سیرت نبوی

ویکی شیعہ سے
(سیرت النبی سے رجوع مکرر)

سیرت نبوی، پیغمبر اکرمؐ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں آپؐ کے طرز عمل کو کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید پیغمبرؐ کی زندگی کو بہترین نمونہ عمل (بہترین رول ماڈل) کے طور پر متعارف کراتا ہے؛ اسی وجہ سے مسلمانوں نے پیغمبر اکرمؐ کی زندگی کے مختلف پہلؤوں کی شناخت کے حصول پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ پیغمبر اکرمؐ کا تبلیغی طریقہ کار تبشیر و انذار پر مبنی تھا۔ آپؐ اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں لوگوں کو مجبور کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ رسول اکرمؐ نے مدینہ میں ایک ایسا سماجی نظام تشکیل دیا جو اسلام کے اصولوں کے عین مطابق تھا۔ رسول اللہؐ کے زمانے میں لڑی گئی جنگوں اور غزوات کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان جنگوں میں آپؐ نے انسانی اقدار کا ایک مجموعہ لوگوں کے سامنے رکھا۔ پیغمبر خداؐ کی اخلاقی سیرت پر مشتمل کتابوں میں بھی آپؐ کے انفرادی، سماجی اور عائلی اخلاق کے وسیع پہلؤوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اسلام کی پوری تاریخ میں سیرت نبوی سے متعلق متعدد کتابیں تحریر کی گئی ہیں۔ جیسے تیسری صدی ہجری کے مورخ ابن ہشام کی کتاب "السیرۃ النبیویہ" اور جعفر مرتضی عاملی(وفات:1441ھ) کی کتاب "الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم" اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ان کتابوں کے علاوہ ایران اور دیگر ممالک میں سیرت نبوی سے متعلق کانفرنسیں منعقد کی گئی ہیں۔

تعریف، مرتبہ اور تاریخی پس منظر

سیرت نبوی ایک ایسی اصطلاح ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ کے مختلف پہلؤوں پر مشتمل طرز عمل پر اطلاق آتی ہے۔[1] علامہ طباطبائی نے اپنی کتاب "سنن النبی" کے مقدمے میں رسول اللہؐ کی سیرت کو الہی آداب کا مرقع جانا ہے۔ انہوں نے سیرت نبوی پر عمل کرنے اور آپؐ کی سیرت کے ظاہر و باطن سے آراستہ ہونے کو دنیا و آخرت کی بھلائی اور اعلیٰ و ارفع کمال کے حصول کا ذریعہ جانا ہے۔[2] مرتضی مطہری نے اپنی کتاب "سیری در سیرہ نبوی" میں نبی مکرم اسلام کے طرز زندگی کو میدان سیاست، تبلیغ دین اور قضاوت کے میدان میں بہترین نمونہ عمل قرار دیا ہے اسی طرح عائلی زندگی میں دیگر افراد کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا چاہیے اور اپنے دوستوں کے ساتھ میل جول میں کیسا سلوک کرنا چاہیے، سیرت نبوی میں ان سب کے لیے نمونہ عمل موجود ہے۔[3]

قرآن نے سورہ احزاب کی آیت21 میں سیرت پیغمبر اسلام کو اسوہ حسنہ اور بہترین نمونہ عمل قرار دیا ہے۔ کتاب "الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم" کے مصنف سید جعفر مرتضیٰ آملی کے مطابق، رسول خداؐ ایک اعلی شخصیت کے مالک انسان ہیں جو تاریخ انسانیت کے تمام لوگوں کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ کیونکہ آپؐ دیگر انبیاء کی طرح فضیلت، عقل، کمال، حکمت، وقار، علم؛ الغرض تمام انسانی کمالات کا حامل انسان ہیں۔[4] یہی وجہ ہے کہ پوری تاریخ اسلام میں مسلمانوں نے سیرت نبوی کی تحریر و نگارش کے سلسلے میں بے حد اہتمام کیا ہے۔[5]

سیرت کی کتابیں موضوعات کے لحاظ سے ظہور اسلام کے ابتدائی ایام اور اور رسول اللہؐ کے سوانح حیات پر مشتمل ہوتی ہیں؛ ان کتابوں میں اسلام کے آغاز سے متعلق واقعات، غزوات اور جنگوں کی تاریخ اور آنحضرتؐ کے اس سلسلے میں اپنائے گئے موقف وغیرہ کا جائزہ لیا جاتا ہے۔[6] بعض محققین نے قرآن میں پیغمبر خداؐ کے اعلیٰ مقام، قرآن کے صحیح فہم و ادراک کا سیرت نبوی کے درست ادراک پر موقوف جانا ہے، مفتوحہ سرزمینوں میں اسلام کے پھیلاؤ اور نو مسلموں کے لیے پیغمبرؐ کی شخصیت کی شناخت ضروری قرار دی گئی ہے؛ یہ سب علم سیرت کی ترقی و تکامل کے عوامل شمار ہوتے ہیں۔[7] عروہ بن زبیر (پیدائش:92ھ) پہلا شخص ہے جس نے سیرت نبوی سے متعلق مطالب تحریر کیے ہیں۔ ابان بن عثمان (پیدائش: 105ھ)، وہب بن منبہ (پیدائش: 110ھ) وغیر نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔[8] اس کے بعد سے لے کر اب تک مسلمان اور غیر مسلموں نے سیرت رسولؐ سے متعلق بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔

تبلیغی سیرت

پیغمبر اسلام نے تبلیغ دین کا سلسلہ آغاز میں خفیہ طور پر شروع کیا[9] بعد از آں، اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت اسلام دے کر اس سلسلے کو آگے بڑھایا، ابو لہب اور دیگر دشمنان اسلام نے آپؐ کے اس عمل کو تمسخر و استہزاء کا نشانہ بنایا۔[10] آغاز بعثت کے 3سال اور سورہ حجر کی 94ویں اور95ویں آیت کے نزول کے بعد اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلامؐ کو حکم دیا کہ جس چیز کا آپؐ کو حکم ملا ہے اس کا واشگاف الفاظ میں اعلان کریں اور مشرکین کی باتوں پر اعتنا نہ کریں۔ ہم آپؐ کو تمسخر کرنے والوں کے شر سے محفوظ رکھیں گے۔[11]

پیغمبر خداؐ دن کو کعبہ کے جوار میں بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے؛ اس طرح لوگوں کی توجہ کو اللہ کے کلام کی طرف مبذول کراتے تھے۔ حج کے موسم میں مکہ مکرمہ میں حج اور عمرہ ادا کرنے کے لیے آنے والے عرب کے مختلف قبائل کے لوگوں کو اسلامی تعلیمات بتاتے تھے۔[12] پیغمر اسلام نے بعثت کے دسویں سال طائف کی جانب پہلا تبلیغی سفر کیا؛ یہاں قبیلہ ثقیف کو اسلام کی دعوت دی، لیکن انہوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا۔[13] بعثت کے بارہویں سال یثرب سے ایک گروہ آپؐ سے ملاقات کے لیے آیا، جنہیں بعد میں انصار کا لقب ملا، انہوں نے اسلام قبول کیا اور آپؐ کی بیعت کی جو بیعت عقبہ اول کے نام سے مشہور ہوئی۔[14] اس بیعت کے بعد پیغمبر خداؐ نے قرآن کی تعلیم دینے کے لیے مصعب بن عمیر کو مدینہ بھیجا۔[15]

مدینے کی طرف ہجرت کے بعد پیغمبر خداؐ قرآن اور اسلام کی تعلیمات سکھانے کے لیے مبلغین کو مختلف جگہوں پر بھیجا کرتے تھے۔ حضرت علیؑ کو یمن کی طرف، معاذ بن جبل کو قبیلہ حمیر کی جانب اور عمرو بن حزم کو بنی الحارث کے خاندان کی طرف بھیجا۔[16] بلال حبشی و ابن ام‌ مکتوم پیغمر اسلامؐ کے مؤذن تھے اور حسان بن ثابت آپؐ کے شاعر تھے. اس طرح آپؐ بے اپنی تبلیغی مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والوں میں بیک وقت مبلغ، قاری، موذن اور شاعر سب و شامل کیا۔[17] رسول خداؐ نے دنیا کے مختلف رہنماؤں اور حکمرانوں کو بھی اسلام کی دعوت دی۔ چھٹی صدی ہجری میں رسول اکرمؐ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی، قیصر روم خسرو پرویز، مقوقس، حارث بن غسانی اور ہوزۃ بن علی کو ایک ہی دن میں اسلام کی طرف دعوت پر مبنی خطوط بھیجے۔[18]

مرتضی مطہری کہتے ہیں کہ پیغمبر خداؐ کا طریقہ تبلیغ، قرآنی توصیف کے مطابق[19] انذار و تبشیر(ڈرانا اور بشارت دینا) پر مبنی تھا۔ شہید مرتضیٰ مزید کہتے ہیں کہ بشارت کے معنی خوشخبری کے ہیں جو کسی کام کی انجام دہی میں شوق دلانے کے لیے دی جاتی ہے۔ انذار کا مطلب ڈرانا اور کسی خطرے کی موجودگی کا اعلان کرنا ہے۔ مطہری کے باور کے مطابق دین کی طرف دعوت میں انذار اور تبشیر دو ایسی چیزیں ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ ہونا چاہیے۔ رسول خداؐ خود بھی ان دو چیزوں کے مطابق عمل کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس طریقہ کار پر عمل کرنے کی تاکید کرتے تھے۔ مثال کے طور پر جب آپؐ نے معاذ بن جبل کو یمن کی جانب تبلیغ کے لیے بھیجا تو فرمایا: اے معاذ! تبلیغ دین کے دوران لوگوں کو بشارت دو اور نفرت پیدا مت کرو، لوگوں کے امور میں آسانیاں پیدا کرو اور انہیں سختی میں مبتلا کرنے سے پرہیز کرو۔[20][21]

پیغمبر خداؐ دعوت اسلام کے سلسلے میں لوگوں کو مجبور کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ آپؐ نے یمن کے لوگوں کو اپنے پیغام میں ایک ایسے دستور العمل پر عمل کرنے کی تاکید کی جس کے مطابق یہودی یا عیسائی اپنے مذہب کو تبدیل کیے بغیر اس پر عمل پیرا ہوسکتے تھے۔[22] اسی طرح مدینے میں موجود یہودیوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تاکید کی اور فرمایا: مسلمان اور یہودی اپنے اپنے دین کے مطابق عمل کریں اور ایک دوسرے پر اعتراض نہ کریں مگر یہ کہ کوئی کسی پر ظلم کرے، اس صورت میں ظالم کا مواخذہ کیا جائے۔[23]

سیاسی اور انتظامی سیرت

جب رسول خداؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ نے اسلام کے اصولوں پر مبنی ایک نیا سماجی اور انتظامی ڈھانچہ قائم کیا۔ [24] محققین کا خیال ہے کہ رسول اللہؐ کے عمل سے ایک ایسی امت وجود میں آئی جس کے تعلقات، رشتہ داری اور علاقائی بنیادوں پر نہیں بلکہ دینی اور عقیدتی بنیادوں پر تھے۔ اس وقت کے جدید معاشرے میں، مسلمان ایک خدا پر ایمان رکھتے تھے اور ایک ہی دین کے احکامات پر عمل کرتے تھے۔[25]

اس کے علاوہ رسول اللہؐ نے ایک انتظامی ڈھانچہ پیش کیا۔ انتظامی امور میں لوگوں کو ضرورت کے مطابق ذمہ داریاں سونپ دی جاتی تھیں۔ احمدی میاں جی نے ان لوگوں کی فہرست پیش کی ہے جنہیں رسول خداؐ کی طرف سے کسی مشن پر بھیجے گئے یا کسی عہدے پر فائز کیے گئے ہیں، ان کی کل تعداد 236 ہے۔[26] پیغمبر اکرمؐ کے بعض خطوط میں افراد کے فرائض کو بیان کیا گیا ہے۔[27] مقریزی (وفات: 845ھ) کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے امام علیؑ اور معاذ بن جبل کو بطور قاضی یمن بھیجا۔[28] لیکن مدینہ میں، نبی اکرمؐ خود قضاوت کے منصب پر فائز رہے۔[29] اس کے علاوہ رسول اللہؐ نے صدقات اور زکات جمع کرنے کے لیے بعض لوگوں کو ذمہ داری دی۔[30] ابن عبد ربہ(وفات: 328ھ) نے 25 ایسے لوگوں کی فہرست کا ذکر کیا ہے جنہیں رسول اکرمؐ نے خطوط لکھنے کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔[31] احمدی میاں جی نے کاتبان وحی اور صدقات جمع کرنے والوں کے علاوہ، رسول اللہؐ کے خطوط اور معاہدوں کو تحریر کرنے والوں کی تعداد37 ذکر کیا ہے۔[32]

عسکری اور دفاعی سیرت

مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد، رسول اللہؐ کا چار محاذوں پر دشمنوں سے سامنا ہوا۔ پہلے محاذ پر مشرکین قریش سے سامنا ہوا؛(غزوہ بدر انہی مشرکین کے ساتھ لڑا گیا)، دوسرے محاذ پر معاہدہ توڑنے والے یہودیوں سے سامنا ہوا؛ (جس میں آپؐ نے بنی قریظہ کے خلاف جنگ کی)، تیسرے محاذ پر عرب قبائل سے جنگ ہوئی؛ (یہاں غزوہ بنی مصطلق ہوا)، چوتھے محاذ پر رومی دشمنوں کے ساتھ جنگ کی؛ (جس میں تبوک کی جنگ ہوئی)۔ مجموعی طور پر حضورؐ کے دور رسالت میں27 غزوات ہوئے، جن میں سے 9 غزوات میں قتال کی نوبت پیش آئی۔ (جبکہ باقی غزوات میں بغیر قتال کے مقصد حاصل ہو گیا۔)[33] ابن اسحاق کی طرف سے دی گئی اعداد و شمار کے مطابق پیغمبر اسلام کے دور رسالت میں مجموعی طور پر 38 سرایا لڑے گئے۔ (دیگر مورخین کے مطابق 47سرایا) ان سرایا کی سپہ سالاری آپؐ کے ایک صحابی نے کی۔[34] پیغمبر خداؐ کے دور رسالت کے تنازعات میں مسلمان اور کفار دونوں طرف سے جانی نقصان کی تعداد ایک ہزار تک نہیں پہنچتی۔[35]

محققین کے باور کے مطابق پیغمبر خداؐ نے تمام جنگی حالات میں انسانی اقدار کے تحفظ کے لیے پوری سعی کی۔ عام اور غیر عسکری شہریوں کے ساتھ نیک برتاؤ، زخمیوں اور جنگی قیدیوں کے ساتھ نیک سلوک، ماحولیات کے تحفظ کی کوشش اور دشمن کی لاشوں کی حرمت کا پاس رکھنے کی مقدور بھر کوشش کی جاتی تھی۔[36] رسول خداؐ کی دفاعی اور عسکری سیرت میں یہ کردار نمایاں تھا کہ آپؐ جنگ شروع ہونے سے پہلے دشمن کو نصیحت کرتے تھے اور انہیں اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرتے تھے تاکہ ان پر حجت تمام ہو جائے۔[37]مثال کے طور پر، آپؐ نے امام علیؑ کو یمن کی جانب روانہ کرتے وقت انہیں نصیحت کی کہ دشمن کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں اور انہیں دین اسلام کی طرف دعوت دیں اور ان کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں انہیں مطلع کریں۔[38] تاریخی دستاویزات کے مطابق کسی جنگ میں نبی مکرمؐ نے پہل نہیں کیا اور آپؐ اپنے اصحاب کو حکم دیتے تھے کہ جب تک دشمن کے لشکر کی طرف سے جنگ شروع نہ کی جائے ہماری طرف سے جنگ شروع نہ کریں۔[39] اپنے سپاہیوں کو نصیحت کرتے تھے کہ دشمنوں پر دفاعی حملہ کے دوران ظالمانہ طریقوں سے گریز کریں۔ اپنے وعدوں میں خیانت یا خلاف ورزی نہ کریں، مُردوں کو مثلہ (ٹکڑے ٹکڑے) کرنے سے گریز کریں۔ [40] دشمن کی اسیر شدہ عورتوں کے ساتھ کسی قسم کی غیر انسانی اور حیا کے منافی سلوک روا نہ رکھیں۔ کسی کو عورتوں، بچوں اور بوڑھوں اور ان لوگوں پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی جو لڑنے اور اپنے دفاع کی طاقت نہیں رکھتے۔ اسی طرح رسول خداؐ دشمنوں کے گھروں کو تباہ کرنے سے بھی منع کرتے تھے۔[41]

جنگوں اور دفاعی میدان میں رسول خداؐ مذکورہ طریقہ کار کے مطابق عسکری اور دفاعی حکمت عملی اپناتے تھے۔ میدان جنگ میں مناسب حکمت عملی اپنانے کے سلسلے میں اپنے اصحاب سے صلاح و مشورے کرتے تھے۔ دشمن کی فوجی تسلیحات سے آگاہی کے لیے جاسوس بھیجے جاتے تھے اور اپنی جنگی حکمت عملی اور نقشہ عمل کو مخفی رکھتے تھے۔ جب دشمن کے لشکر سے روبرو ہوتے تو ایسا طریقہ واردات استعمال کیا جاتا تھا کہ دشمن ایسا خیال کرتے کہ وہ حملہ کا شکار نہیں ہورہے ہیں۔ بعض اوقات لشکر دشمن میں خوف و وحشت پیدا کرنے کے لیے ان پر نفسیاتی جنگ مسلط کرتے تھے۔[42]

اخلاقی سیرت

کتاب "سیرہ ابن ہشام" سیرت پیغمبرؐ کے سلسلے میں تیسری صدی ہجری سے متعلق اہم منبع

قرآن نے پیغمبر خداؐ کے اخلاقی مرتبے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:إنک لعلی خلق عظیم (ترجمہ: اے پیغمبر! بے شک آپ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں)[سورہ قلم؟]. پیغمبر اسلام خود بھی اپنی بعثت کو اخلاقی کردار کو کمال تک پہنچانے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔[43] یہی وجہ ہے کہ پوری تاریخ میں پیغمبر اسلام کی اخلاقی سیرت کی شناخت کو بےحد اہمیت دی جاتی رہی اور اس سلسلے میں کثرت سے کتابیں اور دیگر تحقیقاتی کام ہوتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر پیغمبر خداؐ کی اخلاقی سیرت کے سلسلے میں لکھے گئے قدیمی منابع کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ محمد بن عیسیٰ ترمذی (وفات: 279ھ) کی کتاب "الشمائل النبویہ و الخصائص المصطفویہ"، ابو الشیخ اصفہانی(وفات: 369ھ) کی کتاب "اخلاق النبی و آدابہ" اور محمد بن عبد اللہ بن عبد العزیز سجستانی(وفات:450ھ) کی کتاب "خَلق النبی و خُلقہ" پیغمبر کی اخلاقی سیرت سے متعلق قدیمی کتب میں شامل ہیں.

نبی مکرم اسلامؐ کی اخلاقی سیرت میں زندگی کے مختلف پہلؤوں کی اخلاقیات زیر بحث لائی جاتی ہیں۔ معنوی اور روحانی اخلاق کے لحاظ سے آپؐ کی عبادت، دعا و مناجات، نماز تہجد اور توکل وغیرہ مشہور ہیں۔ زندگی کے انفرادی پہلو میں کردار سازی کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ دوسروں کے ساتھ مہربانی و محبت سے پیش آتے تھے، عاجزی اور منکسر المزاجی آپ کی فطرت ثانیہ تھی، نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ عام لوگوں کے ساتھ نیک برتاؤ، جوانوں اور بچوں کے ساتھ رواداری، ظاہر و باطن دونوں پہلؤوں سے صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا، بہترین انداز گفتگو کا مالک، خندہ پیشانی، کھانا کھانے کے آداب کا خیال رکھنا، انفاق، سخاوت، حلم و بردباری، اپنے کاموں کو خود انجام دینا، امانت داری، ذاتی طور پر حفظان صحت کا خیال رکھنا اور گھریلو کاموں میں اہل خانہ کی مدد کرنا وغیرہ پیغمبر خداؐ کی نمایاں خصوصیات میں شامل ہیں۔ لوگوں کے ساتھ نیکی و احسان کرنا، ضرورت مندوں کی مدد کرنا، دوسروں کے مسائل حل کرنے کا جذبہ، دوسروں سے محبت و الفت کے ساتھ پیش آنا اور مہربانی عام کرنا آپؐ کی اجتماعی اخلاقیات کی نمایاں خصوصیات میں شمار ہوتے ہیں۔[44]

عائلی اخلاق کے اعتبار سے پیغمبر اسلامؐ میں مختلف صفتیں پائی جاتی تھیں۔ میاں بیوی کے حقوق کے لحاظ سے آپؐ اپنی ازواج مطہرہ کے مابین عدالت قائم کرتے تھے، ان کی ضروریات پر توجہ دیتے اور گھریلو کاموں میں ان کے ہاتھ بٹاتے تھے۔[45] پیغمبر خدا کی ازواج مطہرہ کی تعداد کے لحاظ سے تاریخ میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں۔ بعض تاریخی منابع کے مطابق آپؐ کی زوجات کی تعداد13، 14 اور بعض نے 15 بھی بتایا ہے۔[46] پیغمبر خداؐ کی ازدواجی زندگی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ آپؐ نے 25 سال کی عمر میں حضرت خدیجہ(س) کے ساتھ شادی کی اور 25 سال ان کے ساتھ مشترک زندگی کی، اس دوران آپؐ نے کسی اور عورت کے ساتھ شادی نہیں کی۔ رسول اکرمؐ نے اپنی زندگی کے آخری عشرے میں جبکہ آپ کی عمر 50 سال سے عبور کرچکی تھی، کئی شادیاں کیں، کچھ مصلحتوں کے پیش نظر یہ شادیاں کیں۔ مثلا قبائل کے درمیان موجود اختلافات وغیرہ جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے یہ شادیاں کیں۔[47] آپؐ اس حد تک اعلیٰ اخلاقی صفات کے مالک تھے کہ بچوں تک آپؐ کے مہر و محبت سے فائدہ اٹھاتے، آپؐ بچوں کے ساتھ مہر و محبت کا اظہار کرنے کے لیے ان کو مختلف کنیات اور القابات سے پکارتے تھے تاکہ اس طرح کا ان کا دل جیت لیں۔[48] [یادداشت 1] اکثر اوقات لوگ اپنے بچوں کو آپؐ کے پاس لے آتے، آپؐ انہیں بازؤں سے پکڑ کر اپنی گود میں بٹھا لیتے تھے، آپؐ ان کے لیے دعا کرتے تھے، کبھی تو ان کے لیے کوئی اچھا سا نام چن لیتے تھے، بعض اوقات کچھ بچوں کی وجہ سے آپؐ کے لباس مکدر ہوجاتے تو آپؐ کے اردگرد میں بیٹھے لوگ اس حالت کو دیکھ کر چیخ و پکار کرتے، لیکن آپؐ فرماتے: ایسا نہ کیا کرو، بچے کو آسانی سے اپنے کام کرنے دو۔ بچوں کے والدین پیغمبر اسلام کے اس طرز عمل سے خوش ہوتے تھے۔ بچوں کے کھیل کود سے فراغت کے بعد آپؐ اپنے کپڑے دھو لیتے تھے۔[49] [یادداشت 2] پیغمبر اسلامؐ کی اخلاقی سیرت کے سلسلے میں ایک قابل توجہ واقعہ نقل ہوا ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنے والد امام علیؐ سے پیغمبر اکرمؐ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا تو امام علیؑ نے ایک مفصل مطلب بیان کیا، اس کے ایک حصے میں یوں آیا ہے:

اللہ کے رسولؐ اپنے دن رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کیا کرتے تھے: ایک حصے کو اللہ کی عبادت کرنے کے لیے مختص کرتے، ایک حصے کو اپنے اہل و عیال کے ساتھ مختص کرتے اور ایک حصہ اپنے لیے مقرر کرتے۔ اپنے وقت کے حصے سے کچھ وقت عام لوگوں کے لیے دیتے۔ اپنے اصحاب میں سے جو لوگوں کی نسبت زیادہ ہمدرد تھے انہیں بہترین اصحاب قرار دیتے۔ لوگوں کے مسائل حل کرنے والے اور ان کی مدد کرنے والے آپؐ کے پاس زیادہ محترم تھے۔ مجلس میں بیٹھتے ہوئے اپنے لیے خاص جگہ متعین نہیں کرتے تھے، ہرگز کسی کے ساتھ سختی، بدزبانی، نکتہ چینی اور دنگہ فساد نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کسی کی بےجا تعریف۔ کسی کو مایوس نہ کرتے۔ جو بھی آپؐ کے دولت سرا آتے ناامید نہیں لوٹتے۔ تین چیزوں سے آپؐ کوسوں دور تھے: کسی کے ساتھ بحث کرنا، زیادہ باتیں کرنا اور خود سے غیر مربوط چیزوں میں مداخلت کرنا۔ تین کام ایسے تھے جنہیں لوگوں کے ساتھ کبھی انجام نہیں دیتے تھے۔ کبھی کسی کی مذمت نہ کرتے، کسی کی ملامت نہ کرتے اور لوگوں کے پوشیدہ عیوب ڈھونڈنے کی کوشش نہ کرتے۔[50]



کتابیں اور کانفرنسیں

پوری تاریخ اسلام میں سیرت پیغمبرؐ کے موضوع پر کثرت سے کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ سیرت نبوی سے متعلق مختلف ممالک؛ منجملہ ایران میں مختلف نوعیت کے کانفرنسیں منعقد ہوچکی ہیں.

کتابیں

محمد ہادی یوسفی غروی کے مطابق سیرت پیغمبرؐ سے متعلق کتابیں لکھنے والے مصنفین میں عروة بن زبیر (وفات:92ھ)، ابان بن عثمان بن عفان (وفات: 105ھ)، وہب بن منبّہ (وفات: 110ھ)، عاصم بن عمر (وفات: 120ھ) وغیرہ شامل ہیں اور سیرت نبوی سے متعلق سب سے زیادہ پرانی کتابیں "سیرہ ابن اسحاق" مطابق روایت سیرہ ابن ہشام کلبی، "مغازی واقدی" اور "طبقات ابن سعد" ہیں.[51] آغاز سیرت نویسی سے لے کر آج تک بہت سی کتابیں اس سلسلے میں تصنیف ہوئی ہیں۔ ان قلمی آثار کا تعارف اور ان کے مراحل تدوین پر باقاعدہ اور مستقل طور پر تحقیقات ہوئی ہیں۔ رسول جعفریان نے اپنی کتاب "منابع تاریخ اسلام" میں کتب سیرت کے ایک حصے کا تعارف پیش کیا ہے۔[52] سنہ 2017ء میں چھپنے والی ایک کتاب "مجموعہ مقالات ہمایش سیرہ‌پژوہی و سیرہ‌پژوہان" میں ایسے مقالات کو شامل کیا گیا ہے جن میں سیرہ نگاری کے مختلف پہلؤوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔[53] "دانشنامہ سیرہ نبوی" (سیرت نبوی انسائیکلو پیڈیا) کے ایک مضمون میں بھی سیرت نبوی سے متعلق مستشرقین کے قلمی آثار کا تعارف کرایا گیا ہے، جس کی بنیاد پر مستشرقین نے چھٹی صدی ہجری سے لے کر اب تک رسول اللہؐ کی سیرت کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ سلسلہ مختلف ادوار سے گزرے ہیں۔[54]

عصر حاضر میں بھی سیرہ نبویؐ سے متعلق تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ کتاب "حیاة محمد" مؤلف: محمد حسین ہیکل، "حیات النبی(ص) و سیرتہ" مؤلف: محمد قوام وشنوی، "سیرة المصطفی(ص)" مؤلف: ہاشم معروف الحسنی، "موسوعة التاریخ الاسلامی" مؤلف: محمدہادی یوسفی غروی، "سیرہ نبوی" مؤلف: مصطفی دلشاد، "الصحیح من سیرة النبی الاعظم" مؤلف: سید جعفر مرتضی عاملی اور "تاریخ سیاسی اسلام سیرہ رسول خدا(ص)" مؤلف: رسول جعفریان منجملہ ان تحقیقات میں سے ہیں.

کانفرنسیں

سیرت نبوی سے متعلق مختلف ممالک میں متعدد کانفرنسیں منعقد ہوئی ہیں۔ ایران میں بھی کچھ کانفرنسیں منعقد ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: "ہمایش بین‌المللی سیرہ پیامبر رحمت با مخالفانش" یہ کانفرنس قم میں منعقد ہوئی،[55] "سیرہ سیاسی پیامبر" کے عنوان پر امام صادق یونیورسٹی تہران میں کانفرنس منعقد ہوئی،[56] "سبک زندگی پیامبر اسلام" کے عنوان پر ایران کے شہر زاہدان میں،[57] "سیرہ و سنت شناسی پیامبر" کے عنوان پر تہران میں،[58] "جایگاہ سیرہ پیامبر(ص) در فقہ" کے عنوان پر قم میں[59] اور "جایزہ بزرگ پیامبر اعظم(ص)" کے عنوان پر ایک فیسٹیول تہران میں منعقد ہوا۔[60]

کچھ دیگر ممالک میں بھی مختلف عناوین کے تحت کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ "ہمایش بین‌المللی سیرہ پیامبر تجسم تعالیم اسلامی" تیونس میں[61] اور "ہمایش سیرہ پیامبر اکرم(ص) و نقش زمان و مکان" جاپان کے شہر ہمبرگ میں.[62]

متعلقہ مضامین

نوٹ

  1. و يُكنّى الصبيان فَيستلين بہ قلوبَهم
  2. فربما بال الصبي عليه فيصيح بعض من رآه حين يبول فيقول صلى‌ الله‌ عليه‌ و آله‌ و سلم لا تزرموا بالصبي فيدعه حتى يقضي بوله

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کریں: مطہری، سیری در سیرہ نبوی(ص)، ‌1381ہجری شمسی، ص48-54.
  2. طباطبایی، سنن النبی، 1419ھ، ص93.
  3. مطہری، سیری در سیرہ نبوی(ص)، ‌1381ہجری شمسی، ص53.
  4. ملاحظہ کریں: عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم(ص)، 1385ہجری شمسی، ج1، ص21.
  5. حسن، «تاریخ تدوین سیرہ نبوی(ص)»، ص49.
  6. داداش‌نژاد، سیرہ‌نویسان و قرآن، 1393ہجری شمسی، ص8.
  7. داداش‌نژاد، سیرہ‌نویسان و قرآن، 1393ہجری شمسی، ص9.
  8. ملاحظہ کریں: یوسفی غروی، تاریخ تحقیقی اسلام، 1382ہجری شمسی، ج1، ص21.
  9. ملاحظہ کریں: یوسفی غروی، تاریخ تحقیقی اسلام، 1382ہجری شمسی، ج1، ص355.
  10. ملاحظہ کریں: یوسفی غروی، تاریخ تحقیقی اسلام، 1382ہجری شمسی، ج1، ص338-346.
  11. ملاحظہ کریں: یوسفی غروی، تاریخ تحقیقی اسلام، 1382ہجری شمسی، ج1، ص355-367.
  12. ملاحظہ کریں: یوسفی غروی، تاریخ تحقیقی اسلام، 1382ہجری شمسی، ج1، ص365-367.
  13. ملاحظہ کریں: خانجانی، «محمد رسول اللہ»، بعثت رسول خدا(ص)، ص51-52.
  14. خانجانی، «محمد رسول اللہ»، بعثت رسول خدا(ص)، ج1، ص53.
  15. خانجانی، «محمد رسول اللہ»، بعثت رسول خدا(ص)، ص53.
  16. عبدالمحمدی، «سیرہ تبلیغی پیامبر خاتم از منظر قرآن کریم»، ص97.
  17. داداش‌نژاد، «محمد رسول اللہ»، از ہجرت تا بعثت، ج1، ص70.
  18. عبدالمحمدی، «سیرہ تبلیغی پیامبر خاتم از منظر قرآن کریم»، ص97.
  19. «یا أَیہَا النَّبِی إِنَّا أَرْسَلْنَاک شَاہِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیرًا» احزاب/45.
  20. ابن ہشام، السیرہ النبویہ، دارالمعرفہ، ج2، ص590.
  21. ملاحظہ کریں: مطہری، سیری در سیرہ نبوی،‌1381ہجری شمسی، ص205-211.
  22. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج2، ص81.
  23. ملاحظہ کریں: ہمایون مصباح، «بررسی کارآمدی دعوت بہ دین»، ص146.
  24. ملاحظہ کریں: داداش‌نژاد، «محمد رسول اللہ»، از ہجرت تا بعثت، ج1، ص69.
  25. رک: داداش‌نژاد، «محمد رسول اللہ»، از ہجرت تا بعثت، ج1، ص69.
  26. احمدی میانجی، مکاتیب الرسول، 1998ء، ج1، ص94-9.
  27. رک: داداش‌نژاد، «محمد رسول اللہ»، از ہجرت تا بعثت، ج1، ص69.
  28. رک: مقریزی، إمتاع الأسماع، 1420ھ، ج11، ص294، ج9، ص208.
  29. داداش‌نژاد، «محمد رسول اللہ»، از ہجرت تا بعثت، ج1، ص69.
  30. رک: داداش‌نژاد، «محمد رسول اللہ»، از ہجرت تا بعثت، ج1، ص70.
  31. ابن عبدربہ، العقد الفرید، 1403ھ، ج4، ص244.
  32. احمدی میانجی، مکاتیب الرسول، 1998ء، ج1، ص138-173.
  33. داداش‌نژاد، «محمد رسول اللہ»، از ہجرت تا بعثت، ج1، ص70.
  34. داداش‌نژاد، «محمد رسول اللہ»، از ہجرت تا بعثت، ج1، ص70-71.
  35. داداش‌نژاد، «محمد رسول اللہ»، از ہجرت تا بعثت، ج1، ص71.
  36. باقری، محمدی‌بخش، «اخلاق نظامی پیامبر(ص) در جنگ»، ص107.
  37. باقری، محمدی‌بخش، «اخلاق نظامی پیامبر(ص) در جنگ»، ص111.
  38. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج3، ص1079.
  39. باقری، محمدی‌بخش، «اخلاق نظامی پیامبر(ص) در جنگ»، ص114.
  40. داداش‌نژاد، «محمد رسول اللہ»، از ہجرت تا بعثت، ج1، ص71.
  41. باقری، محمدی‌بخش، «اخلاق نظامی پیامبر(ص) در جنگ»، ص120-121.
  42. داداش‌نژاد، «محمد رسول اللہ»، از ہجرت تا بعثت، ج1، ص71.
  43. حرعاملی، وسائل الشیعہ، 1409ھ، ج12، ص173-174.
  44. رک: متانت‌پور، «سیرہ اخلاقی پیامبر اکرم(ص)»، ص107-119، آرمون، اسدی، «نگرشی بر سیرہ اخلاقی پیامبر اکرم(ص)»، ص97-121، شیداییان، «سیرہ اخلاقی پیامبر اعظم(ص)»، ص23-36.
  45. داداش‌نژاد، «محمد رسول اللہ»، از ہجرت تا بعثت، ج1، ص75-76.
  46. داداش‌نژاد، «محمد رسول اللہ»، از ہجرت تا بعثت، ج1، ص76.
  47. داداش‌نژاد، «محمد رسول اللہ»، از ہجرت تا بعثت، ج1، ص76.
  48. غزالی، ابوجامد، احیاء علوم الدین، ج7، ص115.
  49. طبرسی، رضی الدین، مکارم الاخلاق، 1972ھ، ج1، ص25.
  50. شیخ صدوق، معانی الاخبار، 1403ھ، ص81-83.
  51. رک: یوسفی غروی، تاریخ تحقیقی اسلام، 1382ہجری شمسی، ج1، ص21-22.
  52. جعفریان، منابع تاریخ اسلام، 1376ہجری شمسی، ص40120.
  53. رک: جمعی از نویسندگان، مجموعہ مقالات ہمایش سیرہ پژوہی و سیرہ پژوہان، 1396ہجری شمسی، بہ عنوان مثال مقالہ «سیر تحول سیرہ‌نویسی با تاکید بر مکتب مدینہ».
  54. رحمتی، «خاورشناسان و مطالعات سیرہ»، 1389ش، ج1، ص79-87.
  55. «ہمایش بین‌المللی سیرہ پیامبر با مخالفانش»، سایت با ہمایش.
  56. «ہمایش سیرہ سیاسی پیامبر(ص)»، سایت خبرگزاری دانشجویان ایران.
  57. «ہمایش سبک زندگی پیامبر»، سایت دانشگاہ آزاد اسلامی واحد زاہدان.
  58. «ہمایش سیرہ و سنت‌شناسی پیامبر(ص)»، سایت خبرگزاری شبستان.
  59. «ہمایش جایگاہ سیرہ پیامبر(ص) در فقہ»، خبرگزاری ایکنا.
  60. «جشنوارہ جایزہ بزرگ پیامبر اعظم(ص)»، سایت ہنر اسلامی.
  61. «ہمایش سیرہ پیامبر تجسم تعالیم اسلامی»، سایت خبرگزاری ایکنا.
  62. «ہمایش سیرہ پیامبر اکرم(ص) و نقش زمان و مکان»، سایت مرکز اسلامی ہامبورگ.

مآخذ

  • آرمون، عسگر، اسدی، عبداللہ، «نگرشی بر سیرہ اخلاقی پیامبر اکرم(ص)»، درمجموعہ نقطہ پرگار، ویژہ‌نامہ میلاد پیامبر اعظم(ص)، بی‌تا.
  • ابن عبدربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، بیروت، دارالکتاب العربی، 1403ھ.
  • ابن ہشام، عبدالملک الحمیری، السیرة النبویة، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا.
  • احمدی میانجی، علی، مکاتیب الرسول، بی‌جا، دارالحدیث، 1998ء.
  • باقری، سمیہ، محمدی بخش، لیلا، «اخلاق نظامی پیامبر(ص) در جنگ»، در مجلہ بصیرت و تربیت اسلامی، شمارہ26، سال دہم، 1392ہجری شمسی.
  • «جشنوارہ جایزہ بزرگ پیامبر اعظم(ص)»، سایت ہنر اسلامی، تاریخ بازدید: 23، بہمن، 1397ہجری شمسی.
  • جعفریان، رسول، منابع تاریخ اسلام، قم، انصاریان، 1376ہجری شمسی.
  • جمعی از نویسندگان، بہ اہتمام سیداحمدرضا خضری، مجموعہ مقالات ہمایش سیرہ پژوہی و سیرہ پژوہان، تہران، پژوہشکدہ تاریخ اسلام، 1396ہجری شمسی.
  • حرعاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، قم، موسسہ آل البیت(ع)، 1409ھ.
  • حسن، محمد عبدالغنی، «تاریخ تدوین سیرہ نبوی(ص)»، ترجمہ امیرہ ضمیری،‌ در مجلہ فرہنگ کوثر، شمارہ50، 1381ہجری شمسی.
  • خانجانی، قاسم، «محمد رسول اللہ(ص)»، بعثت رسول خدا(ص)، در مجموعہ دانشنامہ سیرہ نبوی(ص)، قم، پژوہشگاہ حوزہ و دانشگاہ، 1389ہجری شمسی.
  • داداش نژاد، منصور، سیرہ‌نویسان و قرآن، قم، پژوہشگاہ حوزہ و دانشگاہ، 1393ہجری شمسی.
  • داداش نژاد، منصور، «محمد رسول اللہ(ص)»؛ از ہجرت تا رحلت، در مجموعہ دانشنامہ سیرہ نبوی(ص)، قم، پژوہشگاہ حوزہ و دانشگاہ، 1389ہجری شمسی.
  • رحمتی، محمدکاظم، «خاورشناسان و مطالعات سیرہ»، در مجموعہ دانشنامہ سیرہ نبوی(ص)»، قم، پژوہشگاہ حوزہ و دانشگاہ، 1389ہجری شمسی.
  • شیخ صدوق، محمدبن‌علی بن بابویہ، معانی الاخبار، قم، انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1403ھ.
  • شیداییان، حسین، «سیرہ اخلاقی پیامبر اعظم(ص)»، درمجلہ حصون، شمارہ9، پاییز1385ہجری شمسی.
  • طبرسی، رضی الدین، مکارم الاخلاق، تحقیق: محمد حسین اعلمی، بیروت، اعلمی،1972ء.
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم(ص)، قم، دارالحدیث، 1385ہجری شمسی.
  • عبدالمحمدی، حسین،‌ «سیرہ تبلیغی پیامبر خاتم(ص) از منظر قرآن کریم»، در مجلہ کوثر معارف، شمارہ1، 1385ہجری شمسی.
  • غزالی، ابوحامد، احیاء العلوم، تحقیق عبدالرحیم بن حسین حافظ عراقی، دارالکتاب العربی، بی تا.
  • متانت‌پور، محمدتقی، «سیرہ اخلاقی پیامبر اکرم(ص)»، در فصلنامہ تاریخ نو، شمارہ‌نہم، زمستان1393ہجری شمسی.
  • مطہری، مرتضی، سیری در سیرہ نبوی، تہران، انتشارات صدرا، 1381ہجری شمسی.
  • مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الاسماع، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1420ھ.
  • واقدی، محمدبن‌عمر، المغازی، بیروت، موسسہ الاعلمی، 1409ھ.
  • «ہمایش بین‌المللی سیرہ پیامبر با مخالفانش»، سایت با ہمایش، تاریخ بازدید: 23، بہمن، 1397ہجری شمسی.
  • «ہمایش جایگاہ سیرہ پیامبر(ص) در فقہ» خبرگزاری ایکنا، تاریخ درج مطلب: 4، اسفند، 1385ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 23، بہمن، 1397ہجری شمسی.
  • «ہمایش سبک زندگی پیامبر» سایت دانشگاہ آزاد اسلامی واحد زاہدان، تاریخ بازدید: 23، بہمن، 1397ہجری شمسی.
  • «ہمایش سیرہ پیامبر اکرم(ص) و نقش زمان و مکان» سایت مرکز اسلامی ہامبورگ، تاریخ درج مطلب: 21، مہ، 2012ء، تاریخ بازدید: 23، بہمن، 1397ہجری شمسی.
  • «ہمایش سیرہ پیامبر تجسم تعالیم اسلامی» سایت خبرگزاری ایکنا، تاریخ درج مطلب:‌ 26، آبان، 1397ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 23، بہمن، 1397ہجری شمسی.
  • «ہمایش سیرہ سیاسی پیامبر(ص)» سایت خبرگزاری دانشجویان ایران، تاریخ درج مطلب: 2، اسفند، 1385ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 23، بہمن، 1397ہجری شمسی.
  • «ہمایش سیرہ و سنت‌شناسی پیامبر(ص)» سایت خبرگزاری شبستان، تاریخ درج مطلب: 30، آبان، 1397ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 23، بہمن، 1397ہجری شمسی.
  • ہمایون مصباح، سیدحسین، «بررسی کارآمدی دعوت بہ دین»، در مجلہ اندیشہ، شمارہ‌نہم، سال سیزدہم، 1386ہجری شمسی.
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، بی‌تا.
  • یوسفی غروی، محمدہادی، تاریخ تحقیقی اسلام، ترجمہ حسین علی عربی، قم، موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی (رہ)، 1382ہجری شمسی.