‏، ۱۴۱۷ھ، ج‏۹، ص۳۵۸۔
  28. ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۳۲۱۔
  29. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج‏۳، ص۹۳۲۔

مآخذ

  • ابن سعد، کاتب واقدی‏، الطبقات الکبری‏، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۰ھ۔
  • ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ بن محمد، الاستیعاب، بیروت، دارالجیل، ۱۴۱۲ھ۔
  • ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشھ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۵ھ۔
  • ابن قتیبۃ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، القاہرۃ، نشر المعارف، دوم، ۱۹۹۲ء۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بیروت، مکتبۃ الہلال، ۱۹۸۸ء۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، ۱۴۱۷ھ۔
  • ثقفی کوفی، ابراہیم بن محمد، الغارات، بیروت، انجمن آثار ملی، ۱۳۵۳ہجری شمسی۔
  • دینوری، احمد بن داوود، الأخبار الطوال، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، دار التراث، دوم، ۱۳۸۷ھ۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بور سعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بے‌تا۔
  • منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، القاہرۃ، المؤسسۃ العربیۃ الحدیثۃ، دوم، ۱۳۸۲ھ۔
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ یعقوبی، بیروت، دار صادر، بے‌تا۔