بلتستان
عمومی معلومات | |
---|---|
ملک | پاکستان |
صوبہ | گلگت بلتستان |
نام | بلتستان |
زبان | بلتی اور شینا |
قومیت | بلتستانی |
ادیان | اسلام |
مذہب | امامیہ، اسماعیلیہ، اہل سنت |
مسلم آبادی | سو فیصد |
شیعہ آبادی | تقریبا 85 فیصد |
تاریخی خصوصیات | |
قدیمی نام | تبت خورد |
تاریخ اسلام | چودھویں صدی عیسوی کے اواخر |
تاریخ تشیع | آٹھویں صدی ہجری |
اہم واقعات | جنگ آزادی، اسد عاشورا |
تاریخی مقامات | کھرپوچو، مسجد امبوڑک شگر اور مسجد چقچن |
اماکن | |
زیارتگاہیں | قتلگاه، مرقد شیخ علی برلمو، آستانہ سید محمود |
حوزہ علمیہ | جامعہ قبازردیہ، جامعہ منصوریہ، جامعۃ النجف، جامعۃ الزہرا اور محمدیہ ٹرسٹ کے مدارس |
مساجد | جامع مسجد سکردو، مسجد امبوڑک شگر اور مسجد چقچن |
امام بارگاہیں | چھوغو ماتم سرا |
مشاہیر | |
مذہبی | میر سید علی ہمدانی، میر شمس الدین عراقی |
سیاسی | علی شیر خان انچن |
بَلْتِسْتان، پاکستان کے شمالی صوبہ گلگت بلتستان میں دو پہاڑی سلسلے کوہ قراقرم اور ہمالیہ کے دامن میں واقع ایک شیعہ اکثریتی علاقہ ہے۔ آٹھویں صدی ہجری میں میر سید علی ہمدانی اور میر شمس الدین عراقی (906-907ھ) کے ذریعے یہاں اسلام پہنچا۔ سنہ 500 عیسوی میں بلتستان پر سلطنت پولولو کی حکمرانی تھی۔
سکردو بلتستان کا مرکز اور سب سے بڑا شہر ہے جبکہ روندو، شگر، خپلو، کھرمنگ اور گلتری بلتستان کے دیگر علاقے شمار ہوتے ہیں۔ بلتستان میں بلتی اور شینا زبانیں بولی جاتی ہیں۔
یہ علاقہ سنہ 1948ء میں ڈوگروں سے آزادی حاصل کرکے پاکستان میں شامل ہوگیا۔ اسد عاشورا یہاں کی مخصوص مذہبی عزاداری ہے جو ہر سال گرمیوں میں برپا ہوتی ہے۔
جغرافیہ
بلتستان کے جنوب میں کشمیر، مشرق میں لداخ اور کرگل، مغرب میں گلگت اور دیامر جبکہ شمال میں کوہ قراقرم بلتستان کو چین کے صوبہ سنکیانگ سے ملاتا ہے۔[1] بلتستان، پاکستان کے انتہائی شمال میں دو پہاڑی سلسلے قراقرم اور ہمالیہ کے دامن میں 10118 مربع میل پر پھیلا ہوا پہاڑی علاقہ ہے[2] جہاں دنیا کی کئی بلند چوٹیاں واقع ہیں انہی پہاڑی سلسلوں میں سے ایک دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو(K2) ہے۔[3] بلتستان سکردو، روندو، شگر، کھرمنگ، گلتری اور خپلو کی وادیوں پر مشتمل ہے۔[4] انتظامی لحاظ سے یہ علاقہ چار اضلاع سکردو، کھرمنگ، شگر اور ضلع گانچھے میں منقسم ہے اور حال ہی میں روندو کو بھی ضلع کا درجہ دینے کا نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے۔[5]
تاریخ کے آئینے میں
قدیم تاریخ
کہا جاتا ہے کہ تقریبا سنہ 500 عیسوی میں اس خطے میں ایک عظیم حکومت قائم تھی جسے سلطنت پولولو کہا جاتا تھا۔[6] چین کے حکومتی اسناد میں سنہ 696 عیسوی میں سلطنت پولولو کے سفیر چین کے دربار میں آنے کا ذکر ملتا ہے۔[7] سنہ 720 عیسوی کے بعد تبتیوں کے حملے میں اس سلطنت کا خاتمہ ہوا اور تقریبا سنہ 838 عیسوی تک اس علاقے پر تبتیوں کی حکومت رہی۔[8] مرکز میں تبتیوں کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہر علاقہ ایک مستقل حکومت کی شکل اختیار کر گیا یوں بلتستان بھی ایک علیحدہ ریاست بن گیا۔[9]
راجاؤں کا دور
بلتستان کے قدیمی فرمانرواؤں کو راجا یا رگیلفو کہا جاتا تھا۔ دسویں صدی ہجری میں علی شیر خان انچن مشہور ترین راجا گزرے ہیں۔ جنہوں نے استور، چلاس، گلگت اور چترال پر بھی اپنی سلطنت قائم کی اسی وجہ سے انہیں "انچن" یعنی طاقتور کا لقب دیا گیااور سکردو میں موجود قلعہ کھرپوچو علی شیر خان انچن کے دور کا بنا ہوا ہے۔ سنہ 1256 ہجری کو بلتستان کا آخری راجا احمد خان ڈوگروں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوا یوں بلتستان پر ڈوگروں کے تسلط کا خاتمہ ہوگیا اور کشمیر کے ساتھ ملحق ہوگیا۔ بلتستان سنہ 1263 ہجری میں امرتسر کی قرارداد کے تحت لداخ میں شامل ہوگیا اور چونکہ اس وقت برصغیر پر انگلستان کی حکومت تھی یوں یہ علاقہ انگلستان کے زیر تسلط چلاگیا۔[10]
آزادی کے بعد
سنہ 1947ء میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر جب پاکستان اور ہندوستان دو الگ الگ ریاست بن گئے تو جموں و کشمیر کے مہاراجا نے بلتستان سمیت استور، گلگت، ہنزہ اور نگر کو ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا[11] لیکن سنہ 1948ء میں گلگت بلتستان کے عوام نے میجر محمد حسین کی قیادت میں جنگ لڑ کر کشمیر کے مہاراجہ سے اپنے خطے کا قبضہ چھڑا لیا اور رضاکارانہ طور پر پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا۔[12]
اپریل 1949ء میں کراچی میں حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کے سیاسی رہنماؤوں کا ایک باہمی معاہدہ عمل میں آیا جو معاہدہ کراچی کے نام سے مشہور ہوا، جس کے تحت گلگت بلتستان کو بھی مقامی باشندوں کی مرضی کے بغیر مسئلہ کشمیر کے ساتھ ملحق کر دیا گیا[13] اور انتظامی حوالے سے اسے پاکستان کے صوبہ سرحد کے ماتحت رکھا گیا اور صوبہ سرحد کے سرحدی علاقوں کے دوسری ایجنسیوں کی مانند گلگت بلتستان کو بھی پولیٹکل ایجنسی بنا دیا۔ یہاں کا پہلا پولیٹکل ایجنٹ سردار عالم خان تھا۔[14]
1970ء میں صدر پاکستان جنرل محمد یحیی خان نے اس علاقے کو شمالی علاقہ جات کے نام سے ایک علیحدہ انتظامی یونٹ بنا دیا۔[15] سنہ 2009ء میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے شمالی علاقہ جات یعنی گلگت بلتستان کو صوبائی طرز حکومت کے تحت جزوی طور پر اختیارات منتقل کیے گئے۔ اس آرڈیننس کے تحت گلگت بلتستان اسمبلی میں 24 نشستیں قائم کی گئیں جن کے سربراہ وزارت اعلیٰ کا منصب دیا گیا، ساتھ ہی گورنر کا عہدہ بھی قائم کیا گیا۔[16]
زبان و ادب
بلتی زبان، تبتی زبان کا ایک جز ہے۔ یہ زبان بلتستان، تبت، لداخ، كارگل، بھوٹان، سكم اور نیپال کے شمال میں مختصر تفاوت کے ساتھ بولی جاتی ہے۔ مختلف علاقوں میں لہجے کے اعتبار سے فرق ضرور پایا جاتا ہے لیکن تحریر میں پہلے کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے۔[17]
كیسر کے زمانے میں بلتستان میں اشتراکی اور اجتماعی نظام رائج تھا۔ ہر محلے میں ایک مخصوص مقام ہلچنگره ہوا کرتا تھا جہاں پر لوگ جمع ہو کر اپنی روزمرہ زندگی اور سماجی کاموں کے اہم فیصلے کیا کرتے تھے. مختلف موسموں میں مختلف قسم کے تہوار منایے جاتے تھے۔ جن میں جشن نوروز، (شمسی سال کا آغاز اور بہار کی آمد پر) ستروب لا، (گندم اور جو کے فصل میں دانے پڑنے کی مناسبت سے) اونگ دق، (گندم اور فصل کی کاشت ختم ہونے اور غلہ جمع کرنے کی مناسبت سے) برق بب، نورپهب (گرمیوں کے آخر میں مال موشیوں کو پہاڑوں سے واپس گھروں میں لانے کی مناسبت سے) اور كهاستون (موسم سرما کی پہلی برفباری کی مناسبت سے) معروف ہے۔[18]
اسلام کی آمد کے بعد جہاں لوگوں کے رہن سہن اور آداب و رسوم پر اسلامی تمدن کی حکمرانی دیکھی جا سکتی ہے وہاں بلتی زبان و ادب پر بھی اسلامی تہذیب کے نقوش کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ بلتی زبان، عربی اور فارسی زبان سے متاثر ہو کر عربی اور فارسی رسم الخط میں لکھی اور پڑھی جاتی رہی ہے۔ زبان کے ساتھ ساتھ ادب اور ثقافت میں بھی اسلامی آثار نمایاں ہونے لگے یوں بلتی ادب میں غزل اور گیت گانوں کی جگہ مذہبی قصاید، نوحے اور مرثیوں نے لے لی۔[19] مختلف مناسبتوں پر مذہبی تہوار بڑے جوش و خروش کے ساتھ منائے جانے لگے۔ ان مذہبی تہواروں میں چودہ معصومین کی ولادت اور شہادت کے ایام، خاص طور پر عزاداری امام حسینؑ، جشن عید غدیر، جشن ولادت امام حسینؑ (3 شعبان العظم)، جشن شب برات (15 شعبان المعظم) اور جشن مولود کعبہ (13 رجب المرجب) نہایت عقیدت اور احترام سے منائے جاتے ہیں جن میں ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیں اور بلتی زبان میں مرثیے، نوحے اور قصائد پڑھتے ہیں۔[20]
بلتستان میں اسلام کی آمد
اسلام آنے سے قبل اہل بلتستان بدھ مت کے پیرو تھے۔[21] چودھویں صدی عیسوی کے آخری ربع کے دوران ایرانی مبلغین کے ذریعے بلتستان میں اسلام پھیلنا شروع ہوا۔ مقامی لوگوں کے مطابق سید علی ہمدانی (1373-1383ء) نے بلتستان کا سفر کیا یہیں سے بلتستان میں اسلام کی اشاعت شروع ہوئی۔[22] میر سید علی ہمدانی کے بعد میر شمس الدین عراقی (906-907ھ) نے تمام بتکدوں کو ویران کر کے ان کی جگہ مساجد تعمیر کروائی اسی وجہ سے انہیں بت شکن کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔[23] اس وقت بلتستان کی آبادی 100 فیصد مسلمان ہیں جن میں تقریبا اکثریت شیعہ امامیہ ہیں جبکہ اسماعیلیہ اور اہل سنت بھی اس علاقے میں موجود ہیں۔[24]
مذہب تشیع
بلتستان میں کم از کم آٹھویں صدی ہجری سے شیعہ آباد ہیں اور آج بھی یہاں کی اکثریتی آبادی شیعہ ہے لیکن مغلوں کے حملے کے بعد نقشبندیہ سے آئے ہوئے کچھ لوگوں نے یہاں مذہب حنفیہ کی تبلیغ کی کوشش کی۔[25] گلگت میں بھی پہلے شیعہ مذہب کی اکثریت تھی لیکن مہاجرتوں کی نئی پالیسی کی وجہ سے اس وقت وہابیوں کی ایک بڑی تعداد گلگت کے گرد و نواح میں آباد ہوگئی ہے۔[26] میر شمس الدین عراقی جو کشمیر میں نور بخشیہ کی تعلیمات کی آڑ میں شیعہ مذہب کی تبلیغ کرتے تھے، نے شیعہ مذہب کو کشمیر سے بلتستان منتقل کیا۔[27]
بلتستان کے لوگوں کا اسلام لائے ہوئے اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ان کی زبان، کھیتی باڑی اور لوگوں کے رہن سہن کے آداب میں تبتی ثقافت کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں۔[28] ایران اور اسلامی انقلاب سے ان کو دلی اور مذہبی لگاؤ ہے۔ بلتستان میں عید نوروز منانا اس علاقے میں ایرانی ثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔[29] بلتستان میں صفویہ دور میں بارہ اماموں اور صفویہ بادشاہوں کے نام خطبہ میں لئے جاتے تھے۔[30]
اسد عاشورا
بلتستان میں محرم الحرام کے علاوہ ہر سال گرمیوں کے موسم میں بھی مجالس کا ایک سلسلہ منعقد کیا جاتا ہے۔ 31 جولائی کو پورے بلتستان میں "اسد عاشورا" کے عنوان سے ماتمی جلوس عقیدت و احترام کے ساتھ نکالے جاتے ہیں۔ اسد عاشورا منانے کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں؛ قدیم الایام مبلغین کا ہر موسم میں وہاں پہنچنا ناممکن تھا اس لئے گرمیوں میں آکر مجالس منعقد کرتے تھے اور یہی اب تک رائج رہا ہے لیکن عام لوگوں کے مطابق سنہ 61 ہجری میں واقعہ کربلا گرمیوں کے موسم میں واقع ہوا تھا اس لئے اس علاقے میں زمانہ قدیم سے سال کے انہی ایام میں عزاداری برپا کرنے کے ذریعے امام حسین اور آپ کی عظیم قربانی کی یاد مناتے ہیں۔[31]
مذہبی اور سماجی شخصیات
بلتستان کے چیده مذہبی اور سماجی شخصیات درج ذیل ہیں:
- شیخ علی تبتی: ان کا شمار پاکستان کے فلسفی علما میں ہوتا ہے جو ملا ہادی سبزوای کے شاگرد اور تیرہویں صدی ہجری کے اصحاب حکمت میں سے تھے۔ ملا ہادی سبزواری نے آپ کو اپنا معنوی بیٹا قرار دیا تھا۔[32]آپ نے مشہد میں کئی سال تک ملاہادی سبزواری کے درس میں شرکت کی۔ حکیم سبزواری نے آپ کے سوالوں کے جواب میں ایک کتابچہ بھی لکھا ہیں۔[33]
- شیخ علی غروی برولمو: آپ صاحب کرامات علماء میں سے تھے اور آپ کے مرقد پر آج بھی لوگ حاجت روائی کے لیے جاتے ہیں۔[34]
- شیخ غلام محمد غروی: آپ قائد شمالی علاقہ جات کے نام سے معروف تھے۔ بلتستان میں محکمہ شرعیہ کا قیام آپ کے اہم کارناموں میں سے ہے۔[35]
- شیخ حسن مہدی آبادی: آپ محمدیہ ٹرسٹ پاکستان کے بانی ہیں۔ جس کے تحت پاکستان کے مختلف شہروں میں دینی مدارس، دارالایتام، قرآن سنٹرز اور دیگر دینی اور سماجی مراکز کام کر رہے ہیں۔[36]
- شیخ محسن علی نجفی: قرآن کی تفسیر اور ترجمہ کے مختلف کتابوں کی تصنیف کی۔ مختلف دینی مدارس، اسوہ سکول سسٹم، دینی اور سماجی مراکز کا قیام آپ کی اہم خدمات میں شامل ہیں۔[37]
- سید محمود شاه رضوی: آپ نے بلتستان کے ساتھ ساتھ کرگل میں بھی مذہب حقہ کی تبلیغ کی اور وہاں کے ہزاروں نوربخشیوں نے ان کی تبلیغ سے متأثر ہو کر مذہب حقہ قبول کی۔
- محمد یوسف حسین آبادی: انکا شمار بلتستان کی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ نے سنہ 1995ء میں پہلی مرتبہ قرآن مجید کا بلتی میں ترجمہ کیا۔[38]
- محمد علی سدپارہ: پاکستان کے ماہر کوہ پیما جن کا تعلق بلتستان سکردو کے گاؤں سدپارہ سے تھا۔ انہوں سے ماؤنٹ ایورسٹ اور کےٹو سمیت 8000 میٹر سے بلند تمام چوٹیوں کو سر کیا اور 5 فروری 2021ء کو کےٹو کی ایک سرمائی مہم میں کوہ پیمائی کرتے ہوئے لاپتہ ہوگئے۔[39] محمد علی سدپارہ اکثر پہاڑوں کو سر کرنے کے بعد پاکستانی پرچم کے ساتھ ساتھ امام حسین کا علم بھی لہرایا کرتے تھے۔[40]
- حسن فخرالدین: کا شمار بلتستان کے علماء و محققین میں ہوتا تھا۔ آپ مناظرہ اور رجالی موضوعات پر تحقیق میں شہرت رکھتے تھے۔ اور المعجم الکبیر فی اسماء الرجال نامی کتاب لکھا۔[41]
مذہبی اور تاریخی مقامات
- مسجد امبوڑک شگر: بلتستان کے علاقے شگر میں واقع ایک چھوٹی مگر قدیم مسجد ہے۔ اس کی تعمیر ایرانی مبلغ اسلام میر سید علی ہمدانی سے منسوب ہے۔[42] یہ مسجد بلتستان کی مشہور و معروف مسجد ہے۔ یونیسکو نے اس مسجد کو ثقافتی اعزاز بھی دیا ہے۔[43]
- مسجد چقچن: بلتستان کے علاقے خپلو میں واقع ایک قدیم مسجد ہے جس کی بنیاد 1370ء میں ایرانی مبلغ اسلام میر سید علی ہمدانی نے رکھی، بعض تاریخی اسناد کے مطابق یہ عمارت مسجد بننے سے پہلے بدھ مت کا خانقاہ تھا۔[44] یہ مسجد پاکستان کی اہم عمارتوں میں شامل ہے۔
- خانقاہ معلیٰ نوربخشیہ خپلو: خپلو بالا میں تعمیر کی گئی 400 سال پرانی خانقاہ ہے جس کی بنیاد میر مختار اخیار نے رکھی یہ خانقاہ لکڑی اور مٹی سے بنی گلگت بلتستان کی سب سے بڑی خانقاہ ہے جسمیں 3000 کے لگ بھگ لوگ سما سکتے ہیں اس کی تعمیر میں مغل، تبتی اور ایرانی طرز تعمیر کے نمونے شامل ہیں۔[45]
- قلعہ کھرپوچو: چودھویں صدی میں تبت خورد کے عظیم فرماں روا علی شیر خان انچن کے دور حکومت میں سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے 8 ہزار فٹ سے زائد بلندی پر چٹانوں کے اُوپر دیوہیکل پتھروں سے تعمیر کیا جانے والا پر شکوہ قلعہ "کھرپوچو" کہلاتا ہے۔[46]
- قتل گاہ شریف: سکردو شہر کے مرکز میں کربلا کے 72 شہداء کی یاد میں میں تعمیر کیا گیا مذہبی مقام قتل گاہ کے نام سے مشہور ہے۔ محرم اور اسد عاشورا کے جلوس سکردو کے مختلف امام بارگاہوں سے برآمد ہو کر یہاں اختتام کو پہنچتے ہیں۔ علماء، سیاسی اور سماجی شخصیات کے علاوہ مومنین کی کثیر تعداد یہاں مدفون ہیں۔[47]
ان کے علاوہ بلتستان میں دینی مدارس، مساجد اور امام بارگاہوں کی کثیر تعداد موجود ہیں جن میں جامع مسجد سکردو، جامعہ قبازردیہ، جامعہ منصوریہ، جامعۃ النجف اور محمدیہ ٹرسٹ کے مدارس قابل ذکر ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ تاریخ بلتستان، محمد یوسف حسین آبادی، فروری 2009ء، ص 4۔
- ↑ تاریخ بلتستان، محمد یوسف حسین آبادی، فروری 2009 ء، ص 4۔
- ↑ د. اسلام، چاپ دوم؛ بریتانیکا؛ آمریکانا، ذیل مادّه بلتستان
- ↑ تاریخ بلتستان، محمد یوسف حسین آبادی، فروری 2009ء، ص 4۔
- ↑ روزنامہ اوصاف، تاریخ درج: 15 مئی 2019ء، تاریخ اخذ: 1 جولائی 2019ء۔
- ↑ تاریخ بلتستان، محمد یوسف حسین آبادی، فروری 2009ء ، ص 29۔
- ↑ تاریخ بلتستان، محمد یوسف حسین آبادی، فروری 2009ء ، ص 30۔
- ↑ تاریخ بلتستان، محمد یوسف حسین آبادی، فروری 2009 ء، ص 31۔
- ↑ تاریخ بلتستان، محمد یوسف حسین آبادی، فروری 2009ء ، ص 40۔
- ↑ دایرہ المعارف جہان اسلام، چاپ دوم،
- ↑ دایرہ المعارف جہان اسلام، چاپ دوم
- ↑ تاریخ بلتستان، محمد یوسف حسین آبادی، فروری 2009ء، ص 291۔
- ↑ تاریخ بلتستان، محمد یوسف حسین آبادی، فروری 2009ء، ص 291۔
- ↑ تاریخ بلتستان، محمد یوسف حسین آبادی، فروری 2009ء ، ص 292۔
- ↑ تاریخ بلتستان، محمد یوسف حسین آبادی، فروری 2009ء، ص 298۔
- ↑ جیو اردو، تاریخ درج: 7جون 2015ء، تاریخ اخذ:1 جولائی 2019ء۔
- ↑ یوسف حسین حسین آبادی، تاریخ بلتستان، ص 319۔
- ↑ بلتستانی، فرہنگ و تمدن در دوره قبل از اسلام۔
- ↑ الفبای جدید، تاریخ بلتستان یوسف حسین آبادی، ص 318-319
- ↑ بلتستانی، فرہنگ و تمدن در دوره قبل از اسلام۔
- ↑ محمد یوسف حسین آبادی، تاریخ بلتستان، ص20۔
- ↑ محمد یوسف حسین آبادی، تاریخ بلتستان، ص23۔
- ↑ مقالہ، نگاہی بہ تاریخ اسلام در بلتستان
- ↑ خانہ فرہنگ، نگاهی به وضعیت فرهنگی اجتماعی بلتستان۔
- ↑ جعفریان، ص۵۹۹
- ↑ جعفریان، ص۶۰۸
- ↑ پَت اِمرسون و ریچارد امرسون، ج۱، ص۸۶ـ۸۸
- ↑ پَت اِمرسون و ریچارد امرسون، ج۱، ص۸۶ـ۸۸
- ↑ محمدی، ص۳۲ـ۳۳
- ↑ بہرامی، ص34
- ↑ شناسایی طول روز و تطبیق تاریخی قیام عاشورا/ محرم سال ۶۱ هجری برابر با مهرماه شمسی بود، خبر گزاری تسنیم
- ↑ ر.ک: آشتیانی، «شرح حال و آثار فیلسوف و متالہ و عارف محقق حاح ملا ہادی سبزواری»، ص۱۲۲-۱۲۴؛ سبزواری، رسائل حکیم سبزواری، ۱۳۷۰ہجری شمسی، ص۵۲۱.
- ↑ گوبینو، مذاہب و فلسفہ در آسیای وسطی، ص۸۵.
- ↑ معروف عالم دین شیخ علی برولمو کے آستانہ سے چند کلومیٹر دور کرگل کے عزاداروں کی حاضری دونوں سرکار سے بڑا مطالبہ بھی کردیا، تحریر نیوز۔
- ↑ محمد حسین حیدری، تاریخ بلتستان کی ایک ناقابل فراموش شخصیت؛علامہ شیخ غلام محمد غروی اعلی اللہ مقامہ، حوزہ نیوز ایجنسی
- ↑ آغا زمانی، خطہ بَلتستان کے نابغۂ روزگار عالمِ دین شیخ حسن مہدی آبادی(اعلی اللہ مقامہُ)، اسلام ٹائمز
- ↑ حیات شیخ محسن علی نجفی، آفیشل ویب سائٹ۔
- ↑ اسلام ٹائم، تاریخ درج، 24 جولائی 2016ء، تاریخ اخذ: 30 جون 2019ء۔
- ↑ ہم نیوز کی خبر
- ↑ ابناء نیوز کی خبر
- ↑ گروہ تحریر مرکز تحفظ اقدار اسلامی پاکستان، علامہ فخرالدین
- ↑ بلتستان کی تاریخ اور ثقافت، حسن حسرت
- ↑ بلتستان کا تعارف، یوسف حسین عابدی
- ↑ تاریخ بلتستان ،یوسف حسین آبادی
- ↑ بلتستان کا تاریخی ورثہ اور نقوش پارینہ، پامیر ٹائمز
- ↑ اسلام ٹائمز، تاریخ درج 21 جون 2011ء، تاریخ اخذ: 30 جون 2019ء۔
- ↑ «اسد عاشورا»، سنت عزاداری تابستانی در پاکستان، خبرگزاری جمہوری اسلامی، تاریخ درج 12 مرداد سنہ 1401ہجری شمسی، تاریخ اخذ: 14 جنوری سنہ 2024ء۔
مآخذ
- آشتیانی، سید جلال الدین، «شرح حال و آثار فیلسوف و متالہ و عارف محقق حاح ملا ہادی سبزواری»، در رسائل حکیم سبزواری، تہران، بینا، ۱۳۷۰شمسی۔
- آغا زمانی، خطہ بَلتستان کے نابغۂ روزگار عالمِ دین شیخ حسن مہدی آبادی(اعلی اللہ مقامہُ)، اسلام ٹائمز، تاریخ درج: 12 فروری سنہ 2022ء، تاریخ اخذ: 14 جنوری سنہ 2024ء۔
- آیینی مذہبی در پاكستان بہ یاد شہدای كربلا، خبرگزاری جمہوری اسلامی، تاریخ درج 11 مرداد سنہ 1397 ہجری شمسی، تاریخ اخذ:14 جنوری سنہ 2024ء۔
- بہرامیان، مسعود، «تشیع کشمیر در منازعہ بین ہند و پاکستان»، مجلہ زمانہ، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، شمارہ ۱۰۱، تیر ۱۳۹۰ش۔
- جعفریان، رسول، اطلس شیعہ، تہران، انتشارات سازمان جغرافیایی، ۱۳۹۱ش۔
- حسرت، حسن، بلتستان کی تاریخ اور ثقافت، بلتستان پاکستان، ماڈرن سٹيشنرى مارٹ، 1995ء
- سبزواری، ہادی بن مہدی، رسائل حکیم سبزواری، تہران، بینا، ۱۳۷۰ش۔
- شناسایی طول روز و تطبیق تاریخی قیام عاشورا/ محرم سال ۶۱ هجری برابر با مهرماه شمسی بود، خبر گزاری تسنیم، تاریخ درج: 5 شہریور سنہ 1399ہجری شمسی، تاریخ اخذ: 5 اگست سنہ 2021ء۔
- فرزین نیا، زیبا، پاکستان، تہران، دفتر مطالعات سیاسی و بین المللی، ۱۳۷۶شمسی۔
- کتابخانہ مدرسہ فقاہت، دانشنامه جهان اسلام، ماده بلتستان، جلد 1، صفحہ 1667۔
- گوبینو، ژوزف آرتور، مذاہب و فلسفہ در آسیای وسطی، ترجمہ م۔ ف۔ بی جا ، بی تا۔
- گلگت بلتستان میں انتخابی میدان کل لگے گا ،جیو اردو، تاریخ درج: 7جون 2015ء، تاریخ اخذ:1 جولائی 2019ء۔
- محمد حسین حیدری، تاریخ بلتستان کی ایک ناقابل فراموش شخصیت؛علامہ شیخ غلام محمد غروی اعلی اللہ مقامہ، حوزہ نیوز ایجنسی، تاریخ درج: 16 ستمبر سنہ2021ء، تاریخ اخذ: 14 جنوری سنہ 2024ء۔
- محمدی، محمدکاظم، سیمای پاکستان (یادداشتہای سفر)، تہران،دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۶۸ش۔
- معروف عالم دین شیخ علی برولمو کے آستانہ سے چند کلومیٹر دور کرگل کے عزاداروں کی حاضری دونوں سرکار سے بڑا مطالبہ بھی کردیا، تحریر نیوز، تاریخ درج: 24 اگست سنہ 2021ء، تارخ اخذ: 14 جنوری سنہ 2024ء۔
- یوسف، حسینآبادی، تاریخ بلتستان، سكردو، بلتستان بك ڈپو، دوسری ایڈیشن 2009ء۔
- the islam ، چاپ دوم ؛ بریتانیکا ؛ آمریکانا ، ذیل مادّه بلتستان