مجلس عزاداری
واقعات | |
---|---|
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوط • حسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تک • واقعۂ عاشورا • واقعۂ عاشورا کی تقویم • روز تاسوعا • روز عاشورا • واقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میں • شب عاشورا | |
شخصیات | |
امام حسینؑ علی اکبر • علی اصغر • عباس بن علی • زینب کبری • سکینہ بنت الحسین • فاطمہ بنت امام حسین • مسلم بن عقیل • شہدائے واقعہ کربلا • | |
مقامات | |
حرم حسینی • حرم حضرت عباسؑ • تل زینبیہ • قتلگاہ • شریعہ فرات • امام بارگاہ | |
مواقع | |
تاسوعا • عاشورا • عشرہ محرم • اربعین • عشرہ صفر | |
مراسمات | |
زیارت عاشورا • زیارت اربعین • مرثیہ • نوحہ • تباکی • تعزیہ • مجلس • زنجیرزنی • ماتم داری • عَلَم • سبیل • جلوس عزا • شام غریبان • شبیہ تابوت • اربعین کے جلوس |
مجلس عزاداری یا ماتم داری عزاداری کا ایک طریقہ ہے جس میں امام حسینؑ اور دوسرے معصومین پر آنے والی مصیبتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ عزاداری کی مجلسوں کو فارسی میں مجلس روضہ خوانی بھی کہاجاتا ہے۔ ان رسومات میں ذاکر یا عالم دین منبر یا کرسی وغیرہ پر بیٹھ کر متعلقہ معصومؑ کے مصائب کو مخصوص انداز میں بلند آواز کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ شیعوں کی عزاداری کی مجالس میں روضہ اور روضہ خوانی کی تعابیر دسویں صدی ہجری میں کتاب روضۃ الشہداء کے منظر عام پر آنے کے بعد سے رائج ہوئی ہے۔
مفہوم
روضہ لغت میں روضہ باغ، بہشت اور گلزار وغیرہ کے معنی میں آتا ہے۔[1] اصطلاح میں امام حسینؑ اور دوسرے معصومینؑ کی مصیبتوں کو ذکر کرنے کو روضہ کہا جاتا ہے۔ روضہ خوان یا ذاکر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو روضہ خوانی کرتا ہے۔ امام حسینؑ کی مجلس عزا کو بھی روضہ خوانی کہا جاتا ہے۔[2]
تاریخچہ
شیعوں کی عزاداری کے مجالس میں روضہ اور روضہ خوانی کی تعابیر دسویں صدی ہجری میں کتاب روضۃ الشہداء کے منظر عام پر آنے کے بعد سے رائج ہوئی ہے۔ محدث نوری جس نے لؤلؤ و مرجان نامی کتاب کو روضہ خوان کے شرائط کے بارے میں تحریر کی ہیں،[3] کہتے ہیں: "ملا حسین کاشفی کی کتاب روضہ الشہدا کے منظر عام پر آنے سے پہلے مؤمنین کے اس گروہ[ذاکرین] کے لئے کوئی مخصوص نام نہیں تھا"۔[4]
مرثیہ اور مصائب پڑھنے والے شخص کو روضہ خوان کہنے کی علت یہ ہے کہ گذشتہ زمانے میں مرثیہ خوان یا مصائب پڑھنے والے حضرات کربلا کے مصائب کو روضۃ الشہداءِ نامی کتاب سے پڑھتے تھے۔ چون ذاکرین مصائب کو بعینہ کتاب روضۃ الشہداء سے لوگوں کے لئے بیان کرتے تھے اس مناسبت سے ان کو روضہ خوان کہا جانے لگا۔[5] رفتہ رفتہ یہ اصطلاح امام حسینؑ کے ذکر مصیبت کے لئے رائج ہوئی اور متعلقہ شخص یا ذاکر روضہ خوان کے نام سے مشہور ہوا۔[6] محمد ہادی یوسفی غروی روضہ اور روضہ خوانی کی اصطلاح کو فتال نیشابوری (متوفی 508ھ) کی کتاب روضۃ الواعظین کی طرف نسبت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ نوحہ پڑھنے والے ذاکرین کتاب روضۃ الواعظین کو پڑھتے تھے اس لئے ان کو روضہ خوان کہا جاتا تھا۔[7]
آداب و رسوم
روضہ خوانی کی مجلسیں معصومین کی شہادت کے ایام، خاص کر محرم اور صفر میں منعقد ہوتی ہیں۔ یہ مجلسیں امام بارگاہوں، مساجد اور دیگر مذہبی مقامات پر منقد ہوتی ہیں۔[8]ان مجالس میں ذاکر منبر یا کسی کرسی پر بیٹھ کر امام حسینؑ یا دیگر معصومین کے مصائب کو مخصوص انداز میں بلند آواز کے ساتھ پڑھتے ہیں جس سے سامعین میں گریہ و زاری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ ذکر مصیبت پڑھنے والوں میں ذاکرین کے ساتھ ساتھ علماء کا نام بھی لیا جا سکتا ہے جو عموما ذکر مصیبت سے پہلے تقریر کرتے ہوئے لوگوں کو وعظ و نصیحت اور معصومین کی سیرت اور اهداف سے آشنا کرتے ہیں اور آخر میں ان ہستیوں پر آنے والے مصائب کا ذکر کرتے ہیں۔[9]
روضہ خوانی کی اکثر مجلسوں میں جہاں خواتین و حضرات دونوں حاضر ہوتے ہیں تو بعض مجالس صرف خواتین کے ساتھ بھی مخصوص ہوا کرتی ہیں۔[10]
شیعہ عقائد کی ترویج
روضہ خوانی کی مجلسیں شیعہ اعتقادات کی تثبیت اور ائمہ معصومینؑ خاص کر شہدائے کربلا کے اہداف کو لوگوں تک پہنچانے میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ امام خمینی سید الشہداء امام حسینؑ کی عزاداری کا مقصد مکتب تشیّع کی حفاظت اور اس کی ترویج قرار دیتے ہیں۔[11]
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ دہخدا، لغتنامہ، ج8، ص12389۔
- ↑ دہخدا، لغتنامہ، ج8، ص12391-12389۔
- ↑ حسینیجلالی، فہرسالتراث، ج2، ص237۔
- ↑ نوری، لؤلؤ و مرجان، ص78۔
- ↑ قمی، فوائدالرضویہ، ص146؛ آقا بزرگ، الذریعہ، ج7، ص93۔
- ↑ قمی، فوائدالرضویہ، ص146۔
- ↑ اعتبارسنجي منابع عاشورا
- ↑ یاراحمدی، روضہخوانی بہ مثابہ یک نظام نمایشی، ص174۔
- ↑ مستوفی، شرح زندگانی من۔۔، ج1، ص275۔
- ↑ یاراحمدی، روضہخوانی بہ مثابہ یک نظام نمایشی، ص174۔
- ↑ امام خمینی، صحیفہ نور، ج8، ص526۔
مآخذ
- افشار، ایرج، (مقدمہ و فہارس)، روزنامہ خاطرات اعتمادالسلطنہ، چاپ پنجم، انتشارات امیرکبیر، تہران، 1379ہجری شمسی۔
- امام خمینی، صحیفہ نور، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(س)، تہران
- الگار، حامد، دین و دولت در ایران(نقش علما در دورۀ قاجار)، ترجمہ: ابو القاسم سری، تہران توس، 1369ہجری شمسی۔
- پیتر و دلاولہ، سفرنامہ، ترجمہ: شعاع الدین شفا، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، 1370ھ۔
- حسینی جلالی، سید محمد حسین، فہرس التراث، دلیل ما، قم، 1422ھ۔
- دہخدا، علیاکبر، لغتنامہ، انتشارات دانشگاہ تہران، 1377ہجری شمسی۔
- دوستعلی خان معیرالممالک، یادداشتہایی از زندگانی خصوصی ناصرالدین شاہ، چاپ سوم، تہران، نشر تاریخ ایران، 1372 ہجری شمسی۔
- قمی، شیخ عباس، فوائدالرضویہ، بینا، بیتا۔
- محرمی، غلامحسین، تاریخ عزاداری برای امام حسین علیہالسلام، تاریخ در آیینہ پژوہش، پاییز 1382 - پیش شمارہ 3۔
- مستوفی، عبداللہ، شرح زندگانی من یا تاریخ اجتماعی و اداری دورہ قاجاریہ، چاپ سوم، تہران، انتشارات زوار، 1371ہجری شمسی۔
- مظاہری، محسن حسام، رسانہ شیعہ: جامعہشناسی آئینہای سوگواری و ہیئتہای مذہبی در ایران، شرکت چاپ و نشر بینالملل، تہران، چاپ سوم 1389ہجری شمسی۔
- نوری، میرزا حسین، لؤلؤ و مرجان، چاپ اوّل، بیجا، انتشارات نور، بیتا۔
- مظاہری، محسن حسام، رسانہ شیعہ (سوگواری شیعیان ایران از آغاز تا پیش از پیروزی انقلاب اسلامی)، مجلہ اخبار ادیان، فروردین و اردیبہشت 1385 - شمارہ 18۔
- یاراحمدی، جہانشیر، روضہخوانی بہ مثابہ یک نظام نمایشی، مجلہ تئاتر بہار 1387 - شمارہ 41۔