شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام (کتاب)
شَرائعُ الإسلام فی مسائل الحَلال و الحَرام، شرائع کے نام سے معروف امامیہ فقہی تالیفات میں سے ہے۔ جسے ساتویں صدی ہجری کے مشہور فقیہ محقق حلی (متوفی 676ھ) نے فقہ فتوائی کی شکل میں تالیف کی ہے۔ یہ کتاب اسی تالیف کے دور سے ہی فقہا کی توجہ کا مرکز بنی رہی ہے اور قدیم الایام سے حوزہ علمیہ کے نصاب میں شامل ہے اور اس پر بہت ساری شرح بھی لکھی گئی ہیں۔
مؤلف | محقق حلی (متوفی 676 ھ) |
---|---|
مقام اشاعت | قم |
زبان | عربی |
مجموعہ | 4 مجلد |
موضوع | فقہ |
ناشر | اسماعیلیان |
اس کتاب کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ محقق نے اسے منظم انداز میں تالیف کی ہے اور تمام شرعی احکام کو چار حصوں "عبادات، ایقاعات، عقود اور احکام" میں مرتب کیا ہے۔
شرائع الاسلام کی سب سے مشہور شرح میں جواہر الکلام، مسالک الاَفہام و مدارک الاحکام شامل ہیں۔
شرائع الاسلام کے بہت سارے قلمی نسخے بھی موجود ہیں۔ جن میں سے بعض وہ نسخے بھی ہیں جنہیں محقق حلی کے سامنے پڑھا بھی گیا ہے اور انہوں نے اپنے قلم سے اس کی تائید بھی کی ہے۔ اور یہ کتاب متعدد مرتبہ مختلف ممالک میں طبع بھی ہوئی ہے۔
مصنف اور کتاب لکھنے کا محرک
محقق حلی (676-602ھ) کا تعلق شیعہ مشہور فقہا میں سے ہے آپ علامہ حلی کے ماموں اور استاد تھے۔[1] علامہ حلی نے آپ کو اپنے عصر کے سب سے بڑے فقیہ قرار دیا ہے۔[2] علامہ حلی کے علاوہ، ابن داوود حلی، علامہ حلی کے بیٹے فخرالمحققین اور علامہ حلی کے بھائی علی بن یوسف حلی بھی آپ کے شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔[3]
محقق حلی نے فقہ، اصول فقہ اور علم کلام میں کتابیں لکھی ہیں جن میں المُختَصَرُ النّافِع (فقہ)، المُعتَبَر فی شرحِ المُختَصَر (فقہ)، نَہجُ الوُصول اِلىٰ مَعرفۃِ عِلمِ الاُصول (اصول فقہ) اور المَسلَک فی اُصولِ الدّین (کلام)[4] شامل ہیں۔
محقق حلی کے بقول انہوں نے یہ کتاب اپنے ایک شاگرد کی درخواست پر تالیف کی ہے جنہوں نے درخواست کی تھی کہ فقہ کے اصلی احکام کو ایک مختصر کتاب میں بیان کریں۔[5]
کتاب کی منزلت
کہا جاتا ہے کہ شرائع سے پہلے شیخ طوسی کی کتاب نہایہ دو صدیوں تک فقہ کے درسی نصاب میں رائج تھی لیکن شرائع کی تالیف کے بعد اس کو پذیرائی ملی اور نہایہ کی جگہ لے لی۔[6]
صاحب جواہر اپنی کتاب جواہرالکلام کے مقدمے میں لکھتے ہیں کہ شرائع الاسلام، شرعی احکام میں ایک قرآن اور فقہی علوم میں ایک فرقان ہے، اس کی جامعیت اور دقت کی تعریف کرتے ہوئ اسے بعد کی کتابوں کے لئے نمونہ قرار دیا ہے۔[7]
آقابزرگ تہرانی کے بقول، شرائع، فقہی مباحث کو منظم طور پر پیش کرنے میں ایک بہترین فقہی کتاب ہے۔[8] یہ کتاب اپنے دور سے ہی فقہاء کی توجہ کا مرکز رہی ہے اور کئی صدیوں کے دوران زیر بحث اور حوزات علمیہ کے درسی متون میں سے ایک ہے۔[9]۔[10]
کتاب کی خصوصیات
مدرسی طباطبائی کا کہنا ہے کہ محقق نے شیعہ فقہ میں ایک منطقی نظم دیتے ہوئے انتشار سے نکال دیا ہے۔[11] شرائع الاسلام میں پہلی بار فقہی مسائل کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جو عبادات، معاملات، عقود اور احکام کے نام سے جانے جاتے ہیں اور ان کے بعد والے فقہا سب نے ان کی پیروی کی ہے۔[12] اس کتاب کی بعض خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
- اس کتاب میں ان مسائل کو بیان کرنے سے اجتناب کیا گیا ہے جن کا بیان کرنا خاص فائدہ نہیں تھا۔
- دقیق ادبیات، مختصر، طولانی عبارتوں سے اجتناب کرتے ہوئے سلیس عبارت میں بیان
- یہ کتاب اگرچہ فتوائی فقہ ہے لیکن اپنے مخالف فقہا کے نظریات بھی ذکر ہوئے ہیں اور قرآن و حدیث اور اجماع سے استدلال بھی کیا ہے۔
- بعض عربی اصطلاحات جیسے: «الاَوْلیٰ» (پسندیدہ نظریہ)، «الاَنسب» (جو زیادہ فقہی دلائل سے سازگار ہے) اور «الاَشہر» (زیادہ مشہور)، پہلی بار اس کتاب میں اپنا منتخب فتوا بیان کرنے کے لئے استعمال ہوا اور بعد کے فقہا نے ان کی پیروی کی۔[13]
کتاب کا ڈھانچہ
کتاب شرائع الاسلام کو چار ذیل کے الگ الگ ابواب میں مرتب کیا گیا ہے:
- عبادات: یہ باب 10 کتابوں پر مشتمل ہے: طہارت، صلٰوۃ، زکٰوۃ، خمس، صوم، اعتکاف، حج، عمرہ، جہاد، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔[14]
- عقود: یہ باب 18 کتابوں پر مشتمل ہے: تجارت، رہن، افلاس، حجر، ضمان ـ جو حوالہ اور کفالت پر بھی مشتمل ہے ـ، صلح، شرکت، مضاربہ، مزارعہ، مساقات، ودیعہ، عاریہ، اجارہ، وکالت، وقف، ہبہ، سَبق و رمایہ، وصیت و نکاح۔[15]
- ایقاعات: یہ باب 10 کتابوں پر مشتمل ہے: طلاق، ظہار، ایلاء و لعان، عتق، تدبیر، مکاتبہ، استیلا، اقرار، جعالہ، ایمان و نذر۔[16]
- احکام: یہ 12 کتابوں میں پر مشتمل ہے: صید و ذباحہ، اطعمہ و اشربہ، غصب، شفعہ، احیائے موات، لقطہ، فرائض، قضا، شہادات، حدود و تعزیرات و قصاص و دیات۔[17]
شرحیں، حاشیے اور ترجمے
اگرچہ شرائع کی شرحیں اور اس پر بہت سارے حاشیے لکھے گئے ہیں۔[18] کچھ ترجمے اور خلاصے بھی تحریر ہو چکے ہیں۔ النّافِع فی مُختصر الشّرایع جو مختصرُ الشرایع کے نام سے مشہور ہے کو محقق نے ہی لکھا ہے۔[19] اور اسی خلاصہ پر ایک شرح المعتبر فی شرحِ المختصر کے نام سے لکھا گیا ہے۔[20]
شرایع الاسلام کی بعض مشہور شرحیں درج ذیل ہیں:
- مسالک الافہام الى شرائع الاسلام، تألیف: "شیخ زین الدین بن على عاملى شہید ثانی (متوفی 966 ہجری)۔
- مدارک الاحكام فی شرح شرائع الاسلام، تألیف: سید شمس الدین محمد بن علی موسوی عاملی المعروف بہ صاحب مدارک (متوفی 946 ہجری)۔
- جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تألیف: شیخ محمد حسن بن شیخ باقر نجفى المعروف بہ صاحب جواہر (متوفی 1261 ہجری)۔
محقق کرکی، سید محمد مہدی بحر العلوم، شہید ثانی و جمال الدین خوانساری بھی ان فقہا میں سے ہیں جنہوں نے شرائع پر حاشیہ لکھا ہے۔[21]
نسخہ جات
سید محسن امین کا کہنا ہے کہ شرائع الاسلام کے بہت سارے قلمی نسخے ہیں۔[22] ایران کے قلمی نسخوں کی فہرست والی کتاب میں 853 قلمی نسخے ایران کے رقم ہوئے ہیں۔[23] ان میں سے بعض نسخے بہت پرانے ہیں؛ جن کو خود مصنف[24] یا ان کے معاصر مشہور فقہا جیسے علامہ حلی[25] کے حضور پڑھے گئے ہیں۔
آقا بزرگ تہرانی اپنی کتاب الذریعہ میں درج ذیل نسخوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
- محمد بن اسمعیل ہرقلى کا نسخہ جو کتاب کے پہلے حصے کو شامل ہے اور 670ھ میں لکھی گئی ہے۔ کاتب نے اس نسخے کو محقق کے پاس پڑھ کر سنایا اور محقق نے اپنے قلم سے اس کی تائید کی ہے۔
- کتاب کے دوسرے حصے کا نسخہ بھی محمد بن اسماعیل ہرقلی کا ہے جو 703ھ میں لکھا گیا ہے۔
- تہران کے کتب خانۂ مجد الدین نَصِیری، کا نسخہ جس کا تعلق سنہ 674 ہجری سے ہے۔ اس نسخے کی تائید پر محقق کی اپنی تحریر اور ان کا دستخط بھی موجود ہے۔
- نجف اشرف میں کتب خانۂ آل طالقانی کا نسخہ بقلم "محمد كاظم بن محمد باقر یزدى" جس کی کتابت کا کام سنہ 1105 ہجری میں پایۂ تکمیل کو پہنچا ہے۔[26]
نشر و اشاعت
کتاب شرائع الاسلام، متعدد بار عراق، ایران ہندوستان اور مصر میں چھپ کر شائع ہوئی ہے۔ اور احتمال دیا جاتا ہے کہ سب سے قدیمی نسخہ 1255ھ کو کلکتہ میں چھپ گیا۔[27]
- اس کتاب کی اولین طباعتوں میں سے ایک نسخہ جس کا تعلق سنہ 1377 ہجری سے ہے اور مكتبۃ العلمیۃ الاسلامیہ کے توسط سے چاپخانۂ خورشید میں طبع ہو چکا ہے۔ یہ نسخہ تصحیح اور مقابلے (تقابل) کا منبع و مصدر ہے۔
- یہ کتاب دوسری مرتبہ سنہ 1389 ہجری میں نجف میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے۔
- قم کے مؤسسہ اسماعیلیان نے اس کتاب کو سنہ 1408 ہجری میں شائع کیا جس کی دوسری اشاعت بھی آ چکی ہے اور اس کی تصحیح و تحقیق کا کام شیخ عبد الحسین محمد على بقّال نے انجام دیا ہے۔
- یہ کتاب عربی میں چار جلدوں میں، تہران کے مطبعۂ استقلال (انتشارات استقلال) سے 1409 ھ میں طبع و نشر ہو چکی ہے۔
- طباعت قاہرہ، سنہ 1376ھ۔[28]
حوالہ جات
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ق، ج۱۳، ص۴۷.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۴، ص۹۰؛ ج۴، ص۸۹.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۴، ص۹۰؛ ج۴، ص۹۱-۹۲.
- ↑ افندی، ریاضالعلماء، ۱۴۳۱ق، ج۱، ص۱۰۵-۱۰۶؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ق، ج۴، ص۹۰؛ ج۴، ص۹۲.
- ↑ محقق حلی، شرایعالاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۲.
- ↑ افراختہ، «شرایعالاسلام»، ص۷۳۸.
- ↑ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ق، ج۱۳، ص۴۷-۴۸.
- ↑ آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج23، ص47
- ↑ امین، محسن، اعیان الشیعہ، ج4، ص90. ج9، ص160۔
- ↑ مدرسی طباطبایی، مقدمہ ای بر فقہ شیعہ، ۱۳۶۸ش، ص۵۴.
- ↑ مدرسی طباطبایی، مقدمہ ای بر فقہ شیعہ، ۱۳۶۸ش، ص۲۱.
- ↑ افراختہ، «شرایعالاسلام»، ص۷۳۷-۷۳۸.
- ↑ ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایعالاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۱، ص۳-۳۱۰.
- ↑ ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایعالاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۳-۲۰۹.
- ↑ ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایعالاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۳-۱۴۴.
- ↑ ملاحظہ کریں: محقق حلی، شرایعالاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۱۵۴-۲۲۴؛ ج۴، ص۳-۲۲۸.
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ق، ج۱۳، ص۴۸-۴۹؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ق، ج۴، ص۹۰..
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ق، ج۱۳، ص۴۹.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ق، ج۱۴، ص۵۸.
- ↑ آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ق، ج۶، ص۱۰۶-۱۰۸.
- ↑ امین، اعیانالشیعہ، ۱۴۰۳ق، ج۴، ص۹۰؛ ج۴، ص۹۰.
- ↑ درایتی، فہرستوارہ دستنوشتہہای ایران، ۱۳۸۹ش، ص۳۶۳-۳۸۹.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ق، ج۱۳، ص۴۸.
- ↑ افراختہ، «شرایعالاسلام»، ص۷۳۹.
- ↑ آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج13، ص48 و 49۔
- ↑ افراختہ، «شرایعالاسلام»، ص۷۳۹.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ق، ج۱۳، ص۵۰.
مآخذ
- آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دارالاضواء، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
- افراختہ، محمدحسین، «شرایعالاسلام»، در دانشنامہ جہان اسلام، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۹۸ہجری شمسی۔
- افندی، عبداللہ، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، تحقیق احمد حسینی اشکوری، بیروت، مؤسسۃ التاریخ العربی، ۱۴۳۱ق/۲۰۱۰ء۔
- امین، سید محسن، اعیانالشیعہ، بیروت، دارالتعارف، ۱۴۰۳ھ۔
- انصاری قمی، ناصرالدین، «کتابشناسی شروح شرایعالاسلام»، میراث شہاب، شمارہ ۶۸و۶۹، ۱۳۹۱ہجری شمسی۔
- درایتی، مصطفی، فہرستوارہ دستنوشتہہای ایران، تہران، کتابخانہ، موزہ و مرکز اسناد مجلس شورای اسلامی، ۱۳۸۹ہجری شمسی۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ھ۔
- مدرسی طباطبایی، سیدحسین، مقدمہای بر فقہ شیعہ (کلیات و کتابشناسی)، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی، ۱۳۶۸ہجری شمسی۔