سیاہ پوشی

ویکی شیعہ سے
سیاہ پوشی
سیاہ پوشی
ایران کے شہر خوزستان میں سیاہ کپڑوں میں ملبوس عزاداروں کا جلوس
ایران کے شہر خوزستان میں سیاہ کپڑوں میں ملبوس عزاداروں کا جلوس
زمان‌ماہ محرم، صفر اور سال بھر کے دیگر ایام عزا
مکانشیعہ نشین علاقے
جغرافیائی حدوددنیا کے تمام شیعہ نشین علاقے
منشاء تاریخیقبل از اسلام
انواع و اقسامعزاداری، رشتہ داروں کی فوتگی
اہم مذہبی تہواریں
سینہ‌زنی، زنجیرزنی، اعتکاف، شب بیداری، تشییع جنازہ،
متفرق رسومات


سیاه‌ پوشی کے معنی ہیں کالا لباس پہننا اور مختلف مقامات کو سیاہ پوش کرنا اور یہ عزاداری اہل بیتؑ کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ صدر اسلام سے ہی شیعہ ثقافت میں اسے ایک رائج عمل کی حیثیت رہی ہے۔ ائمہ معصومینؑ سے منقول مختلف روایات میں اس رائج سنت کی تائید ملتی ہے۔

شیعہ فقہاء دینی شخصیات کی عزاداری کے وقت سیاہ پوشی کرنے کے عمل کو تعظیم شعائر اسلام کا ایک مصداق سمجھتے ہوئے اسے ایک مستحب عمل قرار دیتے ہیں۔ جن بعض روایات میں کالا لباس پہننا مکروہ قرار دیا گیا ہے فقہاء کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ان روایات کا مد نظر عزاداری کے علاوہ دیگر موقعے ہیں۔ سید جعفر طباطبایی حائری، سید حسن صدر اور مرزا جواد تبریزی جیسے بعض فقہاء نے عزاداری کے موقع پر کالا لباس پہننے کے استحباب کو ثابت کرنے کے بارے میں باقاعدہ طور پر مستقل کتابیں تحریر کی ہیں۔

سیاہ لباس بنی‌ عباس کی علامت بھی شمار ہوتا ہے۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ بنی عباس کے دور میں سیاہ جھنڈوں اور کپڑوں کے استعمال کے رجحان کو اہل بیتؑ پر بنی امیہ کے دور میں ڈھائے گئے مصائب کا بدلہ لینے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ بنی عباس نے اس عمل کو شیعیان و محبین ائمہؑ کو اپنی طرف مائل کرنے کے غرض سے انجام دیا۔ بعض محققین کہتے ہیں کہ ائمہؑ کی طرف سے سیاہ لباس پہننے کی ممانعت پر مشتمل روایات کی وجہ یہ تھی کہ بنی عباس اپنے اس عمل سے غلط استفادہ کرنا چاہتے تھے۔ ائمہ نے اس کے روک تھام کے لیے سیاہ لباس پہننے کی ممانعت کی۔

ماہ محرم کی آمد کے ساتھ ہی دنیا کے اکثر شیعہ نشین علاقوں میں ایام عزاداری کے آغاز میں سیاہ پوشی نامی ایک تقریب منعقد ہوتی ہے جہاں سوگوار خصوصی رسومات کے مطابق ماتمی لباس پہنتے ہیں اور مساجد، معصومینؑ کے حرم، امام بارگاہوں اور عزاداری منعقد کرنے کے دیگر مقامات کے دروازوں اور دیواروں کو سیاہ کپڑوں سے ڈھانپتے ہیں۔ ایران کے صوبہ آذربائیجان کے بعض شہروں میں 12 محرم کو "یقہ بندان" نامی ایک رسم منائی جاتی ہے جس کے دوران مجلس میں موجود بزرگ شخصیات اور ذاکرین ایک علامتی اشارے میں ماتم کرنے والوں کی قمیص کے بٹن باندھ دیتے ہیں، جنہیں عزاداری کی نشانی کے طور پر بند رکھے گئے تھے۔

کالا رنگ، سوگ اور سیادت کی علامت

معاشرے کے عام لوگ سیاہ لباس پہننے کو غم اور سوگ کی علامت سمجھتے ہیں۔ اسی لیے شیعیان اور محبان اہل بیتؑ بزرگان دین کے ایام عزا اور بالاخص ماہ محرم میں عزاداری امام حسینؑ کے موقع پر کالا لباس زیب تن کرتے ہیں اور عزاداری منعقد کرنے والے مقامات کو بھی کالے کپڑوں سے سیاہ پوش کرتے ہیں۔[1] امام جعفر صادقؑ نے فرمایا کہ عورتیں اپنے شوہروں کے سوگ میں سیاہ کپڑے پہنیں[2] اور روز غدیر سیاہ کپڑوں کے اتارنے کا دن ہے،[3] شیعہ مؤرخ علی ابو الحسنی (متوفیٰ: 1390ھ) نے امامؑ کے اس فرمان سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ائمہؑ نے بھی اس بات پر مہر تائید ثبت کیا ہے کہ سیاہ رنگ کی یہ فطری خصوصیت ہے کہ جس سے انسان کی اداسی اور ناخوشی ظاہر ہوتی ہے۔[4]

سیاہ رنگ کپڑوں کی ایک اور خصوصیت اس کی ہیبت، برتری اور سیادت کی علامت ہونا ہے۔ ابو الحسنی کے مطابق سیاہ رنگ کی اسی خصوصیت کے بموجب پیغمبر اکرمؐ اور اہل بیتؑ یوم غدیر جیسے خاص دنوں میں سیاہ عمامہ پہنتے تھے اور ان ہی کی پیروی کرتے ہوئے سادات بھی سیاہ عمامہ پہنتے ہیں۔[5]

عزاداری میں کالے لباس پہننے کے رسومات

مرقد امام زادہ معصوم تہران میں سیاہ لباس میں ملبوس عزاداران حسینی علاقائی رسومات ادا کرتے ہوئے

محسن حسام مظاہری کی کتاب "فرهنگ سوگ شیعی" کے مطابق، عزاداری کے ایام میں لوگ مخصوص رسم و رواج کے ساتھ سیاہ لباس پہنتے ہیں اور عزاداری منعقد کیے جانے والے مقامات کو بھی سیاہ کپڑوں سے ڈھانپ دیتے ہیں؛ ان کپڑوں پر عزاداری سے متعلق اشعار، مذہبی بیانات، ائمہؑ اور شہدائے کربلا کے نام لکھے جاتے ہیں۔ اس رسم کو "رسم سیاہ پوشان" کے نام سے یاد کرتے ہیں۔[6]

امام حسینؑ کی شہادت کے تیسرے دن (12 محرم) کو ایران کے صوبہ آذربائیجان کے بعض شہروں، جیسے تبریز اور خلخال میں عزاداری کی ایک اور رسم رائج ہے جسے "رسم یقہ بندان" کہتے ہیں۔ اس رسم میں محرم کے پہلے عشرے کے سوگ کے خاتمے کی علامت کے طور پر بزرگ ذاکرین عزاداروں کی قمیض کے بٹن کو باندھتے ہیں جنہیں عزاداران، سوگ کی حالت ظاہر کرنے کے لیے کھول رکھے تھے۔[7]

دینی پیشواؤں کے سوگ میں سیاہ پوشی کا استحباب

شیعہ مذہب میں دینی پیشواؤں کی شہادت یا رحلت کے موقعوں پر ان کے سوگ میں سیاہ لباس پہننا مستحب عمل سمجھا جاتا ہے اور بہت سے فقہاء نے اس عمل کو تعظیم شعائر الہی[8] کا مصداق قرار دے کر اس کے مستحب ہونے کا فتوا بھی دیا ہے[9] بعض شیعہ فقہاء جیسے سید علی حسینی خامنہ ای، سید علی سیستانی، ناصر مکارم شیرازی، لطف اللہ صافی گلپائگانی اور حسین وحید خراسانی سے دینی پیشواؤں کے سوگ میں کالے لباس پہننے کے بارے میں استفتاء کیا گیا ہے، مذکورہ مراجع تقلید نے اہل بیتؑ کے سوگ میں سیاہ لباس پہننے کو مستحب عمل قرار دیا ہے۔[9] بہت سے علما ایام عزاداری میں عملاً سیاہ لباس پہنتے تھے۔[10] آیت اللہ مرعشی نجفی نے اپنی وصیت میں سفارش کی کہ محرم اور صفر میں جو سیاہ لباس پہنتے تھے انہیں ان کے ساتھ دفن کیا جائے۔[11]

البتہ کالے لباس کی کراہت کے بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں[12] فقہاء نے انہی روایات کے مطابق نماز اور عام حالات میں سیاہ لباس پہننے کو مکروہ سمجھا ہے۔[13] لیکن کہا گیا ہے کہ کراہت کی روایات درست ہونے کے باوجود، اہل بیتؑ کے طرز عمل یا گفتار کے دیگر واقعات، جو تعظیم شعائر کی بنیاد پر سوگ میں سیاہ لباس پہننے کے جواز کو ظاہر کرتے ہیں، کالا لباس پہننا بدعت کے حکم سے خارج ہوجاتا ہے۔[14]

سیاہ پوشی کے بارے میں فقہاء کے قلمی آثار

شیعہ مجتہدین نے مذہبی پیشواؤں کے سوگ میں سیاہ لباس پہننے کے استحباب کی وضاحت کے لیے مستقل کتابیں لکھی ہیں:

سیاہ پوشی کا تاریخچہ

سیاہ رنگ کو بہت سی قوموں اور ثقافتوں میں سوگ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔[19] قدیم زمانوں میں مختلف مقامات جیسے قدیم ایران بھی یہ رنگ سوگ کی علامت سمجھا جاتا تھا اور رسم سیاوشان (ایک قومی تہوار) میں سیاہ پہننے کو ایک اہم مقام حاصل تھا۔[20] ایلخانی دور کے ایک مورخ حمد اللہ مستوفی (متوفی: 750 ھ) نے اپنی کتاب میں سیاوش کے قتل کے واقعات کا ذکر کرنے کے بعد سیاہ لباس پہننے اور بالوں کو پریشان کرنے کو سیاوش کے سوگ میں انجام دینے والے رسومات کے باقیات میں سے قرار دیا ہے۔[21] مختلف شواہد کے مطابق عربوں میں بھی سیاہ رنگ سوگ کے طور رائج تھا۔[22] کہا جاتا ہے کہ عراق اور بہت سے دوسرے خطوں میں ہجری سال کی ابتدائی صدیوں سے ہی سیاہ کپڑوں کو سوگ کی علامت سمجھا جاتا تھا۔[23]

پیغمبر خدا اور ائمہ معصومینؑ کی سیرت

علی ابو الحسنی نے اپنی کتاب "سیاه‌ پوشی در سوگ ائمہ نور" میں اس سلسلے میں تاریخی نقل کا ایک مجموعہ بیان کیا ہے، قطع نظر اس کے کہ ان میں سے کونسا کتنا معتبر ہے؛ مذکورہ کتاب میں بیان شدہ تاریخی نقل کے مطابق پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ اپنے عزیز و اقارب کے سوگ میں سیاہ لباس پہنتے تھے اور یہ رسم ان کے اور ان کے پیروکاروں میں بھی عام ہے۔[24] نمونے کے طور پر یہ کہ زینب بنت ام سلمہ نے حمزہ بن عبد المطلب کے سوگ میں تین دن تک سیاہ لباس پہنا اور رسول ؐ نے انہیں تسلی دی؛[25] چنانچہ آپؐ نے اسماء بنت عمیس کو اپنے شوہر جعفر بن ابی طالب کی شہادت پر تین دن تک (عزا کا لباس یعنی) سیاہ لباس پہننے کا حکم دیا۔[26] نیز شرح نہج البلاغہ ابن‌ ابی الحدید کی تصریح کے مطابق امام حسنؑ اپنے بابا امام علیؑ کی شہادت کے بعد سیاہ لباس زیب تن کر کے لوگوں کے درمیان تشریف لائے۔[27] شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضاؑ میں ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق امام موسی کاظمؑ کی تشییع جنازہ میں شریک لوگ سیاہ کپڑوں میں ملبوس تھے۔[28]

بحار الانوار میں علامہ مجلسی کی روایت کے مطابق یزید کی طرف سے اسرائے کربلا کی رہائی کے بعد بنی ہاشم کی تمام مخدرات نے سیاہ لباس زیب تن کیا اور شام میں سات دن تک امام حسینؑ کا غم منایا۔[29] کلینی کی اصول کافی میں منقول ایک روایت کے مطابق امام زین العابدینؑ کے کپڑے سیاہ رنگ کے تھے۔[30] کتاب محاسن برقی کے نقل کے مطابق امام حسینؑ کی شہادت کے بعد بنی ہاشم کی خواتین نے سیاہ کپڑے پہن کر ماتم کیا اور امام سجادؑ ان کے لیے کھانا تیار کرتے تھے۔[31] سند اور دلالت کےلحاظ سے اس روایت کو سب سے مضبوط روایت قرار دیا گیا ہے۔[32]

غیبت امام زمانہ میں شیعہ ثقافت

تاریخی نقل کے مطابق ائمہ معصومینؑ کے دوران حضور کے بعد اور غیبت امام زمانہ کے ادوار میں سیاہ لباس پہننے کا رواج عام تھا۔ آل بویہ کے دور میں سیاہ لباس پہن کر اہل بیتؑ کا سوگ مناناعام رائج تھا۔[33] کتاب "الکامل فی التاریخ" میں آیا ہے کہ امام حسینؑ کی عزاداری کا پہلا باقاعدہ ماتم معز الدولہ دیلمی کے حکم سے 352ھ میں ہوا اور اس طرح کی مجلس میں خواتین کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے بالوں کو پریشان کریں اور چہروں کو کالا۔[34] کتاب ادب الطف میں پانچویں صدی ہجری کے ایک شاعر کی ایک نظم نقل کی گئی ہے جس کا موضوع امام حسینؑ کے سوگ میں سیاہ لباس پہننا ہے۔[35]

کہا جاتا ہے کہ شیخ صفی‌ الدین اردبیلی کے پوتے اور صفوی باد شاہوں کے جد خواجہ علی عزاداری امام حسینؑ کے موقعوں پر مدام کالا لباس پہننے کی وجہ سے سیاہ پوش کے لقب سے ملقب ہوئے۔[36]

تہران میں قاجاریہ دور میں کالے لباس میں ملبوس عزاداران زنجیر زنی کرتے ہوئے

اطالوی سیاح پیٹرو ڈیلاولے (Pietro Della Valle) سنہ 1027ھ کو صفوی دور میں اصفہان کا دورہ کیا اس میں وہ لکھتا ہے کہ یہاں محرم کے دنوں میں لوگ سیاہ لباس پہن رکھے تھے۔[37]

فرانسیسی مصنف کانٹ ڈوگوبینو (Comte Dugobineau) نے لکھا ہے کہ قاجار دور کے امیروں، وزراء اور ملازمین کے لباس عزاداری کے ایام میں سیاہ ہوا کرتے تھے۔[38] اس دور کے ایک شیعہ شاعر وصال شیرازی (متوفیٰ: 1262ھ) نے اپنی عاشورہ کے سلسلے میں لکھے گئے اپنے مصرع شعر کو اس جملے کے ساتھ آغاز کیا ہے: "این جامۀ سیاه فلک در عزای کیست؟" یعنی آسمان نے کس کے سوگ میں لباس سیاہ پہن رکھا ہے؟[39] ایران میں قاجار کے دور میں ایک انگریز طبیب چارلس جیمز ولز کہتا ہے کہ قاجار دور میں محرم اور صفر میں عام طور پر لباس سیاہ ہوتا تھا اور زیادہ تر لوگ محرم کے آغاز سے ہی سیاہ لباس پہنتے تھے۔[40]

بنی عباس کے دور میں رائج سیاه‌ پوشی

شیعہ سماجی علوم کے محقق، محسن حسام مظاہری تاریخ کے سب سے مشہور سیاہ پوش ہونے کو ابو مسلم خراسانی اور اس کے ساتھیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ان کے مطابق بظاہر ابو مسلم اور اس کے ساتھی ظہور اسلام کے بعد پہلا گروہ ہیں جنہوں نے سیاہ جھنڈا لے کر قیام کیا اور اپنے آپ کو سیاہ پوش (مسودہ) کے نام سے موسوم کیا۔[41] بنی عباس نے شہدائے کربلا کے قاتلوں سے انتقام لینے کی علامت کے طور پر سیاہ پرچم اور سیاہ کپڑے پہن کر قیام کیا۔[42] بعض مورخین کا خیال ہے کہ بنی عباس کی طرف سے علامت کے طور پر کالے کپڑوں کا انتخاب اہل بیتؑ کے مصائب پر افسوس کے اظہار کے سوا کچھ نہیں تھا تاکہ اس طریقے سے شیعوں کو اپنی طرف مائل کیا جا سکے۔[43] جارج زِیدان (متوفیٰ: 1332ھ) کے مطابق، بنی عباس کے ہاں سیاہ لباس پہننا اس قدر عام ہو گیا تھا کہ جو کوئی خلیفہ کے پاس جاتا تھا وہ ایک لمبا سیاہ جبہ پہن کر جاتا تھا تاکہ پورے جسم پر سیاہ رنگ کا غلبہ ہو۔[44] بعض احادیث میں لباس سیاہ پہننے کی ممانعت کو بعض علما نے بنی عباس سے مشابہت کی ممانعت قرار دی ہے تاکہ وہ لوگ اس سے غلط فائدہ مت اٹھا پائے[45]

علی ابو الحسنی نے بنی عباس اور شیعوں کے سیاہ لباس میں فرق کے بارے میں کہا:

  • شیعہ عزاداری کے مخصوص دنوں میں سوگ کے طور پر سیاہ لباس پہنتے تھے لیکن بنی عباس نے سیاہ کپڑوں کو باقاعدہ اور سرکاری لباس کے طور پر منتخب کیا تھا۔[46]
  • شیعوں کی طرف سے سیاہ لباس پہننا مکمل طور پر رضاکارانہ تھا اور اہل بیتؑ سے مودت و محبت اور اظہار غم کے لیے تھا۔ جبکہ عباسیوں کے ہاں کالے کپڑے پہننا سب پر ضروری تھا؛ یہاں تک کہ اس سلسلے میں سستی کرنے پر انہیں باقاعدہ سزائیں بھی دی جاتی تھیں۔[47]
  • عباسیوں کی طرف سے سیاہ لباس پہننے کو خاص اہتمام کیا جاتا تھا اور خصوصی اصولوں اور رسم و رواج کے ساتھ اس عمل کو انجام دیا جاتا تھا جبکہ شیعوں کے درمیان اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں۔[48]

حوالہ جات

  1. ابوالحسنی، سیاه‌پوشی در سوگ ائمه نور، 1375شمسی، ص51۔
  2. ابن‌ حیون، دعائم الاسلام، 1385ھ، ج2، ص291۔
  3. سید ابن‌ طاووس، اقبال الاعمال، 1409ھ، ج1، ص464۔
  4. ابوالحسنی، سیاه‌پوشی در سوگ ائمه نور، 1375شمسی، ص42۔
  5. ابو الحسنی، سیاه‌ پوشی در سوگ ائمه نور، 1375شمسی، ص32-37۔
  6. مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، 1395شمسی، ص292۔
  7. «پايان دوازده روز عزاداري با اجراي مراسم سنتي يقه بندان در تبريز»، خبرگزاری رسا؛ «یقه بند ان;آئین عزاداری شهر خلخال»، ص59؛ «آيين عزاداري يقه بندان در آذرشهر برگزار شد»، خبرگزاری جمهوری اسلامی۔
  8. مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، 1395شمسی، ص291۔
  9. 9.0 9.1 باروتیان، پیراهن کبود، 1390شمسی، ص62-64۔
  10. باروتیان، پیراهن کبود، 1390شمسی، ص56۔
  11. مرعشی نجفی، فرازهایی از وصیت‌نامه، 1381شمسی، ص21۔
  12. ملاحظہ کیجیے: شیخ حر عاملی، وسائل الشیعة، 1409ھ، ج4، ص382-386۔
  13. سلار دیلمی، المراسم فی الفقه الامامی، 1404ھ، ص63؛ شیخ طوسی، الخلاف، 1407ھ، ج1، ص506؛ شیخ طبرسی، المؤتلف من المختلف بين أئمة السلف، 1410ھ، ج1، ص177؛ محقق حلّی، المعتبر في شرح المختصر، 1364شمسی، ج2، ص93؛ علامه حلّی، تذکرة الفقهاء، 1414ھ، ج2، ص500 و نیز ملاحظہ کیجیے: باروتیان، پیراهن کبود، 1390شمسی، ص62-64۔
  14. ابوالحسنی، سیاه‌ پوشی در سوگ ائمه نور، 1375شمسی، ص204۔
  15. طباطبایی حائری، ارشاد العباد الی الاستحباب لبس السواد، 1404ھ،‌ شناسنامه کتاب۔
  16. طهرانی، الذريعة، 1408ھ، ج3، ص333۔
  17. تبریزی، رسالة مختصرة في لبس السواد، 1425ھ، ص5۔
  18. تبریزی، رسالة مختصرة في لبس السواد، 1425ھ، ص5-6۔
  19. ابوالحسنی، سیاه‌پوشی در سوگ ائمه نور، 1375شمسی، ص53-72؛ مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، 1395شمسی، ص289۔
  20. مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، 1395شمسی، ص289۔
  21. مستوفی، تاریخ گزیده، 1364شمسی، ص88۔
  22. ابوالحسنی، سیاه‌پوشی در سوگ ائمه نور، 1375شمسی، ص73-94؛ مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، 1395شمسی، ص289-290۔
  23. فقیهی، آل‌بویه نخستین سلسله قدرتمند شیعه، 1365شمسی، ص809۔
  24. ابوالحسنی، سیاه‌پوشی در سوگ ائمه نور، 1375شمسی، ص95-96۔
  25. زمخشری، الفائق فی غریب الحدیث‌، 1417ھ، ج2، ص154۔
  26. ابن منظور، لسان العرب، 1414ھ، ج1، ص473۔
  27. ابن‌ابی الحدید، شرح نهج البلاغة، 1404ھ، ج16،‌ ص22۔
  28. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص100۔
  29. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج45، ص196۔
  30. برقی، المحاسن، 1371ھ، ج2، ص420۔
  31. برقی، المحاسن، 1371ھ، ج2، ص420۔
  32. ابوالحسنی، سیاه‌پوشی در سوگ ائمه نور، 1375شمسی، ص116۔
  33. مقدسی، احسن التقاسیم،‌ 1361شمسی، ج2، 545؛ کبیر، آل‌بویه در بغداد، 1381شمسی، ص312۔
  34. ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ھ، ج8، ص549۔
  35. شُبَّر، أدب الطّف، 1409ھ، ج3، ص268۔
  36. مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، 1395شمسی، ص291۔
  37. دلاواله، سفرنامه، 1370شمسی، ص123۔
  38. دوگوبینو، «شکوه تعزیه در ایران»، ص357۔
  39. وصال شیرازی، دیوان، نشر کتاب فروشی فخر رازی، ص901۔
  40. ویلز، تاریخ اجتماعی ایران در عهد قاجاریه، 1363شمسی، ص265۔
  41. مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، 1395شمسی، ص290۔
  42. ابن‌اعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج8، ص319۔
  43. بَلاذُری، أنساب الأشراف، دار المعارف، ج3،‌ ص264؛ موسوی حسینی، نزهة الجلیس، 1375شمسی، ج1، ص316؛ عاملی، الحياة السياسية للإمام الرضا (ع)، 1416ھ، ج1، ص62؛ مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، 1395شمسی، ص290۔
  44. زیدان، تاریخ التمدن الاسلامی، دار مکتبة الحیاة،‌ ج5، ص609۔
  45. ابوالحسنی، سیاه‌پوشی در سوگ ائمه نور، 1375شمسی، ص195-200؛ مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، 1395شمسی، ص290؛ غرباوی، القول السدید، 1437ھ، ص55-56؛ باروتیان، پیراهن کبود، 1390شمسی، ص38-39۔
  46. ابوالحسنی، سیاه‌پوشی در سوگ ائمه نور، 1375شمسی، ص189-190۔
  47. ابوالحسنی، سیاه‌پوشی در سوگ ائمه نور، 1375شمسی، ص190۔
  48. ابوالحسنی، سیاه‌پوشی در سوگ ائمه نور، 1375شمسی، ص191۔

مآخذ

  • ابن‌ اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دارصادر، 1385ھ۔
  • ابن‌ جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی التاریخ الملوك و العجم، بیروت،‌ دارالکتب العلمیة، 1412ھ۔
  • ابن‌ حیون، نعمان بن محمد مغربی، دعائم الاسلام، قم، موسسة آل‌البیت، 1385ھ۔
  • ابن‌ منظور، محمد بن مكرم، لسان العرب، بیروت، دارصادر، 1414ھ۔
  • ابو الحسنی، علی (منذر)، سیاہ‌پوشی در سوگ ائمہ نور، قم، ناشر:علی ابوالحسنی، 1375ہجری شمسی۔
  • ابن‌ ابی الحدید، عبد الحميد بن ہبة اللہ‏، شرح نہج البلاغة، قم، مكتبة آية اللہ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
  • ابن‌ اعثم کوفی، محمد بن علی، الفتوح، بیروت، دارالاضواء، 1411ھ۔
  • آقا بزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذريعة إلى تصانيف الشيعة، قم، اسماعیلیان، 1408ھ۔
  • «آيين عزاداري يقہ بندان در آذرشہر برگزار شد»، خبرگزاری جمہوری اسلامی، تاریخ درج مطلب: 25 آبان1392ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 30 بہمن 1402ہجری شمسی۔
  • باروتیان، سیدعلی،‌ پیراہن کبود، تہران، حنیف، 1390ہجری شمسی۔
  • برقی، احمد بن محمد، المحاسن، قم، دار الكتب الإسلامية، 1371ھ۔
  • بَلاذُری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، مصر، دار المعارف، بی‌تا.
  • «پايان دوازدہ روز عزاداري با اجراي مراسم سنتي يقہ بندان در تبريز»، خبرگزاری رسا، تاریخ درج مطلب: 21 دی 1387ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 30 بہمن 1402ہجری شمسی۔
  • تبریزی، جواد، رسالة مختصرة في لبس السواد، قم، دار الصدیقة الشہیدة، 1425ھ۔
  • چیت‌ساز، محمدرضا، تاریخ پوشاک ایرانیان از ابتدای اسلام تا حملہ مغول، تہران، سمت، 1379ہجری شمسی۔
  • دلاوالہ، پیترو، سفرنامہ، ترجمہ شعاع الدین شفا، تہران، انتشارات علمی فرہنگی، 1370ہجری شمسی۔
  • دوگوبینو، کنت، «شکوہ تعزیہ در ایران»، ترجمہ فلورا اولی پور، فصلنامہ ہنر، شمارہ 30، زمستان 1374ش و بہار 1375ہجری شمسی۔
  • ذوالفقاری، حسن، باورہای عامیانہ مردم ایران، با ہمکاری علی‌اکبر شیری، تہران، نشر چشمہ، چاپ چہارم،1396ہجری شمسی۔
  • «رضاخان پوشیدن لباس مشکی را ممنوع کرد!»، خبرگزاری مہر؛ تاریخ درج مطلب: 9 آبان1402ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 30 بہمن 1402ہجری شمسی۔
  • زمخشری، محمد بن عمر، الفائق في غريب الحديث‌، بیروت، دارالکتب العلمیة، 1417ھ۔
  • زیدان، جرجی، تاریخ التمدن الاسلامی، بیروت، دار مکتبة الحیاة، بی‌تا.
  • سلار دیلمی، حمزة بن عبد العزیز، المراسم فی الفقہ الامامی، قم، منشورات الحرمین، 1404ھ۔
  • «سياہ پوشي از ديدگاہ فقہاء»، سایت موسسہ تحقیقاتی حضرت ولی عصر (عج)، تاریخ درج مطلب: بی‌تا، تاریخ بازدید: 30 بہمن 1402ہجری شمسی۔
  • سید ابن‌ طاووس، علی بن موسی، اقبال الاعمال، تہران، دارالکتب الاسلامیة، 1409ھ۔
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعة إلی تحصیل مسائل الشریعة، قم، مؤسسة آل البيت عليہم السلام‏، 1409ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، تہران، نشر جہان، 1378ھ۔
  • شیخ طبرسی، فضل بن حسن، المؤتلف من المختلف بين أئمة السلف، مشہد، آستانة الرضوية المقدسة. مجمع البحوث الإسلامية، 1410ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الخلاف، قم، جماعة المدرسين في الحوزة العلمیة بقم. مؤسسة النشر الإسلامي، 1407ق
  • شُبَّر، جواد، أدب الطّف أو شعراء الحسين عليہ السلام، بیروت، دارالمرتضی، 1409ھ۔
  • طباطبایی حائری، سید جعفر، ارشاد العباد الي الاستحباب لبس السواد علي سيدالشہداء و الأئمة الأمجاد، قم، مطبعة العلمیة، 1404ھ۔
  • عاملی، سید جعفر مرتضی، الحياة السياسية للإمام الرضا (ع)، قم، جماعة المدرسين في الحوزة العلمیة بقم. مؤسسة النشر الإسلامي، 1416ھ۔
  • علامہ حلّی، حسن بن یوسف، تذکرة الفقہاء، قم، مؤسسة آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، 1414ھ۔
  • علامہ‌ مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار الجامعة لدُرر أخبار الأئمة الأطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • غرباوی، علی، القول السدید فی لبس السواد علی الحسین الشہید، نجف، ناشر: شیخ علی غرباوی، 1437ھ۔
  • فقیہی، علی اصغر، آل بویہ نخستین سلسلہ قدرتمند شیعہ، تہران، انتشارات صبا، 1365ہجری شمسی۔
  • کبیر، مفیز اللہ، آل بویہ در بغداد، ترجمہ مہدی افشار، تہران، رفعت، 1381ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوبَ، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیة، 1407ھ۔
  • محقق حلّی، جعفر بن حسن، المعتبر في شرح المختصر، قم، مؤسسہ سيد الشہداء(ع)، 1364ہجری شمسی،
  • مرعشی نجفی، سید شہاب‌ الدین، فرازہایی از وصیت نامہ الہی اخلاقی مرجع عالیقدر و فقیہ اہل بیت علیہم السلام بزرگ فرہنگبان میراث اسلامی حضرت آیت‌ اللہ العظمی مرعشی نجفی قدس سرہ الشریف، قم، کتابخانہ عمومی حضرت آيت اللہ العظمی مرعشی نجفی، 1381ہجری شمسی۔
  • مستوفی، حمد اللہ بن ابی‌ بکر، تاریخ گزیدہ، تہران، امیر کبیر، 1364ہجری شمسی۔
  • مظاہری، محسن‌ حسام، فرہنگ سوگ شیعی، تہران، نشر خیمہ، 1395ہجری شمسی۔
  • مقدسی، محمد بن احمد،‌ احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم،‌ ترجمہ علی‌ نقی منزوی، تہران، شرکت مولفان و مترجمان ایران، 1361ہجری شمسی۔
  • وصال شیرازی، محمد شفیع، دیوان اشعار، نشر کتاب فروشی فخر رازی، بی‌تا.
  • ویلز، چارلز جیمز، تاریخ اجتماعی ایران در عہد قاجاریہ، تہران، زرین، 1363ہجری شمسی۔
  • «یقہ بندان;آئین عزاداری شہر خلخال»، مجلہ خیمہ، شمارہ 38 و 39، فروردین و اردیبہشت 1387ہجری شمسی۔