عجل فرجہم
عَجِّل فَرَجَہم یعنی "ان کا فرَج نزدیک کر دے"، ایک ذکر ہے جسے شیعیان، پیغمبر اکرمؐ اور ان کے اہلبیتؑ پر صلوات بھیجنے کے بعد پڑھتے ہیں اور اسے اہل بیتؑ کے امور میں آسانی یا امام مہدیؑ کے ظہور میں تعجیل کی دعا سمجھتے ہیں۔ یہ ذکر روایات میں مختلف شکلوں میں وارد ہوا ہے۔ احادیث کے مطابق رسول اکرمؐ اور امام علیؑ اس ذکر کو مختلف عبارتوں میں پڑھتے تھے۔ شیعہ احادیث میں اس ذکر کو خاص اوقات میں پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے اور اس کے کچھ خواص جیسے قائم آل محمد کی ملاقات اور بلاؤں سے محفوظ ہونا ذکر ہوئے ہیں۔ مجتہدین اس ذکر کو نماز کے تشہد میں پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں؛ البتہ بعض کا کہنا ہے کہ اس ذکر کو تشہد میں صلوات کے ساتھ ہمیشہ نہیں پڑھنا جائے۔
تعارف
"عَجِّلْ فَرَجَہم" (ان کے فرَج کو نزدیک کر دے) ایک ذکر ہے جو بعض شیعہ روایات میں صلوات کے بعد ذکر ہوا ہے۔[1] اور شیعہ صلوات کے بعد اسے پڑھتے ہیں۔[2] اس دعا کو صلوات کے ساتھ پڑھنا دعا کی استجابت میں مؤثر سمجھتے ہیں۔[3]
بعض روایات کے مطابق اس ذکر کی قِدمت اور تاریخی پس منظر امام علیؑ کے دَور تک پہنچتی ہے۔[4] ابراہیم کَفعَمی (850ھ-905ھ) کی کتاب بَلَدُالاَمین میں ایک دعا ہے جس میں «عَجِّلْ اللّٰہُمَّ فَرَجَہُمْ» بھی موجود ہے۔[5] اس روایت کی سند پیغمبر اکرمؐ تک پہنچتی ہے۔[6] «عجل فرجہم» کا ذکر بعض شیعہ مذہبی مقامات کی زینت کے لیے لکھے گئے کتَبوں پر صلوات کے ساتھ درج بھی ہوتا ہے۔ جیسے مسجد جامع اصفہان اور حرم حضرت معصومہؑ۔[7]
فَرَج کے معنی
محققین کا کہنا ہے کہ فَرَج کے لئے دعا، اہل بیتؑ اور مومنین کے امور میں آسانی [یادداشت 1] اور کبھی امام مہدی کے ظہور میں تعجیل کی دعا مد نظر ہوتی ہے۔[8] لفظ فَرَج کے معنی غم و اندوہ سے دور ہونا ہے۔[9]
یہ ذکر بعض دعاؤں میں «عَجِّلْ فَرَجَ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ» (محمد و آل محمد کے فرَج کو نزدیک کرے۔)[10] یا «عَجِّلْ فَرَجَ أَوْلِیَائِکَ»[11] آیا ہے؛ لیکن دعائے عہد جیسی ادعیہ میں "عجَّل فرَجہ" ذکر ہوا ہے۔[12] اسی طرح بعض شیعہ احادیث میں اس ذکر کے بعد «وَ أَہْلِکْ عَدُوَّہُمْ» (ان کے دشمنوں کو ہلاک کردے) جیسی عبارتیں بھی ذکر ہوئی ہیں۔[13]
"عجل فرجہم" کے ساتھ والی صلوات کے خواص
شیعہ روایات میں صلوات کو "عَجِّل فرجہم" و یا "عجل فَرَجَ آل محمد" کے ساتھ پڑھنا جمعہ کے دن اور جمعرات کے بعد از ظہر پڑھنا مستحب ہے[14] اور بعض شرایط اور آداب کے ساتھ اس ذکر کی بعض خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ امام صادقؑ سے منقول ہے کہ جو بھی نماز فجر و ظہر کے بعد صلوات کو "عجل فرجہم" کے ساتھ پڑھے تو اسے موت سے پہلے قائم کی زیارت نصیب ہوگی،[15] اور قائم کے اصحاب میں شمار ہوگا،[16] قیامت کے دن ان کی شفاعت ہوگی،[17] اس کی جان محفوظ رہے گی،[18]اور جانوروں کا خطرہ ٹل جائے گا۔[19]
نماز میں عجل فرجہم پڑھنا
بعض شیعہ فقہا سے کئے جانے والے استفتاء کے مطابق نماز کے تشہد میں صلوات کے بعد «عجل فرجہم» پڑھنا بعض شرائط کے تحت جائز ہے۔ آیت اللہ تبریزی اور سیستانی[20] اس ذکر کو تشہد میں صلوات کے بعد پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ آیتاللہ بہجت اور فاضل لنکرانی کا کہنا ہے کہ اگر دعا کی نیت سے پڑھے تو اشکال نہیں ہے۔ آیتاللہ خامنہای، صافی گلپایگانی[21] اور نوری ہمدانی[22] کے فتوے کے مطابق اگر پڑھتے ہوئے شریعت کا حکم نہ سمجھے تو پڑھنے میں اشکال نہیں ہے؛ لیکن آیتاللہ مکارم شیرازی[23] کا کہنا ہے کہ نمازی اس ذکر کو تمام نمازوں میں ہمیشہ پڑھنے کی عادت نہ بنائے اور احتیاط یہ ہے کہ ایسا نہ کرے۔[24]
حوالہ جات
- ↑ شیخ بہایی، مفتاحالفلاح، دارالکتب اسلامی، ص87؛ نوری، مستدرکالوسائل، بیروت، ج5، ص74؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1368شمسی، ج87، ص215.
- ↑ «فرستان صلوات با عجل فرجہم»، سایت تبیان.
- ↑ الہینژاد، «بررسی و تحلیل نقش دعا در تعجیل بخشی ظہور»، ص10.
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، 1368شمسی، ج95، ص127.
- ↑ کفعمی، بلدالامین، بیتا، ج1، ص96.
- ↑ کفعمی، بلدالامین، بیتا، ج1، ص91.
- ↑ قوچانی، «خط بنایی معقلی، تجلی علی (ع) بر خط کوفی بنایی»، ص91؛ ستودہ، «کتیبہہای آستانہ مقدسہ قم»، ص33.
- ↑ الہینژاد، «بررسی و تحلیل نقش دعا در تعجیل بخشی ظہور»، ص10. یزدینژاد، «چند نکتہ در معنای حدیث امر بہ دعای فرج» ص263-264.
- ↑ دہخدا، لغتنامہ، ذیل واژہ فرج.
- ↑ شیخ بہایی، مفتاح الفلاح، دارالکتب اسلامی، ص87.
- ↑ کفعمی، البلدالأمین، بیتا، ج1، ص244.
- ↑ نوری، مستدرکالوسائل، بیروت، ج5، ص74.
- ↑ شیخ طوسی، مصباح المجتہد، 1411ھ، ج1، ص265؛ کفعمی، بلدالأمین، بیتا، ج1، ص71.
- ↑ مجلسی، بحارالأنوار، 1368شمسی، ج87، ص215.
- ↑ نوری، مستدرکالوسائل، بیروت، ج5، ص96.
- ↑ نوری، مستدرکالوسائل، بیروت، ج6، ص98.
- ↑ مجلسی، بحارالأنوار، 1368شمسی، ج86، ص353.
- ↑ نوری، مستدرکالوسائل، بیروت، ج6، ص98-97.
- ↑ طبرسی، مکارم الاخلاق، 1370شمسی، ص291.
- ↑ سیستانی، «پرسش و پاسخ: تشہد»، سایت دفتر آیتاللہ سیستانی.
- ↑ صافی گلپایگانی، جامع الاحکام، 1385شمسی، ج1، ص73.
- ↑ نوری ہمدانی، ہزار و یک مسالہ فقہی، 1388شمسی، ج2، ص59
- ↑ مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج2، ص 107، س 263.
- ↑ واحد پاسخگویی بہ سوالت جامعة الزہرا(س)، «دانستہہا: فقہ وزندگی»، ص55.
نوٹ
- ↑ بعض کے مطابق اہل بیتؑ کے امور میں گشایش سے مراد دینی احکام کی تبیین اور اجرا ہے اور یہ اسلامی حکومت کی تشکیل کی ضرورت کی طرف اشارہ ہے۔(«معنای وعجل فرجہم چیست؟»، خبرگزاری مسجد).
مآخذ
- الہینژاد، حسین، «بررسی و تحلیل نقش دعا در تعجیل بخشی ظہور»، پژوہشہای مہدوی، شمارہ 20، بہار 1396ہجری شمسی۔
- «اہمیت فرستان صلوات با عجل فرجہم»، سایت تبیان، تاریخ درج مطلب: 28 آذر 1390شمسی، تاریخ بازدید: 10 دی 1402ہجری شمسی۔
- دہخدا، علیاکبر، لغتنامہ، ج 11، تہران، دانشگاہ تہران، 1377ہجری شمسی۔
- ستودہ، منوچہر، «کتیبہہای آستانہ مقدسہ قم»، معارف اسلامی(سازمان اوقاف)، شمارہ 16، بہار 1353ہجری شمسی۔
- سیستانی، سیدعلی، «پرسش و پاسخ: تشہد»، سایت دفتر آیتاللہ سیستانی، تاریخ بازدید: 10 دی 1402ہجری شمسی۔
- شیخ بہایی، محمد بن حسین، مفتاحالفلاح فی عمل الیوم و اللیلة من الواجبات و المستحبات، بیجا، دارالکتاب الإسلامی، بیتا.
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، مصباحالمتہجد، بیروت، مؤسسہ فقہالشیعہ، 1411ق/1991م.
- صافی گلپایگانی، لطفاللہ، جامعالأحکام، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیتاللہ صافی گلپایگانی، 1385ہجری شمسی۔
- طبرسی، حسن بن فضل، مکارمالأخلاق، قم، الشریف الرضی، 1370ہجری شمسی۔
- قوچانی، عبداللہ، «خط بنایی معقلی، تجلی علی (ع) بر خط کوفی بنایی»، کتاب ماہ ہنر، شمارہ 31 و 32، فروردین و اردیبہشت 1380ہجری شمسی۔
- کفعمی، ابراہیم بن علی، البلد الأمین، بینا، بیجا، بیجا.
- مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بحار الأنوار، بیروت، دار إحیاءالتراث العربی، 1368ش/1403ھ۔
- مرکز پاسخگویی جامعةالزہرا، «دانستہہا: فقہ و زندگی»، مطالعات قرآنی نامہ جامعہ، شمارہ 52، دی 1387ہجری شمسی۔
- مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، قم، مدرسۃالامام علی بن ابیطالب(ع)، 1427ھ۔
- «معنای وعجل فرجہم چیست؟»، خبرگزاری مسجد، تاریخ درج مطلب: 8 خرداد 1397شمسی، تاریخ بازدید: 10 دی 1402ہجری شمسی۔
- نوری ہمدانی، حسین، ہزار و یک مسالہ فقہی، قم، مہدی موعود(عج)، 1388ہجری شمسی۔
- نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرکالوسائل، بیروت، مؤسسة آلالبیت لإحیاءالتراث، 1408-1429ق/1987-2008ء۔
- یزدینژاد، عبدالرسول، «چند نکتہ در معنای حدیث امر بہ دعای فرج»، فصلنامہ امامت پژوہی، شمارہ دوازدہم، ستان 1392ہجری شمسی۔