بنی قریظہ

ویکی شیعہ سے
پیغمبر اکرمؐ کی مدنی زندگی
ہجرت نبوی 622ء بمطابق
معراج 622ء بمطابق
غزوہ بدر 624ء بمطابق 17 رمضان
امام علی اور حضرت فاطمہ کی شادی 624ء بمطابق یکم ذی الحجہ
بنی‌قینقاع کی شکست 624ء بمطابق 15 شوال
غزوہ احد 625ء بمطابق شوال
بنو نضیر کی شکست 625ء بمطابق
غزوہ احزاب 627ء بمطابق
بنو قریظہ کی شکست 627ء بمطابق
غزوہ بنی مصطلق 627ء بمطابق یا
صلح حدیبیہ 628ء بمطابق
غزوہ خیبر 628ء بمطابق
پہلا سفرِ حجّ 629ء بمطابق
جنگ مؤتہ 629ء بمطابق
فتح مکہ 630ء بمطابق
غزوہ حنین 630ء بمطابق
غزوہ طائف 630ء بمطابق
جزیرة العرب پر تسلط 631ء بمطابق
غزوہ تبوک 632ء بمطابق
حجۃ الوداع 632ء بمطابق 10ھ
واقعۂ غدیر خم 632ء بمطابق 10ھ
وفات 632ء بمطابق 11ھ

بنی قریظہ، وہ یہودی قبیلہ ہے جو پیغمبر اکرمؐ کی مدینہ ہجرت کے ابتدائی برسوں میں مدینہ میں آباد تھا۔ مدینہ کے یہودیوں سے آنحضرتؐ کی آخری جنگ اسی قبیلہ سے میں ہوئی۔ جس کا نام غزوہ بنی قریظہ ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے جنگ احزاب کے بعد اپنے لشکر کے ساتھ بنی قریظہ کا رخ کیا۔ انہوں نے 15 دن کے محاصرہ کے بعد صلح کی پیشکش کی اور اس کے بعد سعد بن معاذ کے فیصلہ کو قبول کرنے کی حامی بھری۔ سعد نے اپنے قبیلہ کے میلان کے برخلاف بنی قریظہ کے جنگجو مردوں کے قتل اور ان کے اموال کی تقسیم کا حکم سنایا۔ حالانکہ معاصر محقق و مورخ سید جعفر شہیدی منابع تاریخی میں موجود اختلافات اور بعض شواہد خارجی کو دلیل بناتے ہوئے اس واقعہ کے سلسلہ میں شک و تردید کا اظہار کرتے ہیں۔ بنی قریظہ کے ساتھ جنگ کے آغاز کو ان کے جنگ احزاب میں مشرکین کے ساتھ تعاون کو قرار دیا گیا ہے۔

تاریخی مصادر کے مطابق، قبیلہ بنی قریظہ اور قبیلہ بنی نضیر حضرت موسی کے بھائی حضرت ہارون کی نسل سے تھا جو قبیلہ اوس و خزرج کی مدینہ ہجرت سے پہلے مدینہ میں مقیم اور حاکم تھا۔ لیکن یمن کی یہودی حکومت کی حبشی عیسائی بادشاہ کے ہاتھوں شکست کے بعد قبیلہ خزرج نے یہودیوں سے جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اس شہر کی حکومت کو اپنے یاتھوں میں لے لیا۔

مجموعی معلومات

یہودی قبیلہ بنی قریظہ کو بہت سے تاریخی مصادر میں قبیلہ بنی نضیر کے ہمراہ حضرت موسیؑ کے بھائی حضرت ہارونؑ کی نسل سے قرار دیا گیا ہے۔[1] حالانکہ دیگر منابع اسے فلسطینی طائفہ جذام سے جو عادیا بن سموئیل کے عہد میں دین یہود کا پیروکار بنا تھا، مانتے ہیں۔[2]

نقل ہوا ہے کہ بنی قریظہ کے یہودی مدینہ میں اوس و خزرج قبائل سے پہلے وہاں مقیم تھے۔[3] اس کے مطابق وہ سن ۷۰ عیسوی میں رومیوں کی یہودیوں سے جنگ کی وجہ سے بنی قریظہ حجاز کی طرف فرار کرکے مدینہ کے مضافات میں مہزور نامی مقام پر مستقر ہو گئے تھے۔[4]

دیگر یہودی قبائل کے ساتھ مدینہ شہر کی حکومت بنی قریظہ کے ہاتھوں میں بھی رہی۔ ان کا سردار القیطوان یا فطیون نامی شخص جو بحرین کے علاقہ الزارہ میں ایرانی حکومت کا خراج گذار تھا، ذکر ہوا ہے۔[5] تاریخی مصادر کے مطابق مدینہ کے یہودیوں کی قدرت یمن میں یہودی بادشاہ کی حبشہ کے عیسائی بادشاہ کے ہاتھوں سکشت کے بعد کم ہو گئی تھی۔ حبشہ کی حکومت رومی حکومت کے زیر حمایت تھی۔ آخرکار قبیلہ خزرج کے ساتھ بنی قریظہ کی جنگ میں ان کا فرمانرا مارا گیا اور اعراب نے شہر کی حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔[6]

مدینہ پر عرب قبائل کا قبضہ بہت سے یہودیوں کے اس شہر سے خارج ہو جانے کا سبب بنا۔[7] اسی طرح سے نقل ہوا ہے کہ ظہور اسلام کے قریب زمانہ میں یہودی قبائل شہر سے باہر قلعوں میں رہتے تھے۔[8] اس دور میں بنی قریظہ کی آبادی اور ان کا اقتدار بنی نضیر و بنی قینقاع جیسے دوسرے قبائل کی نسبت زیادہ تھا[9] اور وہ مدینہ شہر کے جنوب مشرق میں ساکن تھے[10] اور زیادہ تر افراد کاشت کار تھے۔[11]

غزوہ بنی قریظہ

بعض مصنفین کے مطابق، بنی قریظہ کے بارے میں اسلامی منابع میں ذکر ہونے والی معلومات فقط ان کے مسلمانوں سے سن 5 ہجری میں ہوئی جنگوں سے مربوط ہیں اور ان کی تاریخ اور ان کے احوال کے سلسلہ میں دیگر اطلاعات تاریخ اوس و خزرج سے مربوط مطالب کے ضمن میں نقل ہوئی ہیں۔[12]

غزوہ بنی قریظہ، سن 5 ہجری میں ماہ ذی القعدہ کے اواخر اور ذی الحجہ کی ابتداء میں مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کے یہودیوں کی ہونے والی آخری جنگ نقل ہوئی ہے۔ اسلامی منابع کے مطابق، پیغمبر اکرمؐ نے جنگ احزاب ختم ہونے اور دشمن کے منتشر ہو جانے کے فورا بعد بنی قریظہ کا رخ کیا۔ مسلمانوں نے بنی قریظہ کے گھروں اور قلعوں کا 15 دن تک محاصرہ جاری رکھا۔[13] یہاں تک کہ مجبور ہو کر انہوں نے صلح کی پیشکش کی اور سعد بن معاذ کی ثالثی کو قبول کیا۔[14]

تاریخی مصادر کے مطابق سعد بن معاذ جو اس وقت مجروح اور بیمار تھے، اپنے خیمہ سے نکل کر بنی قریظہ کی طرف گئے اور اپنے قبیلہ کے برخلاف جو ان کا ہم پیمان تھا، حکم سنایا کہ ان کے جنگجو مردوں کو قتل، اموال کو تقسیم اور بچو کو اسیر کیا جائے گا۔[15] منابع میں نقل ہوا ہے کہ رسول خداؐ نے سعد نے اس فیصلہ کو خدا کا فیصلہ قرار دیا۔[16] اس جنگ کے پیش آنے کا سبب بنی قریظہ کی عہد شکنی اور مسلمانوں کے خلاف جنگ احزاب میں مشرکین کی مدد کرنا تھا۔[17]

معاصر محقق و مورخ سید جعفر شہیدی منابع تاریخی میں پائے جانے والے بہت سارے اختلافات اور اسی طرح سے دوسرے خارجی حقایق جیسے مدینہ کی آبادی اور رسول خداؐ کا نرمی و مہربانی آمیز سلوک کے مد نظر اس واقعہ میں شک و تردید کرتے ہیں۔ خاص طور پر بنی قریظہ کے 600 سے 900 تک افراد کے قتل کو افسانہ اور تحریف شدہ مانتے ہیں اور اسے ایک طرح سے خزرجیوں کی سازش قرار دیتے ہیں جن کا مقصد پیغمبر اکرمؐ کی نظر میں قبیلہ اوس کی شان کو کم، نقل کیا ہے۔[18]

ابن شہاب زہری (51-124 ھ) نے کتاب المغازی النبویہ میں اگر چہ سعد بن معاذ کے حکم اور رسول خداؐ کی طرف سے حکم کی تائید کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن انہوں نے قبیلہ بنی نضیر کے بزرگ حیی بن اخطب کے قتل کا ذکر کیا ہے جس نے بنی قریظہ کو آنحضرتؐ سے جنگ کے لئے تشویق کیا۔[19]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابو الفرج اصفهانی، ، ۱۹۹۴م، ج۲۲، ص۳۴۳؛ مقدسی، البدء والتاریخ، ۱۸۹۹-۱۹۱۹ء، ج۴، ص۱۲۹-۱۳۰؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۴۰۸ھ، ج۵، ص۸۴.
  2. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۱۳۷۹ھ، ج۱، ص۴۰۸.
  3. ابو الفرج اصفهانی، الأغانی، ۱۹۹۴ء، ج۲۲، ص۳۴۳؛ مقدسی، البدء والتاریخ، ۱۸۹۹-۱۹۱۹ء، ج۴، ص۱۲۹-۱۳۰؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۴۰۸ھ، ج۵، ص۸۴.
  4. ابو الفرج اصفہانی، الأغانی، ۱۹۹۴ء، ج۲۲، ص۳۴۴.
  5. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۴۰۸ق، ج۵، ص۸۳، ۸۵.
  6. مقدسی، البدء و التاریخ، ۱۸۹۹-۱۹۱۹ء، ج۴، ص۱۳۰.
  7. طعیمہ، التاریخ الیہودی العام، ۱۴۱۱ھ-۱۹۹۱ء، ج۲، ص۱۲؛ مرصفی، الرسول واليهود وجها لوجہ، ۱۴۱۳ھ-۱۹۹۲ ء، ج۷، ص۱۰-۱۲.
  8. مجدوب، المستوطنات اليہوديہ على عہد الرسول، ۱۴۱۷ھ-۱۹۹۶ء، ص۴۵.
  9. مجدوب ،المستوطنات اليہوديہ على عہد الرسول، ۱۴۱۷ھ-۱۹۹۶ ء، ص۴۳.
  10. طعیمہ، التاریخ الیہودی العام، ۱۴۱۱ھ-۱۹۹۱ء، ج۲، ص۱۵.
  11. مرصفی، الرسول واليہود وجہا لوجہ، ۱۴۱۳ھ-۱۹۹۲ ء، ج۱، ص۱۲۳.
  12. آہنچی، «بنی قریظہ»، ص۴۶۹.
  13. ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۲، ص۵۷.
  14. ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ۱۴۰۷ھ، ج۳، ص۳۲۷.
  15. ابن اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ھ، ج۲، ص۲۲۲-۲۲۳.
  16. ابن اثیر، أسد الغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۲۲۲-۲۲۳؛ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۱۳۷۹ھ، ج۱، ص۴۱۲، ج۲، ص۵۲؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۲، ص۵۷-۵۹؛ مزی، تہذیب الکمال، ۱۴۰۹ق، ج۱۰، ص۳۰۲.
  17. واقدی، المغازی، ۱۴۱۴ھ، ج۱، ص۵۰۳ و ۵۰۴.
  18. شہیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ۱۳۹۲ہجری شمسی، ص۸۸-۹۰.
  19. ابن شہاب الزہری، المغازي النبويہ، ۱۴۰۱ھ، ص۸۲-۸۳.

مآخذ

  • آہنچی، آذر، «بنی قریظہ»، در دانش نامہ جہان اسلام، ج۴، تہران، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، ۱۳۷۷ش
  • ابن اثیر، علی بن ابی المکرم، أسد الغابہ: فی معرفت الصحابہ، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹ء
  • ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب الإسلامی، ۱۴۱۰ھ/۱۹۹۰ ء
  • مرصفی، سعد، الرسول واليہود وجہا لوجہ، كويت، مكتبہ المنار الإسلاميہ، ۱۴۱۳ق/۱۹۹۲ء
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، کتاب البدء و التاریخ، پاریس، ۱۸۹۹-۱۹۱۹ء
  • واقدی، محمد بن عمر، المغازی، تحقیق مارسدن جونس، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، ۱۴۱۴ھ
  • یاقوت حموی، معجم البلدان، بیروت، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۸ء
  • یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ۱۳۷۹ھ/۱۹۶۰ء