میت کی تجہیز و تکفین

ویکی شیعہ سے
(تجہیز میت سے رجوع مکرر)

مَیّت کی تجہیز و تکفین، مسلمان میت کو دفن کے لئے تیار کرنے کے مراحل کو کہا جاتا ہے۔ تجہیز میت شرعی اعتبار سے واجب کفائی ہے جو کسی مسلمان کی موت کے بارے میں یقین ہونے کے بعد واجب ہوتی ہے۔ غُسل، حَنوط، کَفَن، نماز میت اور دفن تجہیز میت کے مراحل میں سے ہیں۔ تجہیز میت کی ذمہ داری سب سے پہلے میت کے ولیِّ یعنی سرپرست کی ہے اور اس کے اخراجات میت کے اصل ترکہ سے نکالے جائیں گے۔ فقہاء تجہیز میت کے مقدمات میں مُحْتَضر کے آداب اور احکام کا ذکر کرتے ہیں جس میں میت کو جان کنی کے وقت قبلہ رخ کرنا اور اسے شہادتین کی تلقین کرنا شامل ہے۔

تجہیز میت کے مراحل

تجہیز مَیت، مردے کو دفن کے لئے تیار کرنے کے مراحل کو کہا جاتا ہے۔[1] فقہی کتابوں میں مسلمان کی موت کے بارے میں یقین ہونے کے بعد درج ذیل مراحل کا ذکر کیا گیا ہے:[2]

  1. غسل: میت کو تین دفعہ غسل دیا جاتا ہے؛ پہلے آب سِدر سے اس کے بعد آب کافور سے اور آخر میں خالص پانی سے۔[3] اگر سدر اور کافور میسر نہ ہو تو تین دفعہ خالص پانی سے غسل دیا جائے گا۔[4] اگر کسی صورت میں میت کو پانی سے غسل دینا ممکن نہ ہو تو اسے غسل کے بدلے میں تیمم کرایا جائے گا۔[5]
  2. حَنوط: میت کو حنوط کرنا واجب ہے۔[6] حنوط، میت کے اعضائے سجدہ یعنی پیشانی، دونوں ہتھیلیاں، دونوں زانو، دونوں پاؤں کے دونوں انگوٹھوں کے سرے اور بعض اقوال کے مطابق ناک پر کافور ملنے کو کہا جاتا ہے۔[7]
  3. کفن: میت کو کفن دینا واجب ہے۔[8] کفن تین حصوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں لُنگ، پیراہن اور سرتاسری شامل ہیں۔[9]
  4. نماز میت: مسلمانوں پر واجب ہے کہ میت کو غسل اور کفن دینے کے بعد دفن کرنے سے پہلے اس کے جنازے پر نماز میت پڑھی جائے اگرچہ وہ میت بچہ ہی کیوں نہ ہو۔[10]
  5. دفن: میت کو مذکورہ بالا مراحل کے بعد زمین میں دفن کرنا واجب ہے۔[11]

فقہاء کے مطابق محتضر کو قبلہ رخ کرنا تجہیز میت کے مقدمات میں سے ہے۔[12]فقہاء کی نظر میں مُحْتَضر کو قبلہ رخ کرنا واجب[13] اور اسے شہادتین کی تلقین کرنا مستحب ہے۔[14]

تجہیز میت کے احکام

فقہی کتابوں میں طہارت کے باب میں تجہیز میت سے مربوط احکام کا ذکر کیا جاتا ہے۔[15] تجہیز میت کے بعض احکام درج ذیل ہیں:

  • تجہیز میت واجب کفایی ہے۔[16] البتہ محدث بحرانی اسے واجب عینی سمجھتے ہیں۔[17]
  • تجہیز میت کے مراحل خاص کر دفن کے احکام لاگو ہونے میں جو چیز معتبر ہے وہ میت کی موت کا یقینی ہونا اور حیات اور زندگی کے آثار کا مفقود ہونا ہے۔[18]
  • تجہیز میت کی ذمہ داری سب سے پہلے میت کے ولی یعنی سرپرست کی ہے۔[19] میت کا ولیِّ ارث کے طبقات میں میت سے ارث پانے والوں میں جو سب سے مقدم ہوگا وہی میت کا ولی ہو گا۔[20]
  • میت کی تجہیز اور تکفین میں میت کے ولیِّ کی اجازت واجب اور ضروری ہے۔[21] فقہا کی نظر میں یہ شرط تجہیز میت کے واجب کفائی ہونے کے ساتھ متصادم نہیں ہے۔[22]
  • اگر میت کی ساری اولاد کافر ہوں تو تجہیز میت میں ان سے اجازت لینے کا موضوع ہی ختم ہو جاتا ہے اور مسلمانوں پر اس میت کی تجہیز اور تکفین واجب ہے۔[23]
  • صاحب ریاض (متوفی: 1231ھ) کے مطابق اگر میت اپنی تجہیز کی ذمہ داری ولیّ کے علاوہ کسی اور کے لئے وصیت کی ہو تو مشہور فقہاء کی نظر میں ولیّ، وصی کو وصیت پر عمل کرنے سے منع کر سکتا ہے۔[24] البتہ آیت اللہ سیستانی،[25] آیت اللہ مکارم شیرازی[26] اور آیت اللہ خامنہ‌ای،[27] کے مطابق اس صورت میں بہتر ہے وصی، ولیّ سے اجازت لے لے اور ولیّ، وصی کو اس کام کی اجازت دے۔
  • تجہیز میت کے اخراجات میت کے اصل ترکہ سے اس کے ورثا میں تقسیم ہونے سے پہلے نکالے جائیں گے۔[28] تجہیز اور تکفین کے اخراجات میت کے قرضوں کی ادئیگی اور اس کی وصیت پر عمل کرنے پر مقدم ہے۔[29]
  • مشہور فقہاء میت کی تجہیز و تکفین کے بدلے میں معاوضہ دریافت کرنے کو حرام سمجھتے ہیں۔[30] البتہ شہید اول کتاب الدروس الشرعیۃ میں سید مرتضی سے نقل کرتے ہیں کہ ولی کے علاوہ باقی لوگ میت کی تجہیز اور تکفین کے بدلے میں اُجرت دریافت کر سکتے ہیں۔[31]

حوالہ جات

  1. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص22۔
  2. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص22؛ شریفی اشکوری، منتخب فقرات فقہیہ، 1389ہجری شمسی، ص65۔
  3. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص46-47۔
  4. بحرانی، الحدائق الناضرۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج3، ص455۔
  5. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص48۔
  6. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج4، ص176؛ حکیم، مستمسک العروۃ، 1388ھ، ج4، ص1185۔
  7. ملاحظہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج4، ص176-179۔
  8. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج1، ص402۔
  9. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج2، ص456۔
  10. امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392ہجری شمسی، ج1، ص78۔
  11. طباطبائی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص115۔
  12. شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، ج1، ص399۔
  13. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج4، ص6۔
  14. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج4، ص14۔
  15. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص22۔
  16. ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، المبسوط، 1387ھ، ج1، ص174: محقق حلی، المعتبر، 1407ھ، ج1، ص264: خویی، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، 1407ھ، ج8، ص279؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392ہجری شمسی، ج1، ص65؛ سیستانی، 1415ھ، ص118۔
  17. بحرانی، الحدائق الناضرۃ، ج3، ص377۔
  18. بہجت، استفتائات، 1428ھ، ج1، ص335؛ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج1، ص483؛ ملاحظہ کریں: نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج4، ص24۔
  19. محقق حلی، المعتبر فی شرح المختصر، 1407ھ، ج1، ص264۔
  20. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج4، ص45۔
  21. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، ج2، ص22؛ سیستانی، توضیح المسائل جامع، 1396ہجری شمسی، ج1، ص287۔
  22. شہید ثانی، مسالک الأفہام، 1413ھ، ج1، ص80؛ خویی، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، 1407ھ، ج8، ص285۔
  23. بجنوردی، قواعد فقہیہ، 1401ھ، ج1، ص363۔
  24. طباطبایی، ریاض المسائل، 1418ھ، ج4، ص39۔
  25. سیستانی، توضیح المسائل، 1415ھ، ص120۔
  26. مکارم شیرازی، رسالہ توضیح المسائل، 1429ھ، ص97۔
  27. «وصیت»، وبگاہ دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌اللہ خامنہ‌ای۔
  28. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص71۔
  29. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: علامہ حلی، قواعد الاحکام، 1413ھ، ج1، ص228؛ طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1419ھ، ج2، ص71۔
  30. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: نراقی، مستند الشیعۃ، مؤسسۃ آل‌البیت، ج14، ص175؛ انصاری، کتاب المکاسب، تراث الشیخ الأعظم، ج2، ص125؛ امام خمینی، تحریر الوسیلۃ، 1392ہجری شمسی، ج1، ص475؛ سیستانی، توضیح المسائل، 1415ھ، ص122۔
  31. شہید اول، الدروس الشرعیۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ج3، ص172۔

مآخذ

  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، توضیح المسائل، تہران، وزارت فرہنگ و إرشاد إسلامی، 1370ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ،تحریر الوسیلۃ، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(رہ)، 1392ہجری شمسی۔
  • انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب، بی‌جا، تراث الشیخ الأعظم، بی‌تا۔
  • بجنوردی، سید محمد، قواعد فقہیہ، تہران، مؤسسہ عروج‌، چاپ سوم، 1401ھ۔
  • بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناضرۃ فی احکام العترۃ الطاہرہ، تصحیح محمدتقی ایروانی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بی‌تا۔
  • بہجت، محمدتقی، استفتائات، قم، دفتر آیت‌اللہ، 1428ھ۔
  • حکیم، سید محسن، مستمسک العروۃ الوثقی، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، 1388ھ۔
  • خویی، ابوالقاسم، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، تقریر: علی غروی تبریزی، قم، نشر لطفی، 1407ھ۔
  • سیستانی، سید علی، توضیح المسائل، قم، دفتر آیت‌اللہ سیستانی، 1415ھ۔
  • سیستانی، سید علی، توضیح المسائل جامع، مشہد، دفتر آیت‌اللہ سیستانی، 1396ہجری شمسی۔
  • شریفی اشکوری، الیاس، منتخب فقرات فقہیہ‌، قم، دفتر آیت‌اللہ الیاس شریفی اشکوری‌، 1389ہجری شمسی۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الإمامیۃ، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، بی‌تا۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تحقیق: سید محمد کلانتر، بیروت، مؤسسہ الأعلمی للمطبوعات، بی‌تا۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیۃ، تہران، مکتبۃ المرتضویۃ، 1387ھ۔
  • طباطبایی، سید علی، رياض المسائل فی تحقيق الأحكام بالدّلائل، قم، مؤسسہ آل‌بیت(ع)، 1418ھ۔
  • طباطبایی یزدی، محمدکاظم، العروۃ الوثقی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1419ھ۔
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، قم، مؤسسۃ سید الشہداء(ع)، 1407ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، رسالہ توضیح المسائل، قم، مدرسۃ الامام علی بن ابی‌طالب(ع)، 1429ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، قم، مدرسۃ الامام علی بن ابی‌طالب(ع)، 1427ھ،
  • نجفی،‌ محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق: محمد قوچانی، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
  • نراقی، احمد، مستند الشّیعۃ، مشہد، مؤسسۃ آل‌البیت(ع) لإحیاء التراث، بی‌تا۔
  • «وصیت»، وبگاہ دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌اللہ خامنہ‌ای، تاریخ درج مطلب: 14 مہر 1393ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 10 آذر 1402ہجری شمسی۔