سکینہ بنت الحسینواقعہ کربلا میں موجود تھیں اور والد کی شہادت کے بعد اسراء کربلا کے ساتھ آپ کوفہ اور شام اسیر بنا کر لے جائی گئیں۔
آپ نے اپنے والد سے روایت بھی نقل کی ہے۔ بعض تاریخی گزارشات کے مطابق سکینہ بعض عرب شاعروں کے اشعار کی اصلاح کرتی تھیں اور حضرت امام حسینؑ کے لئے بعض مرثیے بھی آپ نے پڑھے ہیں۔
آپ کی شادی اور جہاں وفات پائی ہیں اس جگہ کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ آپ کی جائے دفن کو مدینہ، مصر اور دمشق لکھا گیا ہے۔ اسی طرح بعض شیعہ فقہاء نے آپ کی مصعب بن زبیر سے شادی کو دلیل بنا کر شیعہ عورتوں کا دیگر مسلمانوں سے شادی کرنا جائز قرار دیا ہے۔
بعض منابع میں غزل خوانی اور شاعری کی نسبت آپ کی طرف دی ہے البتہ ایسی نسبت کو جعلی اور دشمن اہل بیت کی طرف سے لگائی گئی الزام قرار دیا ہے اور اسی طرح سے آپ اور سکینہ بنت خالد کے درمیان اشتباہ کو ایسے الزام کا باعث قرار دیا ہے۔
سکینہ بنت امام حسینؑ، رباب بنت امرؤ القیس سے تھی۔[1] آپ کا نام آمنہ، امینہ اور امیمہ ذکر ہوا ہے اور کہا گیا ہے کہ سکون، آرامی اور وقار کی مالک تھی اس لئے ماں نے انہیں سکینہ کا لقب دیا تھا۔[2] تاریخی کتابوں میں آپ کی تاریخ ولادت معین نہیں ہے لیکن انہیں اپنی بہن فاطمہ سے چھوٹی ہونے کا کہا گیا ہے۔[3] تاریخی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جب امام حسینؑ نے کربلا یک جانب حرکت کی تو آپ بالغ اور شادی کے عمر میں تھیں کیونکہ اس سے پہلے حسن مثنی نے امام حسینؑ کی ایک بیٹی کا رشتہ مانگا اور امام نے اسے سکینہ اور فاطمہ میں سے ایک کو انتخاب کرنے کا اختیار دیا تھا۔[4]
امام حسین (ع) سکینہ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے بعض مآخذ میں ان کی اس محبت کی عکاسی کرتے ہوئے منقول ہے کہ امامؑ نے حضرت سکینہ کی محبت میں درج ذیل اشعار کہے ہیں:
لعمرک انّنی لاُحبّ داراً
تکون بها سکینه و الرّباب
أحبّهما و أبذل جلّ مالی
و لیس لعاتب عندی عتاب
ترجمہ: تمہاری جان کی قسم! میں اس گھر کو زیادہ چاہتا ہوں جسمیں سکینہ اور رباب ہوں، ان دونوں کو چاہتا ہوں اور اپنے مال کو اس راستے پر خرچ کرتا ہوں اور کوئی اس میں میری سرزنش نہیں کرسکتا ہے۔[5]
آپ کی شادی کے بارے میں بھی مورخین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ امام حسینؑ نے آپ کی شادی آپ کے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن حسن سے کی لیکن؛[6] لیکن شیخ مفید نے عبد اللہ بن حسن کو واقعہ کربلا میں ایک نابالغ اور شادی کی عمر تک نہ پہنچا ہوا بچہ کے طور پر بیان کیا ہے۔[7]
بعض مآخذ میں مصعب بن زبیر کا نام ذکر ہوا ہے۔[11] کتاب الطبقات الکبری و الاعلام میں آیا ہے کہ مصعب قتل ہونے کے بعد سکینہ نے عبداللہ بن عثمان سے شادی کی اور عبداللہ مرنے کے بعد زید بن عمر بن عثمان بن عفان نے ان سے شادی کی۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ سکینہ نے اپنی عمر کے آخری ایام میں اصبغ بن عبدالعزیز سے شادی کی ہے۔[12] بعض شیعہ فقہاء نے سکینہ کی مصعب سے شادی یہ استفادہ کیا ہے کہ شیعہ لڑکی غیر شیعہ مسلمانوں سے شادی کر سکتی ہیں۔[13]
اہل سنت کی کتابوں میں سکینہ سے جو بہت ساری شادیوں کی نسبت دی ہے انہیں بعض مورخین نے رد کیا ہے؛ کیونکہ ان میں سے بعض ایسے افراد کے نام ذکر ہوئے ہیں جو اہل بیت کے دشمن تھے اور ایسے شخص سے سکینہ کا شادی کرنا بعید ہے۔ ان کتابوں میں آیا ہے کہ سکینہ نے عبداللہ بن حسن سے شادی کے بعد کسی اور سے شادی نہیں کی ہے۔[14] اسی طرح سکینہ کی متعدد شادیوں کے بارے میں کہا ہے کہ صدرِ اسلام میں یہ رسم تھی کہ شوہر مرنے کے بعد عورتیں بغیر شوہر کے نہیں رہتی تھیں اور دوبارہ سے شادی کرنا ایک فطری اور عام سی بات تھی۔[15] بعض نے سکینہ کا حسب ونسب اور سماجی حیثیت کو متعدد شادیوں کی علت قرار دیا ہے۔[16] اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ امام حسینؑ کی بیٹیوں کے شوہر وفات ہونے کے بعد بنی امیہ کے حکمران ان کا رشتہ مانگتے تھے اور دشمنِ اہل بیت کا رشتہ ٹھکرانے کے لئے کسی اور سے شادی کرتی تھیں۔[17]
کربلا میں موجودگی
مقاتل کی کتابوں کے مطابق سکینہ واقعہ کربلا میں موجود تھیں اور انہی منابع کے مطابق روز عاشورا، امام حسین (ع) میدان جنگ سے آخری مرتبہ خدا حافظی کیلئے آئے اور ان سے وداع کیا پھر سکینہ کے پاس گئے جو خیمہ کے ایک کونے میں گریہ کر رہی تھیں آپ نے ان سے صبر کرنے کو کہا اور گود میں لیا ان کی آنکھوں سے آنسوں صاف کئے اور یہ اشعار پڑھے:
سیطول بعدی یا سکینة فاعلمی
منک البکاء اذا الحمام دهانی
لا تحرقی قلبی بدمعک حسرة
مادام منی الروح فی جثمانی
فاذا قتلت فانت اولی بالذی
تبکینه یا خیرة النسوان
ترجمہ: اے سکینہ! جان لو کہ میرے بعد تمہارا گریہ زیادہ طولانی ہوگا۔ پس جب تک تمہارے باپ کے جسم میں جان ہے اپنی ان حسرت بھری آنکھوں کے آنسؤں سے ان کا دل مت جلاؤ۔ اے خیر النساء! میرے مرنے کے بعد اب رونا تمہارے لئے شایستہ ہے۔[18]
اسیری کے ایام
واقعۂ عاشورا کے بعد حضرت سکینہ بھی دیگر اسرائے آل محمد کے ساتھ اسیر ہو کر کربلا سے کوفہ اور شام گئیں۔ صحابی پیغمبر اسلامؐسہل بن سعد ساعدی سے روایت ہوئی ہے کہ جب اسراء شام میں باب الساعات پر پہنچا تو ایک بچی کو دیکھا جو بے کجاوہ اونٹ پر سوار تھی؛ اس نے اپنے کو سکینہ بنت الحسین سے معرفی کیا اور مجھے کسی خاندان رسالت کی حرمت کی پاسداری کے لیے کچھ کروں تاکہ شہدائے کربلا کے سروں کو نیزوں پر اٹھائے ہوئے نیزہ بردار، اسراء سے کچھ دور جائیں۔ سہل کہتا ہے کہ میں نے کچھ دینار دیکر ان کو کچھ دور کیا۔[19] بعض منابع میں سکینہ سے دمشق ایک خواب نقل ہوا ہے کہ جس میں پیغمبر اکرمؐ بعض دیگر انبیاءؑ کے ہمراہ اور فاطمہ زہراؑ کچھ بہشتی خواتین کے ہمراہ امام حسینؑ کا خونی قمیص ہاتھ میں لئے ہوئے کربلا جا رہے ہیں۔[20]
سماجی، علمی اور معنوی خصوصیات
حضرت سکینہ کو اپنے زمانے کی سب سے نیک، عاقل، خوبصورت، متقی، عقلمند، خوش اخلاق اور بزرگ خاتون شمار کی جاتی ہے۔[21] فضل و کمال میں اس حد تک پہنچی ہوئیں تھیں کہ امام حسینؑ نے ان کے بارے میں فرمایا تھا وہ اکثر ذات حق میں غرق رہتی ہے [22]
سکینہ کی سخاوت کا بھی بعض تاریخی کتابوں میں ذکر ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے بھائی علی ابن الحسینؑ کے حج کے پورے اخراجات آپ نے دیئے۔[23]
احادیث اور رجال کی کتابوں میں انہیں موثق راوی کے طور پر جانا گیا ہے، کوفہ والے آپ سے روایت نقل کرتے تھے۔[24] سکینہ اور ان کی بہن فاطمہ دونوں ان کے والد گرامی امام حسینؑ سے روایت نقل کرنے والے راویوں میں سے شمار ہوتی ہیں۔[25] اور عبیداللہ بن ابیارفع، فائد مدنی، سکینہ دختر اسماعیل بن ابی خالد اور سکینہ دختر قاضی ابیذر نے آپ سے روایت نقل کی ہیں۔[26]
اسی طرح عربی ادب اور اشعار پر بھی آپ کو کمال کا عبور حاصل تھا اور گزارشات میں آیا ہے کہ آپ نے واقعہ کربلا کو شعر کے قابل میں اور امام حسینؑ کے بارے میں مرثیے آپ کے مشہور ہیں اور مندرجہ ذیل اشعار بھی انہی اشعار میں سے ہیں:
لا تعذلیه فهم قاطع طرقه
فغینه بدموع ذرف غدفه
ان الحسین غداة الطف یرشقه
ریب المنون فما ان یخطی الحدقه
بکف شر عبادالله کلهم
نسل البغایا و جیش المرق الفسقه
یا امة السوء هاتوا ما احتجاجکم
غذا و جلکم بالسیف قد صفقه
ترجمہ: جو راستے سے بھٹک گیا ہے اس کی مذمت نہ کرنا، کیونکہ آنکھوں سے اشک بہت جاری ہوتے ہیں۔ عاشورا کے دن ایک تیر امام حسینؑ کی جانب چلا جو کبھی خطا نہ کر جاتا اور امام سجادؑ کی انکھوں سے کبھی دور نہیں ہوتا۔ یہ کام ان لوگوں کے ہاتھوں انجام پایا جو بدترین لوگ، حرام زادے اور دین سے خارج تھے۔ اے بدترین لوگ قیامت میں دلیل قائم کرو جبکہ تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں کیونکہ تم سب نے تلوار سے اس قتل کیا ہے۔[27]
عربی ادب پر آپ کو اتنا تسلط حاصل تھا کہ عربی معروف شاعر فرزدق، جریر، کثیر، نصیب اور جمیل اپنے اشعار کو پرکھنے کے لیے آپ کے پاس لے آتے تھے تاکہ اصلاح ہوسکے۔[28]
بعض اہل سنت کی کتابوں میں سکینہ بن الحسینؑ کے بارے میں کچھ ایسی باتیں نسب دی گئی ہیں کہ دوسری طرف کے مورخین انہیں رد کرتے ہیں۔ ابوالفرج اصفہانی کہتا ہے کہ سکینہ غزل اور اشعار پڑھتی تھی۔[29]
ابوالفرج اصفہانی نے ان ناروا نسبتوں کو زبیر بن بکار کے توسط سے نقل کیا ہے جو بنی ہاشم سے دشمنی میں مشہور تھا۔[30] اسی طرح اس روایت کی سلسلہ سند میں عم سخت عداوت رکھتا تھا۔ نقل ہوا ہے کہ متوکل کے زمانے میں جب لوگوں نے اہل بیت سے متعلق اس طرح کی جھوٹی حکایتیں منسور کرنے والے کو قتل کرنا چاہا تو وہ مکہ سے فرار ہو کر بغداد میں سکونت اختیار کر لی۔ اس کے علاوہ ان روایات کے سلسلۂ سند میں عمر بن ابی بکر مؤملی بھی موجود ہے جو روایات نقل کرنے میں اس حد تک ضعیف ہے کہ بعض اہل سنت علما بھی اسکی روایات قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں۔[31] یہاں تک کہ اسے فتنوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔[32]
اس کے علاوہ آپ کی طرف نسبت دیئے جانے والے بہت سے اشعار حقیقت میں سکینہ بنت خالد بن مصعب زبیری کے ہیں۔ جس کی عمر بن ابی ربیعہ سے ملاقاتیں اور بلوائے عام میں شعر و شاعری کا چرچا مشہور و معروف ہے۔ یوں صرف نام ایک جیسا ہونے کی وجہ سے بعض نے غلطی یا جان بوجھ کر بہت سے اشعار آپ کی جانب منسوب کر دیئے گئے ہیں حالانکہ وہ حقیقت میں سکینہ بنت خالد بن مصعب زبیری کے تھے۔ اسی طرح بہت سارے عمومی اجتماعات جن کی نسبت آپ کی طرف دی گئی ہیں وہ بھی حقیقت میں مصعب بن زبیر کی بیوی عائشہ بنت طلحہ بن عبید اللہ کی سرپرستی میں برقرار ہوتی تھیں جو عمر بن ربیعہ کے ہمراہ شعر و شاعری اور غزل سرائی میں شہرت رکھتی تھی۔[33]
وفات
آپ اسراء کے کاروان کے ساتھ مدینے لوٹ آئی اور وفات تک مدینے میں رہی، تاریخی منابع میں اس بارے کوئی خاص بات ذکر نہیں صرف بعض علمی مناظروں کا ذکر آیا ہے۔[34] آپ کی وفات اور مقام وفات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض منابع کے مطابق 5 ربیع الاول 117 ھ کو مدینہ میں وفات پائی۔[35] بعض منابع کے مطابق خالد بن عبد اللہ (وقت کے حاکم) نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔[36]
اور بعض نے کہا ہے کہ اصبغ بن عبد العزیز سے شادی کے بعد مصر جاتے ہوئے دمشق میں فوت ہوئیں[37] اس لحاظ سے باب الصغیر نامی قبرستان میں ایک قبر سکینہ کے نام سے منسوب ہے [38]۔ لیکن بعض نے کہا ہے کہ اصبغ بن عبدالعزیز سے شادی کر کے مصر گئی اور وہاں پر مدفون ہیں اور قاہرہ میں ایک مزار سکینہ بنت الحسین کے نام سے منسوب ہے۔[39]
مونوگراف
آپ کے بارے میں مختلف زبانوں میں مختلف کتابوں میں مطالب لکھے گئے ہیں اور مستقل کتاب کی شکل میں عربی زیان میں «سکینہ بنت الامامالحسین (ع)» بقلم علی محمد علی دخیل، انتشارات موسسہ اہل البیت (ع) سے 1979ء کو بیروت لبنان سے چھپی۔ اور اس کتاب کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے 1363 ش میں طبع ہوئے ہیں۔