علی بن حسین مسعودی

ویکی شیعہ سے
علی بن حسین مسعودی
کوائف
مکمل نامابوالحسن علی بن حسین مسعودی
نسبخاندان عبد اللہ بن مسعود صحابہ پیغمبر خدا(ص)
تاریخ ولادتسنہ380ھ
آبائی شہربابِل
رہائشعراق اور مصر
تاریخ وفاتسنہ345 یا346ھ
نامور اقرباءبعض تاریخی نقل کے مطابق مسعودی شیخ طوسی کے نانا ہیں
علمی معلومات
تالیفاتمروج الذہب • التنبیہ و الاشراف (کتاب)
خدمات
متفرقاتمورخ • سیاح اور جغرافیہ دان


علی بن حسین مسعودی (280ھ-345 یا 346ھ) چوتھی صدی ہجری کے مورخ اور مسلمان جغرافیہ دان اور مروج الذہب اور التنبیہ و الاشراف جیسی کتب کے مولف ہیں۔ ان کی طرف سے تاریخی واقعات کے غیر جانبدارانہ نقل کی وجہ سے ان کا مذہب واضح طور پر معلوم نہیں ہے۔ تاہم سوانح حیات نگاروں کے مآخذ اور شیعہ رجالی کتب میں انہیں ایک طویل عرصے سے شیعہ کے طور پر پہچانا جاتا رہا ہے۔ آج بھی بہت سے محققین انہیں شیعہ مانتے ہیں اور ان کے باقی علمی آثار کو اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے گواہی کے طور پر بیان کرتے ہیں۔

کسی شخص کے شیعہ ہونے کے معیار اور مصداق شیعہ کے تعین میں اختلاف نظر کے بموجب بعض محققین مسعودی کے شیعہ ہونے کے سلسلے میں اختلاف رائے رکھتے ہیں اور اس کے شیعہ ثابت کرنے کے لیے موجود شواہد کو رد کرتے ہیں۔ زیادہ تر محققین کے مطابق وہ محب اہل بیتؑ سنی ہیں اورامام علیؑ کو خلفائے ثلاثہ سے برتر اور افضل سمجھتے ہیں۔

سوانح حیات

ابوالحسن علی بن حسین مسعودی (احتمالا) سنہ 280ھ کو عراق کے شہر بابل میں پیدا ہوئے۔[1] ان کے شجرہ نسب کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض مورخین نے ان کا نام مسعودی مشہور ہونے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ وہ بغداد میں محلہ مسعودہ سے تعلق رکھتے تھے؛ لیکن سوانح حیات نگاروں کی اکثریت کے مطابق مسعودی پیغمبر اکرمؐ کے صحابی، عبد اللہ بن مسعود کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔[2]

مسعودی کا تعلق بغداد سے تھا اور کافی عرصہ مصر میں رہائش پذیر رہے۔[3] بعض محققین نے ان کی تاریخ وفات 333ھ بتائی ہے لیکن ان کی کتاب "التنبیہ و الارشاد" میں بادشاہان روم کی تاریخ کو سنہ345ھ [4]تک ذکر کیا ہے لہذا اس مطلب کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض محققین نے ان کی تاریخ وفات 345 یا346ھ بتائی ہے۔[5]

مختلف ممالک کا سفر

مسعودی کی زندگی سے متعلق تفصیلات موجود نہیں ہیں نہ ہی ان کے پیشے سے متعلق معلومات فراہم ہیں۔[6] جو چیز منابع و مآخذ میں موجود ہے وہ یہ کہ مسعودی مشرق و مغرب عالم کا سفر کرتے رہتے تھے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے دنیائے مشرق میں ہندوستان، سیلون، چین اور ملائیشیا کا سفر کیا جبکہ مغربی دنیا کے ممالک شمالی افریقہ، مغربی ممالک اور مڈغاسکر تک سفر کیا۔ مسعودی نے ان سفروں میں بہت سے علما سے ملاقاتیں کی۔ منجملہ مشہور مورخ محمد بن جریر طبری، ابوبکر صولی، محمد بن خلف وکیع، حسن بن موسی نوبختی، ابوعلی جبایی، ابوالحسن اشعری ہیں۔[7]

قلمی آثار

مسعودی کے اپنے زمانے میں مختلف علوم میں کثیر تعداد میں قلمی آثار موجود تھے، فی الحال ان کی صرف دو تاریخی کتابیں مروج الذہب اور التنبیہ و الاشراف باقی ہیں۔ بعض محققین کے مطابق کتاب اثبات الوصیۃ بھی ان کی تالیف ہے لیکن دوسرے بعض محققین اسے رد کرتے ہیں۔

مروج الذہب

کتاب کے مقدمے میں مذکور مطلب کے مطابق یہ کتاب مسعودی کی دیگر دو کتابیں اخبار الزمان اور اوسط کا خلاصہ ہے۔[8] مروج الذہب اسلامی تمدن و تاریخ کی مشہور کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ کتاب مروج الذہب میں دنیا کی عمومی تاریخ کا بیان ہے جس کا آغاز اس کی تخلیق کی کہانی سے کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مختلف ممالک اور قوموں کی تاریخ بیان کرنے کے بعد تاریخ اسلام بیان کی گئی ہے جس میں 336 ہجری تک کی اسلامی تاریخ کے واقعات بیان کیے ہیں۔ اس کتاب میں مسعودی نے اپنے جغرافیائی مشاہدات کو تاریخ کے ساتھ ملا کر پیش کیا ہے اور مختلف سرزمینوں کے سماجی حالات، عقائد، رسم و رواج اور بشریات کے بارے میں معلومات پیش کی ہیں۔ مسعودی نے یہ کتاب 333ھ میں تحریر کرنا شروع کیا اور 336ھ میں اسے مکمل کرلی۔ بعض منابع کے مطابق مسعودی نے سنہ345ھ کے واقعات بھی اس کتاب میں بیان کیے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کتاب کو مذکورہ تاریخ کے بعد مکمل کیا ہے لیکن یہ نسخہ ہم تک نہیں پہنچا ہے۔[حوالہ درکار]


التنبیہ و الاشراف

ألتّنبیهُ و الإشراف تاریخ اور جغرافیہ سے متعلق عربی زبان میں لکھی گئی ایک کتاب ہے جو شاید مسعودی کا آخری قلمی اثر ہے۔ کتاب کے پہلے حصے میں مصنف نے کائناتی اور جغرافیائی مسائل پر بحث کی ہے اور دوسرے حصے میں تاریخی مسائل کے بارے میں لکھا ہے۔ بعض محققین کے مطابق مسعودی نے اس کتاب میں بہت سے اختراعات پیش ہیں۔ اس کتاب کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے۔[حوالہ درکار]


اثبات الوصیہ

کتاب اثبات الوصیہ کو شیعہ ائمہؑ کی وصایت کے اثبات کو مدنظر رکھ کر تحریر کیا ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں ضرورت امامت سے متعلق روایات کی روشنی میں سابقہ انبیاء کی جانشینی کے بارے میں مختصر تشریح کی ہے اس کے بعد پیغمبر اکرمؐ کے جانشینوں یعنی بارہ اماموں کی حالات زندگی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ نیز انہوں نے ان روایات کو بھی ذکر کیا ہے جن میں نص امامت اور ائمہؑ کے فضائل و مناقب بیان ہوئے ہیں۔[9] مصنف نے اس کتاب کو دیگر حدیثی کتب کی طرز تحریر پر لکھا ہے اور اس کے مندرجات مسعودی کی شیعیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ رجالی اور زندگی نامہ نگاروں کی نظرمیں کتاب اثبات الوصیہ کے مصنف وہی مروج الذہب کے مصنف یعنی علی بن حسین مسعودی ہیں۔[10] لیکن معاصر محققین نے مسعودی کی اس کتاب کی طرز تحریر اور ان کی دیگر کتب کے طرز تحریر میں واضح فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے مسعودی سے منسوب کرنے کو رد کرتے ہیں۔[11]

دیگر قلمی آثار

مسعودی نے اپنی دونوں کتب مروج الذہب اور التنبیہ و الاشراف میں اپنی ان تالیفات کا ذکر کیا ہے جو ابھی موجود نہیں ہیں۔[12]

  1. اخبار الزمان و من اباده الحدثان من الامم الماضیه و الجیال و الممالک الدائره
  2. الکتاب الاوسط
  3. مروج الذهب و معادن الجوهر فی تحف الاشراف من الملوک و اهل الدرایات
  4. فنون المعارف و ماجری فی الدهور السوائف
  5. ذخائر العلوم و ما کان فی سالف الدهور
  6. الاستذکار لماجری فی سالف الاعصار
  7. التنبیه و الاشراف
  8. المقالات فی اصول الدیانات
  9. نظم الادله فی اصول المله
  10. الابانه فی اصول الدیانه
  11. خزائن الدین و سر العالمین
  12. المسائل و العلل فی المذاهب و الملل
  13. نظم الاعلام فی اصول الاحکام
  14. تقلب الدول و تغیر الاراء و الملل
  15. الواجب فی الفروض و اللوازم
  16. الانتصار
  17. الاستبصار فی الامامة
  18. الصوفه فی الامامة
  19. بیان اسماء الائمه القطعیه من الشیعه
  20. الزاهی
  21. حدائق الاذهان فی اخبار آل محمد علیه‌السلام
  22. مزاهر الاخبار و طرائف الآثار
  23. سر الحیاة
  24. القضایا و التجاریب
  25. طب النفوس
  26. الرویا و الکمال
  27. المبادی و التراکیب
  28. کتاب الزلف
  29. الاسترجاع
  30. الرووس السبعه فی الاحاطة بسیاسة العالم و اسراره
  31. الدعاوی
  32. راحة الارواح
  33. نظم الجواهر فی تدبیر الممالیک و العساکر
  34. المسعودیات
  35. وصل المجالس
  36. مقاتل الفرسان العجم

تاریخ نگاری کی خصوصیات

محققین نے مسعودی کے قلمی آثار کی بہت سی مثبت خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں: [13]:

  • منابع و مآخذ کی کثرت
  • تاریخ کے علمی نقطہ ںظر پر توجہ
  • واقعات و حادثات کا عقلانی نقطہ نظر سے علل و اسباب کی تشریح
  • تاریخ بیان کرنے کے اصول و قواعد پر توجہ
  • جغرافیہ سے متعلق مسائل میں براہ راست مشاہدہ کرنے پر توجہ
  • تاریخی واقعات کے ساتھ ساتھ بہت ساری سماجی اور ثقافتی معلومات، جغرافیہ، عقائد کی تاریخ اور علوم و ادیان کا تذکرہ
  • عقیدتی اور سیاسی گروہوں کا غیر جانبدارانہ تعارف
  • حکمرانوں کی کچھ غلط رویوں پر پردہ پوشی کیے بغیر کھلی اور بے تکلف تحریر
کتاب مروج الذہب میں اہل بیتؑ کے مقام و منزلت کا بیان

«امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ سے روایت ہے: ”جب اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تخلیق شروع کی اور غیر موجود چیزوں کو وکود میں لنا چاہا تو زمین کو پھیلانے اور اس کی خلقت سے پہلے اسی طرح آسمان کو خلق کرنے سے پہلے-جو اس کی سلطنت کی انفرادیت اور اس کی قدرت کی وحدانیت کی تجلی تھا- اس نے مخلوق کو خاک کی طرح پیدا کیا، پھر اس نے اپنے نور کا ایک شعلہ ظاہر کیا اور اس کے نور کا ایک شعلہ چمکا، اور یہ نور پوشیدہ چہروں کے درمیان فراہم کیا گیا اور یہ ہمارے نبی محمدؐ کا چہرہ بن گیا، اور خدائے عزیز نے کہا، "تو میرا منتخب بندہ ہے۔ نور کا ذخیرہ اور میری ہدایت کا خزانہ تیرے پاس ہے، تیری وجہ سے میں نے زمین کو ہموار اور پانی کو جاری کرتا ہوں اور آسمان کو بلند کرتا ہوں اور جزا و سزا اور جنت اور جہنم پیدا کرتا ہوں اور تیرے اہل بیتؑ کو ہدایت کے لیے مقرر کرتا ہوں اور ان کو اپنے پوشیدہ علوم سے مستفید کرتا ہوں۔ تاکہ ان کے لیے کوئی مشکل پیش نہ آئے اور ان سے کوئی چیز پوشیدہ نہ ہو اور میں انہیں اپنی تخلیق کی دلیل اور اپنی طاقت اور اوحدانیت کی نشانی بناتا ہوں۔ پھر اس نے ان سے ربوبیت، خلوص اور توحید کے بارے میں گواہی لی اور اس گواہی کے بعد اس نے محمدؐ اور ان کی آل کے انتخاب کو لوگوں کی حکمت کے ساتھ ملایا اور انہیں بتلایا گیا کہ ہدایت انہی (اہل بیتؑ) کے پاس ہے اور نور انہی سے ہے اور امامت اس کے خاندان میں ہے یہاں تک کہ انصاف کی سنت برقرار ہوجائے اور بہانے ختم ہوجائیں۔»

مسعودی، مروج الذهب، ترجمه ابوالقاسم پاینده، ج 1، ص23


کتاب مروج‌ الذہب کے باب فضیلت علیؑ کا ایک حصہ

«وہ چیزیں جو رسول اللہؐ کے اصحاب کے لیے باعث فضیلت تھیں، تقدم ایمان، ہجرت، رسول اللہؐ سے قرابت داری اور آپؐ کی مدد کرنا، اور آپؐ کی راہ میں جان نثاری کا مظاہرہ کرنا وغیرہ ہیں۔ علم قرآن، اللہ کی راہ میں جہاد کا شرف، زہد و پارسائی، عدل و انصاف پر مبنی قضاوت اور فقہ و علم میں علیؐ مکمل حصہ دار تھے۔ علیؑ اس کے علاوہ بھی کئی فضیلتوں کا حامل ہیں؛ منجملہ، جب حضورؐ نے اصحاب کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا تو علیؑ سے فرمایا اے علیؑ آپؑ میرے بھائی ہیں، آپؐ نے مزید فرمایا: اے علیؑ تہماری میرے ساتھ وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی؛ اور مام پر فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہیں، اے اللہ جو اس کے ساتھ دوستی رکھے تو بھی اس سے دوستی رکھ اور جس نے اس کے ساتھ دشمنی کی تو بھی اس سے دشمنی کر، جس وقت انس نے بھنی ہوئی مرغی آپؐ کے سامنے پیش کی تو آپؐ نے یوں دعا کی: اے میرے اللہ میرا محبوبترین بندہ میرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ یہ بھنی ہوئی مرغی تناول کرے، اتنے میں علیؑ پیغمبر ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔۔۔اس کے علاوہ کئی اور فضیلتیں بھی ہیں جو علیؑ کے علاوہ کسی اور میں نہیں تھیں»

مسعودی، مروج الذهب، ترجمه ابوالقاسم پاینده، ج 1، ص785

مسعودی کا مذہب

قدیم شیعہ مآخذ کے مصنفین اور زیادہ تر معاصر محققین اور مصنفین مسعودی کو شیعہ مانتے ہیں بلکہ انہیں امامیہ بھی تسلیم کرتے ہیں۔ تاہم بعض محققین مسعودی کو شیعہ نہیں مانتے اور اپنے اس مدعا کو ثابت کرنے کے لیے ان کی کتابوں سے ثبوت بھی پیش کرتے ہیں۔ بظاہر پہلی بار شیعہ مصنفین میں سے کتاب "مقامع الفضل" کے مصنف محمد علی کرمانشاہی نے مسعودی کی شیعیت پر شک و تردید کی ہے۔[14]

اہل سنت کے ہاں بھی مسعودی کے مذہب کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے؛ بعض اہل سنت انہیں معتزلی،[15] بعض حضرات انہیں شافعی مذہب اور کچھ لوگ انہیں شیعہ مانتے ہیں۔ ابن حجر عسقلانی نے مسعودی کو ان کی کتابوں کی طرز تحریر سے شیعہ معتزلی مانا ہے۔ متاخر کتاب شناس اسماعیل پاشا بغدادی نے بھی اپنی کتابوں میں مسعودی کو شیعہ مانا ہے۔ نیز بعض اہل سنت مصنفین اور مستشرقین بھی مسعودی کو شیعہ مانتے ہیں۔

مسعودی کو شیعہ ماننے والے اور اس کی تردید کرنے دونوں کے پاس دلائل موجود ہیں:

یہاں مسعودی کو شیعہ ماننے والوں کے دلائل اور مخالفین کی جانب سے اس پر نقد کو ذکر کیا جائے گا:

مسعودی کو شیعہ ماننے والوں کے دلائل

  • شیعہ رجالی منابع میں مسعودی شیعہ کے عنوان سے معروف ہیں

نجاشی نے اپنی اہم شیعہ رجالی کتاب "فہرست اسماء مصنفی الشیعہ" میں مسعودی کے نام کے ساتھ ان کے متعدد قلمی آثار کا ذکر بھی کیا ہے۔[16] بعد میں آنے والے علمائے رجال نے بھی نجاشی کی پیروی کی ہے اور مسعودی کو رجال شیعی میں سے قرار دیا ہے۔[17]مسعودی کی شیعیت ثابت کرنے کے سلسلے میں نجاشی کی رائے بنیادی دلیل شمار ہوتی ہے کیونکہ نجاشی زمان کے لحاظ سے مسعودی سے نزدیکترین فرد شمار ہوتے ہیں اور ان کی رائے شیعہ علمائے رجال کے نزدیک معتبر سمجھی جاتی ہے۔[18]

  • مسعودی کے موجودہ قلمی آثار ان کی شیعیت پر گواہی ہیںمانند:

1-مسعودی نے اپنی کتاب مروج الذہب میں نور الہی اور وصایت سابقہ انبیاء سے پیغمبر خاتم تک اور آپؐ سے اماموں میں منتقل ہونے کی بات کی ہے[19] 2- مسعودی نے حضرت علیؑ کو باقی اصحاب پیغمبرؐ سے افضل اور برتر جانا ہے [20] 3- مسعودی حضرت علیؑ کی ولادت کعبہ میں ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں[21]

  • مسعودی کی بعض کتابوں میں شیعہ مذہب سے ہماہنگ مطالب موجود ہیں

مسعودی نے کچھ ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں شیعہ مذہب سے ہماہنگ مطالب موجود ہیں اگرچہ اس طرح کی اصل کتب ہمارے پاس نہیں لیکن ان کے ناموں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسعودی شیعہ تھے۔ جیسے «مزاهر الاخبار و طرائف الآثار للصفوة النوریة و الذریة الزکیة و ابواب الرحمة و ینابیع الحکمة»[22]، «الصفوة فی الامامة»، «الهدایة الی تحقیق الولایة»[23]، «البیان فی اسماء الائمه»[24] و «الاستبصار فی الامامه» وغیرہ۔[25].

شیعیت مسعودی کے مخالف گروہ کے دلائل

مسعودی کو شیعہ ماننے سے انکار کرنے والوں نے اپنے مدعا پر یہ دلائل پیش کیے ہیں:

مسعودی کی شیعیت کے مخالفین مذکورہ دلائل کی رو سے انہیں شافعی مذہب مانتے ہیں۔[28]

دونوں فریقین کے دلائل کا تنقیدی جائزہ

مخالفین کے دلائل پر نقد مسعودی کو شیعہ ماننے سے انکار کرنے والوں کے دلائل پر تنقید کرتے ہوئے انہیں شیعہ ماننے والا فریق کہتا ہے: اگرچہ مسعودی نے تاریخ نگاری کے سیاق اور اس کے رائج اصول کی رعایت کرتے ہوئے خلافت کی تاریخ کا خلفائے ثلاثہ سےآغاز کیا، یا انہوں نے ابوبکر اور عمر کی تعریف کی، لیکن مسعودی نے بعض امور میں تنقید کرنے سے کبھی غافل نہیں رہے۔ دوسری طرف، پہلے دو خلفاء کی زاہدانہ طرز زندگی کی وجہ سے ان کی تعریف حضرت عثمان، ان کے حکومتی ملازمین اور باقی بنی امیہ کی زر اندوزانہ سیرت کے تناظر میں تھی۔ ان پر مسعودی نے کھل کراعتراض کیا ہے۔[29] یہ بھی ممکن ہے کہ مسعودی مروج الذہب لکھنے کے دوران سنی تھے اور بعد میں شیعیت قبول کی ہو۔[30]

مسعودی کو شیعہ ماننے والوں کے دلائل پر نقد

مسعودی کی شیعیت کے مخالفین ان کی شیعیت کے حامیوں کے دلائل پر اس طرح نقد کرتے ہیں: نجاشی نے مسعودی کے بارے میں اظہار رائے کرتے ہوئے انہیں شیعہ مانا ہے یہ مسعودی کی درست اور دقیق شناخت نہ رکھنے کی وجہ سے ہے۔ اسی وجہ سے ان کے بارے میں "هذا الرجل" کی تعبیر استعمال کی ہے اور ان کی تاریخ وفات کے بارے میں علم نہیں رکھتے تھے۔[31]

اسی طرح مسعودی کی کتابوں میں شیعہ عقائد سے ہماہنگ مطالب کا پایا جانا ان کے شیعہ ہونے پر کوئی مضبوط دلیل نہیں؛ کیونکہ یہ کتابیں ہمارے دسترس میں نہیں اور ان کے مندرجات سے ہم ناواقف ہیں۔[32]

حوالہ جات

  1. مسعودی، مروج الذهب، ج2، ص38
  2. ذهبی، تاریخ الاسلام، ج25، ص340
  3. ذهبی، تاریخ الاسلام، ج25، ص340
  4. مسعودی، التنبیه و الاشراف، ص136
  5. مهدوی دامغانی، ابوالحسین علی بن حسین مسعودی و برخی از آثار او، ص100
  6. عسگری، مسعودی و التنبیه و الاشراف، ص89
  7. عسگری، مسعودی و التنبیه و الاشراف، ص88
  8. مسعودی، مروج الذهب، ج1، ص 17-18
  9. ملاحظہ کریں: مسعودی، اثبات الوصیه، از ص13 به بعد
  10. نجاشی، رجال، ص254؛ ابن داود، رجال، 241-242؛ طهرانی، الذریعه، ج1، ص110.
  11. جعفریان، منابع تاریخ اسلام، ص؛ شبیری زنجانی، اثبات الوصیه و مسعودی صاحب مروج الذهب، ص217-219؛ حمود، کتابشناسی مسعودی، ص92
  12. حمود، کتابشناسی مسعودی، ص86-92
  13. جعفریان، منابع تاریخ اسلام، ص177-178؛ منتظری مقدم، مکتب تاریخی مسعودی، ص63-66؛ ولوی، ویژگی‌ها و روش تاریخ‌نگاری مسعودی؛ 27-31
  14. مهدوی دامغانی، بوالحسن علی بن حسین مسعودی و برخی از آثار او، ص103.
  15. ذهبی، تاریخ الاسلام، ج25، ص341
  16. نجاشی، رجال النجاشی، ص254
  17. ابن داود، رجال ابن داود، ص390؛ حلی، الخلاصه، ص100؛ خویی، معم رجال حدیث، ج11، ص366
  18. مهدوی دامغانی، ابو الحسن علی بن حسین مسعودی، ص101
  19. مسعودی، مروج الذهب، ترجمه ابوالقاسم پاینده، ج 1، ص23
  20. مسعودی، مروج الذهب، ترجمه ابوالقاسم پاینده، ج1، ص785
  21. مهدوی دامغانی، ابوالحسن علی بن حسین مسعودی و برخی از آثار او، ص107
  22. طهرانی، الذریعه، ج20، ص327
  23. نجاشی، رجال النجاشی، ص254
  24. طهرانی، الذریعه، ج3، ص172
  25. طهرانی، الذریعه، ج2، ص13
  26. کرمانشاهی، مقامع الفضل، ج2، ص383
  27. شبیری زنجانی، اثبات الوصیة و مسعودی صاحب مروج الذهب، ص210
  28. شبیری زنجانی، اثبات الوصیة و مسعودی صاحب مروج الذهب، ص214-215
  29. منتظری مقدم، مکتب تاریخی مسعودی، ص69-71
  30. کرمانشاهی، مقامع الفضل، ج2، ص383
  31. شبیری زنجانی، اثبات الوصیة و مسعودی صاحب مروج الذهب، ص207-208
  32. شبیری زنجانی، اثبات الوصیة و مسعودی صاحب مروج الذهب، ص212

مآخذ

  • حلی، ابن داود، رجال ابن داود، تهران، انتشارات دانشگاه تهران، 1383ہجری شمسی۔
  • حلی، حسن بن یوسف، خلاصه الرجال، قم،‌ دار الذخائر، 1411ھ.
  • حمود، هادی حسین،کتابشناسی مسعودی، ترجمه علینقیان، کتاب ماه تاریخ و جغرافیا، شماره 133، خرداد 1388ہجری شمسی۔
  • خویی، ابو القاسم، معجم الرجال الحدیث، قم، نشر آثار شیعه، 1410ھ.
  • ذهبی، شمس الدین محمد بن احمد، تاریخ الاسلام، تحقیق عبدالسلام تدمری، بیروت،‌ دار الکتاب العربی، 1413ھ۔
  • شبیری زنجانی، سید محمدحسین،اثبات الوصیه و مسعودی صاحب مروج الذهب، مجله انتظار موعود، شماره 4، تابستان1381ہجری شمسی۔
  • طهرانی، آقا بزرگ، الذریعه الی تصانیف الشیعه، اسماعیلیان قم و کتابخانه اسلامیه تهران، بی‌تا
  • عسگری، علیرضا، مسعودی و التنبیه و الاشراف، مقالات و بررسی‌ها، شماره 62، زمستان 1376ہجری شمسی۔
  • کرمانشاهی، آقا محمد علی، مقامع الفضل، قم، موسسه العلامه المجدد الوحید البهبهانی،
  • مسعودی، علی بن الحسین، اثبات الوصیه، قم، انصاریان، 1426ھ۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذهب، تحقیق اسعد داغر، قم،‌ دار الهجره 1409ھ۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذهب، ترجمه ابو القاسم پاینده، انتشارات علمی و فرهنگی، 1374ہجری شمسی۔
  • منتظری مقدم، حامد، مکتب تاریخی مسعودی، کیهان اندیشه، شماره 71، فروردین 76۔
  • مهدوی دامغانی، محمود، ابوالحسن علی بن حسین مسعودی و برخی از آثار او، مجله مطالعات اسلامی، شماره12، پاییز1353ہجری شمسی۔
  • نجاشی، احمد بن علی، قم، جامعه مدرسین، 1407ھ.