غزوہ بنی نضیر
غزوہ بنی نضیر | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
سلسلۂ محارب: | |||||||||||||
| |||||||||||||
فریقین | |||||||||||||
مسلمان | مدینہ کے یہودی | ||||||||||||
قائدین | |||||||||||||
حضرت محمدؐ | |||||||||||||
نقصانات | |||||||||||||
یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر سامان لے کر مدینہ نیز اپنے ہتھیار اور سونا اور چاندی چھوڑ کے چلے جانے پر آمادہ ہوئے۔ | |||||||||||||
سورہ حشر کی پہلی 17 آیات غزوہ بنی نضیر اور اس قبیلے کی مدینہ بدری کے سلسلے میں نازل ہوئی ہيں۔ |
غزوہ بنی نضیر، [عربی:غزوۃ بني نضير] مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ رسول خداؐ کے غزوات میں سے ایک ہے۔ یہ غزوہ غزوہ بنی قینقاع کے بعد یہودیوں کے ساتھ آپؐ کا دوسری جنگ ہے جو ہجرت کے چوتھے سال لڑی گئی۔[1]
بنو نضیر بنو قینقاع اور بنو قریظہ سمیت مدینہ میں رہائش پذیر دوسرے یہودی قبائل رسول خداؐ کے حلیفوں میں شمار ہوتے تھے اور ان تینوں قبائل نے پیمان شکنی کی۔ یہ جنگ مسلمانوں کی فتح اور بنو نضیر کی مدینہ بدری پر منتج ہوئی۔
مدینہ میں بنو نضیر کی سکونت کا تاریخچہ
قبیلۂ بنو نضیر نے ظہور اسلام سے قبل یثرب میں سکونت اختیار کی۔ ان کے آبائی علاقے کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ یعقوبی کا کہنا ہے کہ یہ قبیلہ، قبیلۂ جُذام کی ایک شاخ تھا جس نے بعد میں دین یہود اختیار کیا اور کوہ نضیر میں رہائش پذیر ہوا اور بعدازاں اسی پہاڑ کے نام سے موسوم ہوا۔[2]
ایک روایت یہ ہے کہ وہ ہارون بن عمران کی اولاد میں سے ہیں جو موسیؑ کی وفات اور "سیل عَرِم" نامی سیلاب کے نتیجے میں اوس و خزرج کے عرب نژاد لوگوں کی وہاں آمد کے بعد اس علاقے میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔[3] اس قسم کی روایات کے مطابق سنہ 70 عیسوی میں یہودیوں کے ساتھ رومیوں کی جنگ کے بعد بنو نضیر بھی دوسرے یہودی قبائل کی مانند فرار ہوکر حجاز میں مدینہ کے نواحی علاقے بُطْحان میں آبسے تھے۔[4]
ابن سعد کا کہنا ہے کہ ان کے مقام رہائش "الغَرْس" کا علاقہ تھا۔[5] بنو نضیر اور مدینہ میں رہائش پذیر دوسرے یہودیوں نے بےپناہ دولت سمیٹ لی۔ چنانچہ اوس و خزرج نے یہودیوں پر غلبہ پانے کے لئے غسانیوں سے مدد طلب کی۔ غسانی حجاز میں آئے اور یہودیوں میں سے بڑی تعداد کو قتل کیا اور اس کے بعد اوس و خزرج یہودیوں پر مسلط ہوئے۔[6] بعد کے زمانوں میں اوس و خزرج کے درمیان ہونے والی کشمکش میں بنو نضیر اوس کی حمایت کرتے تھے۔[7]
بنو نضیر کی عہد شکنی
ظہور اسلام کے قریب اور جنگ احد سے قبل، بظاہر قبیلۂ بنو نضیر کے ابو سفیان کے ساتھ مراسم تھے۔[8] ہجرت کے بعد بنو نضیر نے بھی دوسرے یہودیوں کی مانند مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی اور عہد کیا کہ اگر مدینہ پر کسی نے حملہ کیا تو وہ مسلمانوں کے شانہ بشانہ دفاع کریں گے؛ کفار قریش کو کسی قسم کی مالی یا جانی مدد فراہم نہیں کریں گے اور قریش کے ساتھ تجارتی تعلقات برقرار کرنے سے اجتناب کریں گے۔[9] لیکن چونکہ بنو نضیر نے اپنا عہد و پیمان پامال کرکے رکھ دیا، ماہ ربیع الاول سنہ 4 ہجری میں[10] غزوہ بنی نضیر انجام کو پہنچا۔
اسی سال عمرو بن امیہ نے ـ جو بئر معونہ سے لوٹ رہا تھا ـ بنو عامر نامی قبیلے کے دو افراد کو قتل کیا۔ ان افراد کو رسول خداؐ نے امان دی تھی۔ عامر بن طفیل نے رسول اللہؐ سے دیت کا مطالبہ کیا[11] اور آپؐ نے دیت کی ادائیگی کے لئے بنو نضیر سے مدد مانگی جو بنو عامر کے حلیف تھے۔[12] بنو نضیر نے رسول خداؐ کی مدد کی حامی بھری لیکن آپؐ کے قتل کی سازش بھی تیار کی اور عمرو بن جحاش نامی شخص کو مامور کیا کہ دیوار قلعہ کے پاس اوپر سے پتھر پھینک کر آپؐ کو قتل کردے۔[13] رسول اللہؐ وحی کے ذریعے ان کے مکر سے آگاہ ہوئے اور انہیں 10 دن کی مہلت دی کہ ہتھیاروں کے سوا اپنے منقولہ اموال اٹھا کر مدینہ سے چلے جائیں اور ہر سال کھجوروں کی فصل اٹھانے کے لئے مدینہ آیا کریں۔[14]
منافقین کی سرگرمیاں
منافقین کے سرغنے عبداللہ بن اُبَی، نے بنو نضیر کو رسول خداؐ کی اطاعت سے باز رکھا اور وعدہ کیا کہ وہ بنو قریظہ کو بھی ساتھ ملائے گا اور ان کا دفاع کرے گا۔[15]
جنگ کا آغاز
رسول خداؐ نے عبداللہ بن مکتوم کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا اور علیؑ کی قیادت میں مسلمانوں کا ایک لشکر لے کر[16] پندرہ دن تک[17] یا چھ راتوں تک[18] بنو نضیر کا محاصرہ کرلیا۔ محاصرے کے دوران "غزوک" نامی یہودی نے رسول اللہؐ کے قتل کی ناکام کوشش کی جو علیؐ کے ہاتھوں مارا گیا۔[19] بعدازاں پیغمبر خدا نے حکم دیا کہ بویرہ کے علاقے میں بنو نضیر کے کھجوروں کو کاٹ دیا جائے۔[20]
جنگ کا انجام
آخر کار بنو نضير کے یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور آمادہ ہوئے کہ صرف ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر کا سازوسامان ـ جو سونے، چاندی اور ہتھیاروں پر مشتمل نہ ہوگا ـ کو لے کر مدینہ سے چلے جائیں۔[21] ان میں سے بعض افراد خیبر چلے گئے جن میں حُیی بن اَخطب ـ جس کی بیٹی صفیہ سنہ 7 ہجری میں غزوہ خیبر کے بعد آپؐ کی زوجیت میں آئیں ـ اور صفیہ کا پہلا شوہر "ابو الحقیق" شامل تھے اور بعض شام چلے گئے۔[22]
مال غنیمت کی تقسیم
چونکہ یہ جنگ بغیر کسی لشکر کشی کے ختم ہوئی تھی اس بنا پر اس جنگ سے حاصل ہونے والے اموال پر مال غنیمت کا اطلاق نہیں ہوتا اور اس میں تصرف کا حق صرف اور صرف پیغمبر اکرمؐ ہی کو حاصل ہوتی ہے۔[23] یوں پیغمبر اکرمؐ نے انصار کے ساتھ مشورے کے بعد اسے مہاجرین میں تقسیم کردیا تاکہ انصار کی طرف سے مہاجرین کی حمایت کا سلسلہ ختم ہو سکے اور مہاجرین اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔[24]
سورہ حشر کی آیت نمبر ایک سے سترہ تک اسی غزوہ سے متعلق نازل ہوئی ہے۔
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ واقدی، کتاب المغازی، ج1، ص363۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص49۔
- ↑ ابو الفرج اصفہانی، الاغانی، ج22، ص343ـ344؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج1، ص410۔
- ↑ ابوالفرج اصفہانی، الاغانی، ج22، ص344؛ حموی، معجم البلدان، ج5، ص290۔
- ↑ ابن سعد، ج2، ص57۔
- ↑ ابو الفرج اصفہانی، الاغانی، ج22، ص344ـ 345۔
- ↑ حلبی، السیرۃ الحلبیہ، ج2، ص264۔
- ↑ دائرۃ المعارف اسلام، چاپ دوم، ذیل "نضیر، بنو"۔
- ↑ ابن ہشام، السیرۃ النبویہ، ج2، ص148ـ150۔
- ↑ ابن سعد، طبقات، ج2، ص57؛ ذہبی، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، ص243۔
- ↑ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص199؛ حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج2، ص263۔
- ↑ ابن سعد، ج2، ص57؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج2، ص551؛ واقدی، المغازی، ج1، ص364۔
- ↑ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص199ـ200۔
- ↑ واقدی، المغازی، ج1، ص369۔
- ↑ واقدی، المغازی، ج1، ص368؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج2، ص553۔
- ↑ واقدی، المغازی، ج1، ص371؛ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص200۔
- ↑ طبری۔ تاریخ الامم و الملوک؛ابن سعد، طبقات، ج2، ص57۔
- ↑ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج3، ص200۔
- ↑ واقدی، المغازی، ج1، ص371۔
- ↑ یاقوت حموی، معجم البلدان، ج5، ص290؛ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج4، ص77؛ بکری، معجم ما استعجم من اسماء البلاد و المواضع، ج1، ص285۔
- ↑ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص48ـ49؛ حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج2، 266؛ واقدی، المغازی، ج1، ص372۔
- ↑ حلبی، السیرۃ الحلبیۃ، ج2، ص84، 207؛ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج4، ص75ـ76، 196ـ 198؛ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص122۔
- ↑ سورہ حشر، آیات ۶ـ ۸
- ↑ ابن هشام، ج۳، ص۲۰۱ـ۲۰۲؛ ابن اثیر، ج۲، ص۱۱۹؛ حلبی، ج۲، ص۸۵؛ حسنی، ص۴۳۹
مآخذ
- ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، بیروت، 1405ہجری قمری / 1985 عیسوی۔
- ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، 1405ہجری قمری / 1985 عیسوی۔
- ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، 1415ہجری قمری /1995 عیسوی۔
- ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، چاپ مصطفی سقّا، ابراہیم ابیاری، و عبدالحفیظ شلبی، مصر، 1936 عیسوی۔
- ابوالفرج اصفہانی، علی بن حسین، الاغانی، بیروت 1955 عیسوی۔
- بکری، عبداللہ بن عبدالعزیز، معجم ما استعجم من اسماء البلاد و المواضع، چاپ مصطفی سقّا، بیروت، 1403ہجری قمری /1983 عیسوی۔
- حسنی، ہاشم معروف، سیرۃ المصطفی، بیروت، 1406ہجری قمری /1986 عیسوی۔
- حلبی، علی بن ابراہیم، السیرۃ الحلبیۃ، بیروت، بیتا.
- ذہبی، محمدبن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، المغازی، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، بیروت، 1410ہجری قمری /1990 عیسوی۔
- طبری، محمدبن جریر، تاریخ الطبری: تاریخ الامم و الملوک، چاپ محمدابوالفضل ابراہیم، بیروت، 1382ـ1387ہجری قمری / 1962ـ1967 عیسوی۔
- واقدی، محمدبن عمر، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن، 1966 عیسوی۔
- یاقوت حموی، معجم البلدان، بیروت، 1399ہجری قمری /1979 عیسوی۔
- یعقوبی، احمدبن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، بیروت، بیتا.
- دانشنامہ اسلام، چاپ دوم،
پچھلا غزوہ: حمراء الاسد |
رسول اللہؐ کے غزوات غزوہ بنی نضیر |
اگلا غزوہ: ذات الرقاع |