شاخسی واخسی (رسم)
![]() | |
مکان | اردبیل، تبریز و خوی |
---|---|
جغرافیائی حدود | ترک نشین علاقے |
منشاء تاریخی | صفویہ دور میں قزلباشی فوجی دستے کا دستہ عزاداری |
انواع و اقسام | عزاداری |
اہم مذہبی تہواریں | |
سینہزنی، زنجیرزنی، اعتکاف، شب بیداری، تشییع جنازہ، | |
متفرق رسومات |
شاخسِی واخسِی (مخفف: شاہ حسین، واہ حسین) یا شاہ حسین گویان کے مراسم، محرم کے مہینے میں ترک زبان بولنے والے لوگوں میں ایک ماتمی رسم ہے۔ یہ رسم ایران کے علاقے آذربائیجان، اردبیل، تبریز اور شمال مغربی ایران کے دیگر ترکی بولنے والے علاقوں میں منعقد کی جاتی ہے۔ اس رسم میں لوگوں کا ایک گروہ، ہاتھوں میں لاٹھیاں پکڑے ہوئے (یا بغیر چھڑیوں کے پاؤں مارتے ہوئے)، ایک جیسے مربوط حرکات کے ساتھ (چھڑیوں کو اوپر نیچے لاتے ہوئے) "شاخسی واخسی" کا جملہ دہراتے ہیں جس سے وا حسیناہ شاہ حسیناہ سمجھ میں آتا ہے۔
یہ رسم ایران کے شہر تبریز کی ایک تاریخی شناخت کے طور پر پہچانی جاتی ہے جس کا تعلق صفوی دَور سے ہے۔ بعض کے نزدیک یہ سلسلہ سب سے پہلے شاہ اسماعیل صفوی کے دور میں قزلباش فوجی یونٹ نے شروع کیا تھا۔
اہمیت اور سرچشمہ
"شاخسی واخسی" (مخفف: شاہ حسین وا حسین) جو محرم کے مہینے میں انجام دی جانے والی عزاداری کی ایک رسم کے دوران پڑھے جانے والے فقرے ہیں۔[1] اس قسم کی عزاداری کو "شاہ حسین گویان" (شاہ حسین کہنے والے) بھی کہا جاتا ہے جو سو سال پرانا ہے۔[2] اس رسم کا شاخسی کے نام سے مشہور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جلوس کا پہلا حصہ "شاہ حسین" کے جملے کو دہراتا ہے اور دستے کا دوسرا گروہ "وا حسین" کے فقرے کے ساتھ جواب دیتا ہے، وقت گزرتے گزرتے یہ دونوں جملے عام بول چال میں "شاخسی واخسی" کے نام سے مشہور ہوئے۔[3] اس رسم کو تبریز شہر کی تاریخی شناخت کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔[4]
اس رسم کی اصل اور سرچشمہ شب عاشورا کو امام حسینؑ کے خیمے کے پاس آپ کے ساتھیوں سے وفاداری کا اعلان کرنے کا ایک علامتی عمل سمجھا جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق عاشورا کی رات جب امام حسینؑ کے ساتھیوں کے ایک گروہ کی خیموں سے امام چھوڑ کر جانے کی خبر حضرت زینبؑ کے پاس پہنچی تو وہ اس فکر میں پڑ گئیں کہ کیا باقی ساتھی بھی آپ کو چھوڑ دیں گے یا وفادار رہیں گے۔ اسی دوران حبیب ابن مظاہر نے باقی اصحاب کو اکٹھا کیا اور انہوں نے ننگی تلواروں کو اٹھا کر اپنی وفاداری کا اعلان کیا۔[5] شاخسی واخسی ماتم داری کے دوران ہاتھ میں چھڑی پکڑنا اور اسے حرکت دینا اس تحریک کی علامت سمجھا جاتا ہے۔[6]
انجام دینے کا طریقہ
تبریز میں عزادار ایک خاص قسم کی چھڑی کو زمین سے اپنے سر کے اوپر تک لے آتے ہیں اور جب وہ چھڑی زمین کے قریب آتی ہے تو وہ سب زور سے "شاخسی" (شاہ حسین) کا نعرہ لگاتے ہیں اور جب وہ چھڑی ان کے سروں کے قریب آتی ہے تو وہ سب اونچی آواز میں "واخسِی" (وای حسینؑ) کا نعرہ لگاتے ہیں۔[7] اب بھی زیادہ تر شاخسی واخسی کی عزاداری تبریز میں منعقد ہوتی ہیں۔ اس مجلس میں نوجوان ایک دستے میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں اور دستے کا پہلا شخص جسے دستہ باشی کہتے ہیں، اپنا بایاں ہاتھ اپنے دائیں طرف والے کے کمر پر رکھتا ہے اور یہی طریقہ صَف کے آخر فرد تک دہرایا جاتا ہے۔ ڈھول کی آواز یا نوحہ کے مصرعوں کے ساتھ ہر کوئی ایک قدم آگے بڑھاتا ہے۔ ماضی میں اس رسم میں ننگی تلوار کا استعمال کیا جاتا تھا لیکن آج اسی طرح کی لاٹھیوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔[8]
ایران کے صوبے مغربی آذربائیجان اور مشرقی آذربائیجان کے شمالی شہروں، اراسباران کے علاقوں اور تبریز کے کچھ محلوں میں، اس قسم کی عزاداری الگ طریقے سے منائی جاتی ہے، جس میں ماتم کرنے والے کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر دو گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں اور لاٹھیوں اور تلواریں کے بجائے پہلا گروہ ہم آہنگی کے ساتھ اپنے پاؤں کو زمین پر مارتا ہے اور "شاخسی" کہتا ہے اور دوسرا گروہ ان کے سامنے پاؤں زمین پر مار کر "واخسی" کہتا ہے۔
نیز، شاخسی کی رسم میں، اس جملے کے علاوہ، دوسرے نعرے بھی استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے: "امام"، "شہید" اور "حُب"، "علی" اور "حسن"، "حسین" وغیرہ۔[9]
تاریخ
معاصر مورخ رسول جعفریان نے شاہ حسین وا حسینؑ کہنے والے دستے صفوی دور میں بھی ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔[10] تبریز کی تاریخ کے ایک محقق میمنت نژاد کے مطابق، پہلا باضابطہ شاخسی واخسی کا دستہ قزلباشوں کے ایک فوجی دستے نے شاہ اسماعیل صفوی کے دور میں ڈھول اور سنبل (Cymbal) کے ساتھ تشکیل دیا تھا۔ ان کی رائے میں شاہ حسین گویان کہلانے والے اس دستے کی تاریخ جہانشاہ قراقیونلوں کے دَور اور اس سے بھی پہلے کی ہو سکتی ہے۔[11] کہا جاتا ہے کہ سنہ 1307 ہجری میں نجف میں اس وقت کی مرکزی حکومت کے نائب گورنر نے عزاداری کے دستوں اور شاخسی واخسی پر پابندی لگا دی لیکن علماء اور طلباء کی مخالفت کی وجہ سے یہ پابندی اٹھا لی گئی۔[12]
جمہوریہ آذربائیجان کے ایک گاؤں، نارداران میں، دیگر ماتمی طریقوں کے ساتھ، شاخسی واخسی کا رواج عام تھا۔[13] ایران کے خوئی شہر میں بھی شاخسی نام سے دستوں کا ذکر ملتا ہے۔[14] ذرائع کے مطابق ایران کے مراغہ شہر میں بھی شاخسی واخسی نامی دستوں کا ذکر ملتا ہے۔ مآخذ میں کہا گیا ہے کہ مراغہ میں بھی محرم کے مہینے میں اسی نام سے دستے نکالے جاتےتھے۔[15] اس رسم کا تذکرہ تبریز میں 13ویں صدی شمسی میں بھی ہوا ہے۔ اس رسم کے دوران تبریز کے شیعہ چھڑی کو ہاتھ میں لیتے تھے اور "شاخسی واخسی" کا نعرہ لگاتے ہوئے چھڑی کو ہلاتے تھے۔[16] عبداللہ مستوفی نے اپنی سوانح عمری میں شاخسین واخسین (شاہ حسین وا حسین) کے ذکر کی طرف عوام ترکوں کا بدن کو چھری مارنے سے پہلے اشارہ کیا ہے۔[17]
حوالہ جات
- ↑ محدثی، فرہنگ عاشورا، 1376شمسی، ص239۔
- ↑ رشیدوش، تحلیل مردم شناختی مراسم مذہبی اللہ اللہ حسینہ وینا (مراسم احرام بستن) در شہرستان مراغہ، 1398شمسی، ص57۔
- ↑ «شاہ حسین گویان تبریز؛ از گذشتہ تاکنون»، ایسنا۔
- ↑ «شاہ حسین گویان تبریز؛ از گذشتہ تاکنون»، ایسنا۔
- ↑ ثاقب بخشایشی، «گزارشی بر ادبیات رثایی آذری»، ص215۔
- ↑ ثاقب بخشایشی، «گزارشی بر ادبیات رثایی آذری»، ص215۔
- ↑ «شاہ حسین گویان تبریز؛ از گذشتہ تاکنون»، ایسنا۔
- ↑ ثاقب بخشایشی، «گزارشی بر ادبیات رثایی آذری»، ص216۔
- ↑ «شور و شعور حسینی در تبریز ـ 4| سبک خاص و زیبای عزاداری در ارسباران آذربایجان شرقی+فیلم »، سایت خبرگزاری تسنیم۔
- ↑ جعفریان، صفویہ در عصر دین، فرہنگ و سیاست، 1379شمسی، ج2، ص70۔
- ↑ «شاہ حسین گویان تبریز؛ از گذشتہ تاکنون»، ایسنا۔
- ↑ جعفریان، میراث اسلامی ایران، 1373شمسی، ج8، ص411۔
- ↑ تقی زادہ داوری و جباری، شیعیان جمہوری آذربایجان، 1389شمسی، ص275۔
- ↑ صدرایی خویی، سیمای خوی، 1373شمسی، ص66۔
- ↑ باقی، «حولہ بندان»، 1398شمسی، ج2، ص444۔
- ↑ مشکور، تاریخ تبریز تا پایان قرن نہم ہجری، 1352شمسی، ص193۔
- ↑ مستوفی، شرح زندگانی من، 1384شمسی، ج1، بخش 2، ص277۔
مآخذ
- باقی، عمادالدین، «حولہ بندان»، در دانشنامہ فرہنگ مردم ایران، ج2، تہران، مرکز دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، 1398ہجری شمسی۔
- ثاقب بخشایشی، عیسی، «گزارشی بر ادبیات رثایی آذری» در نشریہ امامت پژوہی، شمارہ 5، 1391ہجری شمسی۔
- جعفریان، رسول، صفویہ در عصر دین، فرہنگ و سیاست، تہران، پژوہشکدہ حوزہ و دانشگاہ، 1379ہجری شمسی۔
- تقی زادہ داوری، محمود و ولی جباری، شیعیان جمہوری آذربایجان، قم، شیعہ شناسی، 1389ہجری شمسی۔
- «شور و شعور حسینی در تبریز ـ 4| سبک خاص و زیبای عزاداری در ارسباران آذربایجان شرقی+فیلم »، سایت خبرگزاری تسنیم، تاریخ اشاعت 21 شہريور 1398شمسی، تاریخ مشاہدہ 7 مرداد 1402ہجری شمسی۔
- صدرایی خویی، علی، سیمای خوی، قم، سازمان تبلیغات اسلامی، 1373ہجری شمسی۔
- رشیدوش، وحید، «تحلیل مردم شناختی مراسم مذہبی اللہ اللہ حسینہ وینا (مراسم احرام بستن) در شہرستان مراغہ»، در نشریہ شباک، شمارہ 48، 1398ہجری شمسی۔
- محدثی، جواد، فرہنگ عاشورا، قم، نشر معروف، 1376ہجری شمسی۔
- مستوفی، عبداللہ، شرح زندگانی من، 1385شمسی، بی نا، بی جا.
- مشکور، محمدجواد، تاریخ تبریز تا پایان قرن نہم ہجری، تہران، انجمن آثار ملی، 1352ہجری شمسی۔
- «شاہ حسین گویان تبریز؛ از گذشتہ تاکنون»، سایت ایسنا، تاریخ اشاعت: 16 مرداد 1401ہجری شمسی۔ تاریخ مشاہدہ: 10 تیر 1402ہجری شمسی۔
- «تعزیہ و عزاداری تاریخی مردم اردبیل در بازار سنتی این شہر ثبت ملی شد»، سایت ایسنا، تاریخ اشاعت: 21 دی 1391ہجری شمسی۔ تاریخ مشاہدہ: 10 تیر 1402ہجری شمسی۔