جنوبی افریقہ
![]() | |||
| |||
عام معلومات | |||
---|---|---|---|
کل آبادی | 62,027,503 نفر(سنہ 2022ء کے مطابق) | ||
رقبہ | 1,221,037مربع کلومیٹر | ||
سرکاری زبان | افریقی، انگریزی | ||
پارٹیاں اور شیعہ گروہ | |||
فرقے | اسماعیلی، اثنا عشری و خوجہ اثنا عشری | ||
شیعہ مراکز | |||
علمی مراکز | اہل بیتؑ اسلامی مرکز | ||
زیارتگاہیں | کیپ ٹاؤن میں مقبره محمد حسین غریب شاه | ||
مساجد | کیپ ٹاؤن میں مسجد اہل بیتؑ، ڈربن میں مسجد اہل بیت اور مسجد امام حسینؑ، گوئٹے مالا میں مسجد المصطفی | ||
امام بارگاہ | جوہانسبرگ میں امام بارگاہ شیعیان پاکستان | ||
شیعہ علاوے | کیپ ٹاؤن، جوہانسبرگ، پریٹوریا، کرونسٹڈ، بلومفونٹین، پیٹرزبرگ، ڈربن اور پورٹ الزبتھ | ||
شیعہ شخصیات | |||
مذہبی | شيخ عبد الله كازينگاتی | ||
اجتماعی | سید آفتاب حیدر رضوی |
جنوبی افریقہ براعظم افریقہ کا انتہائی جنوبی ملک ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 10 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ مقامی شیعہ، پاکستان، کشمیر، لبنان اور ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے شیعہ افراد، خوجا اثنا عشری کے ساتھ ساتھ اسماعیلیوں کی ایک جماعت، اس ملک میں شیعہ آبادی کو تشکیل دیتے ہیں۔ ایسوسی ایشن فار ریلیجن اینڈ پبلک لائف (PEW) نامی ادارے نے سنہ 2009ء میں جنوبی افریقہ میں شیعوں کی تعداد 73,000 بتائی ہے۔ کہتے ہیں کہ اس ملک میں شیعیت کی تاریخ 16ویں صدی عیسوی میں شیخ محمد حسین غیب شاہ کی ہندوستان سے یہاں ہجرت سے جاملتی ہے۔
جغرافیائی معلومات
جنوبی افریقہ افریقی براعظم کے انتہائی جنوبی حصے میں واقع ہے۔ اس ملک کی سرحد شمال مغرب میں نمیبیا، شمال میں بوٹسوانا اور زمبابوے، شمال مشرق میں موزمبیق اور مشرق میں سوازی لینڈ (اسواتینی) کا ہمسایہ ہے۔ اس ملک کو جنوب اور جنوب مغرب میں بحر اوقیانوس اور جنوب مشرق میں بحر ہند نے گھیرا ہوا ہے۔

ملک کی 75% آبادی سیاہ فام ہے، تقریباً 14% سفید فام ہیں (جن میں سے 60% افریقی نسل کے ہیں، جن میں سے زیادہ تر برطانوی نسل کے ہیں)، 3% ہندو، اور 8% مخلوط نسل کے ہیں۔[1]
جنوبی افریقہ نے سنہ 1910ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور سنہ 1960ء میں انتخابات کے بعد ایک جمہوریہ بن گیا۔ ملک کے نو (نیم خود مختار) صوبے ہیں، جن میں پریٹوریا دارالحکومت اور سیاسی مرکز، کیپ ٹاؤن قانون ساز مرکز اور بلومفونٹین عدالتی امور کا مرکز ہے۔
ادیان
جنوبی افریقہ میں عیسائیوں کی آبادی 80 فیصد، مسلمانوں کی 2 فیصد(10 لاکھ سے زیادہ)، یہودیوں کی 1 فیصد آبادی ہے اور باقی یا کسی دین و مذہب کے بغیر ہیں یا مقامی رسومات کی پیروی کرتے ہیں۔[2]
اسلام
جنوبی افریقہ میں مقیم پہلے مسلمان دو ساحلی علاقوں سے ٹرانسوال آئے: پہلا گروہ انڈونیشیائی اور ملائیشیا کے جزیرے سے راس امید (انگریزی: Cape of Good Hope) پہنچا اور پھر اس ملک میں بسنا شروع کیا۔ دوسرا گروہ برصغیر پاک و ہند سے نتال پہنچا۔ اس ملک کے مسلمان افریقی نیشنل کانگریس پارٹی کے سرگرم حمایتی ہیں اور نسل پرستی کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔[3]
اس ملک کے مسلمان زیادہ تر کیپ ٹاؤن، ڈربن، جوہانسبرگ اور پریٹوریا کے شہروں میں رہتے ہیں اور ان میں سے چند ایک اقتصادی اعتبار سے مضبوط اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، جو ملک کے سیاسی، سماجی اور کسی حد تک معاشی منظر نامے میں نسبتاً اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
سنہ 1994ء کے آزادانہ انتخابات کے بعد، سیاہ فاموں کے ساتھ نسل پرستی کے خلاف جدوجہد میں مسلمانوں کے کردار اور افریقی نیشنل کانگریس (ANC) اور پین افریقی کانگریس (PAC) کے ساتھ کچھ مسلم شخصیات کے قریبی تعاون کو دیکھتے ہوئے، مسلمانوں نے ملک کے سیاسی منظر نامے میں زیادہ فعال کردار ادا کرنا شروع کیا۔ اس کے ساتھ ہی، نئے ماحول میں، ملک کی مسلم کمیونٹی کے اندر بڑی تعداد میں سیاسی اور مذہبی تنظیمیں تشکیل دی گئیں، اس وقت ملک بھر میں مسلمانوں کے زیر اہتمام 455 مساجد، 463 تنظیمیں اور ادارہ جات، 408 تعلیمی مراکز، 5 مقامی ریڈیو اسٹیشن اور 5 اسلامی ماہانہ مجلات ہیں۔[4]
تشیع

جنوبی افریقہ میں شیعیت کی تاریخ سات صدیوں پرانی ہے، جب شیخ محمد حسین غیب شاہ (یا غریب شاہ) سمندری راستے کے ذریعے نو ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد ہندوستان سے جوہانسبرگ پہنچے اور اس شہر میں اسلام اور شیعہ تعلیمات کی تبلیغ شروع کی۔[5]
عصر حاضر میں تشیع
اس ملک میں باقاعدہ طور پر شیعہ تحریک کے بانی مرحوم اسماعیل جوبرٹ ہیں، جو مصری نژاد شاعر اور مصنف ہیں۔ انہوں نے سنہ 1979ء میں شیعہ مذہب اختیار کیا اور "اسلامی جہاد گروپ" کی بنیاد رکھی۔ اسماعیل جوبرٹ نے پھر کیپ ٹاؤن کے آس پاس کی سیاہ فام بستیوں میں رہنے والے کچھ سیاہ فام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرکے اپنے پیروکاروں کی تعداد 50 سے زیادہ کردی۔ اس گروہ کی سرگرمی کا ابتدائی مرکز بنیادی طور پر کیپ ٹاؤن کے مضافات میں گوگولیٹا کی سیاہ بستی میں تھا اور شہر کی مسجد میں ہر ہفتے جمعہ کی نماز، تلاوت دعائے کمیل اور دیگرمذہبی پروگرامز منعقد کیے جاتے تھے۔[6]
اسماعیل جوبرٹ، اپارتھائیڈ نامی سیاسی نظام(جس کی بنیاد پر لوگوں کو نسلی اعتبار سے تقسیم کیا جاتا تھا) کا سخت مخالف تھا۔ وہ اپنے مخاطبین کو نسل پرست حکومت کے خلاف لڑنے کی ترغیب دینے کے لیے اکثر جہاد اور شہادت کے الفاظ استعمال کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ غیر مسلم بھی اس کے اور اس کے حامیوں کے الفاظ اور سرگرمیوں سے متاثر ہوئے اور انہوں نے اسٹیفن بنٹو بائیکو جیسے لوگوں کے لیے ’’شہید‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال کرنا شروع کیا۔ بتدریج جہاد کی اصطلاح کو وسیع تر معنوں میں استعمال کیا گیا، یہاں تک کہ خواتین کے حقوق کی بحالی کے ساتھ ساتھ نسلی مساوات اور معاشی اور سماجی مساوات کے لیے بھی جہاد کا لفظ استعمال کیا گیا۔ بالآخر، جنوبی افریقہ کے لوگوں کے درمیان، دو الفاظ "شہادت" اور "جہاد" انصاف اور مساوات کے معنی دینے لگے۔ اگرچہ اسلام کو کئی سال پہلے جلاوطن مسلمانوں نے جنوبی افریقہ میں لایا تھا، لیکن اسلامی انقلاب کے بعد اس خطے میں شیعیت کا بیج بویا گیا تھا۔[7]
جنوبی افریقہ کے موجودہ دور کے مقامی شیعہ نے پچھلی تین دہائیوں کے دوران مذہب تشیع اختیار کیا ہے۔ ان کے علاوہ پاکستان، کشمیر، لبنان اور ہندوستان سے بھی شیعہ اس ملک میں ہجرت کر چکے ہیں۔ آج، شیعہ زیادہ تر کیپ ٹاؤن، جوہانسبرگ، پریٹوریا، کرونسٹڈ، بلومفونٹین، پیٹرزبرگ، ڈربن اور پورٹ الزبتھ میں موجود ہیں۔ متعدد خوجہ اثنا عشری کے ساتھ ساتھ اسماعیلیوں (بہرہ اور آغاخانی) کا ایک گروہ بھی اس ملک میں قیام پذیر ہے۔

شیعوں کی آبادی
ایسوسی ایشن فار ریلیجن اینڈ پبلک لائف (PEW انسٹیٹیوٹ) کے اعداد و شمار کے مطابق، سنہ 2009ء میں جنوبی افریقہ میں شیعہ آبادی کا تخمینہ 73,000 لگایا گیا تھا۔[8]
شیعہ برجستہ شخصیات
- سید آفتاب حیدر رضوی: کیپ ٹاؤن میں اہل بیت(ع) فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر۔
- شيخ عبد اللہ كازينگاتی، جامعۃ المصطفی العالمیۃ کا سابق طالب علم۔
- شیخ شعیب بولی
- شیخ احمد قاسم
شیعہ مراکز
جنوبی افریقہ میں بعض شیعہ مراکز درج ذیل ہیں:
- جوہانسبرگ شہر میں جوہانسبرگ اسلامی مرکز(Islamic Center of Johannesburg)
- اہل بیت فاؤنڈیشن (AFOSA) جکی سنہ 1991ء میں کیپ ٹاؤن میں بنیاد رکھی گئی۔ یہ تنظیم شیعوں کی جانب سے انجام دی جانے والی فعالیتوں کو منظم کرتی ہے اور دیگر ادارہ جات اسی تنظیم کے زیر نظر کام کرتے ہیں۔
- اہل بیت انسٹیٹیوٹ ڈربن۔
- المصطفی (ص) اسلامی مرکز: یہ مرکز گوئٹے مالا میں جوہانسبرگ سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
- اسلامی مرکز «گوگولوتہ»
- جوہانسبرگ شہر میں پاکستانی شیعوں کی تنظیم اسلامی مركز اور امام بارگاہ باب العلم۔
یہ مرکز شہر کی سب سے اہم شیعہ تنظیم ہے جس کے ارکان کی تعداد 400 سے زیادہ ہے اور وہ عموماً جوان اور کاروباری طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پچھلے سالوں میں، یہ مرکز جنوبی افریقہ کے مرکز اہل بیت سے منسلک تھا اور اس مرکز کے پاکستانی عالم دین (حجت الاسلام فرمان علی) بھی سید آفتاب حیدر سے رابطے میں تھے اور وہ اہم دینی مسائل یا مجتہدین اور علماء کے فتؤوں کے سلسلے میں باہمی مشورے کرتے تھے۔ لیکن اب ان کے مابین تعلقات بہت کمزور ہو چکے ہیں اور پاکستانی شیعہ کمیونٹی اپنے مبلغین کا انتخاب اور ان کی خدمات حاصل کرتی ہے۔ جوہانسبرگ پاکستانی شیعہ کمیونٹی کے پاس اس وقت اپنا بورڈ آف ٹرسٹیز اور چیئرمین شپ ہے، ساتھ ہی اس کا اپنا انتظامی اور اجرائی ڈھانچہ موجود ہے۔
اگرچہ پاکستانی شیعہ مذہبی کاموں کو انتہائی دلچسپی اور شوق سے انجام دیتے ہیں۔ لیکن پنجابیوں اور برصغیر پاک و ہند کے دیگر خطوں کے شہریوں کے درمیان کچھ پوشیدہ اختلافات ان کے درمیان ایک قسم کی تقسیم کا باعث بنے ہیں۔[9]
- انسٹیٹیوٹ آف معاصر اسلامی فکر: اگرچہ اس انسٹیٹیوٹ کے اراکین سنی ہیں، لیکن ان کے شیعوں سے قریبی تعلقات ہیں اور امام خمینی اور انقلاب اسلامی ایران میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ ایک ہفت روزہ رسالہ شائع کرتے ہیں جس کا مقصد شیعہ سنی کے مابین اتحاد پیدا کرنا اور اسلامی انقلاب کی حمایت کرنا ہے۔[10]
- امام موسی کاظمؑ اسلامک سنٹر شہر کرونسٹڈ: اس مرکز کی سب سے اہم سرگرمی قرآن اور احکام کی کلاسز کا انعقاد ہے۔
- ڈربن میں امام حسینؑ مسجد اور سکول: بچوں کے لیے جعفریہ اسکول کا قیام اس مسجد کے مثبت اقدامات میں سے ہے۔
- پورٹ الزبتھ میں امام باقرؑ کا مرکز
اہم ترین شیعہ مساجد
- کیپ ٹاؤن میں مسجد اہل بیت
- ڈربن میں مسجد امام حسینؑ: سنہ 2018ء میں دہشت گردوں نے حملہ اس مسجد پر حملہ کیا اور اس کے کچھ حصوں کو آگ لگادی۔[11]
- گوئٹے مالا میں المصطفیٰ مسجد۔
حوالہ جات
- ↑ پورتال اہل بیت
- ↑ پورتال اہل بیت (ع)
- ↑ اطلس شیعہ، ص562.
- ↑ پورتال اہل بیت (ع)
- ↑ اطلس شیعہ، ص563.
- ↑ مذہب اہل البیت علیہم السلام در آفریقای جنوبی
- ↑ دین و مبارزات سیاسی در آفریقا
- ↑ پورتال اہل بیت
- ↑ مذہب اہل البیت علیہم السلام در آفریقای جنوبی
- ↑ اطلس شیعہ، ص562.
- ↑ شہادت و مجروحیت سہ نفر در حملہ بہ یک مسجد شیعیان آفریقای جنوبی
مآخذ
- جعفریان، رسول، اطلس شیعہ، انتشارات سازمان جغرافیایی نیروہای مسلح، تہران، 1387ہجری شمسی۔
- «شہادت و مجروحیت سہ نفر در حملہ بہ یک مسجد شیعیان آفریقای جنوبی»، خبرگزاری ابنا، تاریخ انتشار: 20 اردیبہشت 1397ہجری شمسی۔