اولو العزم اللہ کے بعض پیغمبروں کو کہا جاتا ہے۔ اراده،پکا ارادہ اور عہد سمیت اسکے کئی معانی ذکر ہوئے ہیں۔ یہ لفظ قرآن میں صرف ایک مرتبہ سورہ احقاف میں آیا ہے۔ارشاد ہے: فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ... [1] اولوا العزم انبیا کی تعداداورانکی رسالت کے جہانی ہونے میں مختلف آرا پیش ہوئی ہیں۔ مشہور رائے کے مطابق اس اصطلاح کا اطلاق پانچ صاحبان شریعت پیغمبروں پر ہوتا ہے:

معنا

اُوْلُو اَلعَزْم ذو کی جمع ہے ۔ صاحب اور مالک کے معنا میں استعمال ہوتا ہے۔ عزم کے لغوی معنی محکم اور استوار ارادے کے ہیں۔ راغب مفردات میں لکھتے ہیں: لفظ "عزم" کسی کام کے انجام دینے کا فیصلہ کرنے اور ارادہ کرنے کے معنی میں آیا ہے۔[2] رائج فارسی تحریر میں عبارت "اولوا العزم" یکے بعد دیگرے آنے والے دو الف ایک بار لکھنے جاتے ہیں: اولو العزم"۔[3] اور اردو تحریر میں بھی ایسا ہی ہے۔۔[4]

اس سلسلے میں تین آراء موجود ہیں کہ اولو العزم سے مقصود کیا اور انبیائے اولو العزم کون ہیں:

صاحبان صبر

بعض نے "عزم" کو "صبر" کے ہم معنی سمجھا ہے اور کہا ہے کہ اس اصطلاح کا اطلاق ان پیغمبروں پر ہوتا ہے جو دشواریوں اور صعوبتوں میں صبر و تحمل کے مالک تھے اور احکام اللہ کی تبلیغ میں صابر تھے؛ کیونکہ "آیت اولو العزم" (احقاف:35) میں "صبر" کی صفت کو اولوالعزم پیغمبروں کی ایک نمایاں صفت کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔[5]۔[6]۔[7]۔[8]

صاحبان عہد

بعض مفسرین نے بعض روایات سے استناد کرتے ہوئے "اولو العزم" میں لفظ "عزم" کو "عہد" کے ہم معنی قرار دیا ہے اور اپنی اس رائے کے لئے سورہ احزاب کی آیات 7 اور 8[9] سے استناد و استفادہ کیا ہے۔ ان آیات میں سورہ نوح، ابراہیم، موسى، عیسى، اور محمد علیہم السلام جیسے عظیم الشان انبیاء سے لی گئی میثاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ نیز قرآن کی ایک دیگر آیات میں حضر آدم(ع) کا نام لیا گیا ہے اور اشارہ ہوا ہے کہ وہ اپنے عہد و میثاق پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور عدم کامیابی کو عزم کے فقدان سے تعبیر کیا گیا ہے۔[10] چنانچہ عزم کے معنی عہد و میثاق کے ہیں۔[11]۔[12] اولوالعزم سے مراد وہ انبیاء ہیں جن سے خداوند متعال نے اپنی عبودیت اور اطاعت تامہ کا عہد لیا ہے۔[13]۔[14] یا اللہ نے ان سے پیغمبر خاتم(ص) اور آپ(ص) کے اہل بیت کی ولایت کا عہد لیا ہے۔[15]۔[16]۔[17]۔[18]۔[19]

صاحبان شریعت

مفسرین کی ایک جماعت ـ بعض روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے ـ اولو العزم انبیاء کو کتاب و شریعت کے حامل انبیاء سے تعبیر و تفسیر کیا ہے[20]۔[21]۔[22]۔[23]۔[24] بطور مثال امام رضا(ع) سے پوچھا گیا کہ "بعض انبیاء کیوں س بنیاد پر اولو العزمی کے مرتبے پر فائز ہوئے؟" تو آپ(ع) نے فرمایا: "اس لئے کہ نوح کتاب اور شریعت لے کر مبعوث ہوئے اور جو بھی ان کے بعد آیا ان کی کتاب و شریعت اور روش و سیرت پر عمل کیا حتی کہ ابراہیم مبعوث ہوئے اور وہ اپنی کتاب اور صُحُف لے کر آئے اور آپ(ع) کے بعد جو بھی پیغمبر آیا اس نے آپ(ع) ہی کی کتاب و صحف اور سیرت و روش پر عمل کیا؛ بعد ازاں جناب موسی آئے توریت ساتھ لے کر آئے جو نئی کتاب تھی اور ان کے بعد جناب عیسی آئے اور [انجیل]] لے کر آئے جو نئی شریعت پر مشتمل تھی اور رسول اللہ محمد بن عبداللہ(ص) کی بعثت تک سب نے حضرت عیسی کی شریعت پر عمل کیا؛ پیغمبر اسلام(ص) قرآن اور نئی شریعت لے کر آئے اور اس شریعت میں جو کچھ بھی حلال کیا گیا ہے وہ حلال ہے اور جو کچھ بھی حرام کیا ہے قیامت تک حرام ہے۔[25]۔۔[26]۔[27]۔[28]۔[29]۔

بعض انبیاء عظام اگرچہ آسمانی کتاب کے حامل تھے لیکن ان کی کتابیں نئے احکام و شریعت پر مشتمل نہ تھیں؛ جیسا کہ حضرت آدم(ع)، شیث(ع)، ادریس(ع) اور داؤد(ع) بھی صاحب کتاب تھے لیکن اولو العزم نہ تھے۔[30]۔[31]

اولو العزم انبیاء کی تعداد

اولو العزم پیغمبروں کی تعداد اور مصادیق میں اختلاف پایا جاتا ہے:

تمام انبیاء عظام

بعض مفسرین کا خیال ہے کہ "آیت اولو العزم" میں لفظ "مِن" بیانی ہے (یعنی اپنے سے ما قبل عبارت کو واضح کرتا ہے) اور صبر و استقامت اور اللہ کی آزمائش سے گذرنا، تمام انبیاء اور رسل کی خصوصیت ہے۔[32]۔[33]۔[34]۔[35] تاہم یہاں رسول اور نبی کے درمیان فرق کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے۔

بعض انبیا عظام

اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ لفظ "مِن" مذکورہ آیت میں "من تبعیضیہ" ہے اور یوں صرف انبیاء عظام کا ایک خاص گروہ اولو العزم انبیاء کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔[36]۔[37]۔[38]۔[39]

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اولوالعزم وہ اٹھارہ رسل۔[40] ہیں جن کا ذکر سورہ انعام کی آیات (74 تا 90) میں آیا ہے اور خداوند متعال نے آیت 90 میں ارشاد فرمایا ہے کہ: "فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ"، اور ان کی ہدایت کی پیروی کیجئے۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ اولو العزم انبیاء 9 ہیں جبکہ بعض دوسروں نے 7 یا 6 بتائی ہے۔[41]۔[42]

علامہ طباطبائی اور بعض دوسرے مفسرین نے صرف صاحب شریعت انبیاء یعنی نوح، ابراہیم، موسٰی، عیسٰی اور محمد علیہم السلام کو ہی اولو العزم پیغمبروں کے عنوان سے متعارف کرایا ہے[43]۔[44]۔[45] اور ان کا کہنا ہے کہ اس مدعا پر دلالت کرنے والی روایات مستفیض [46] کی حد تک پہنچتی ہیں۔[47] لیکن بعض دوسروں کی رائے یہ ہے کہ چونکہ یہ روایات تواتر کی حد تک نہیں پہنچتیں؛ لہذا یہ یقین کا موجب نہیں ہیں اور قرآن کریم میں بھی ایسی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں ہے جو صاحب شریعت پیغمبروں کی تعداد کو پانچ تک محدود کرے۔[48]۔[49]

اولو العزم پیغمبر اور عالمی مشن

اگر اولو العزم انبیاء سے مقصود صاحب شریعت انبیاء ہوں تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ان کی رسالت عالمی ہے یا یہ ہے ان میں سے ہر ایک اپنی قوم کے لئے مبعوث ہوا ہے؟ البتہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی عالمگیریت کے بارے میں کوئی شک و شبہہ اور اختلاف نہیں پایا جاتا لیکن دوسرے اولو العزم پیغمبروں کے بارے میں تین نظریات ہیں:

سب کی رسالت کا عالمی ہونا

علامہ طباطبائی جیسے بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اولو العزم انبیاء کی رسالت عالمگیر تھی۔ انھوں نے اپنے مدعا کے اثبات کے لئے آیات قرآن سے شواہد بھی پیش کئے ہیں[50] اور وضاحت کی ہے کہ اولو العزم اور صاحب کتاب انبیاء کی دعوت دو قسم کی تھی:

  1. خدا پرستی، توحید اور شرک کی نفی کی طرف دعوت
  2. خاص احکام اور شرائع کی پیروی کی دعوت۔

ان کی رائے کے مطابق اول الذکر دعوت عالمی تھی، دوسری قسم کی دعوت کے برعکس، جو ایک خاص قوم کے لئے مختص تھی اور اس قوم کا فرض ہوتا تھا کہ ان احکام پر عمل کریں۔

بعض کی رسالت کا عالمی ہونا

اولو العزم رسل کی دعوت و رسالت عالمی نہیں تھی۔ مثال کے طور پر موسی اور عیسی علیہما السلام صرف بنو اسرائیل کے لئے بھیجے گئے تھے اور ان کی دعوت اسی قوم کے لئے مختص تھی۔ بعض آیات کریمہ کا ظاہری مفہوم بھی اس مدعا کو ثابت کرتا ہے: سورہ آل عمران آیت 49:

"وَرَسُولاً إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ... " ؛ ترجمہ: اور پیغمبر بنی اسرائیل کی طرف...۔

نیز بعض دیگر آیات کا ظاہری مفہوم؛ جیسے:

سورہ صف آیت 6:

"وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ..." ؛ ترجمہ: ایک پیغمبر کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد ہو گا۔

سورہ اسراء آیت 101:

"وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ..." ؛ ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی ہوئی نشانیاں عطا کیں تو بنی اسرائیل سے پوچھو۔

سورہ طہ آیت 47:

"فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ" ؛ ترجمہ: تو جانا اسکے پاس جا کر کہنا کہ ہم دونوں تمہارے پروردگار کے پیغمبر ہیں تو تم ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو روانہ کر دو۔

سورہ شعراء آیت 17:

"أَنْ أَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ" ؛ ترجمہ: کہ تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو روانہ کر دے۔

سورہ غافر آیت 53:

"وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْهُدَى وَأَوْرَثْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ" ؛ ترجمہ: اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو ہدایت کا سامان عطا کیا اور ہم نے بنی اسرائیل کو اس کتاب کا ورثہ دار بنایا۔

چنانچہ ایسا نہیں ہے کہ جو بھی پیغمبر صاحب شریعت (اولو العزم) ہو اس کی رسالت عالمی ہوگی اور اولو العزمی اور عالمگیریت میں تلازم نہیں پایا جاتا (اور یہ دو صفات لازم و ملزوم نہیں ہیں)۔

تفصیل

تیسرا نظریہ یہ ہے کہ اگر عالمگیریت کے معنی یہ ہوں کہ پیغمبر پر فرض ہے کہ وہ اپنی رسالت نہ صرف اپنی قوم کو بلکہ دنیا کی تمام اقوام اور ملل تک پہنچا دے تو بہت سے پیغمبروں ـ حتی کہ حضرت موسی اور حضرت عیسی علیہما السلام کی رسالت عالمی نہ تھی؛ لیکن اگر فرض کریں کہ رسالت کی عالمگیریت سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر پر فرض ہے کہ وہ دیگر اقوام کا سامنا کرنے کی صورت میں اپنی رسالت ان تک پہنچا دے اور نئے دین سے روشناس ہونے والے نئے لوگوں پر اس کی متابعت لازمی ہے؛ تو اس صورت میں ـ ایک لحاظ سے ـ تمام انبیاء کی رسالت و دعوت عالمی نہ تھی اور ـ دوسرے لحاظ سے ـ تمام انبیاء کی دعوت و رسالت عالمی ہے۔[51]

واضح رہے کہ اولو العزم انبیاء کا موضوع اور ائمہ معصومین(ع) کی ولایت کے ساتھ ان کا ربط و اتصال بھی بہت سی روایات میں زیر بحث آیا ہے،[52]۔[53]۔[54]‌ ان ہی روایات میں سے ایک کے ضمن میں ائمہ(ع) کو اولو العزم انبیاء کے علم و معجزات اور فضائل کے ورثہ دار قرار دیا گیا ہے۔[55]

متعلقہ مآخذ

حوالہ جات

  1. سورہ احقاف آیت 35۔ترجمہ: آپ اسطرح صبروبرداشت سے کام لیجئے جس طرح اور الوالعزم رسولوں نے صبر کیا۔
  2. مفردات راغب، لفظ "عزم"۔
  3. فرهنگ املایی خط فارسی، ص79۔
  4. اردو لغت۔
  5. عاملى، ابراهیم، تفسیر عاملى، ج7، ص533.
  6. سایس، محمدعلى، تفسیر آیات الاحكام، ص680.
  7. مراغى، احمد بن مصطفى، تفسیر مراغى، ج 21، ص132.
  8. ابن عاشور، محمد بن طاهر، التحریر والتنور، ج26، ص57۔
  9. 'وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقاً غَلِيظاً (7) لِيَسْأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ ... (8)۔ ترجمہ: اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد و پیمان لیا او ر آپ سے اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ فرزند مریم سے اور ان سب ہی سے مضبوط عہد لیا (7) تاکہ وہ پوچھے سچوں سے ان کی سچائی کے متعلق...(8)۔
  10. سورہ طہ آیت 115:وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى آدَمَ مِن قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً ترجمہ: اور اس کے پہلے آدم سے ہم نے عہد و پیمان لیا تو وہ بھول گئے اور نہیں پایا ہم نے ان میں مضبوط ارادہ۔
  11. ابن كثیر، اسماعیل، تفسیر القرآن العظیم، ج6، ص342۔۔
  12. قمى مشهدى، كنزالدقائق، ج8، ص360۔
  13. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج11، ص35۔
  14. تفسیر القرآن الكریم، ج6، ص342)۔
  15. مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج11، ص35۔
  16. الطباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔
  17. فیض كاشانى، تفسیر الصافى، ج3، ص342۔
  18. قمى، على بن ابراهیم، تفسیر قمى، ج2، ص66۔
  19. قمى مشهدى، كنزالدقائق، ج8، ص360۔
  20. طباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔
  21. الطبرسی، جوامع الجامع، ج6، ص27 و 29۔
  22. الآلوسی، روح البیان، ج8، ص495۔
  23. قمى مشهدى، كنزالدقائق، ج12، ص203۔
  24. المغنیه، تفسیر المبین، ص550۔
  25. بحرانى، سید هاشم، البرهان فى تفسیر القرآن، ج5، ص51۔
  26. فیض كاشانى، الصافى، ج5، ص19۔
  27. قمى مشہدى، كنزالدقائق، ج12، ص206۔
  28. البحرانی، تفسیر البرهان، ج4، ص80۔
  29. الصدوق، عیون اخبار الرضا، ج2، ص178۔
  30. الطباطبائی، المیزان، ج 2، ص142۔
  31. الطباطبائی، المیزان، (فارسی ترجمہ) ج2، ص213۔
  32. ابن عاشور، التحریر والتنویر، 426۔
  33. الطوسى‌، تفسیر تبیان، ج9،ص287۔
  34. زمخشری‌، تفسیر کشاف، ج4،ص313۔
  35. فخرالدین‌، تفسیر کبیر، ج27،ص35۔
  36. ابن عاشور، التحریر والتنویر، 426۔
  37. الطوسى‌، التبیان فی تفسیر القرآن، ج9،ص287۔
  38. زمخشری‌، الکشاف ج4،ص313۔
  39. فخرالدین‌، تفسیر کبیر، ج27،ص35۔
  40. حضرت ابراہیم، حضرت اسحق، حضرت یعقوب، حضرت نوح ، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ، حضرت ایوب ، حضرت یوسف ، حضرت موسی ، حضرت ہارون ، حضرت زکریا ، حضرت یحیی ، حضرت عیسی ، حضرت الیاس ، حضرت اسمعیل ،حضرت یسع علیہ السلام، حضرت یونس علیہ السلام اور حضرت لوط علیہم السلام۔
  41. الطباطبائی، المیزان، ج18، ص333۔
  42. الآلوسی، روح المعانى، ج26، ص34و 35۔
  43. الطباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔
  44. البحرانى، البرهان، ج3، ص776۔
  45. المراغی، تفسیر مراغى، ج21، ص132 و ج26، ص29۔
  46. حدیث مستفیض وہ حدیث ہے جس کے راوی تین سے زیادہ اور حدیث متواتر کی حد سے کم ہو؛ اور اس کی چار قسمیں ہیں: حدیث مشہور، حدیث عزیز، حدیث مفرد اور حدیث غریب۔ حدیث مستفیض۔
  47. الطباطبائی، المیزان، ج2، ص145 و 146 و ج18 ص220۔
  48. الآلوسی، روح المعانى، ج18، ص333۔
  49. مصباح، محمدتقى، راه و راهنماشناسى، ج5، ص329۔
  50. الطباطبائی، المیزان، ج2، ص141 و 142۔
  51. مصباح، راه و راهنماشناسى، ج5، ص46
  52. صفار، بصائر الدرجات، 90۔
  53. كلینى‌، الکافی، ج1، ص416۔
  54. مجلسى‌، ج26،ص382، ج44،ص226۔
  55. مجلسی، بحارالانوار ج2،ص205۔

مآخذ

  • قرآن کریم، اردو ترجمہ سید علی نقی نقوی لکھنوی۔
  • بحارالأنوار، مجلسى، محمدباقر، تہران، المكتبۃ الاسلامیہ.
  • بحرانى، سید ہاشم، البرہان فى تفسیر القرآن، قم، دارالكتب العلمیہ، 1339ہجری قمری۔
  • ابن عاشور، محمد بن طاہر، التحریر والتنویر، بى نا.
  • سایس، محمدعلى، تفسیر آیات الاحكام، بى نا.
  • فیض كاشانى، ملامحسن، تفسیر الصافى، انتشارات صدر، تہران، 1415 ہجری قمری۔
  • ابن كثیر، اسماعیل، تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دارالاندلس، 1416 ہجری قمری۔
  • مغنیہ، محمدجواد، تفسیر المبین، بنیاد بعثت، قم.
  • عاملى، ابراہیم موثق، تفسیر، تہران، انتشارات صدوق، 1360 ہجری شمسی۔
  • قمى، على بن ابراہیم، تفسیر قمى، قم، دارالكتاب، 1367 ہجری قمری۔
  • مراغى، احمد بن مصطفى، تفسیر مراغى، داراحیاء التراث العربى، بیروت.
  • جوزى، ابن قیم ، تفیسر القرآن الكریم، محمد بن ابوبكر، بیروت، دارمكتبۃ الہلال.
  • طبرسى، فضل بن حسن، جوامع الجامع، دانشگاہ تہران، تہران، 1377 ہجری شمسی۔
  • مصباح، محمدتقى، راہ و راہنماشناسى، مركز مدیریت حوزہ علمیہ قم، 1376 ہجری شمسی۔
  • حقى بروسوى، اسماعیل، روح البیان، دارالفكر، بیروت، بى تا.
  • آلوسى، سید محمود، روح المعانى، بیروت، دارالكتب العلمیہ، 1415 ہجری قمری۔
  • صدوق، محمد بن على، عیون اخبار الرضا، تہران، انتشارات جہان.
  • صادقی، علی اشرف، فرہنگ املایی خط فارسی، فرہنگستان زبان و ادب فارسی، چاپ چہارم، 1391 ہجری شمسی۔
  • قمى مشہدى، محمد بن محمدرضا، كنزالدقائق، وزارت ارشاد اسلامى، تہران، 1368 ہجری شمسی۔
  • طباطبایى، محمدحسین، المیزان، ، بیروت، مؤسسۃ الاعلمى، 1393 ہجری قمری۔
  • الرازی، فخرالدین، تفسیر کبیر۔
  • الطوسی، محمد بن حسن، التبیان في تفسیر القرآن۔
  • "الصفار"، أبو جعفر محمد بن الحسن بن فروخ، بصائر الدرجات الكبرى في فضائل آل محمد(ع)، (المتوفى 290 ہجری)، التعليق والتصحيح اميرزا محسن "كوچہ باغى" منشورات الاعلمي - طہران۔ 1362ہجری شمسی/1404 ہجری قمری۔
  • الكليني الرازي، أبو جعفر محمد بن يعقوب بن اسحاق رحمہ اللہ (المتوفى سنۃ 328 یا 329 ہجری)، الاصول من الكافي، صححہ على اكبر الغفاري، دار الكتب الاسلاميۃ، طہران، 1388ہجری قمری۔