خیمہ گاہ
خیمہگاہ (عربی میں: مُخَیم) کربلا میں شیعوں کے زیارتگاہوں میں سے ایک ہے جسے واقعہ کربلا میں امام حسین(ع) اور آپ کے اصحاب کے خیموں کی جگہ بنائی گئی ہے۔ پہلی دفعہ اس کی بنیاد دسویں صدی ہجری میں رکھی گئی ہے۔
"خیمہسوزان"(خیموں کو آگ لگانا) محرّم کی عزاداری کی رسومات میں سے ایک ہے جسے عراق اور ایران کے بعض شہروں میں ادا کی جاتی ہے۔
واقعہ کربلا میں خیموں کی ترتیب
واقعہ کربلا میں امام حسین(ع) کے خیموں کی ترتیب نیم دائرے کی شکل میں تھی تاکہ آسانی سے ان کی حفاظت کی جا سکے۔ ان خیموں کے پیچھے خنق کھودی گئی تھی تاکہ پیچھے سے دشمن خیموں پر حملہ آور نہ ہو سکے۔[1] پہلا خیمہ امام حسین(ع) کا تھا جس میں عموما صلاح مشورے اور جنگی حکمت عملی کیلئے جمع ہوتے تھے اسی لئے یہ خمیہ دوسرے خیموں سے بڑا تھا۔[2]
مستورات کے خیموں کو امام(ع) کے خیمے کے مغربی حصے میں نصب کئے گئے تھے۔ لیکن حضرت زینب کے خیمے کو امام حسین(ع) کے خیمے کے پیچھے نصب کیا گیا تھا اور بنیہاشم کا خیمہ عورتوں اور بچوں کے خیموں کے اطراف میں امام حسین(ع) کے خیمے کے پیچھے نصب کیا گیا تھا۔[3] اصحاب کے خیمے بنی ہشم کے خیموں کے ساتھ مشرقی حصے میں نصب کئے گئے تھے اس طرح کہ تمام خیموں کو نیم دائے کی شکل میں نصب کیا گیا تھا جس کے وسط میں امام حسین(ع) کا خیمہ واقع تھا۔[4]
خیموں کی تعداد
امام حسین(ع) کے خیموں کی تعداد تقریبا 60 تھی اور ایک دوسرے کے درمیانی فاصلہ تقریبا دو میٹر اور جس جگہ پر یہ خیمے نصب تھے اس کی مساحت تقریبا 180 میٹر تھی۔[5]
لوٹ مار اور آگ لگانا
امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد دشمن کے سپاہیوں نے خیموں پر حملہ کیا اور وہاں پر موجود گھوڑے، اونٹ، سازو سامان، کپڑے اور مستورات کے زیورات تک کو لوٹ لیا۔ اور اس کام میں وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔[6] عمر سعد نے اہل حرم کو ایک خیمے میں جمع کرنے کا حکم دیا پھر ان پر پہرہ دار رکھوا لیا۔[7] تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام خیموں کو آگ لگا دی گئی اور جس خیمے میں امام سجاد(ع) اور اہل حرم کی مستورات جمع تھیں کو بھی آخر میں عمر سعد کی سپاہیوں نے آگ لگا دیا۔[8] امام رضا(ع) سے منقول ایک روایت میں آپ نے ان خیموں کے بارے میں فرمایا: "وأُضْرِمَتْ فی مَضارِبِنا النّار" (ترجمہ: ہمارے خیموں کو آگ لگا دی گئیں۔)[9]
خیمہ گاہ تاریخ کے آئینے میں
خمیہ گاہ حرم امام حسین(ع) کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے جو قدیم الایام سے شیعوں زیاتگاہوں میں سے ایک ہے۔ آٹھویں صدی تک کی تاریخ میں خیمہ گاہ کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں اور یہ منطقہ پرانے زمانے میں محلہ آل عیسی کے نام سے معروف تھا۔[10] "آلعیسی" ایک علوی خاندان تھا جن کا نسب زید بن امام سجاد(ع) سے جا ملتا ہے۔[11]
- خیمہگاہ کی پہلی عمارت
تاریخی اسناد کے مطابق پہلا شخص جس نے خمیہ گاہ کے عنوان سے اس مقام پر ایک چھوٹی عمارت تعمیر کی، سید عبدالمؤمن دَدِہ تھا جو سیدابراہیم مُجابْ کے خاندان سے تھا اور دسویں صدی ہجری کے صوفیا میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے اس عمارت کے اردگرد خرما کے کچھ درخت بھی لگائے جو بعد میں نخلستان ددہ کے نام سے معروف ہوئے۔[12] ان کے بعد دسویں صدی ہجری کے شاعر اور صوفی، جہان كلامی کربلایی نے سن 996ق میں اس عمارت کی مرمت اور اسے توسیع دی۔ جس کی تاریخ محراب کے سنگ مرر پر مرقوم ہے۔
- جرمن سیاح کے سفرنامے میں خیمہگاہ کا تذکرہ
خیمہ گاہ کے بارے میں موجود قدیمی تاریخی اسناد میں سے بارہویں صدی ہجری کے جرمن سیاح "کارستن نیبور" کا سفر نامہ ہے۔ انہوں نے سن1765ء میں بر اعظم ایشیاء کے سفر کے دوران عراق کے شہر کربلا کا بھی سفر کیا۔ انہوں نے کربلا کے بارے میں لکھی گئی رپورٹ میں خیمہ گاہ کا تذکرہ کیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق خیمہ گاہ کوفہ کی طرف کربلا کے دہانے پر واقع ہے۔ اس دور میں خیمہ گاہ شہر کربلا کا حصہ تھا جہاں پر پانی کا ایک کنواں بھی تھا۔ اس سیاح کے بقول خیمہ گاہ کے قریب ایک ویرانہ اور ایک چھوٹی سی عمارت موجود تھی جو قاسم بن حسن اور بعض شہدائے کربلا کے قبور تھے۔[13]
- خیمہگاہ، وہابیوں کے حملے کی بعد
کربلا پر سن 1216ہجری میں وہابیوں کے حملے بعد سید علی طباطبایی جو صاحب ریاض کے نام سے مشہور ہیں، نے سن 1217ہجری میں کربلا کے چاروں طرف دیوار کشی کی اور مختلف جہات میں چھ دروازے نکالے۔[14] اس دیوار کشی کے بعد خیمہگاہ شہر جو پہلے شہر کے دہانے پر واقع تھا اس دیورا کے باہر رہ گیا لیکن صاحب ریاض کے حکم سے اس پر عمارت تعمیر کرائی گئی اور بعنوان قبرستان استعمال ہوتا تھا۔[15] میرزا ابوطالب خان نامی سیاح نے بھی اپنے سفرنامہ میں سن 1217ہحری میں خیمہ گاہ کی تعمیر کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن اس کی نسبت آصف الدولہ کی بیوی کی طرف دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس عمارت کے ساتھ ساتھ ایک ہال کی تعمیر بھی جاری تھی کہ آصف الدولہ کی موت کی وجہ سے اس کی تعمیر مکمل نہ ہو سکی۔[16] بعض دیگر مورخین کے مطابق اس عمارت کو آصف الدولہ کی بیوی کے حکم سے صاحب ریاض کی زیر نگرانی بنائی گئی۔[17]
خیمہگاہ، ناصرالدین شاہ قاجار کے دور میں
عتبات عالیات کی توسیع اور مرمت کا ایک اہم دور ناصرالدین شاہ قاجار کا دور تھا۔ انہوں نے شیخ عبدالحسین تہرانی جو شیخ العراقین کے نام سے مشہور تھا، کو اس مر میں اپنا نمائنده مقرر کیا تھا۔ شیخ عبدالحسین تہرانی نے سن 1276ہجری میں حرم امام حسین(ع) کی توسیع اور مرمت کے دوران خیمہ گاہ کی بھی مرمت کروائی۔
- محل اقامت ناصرالدین شاہ قاجار
سن 1287ہجری میں ناصرالدین شاہ قاجار نے عتبات عالیات کا سفر کیا اس دوران بغداد میں حکومت عثمانیہ کے والی مدحت پاشا جو نے ناصرالدین شاہ اور ان کے ہمراہوں کی اقامت کیلئے خیمہ گاہ میں ایک عمارت بنوائی۔[18]
- خیمہگاہ کے نزدیک نیا دروازہ نکالنا
اسی طرح مدحت پاشا نے شہر کربلا کے اطراف میں بنائی گئی دیوار کو خیمہ گاہ کی طرف سے خراب کر کے خیمہ گاه کو بھی شہر کے دیوار کے اندر شامل کیا اور یہاں پر بھی ایک دروازہ نکالا۔ کربلا سے نجف کی طرف جانے کیلئے یہی دروازہ استعمال ہوتا تھا۔ خیمہ گاہ اور اس کے گرد و نواح کا شہر کے اندر شامل ہونے کے بعد یہ جگہ محلہ مُخَیَّم اور اس کے ارد گرد کا علاقہ عَبّاسِیہ کے نام سے مشہور ہوا۔[19] محلہ عباسیہ موجودہ دور میں بھی میں محلہ خیمہگاہ کے پاس موجود ہے۔ [20] سن 1339 یا 1367ق ایک بار پھر خیمہگاہ کی مرمت ہوئی جس کے دوران امام حسین(ع) کے قافلے کے اونٹوں کے کجاوں کی علامت کے طور پر چھوٹی چھوٹی محرابیں بنائی گئی گویا اونٹوں کے کجاوے زمین پر رکھے گئے ہوں۔ [21]
خیمہگاہ موجودہ دور میں
اس وقت حرم امام حسین(ع) کے جنوبی حصے میں صحن سے 250 میٹر کے فاصلے پر 2000 مربع میٹر پر مشتمل علاقے کی ارد گرد دیورا کشی کی ہوئی ہے جس کے درمیان میں 400 مربع میٹر پر مشتمل خیمے کی شکل میں ایک بڑی عمارت بنائی گئی ہے۔
خیمہگاہ کے اندرونی مقامات
عمارت کے وسط میں قبلہ کی طرف مقام امام سجاد(ع) ہے جہاں آپ(ع) عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ جہاں سے خیمہ گاہ میں داخل ہوتے ہیں وہاں ایک بڑا دروازہ ہے اس دروازے کے بعد دائیں بائیں 16 چھوٹی چھوٹی محرابیں ہیں جو شہدائے کربلا کے 16 خاندان کے اونٹوں کے کجاوں کی علامت ہے جنہیں عصر عاشورا کے بعد اسیر کر کے کوفہ لے جایا گیا۔ عمارت کی آخری حصے میں ایک کمرہ ہے جو اہل بیت(ع) کی محل عبادت تھی۔ خیمہ گاہ کے در دیوار پر "سید حسین علوی کربلایی" کے اشعار سنگ مرمر پر کندہ لکھا ہوا ہے۔[22] خیمہ گاہ کے نیچے ایک کنواں ہے حو "بئر العباس" کے نام سے حضرت عباس(ع) سے منسوب ہے۔[23]
موجودہ دور کے وسیع تعمیراتی کام
عراق میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد کربلا کے زیارتی مقامات کی توسیع اور تعمیر کے ساتھ ساتھ تیرہویں اور چودہویں صدی ہجری میں بنائی گئی خیمہ گاہ کی قدیم عمارتوں کی بھی توسیع اور مرمت شروع ہوئی۔ خیمہ گاہ کے مختلف حصوں میں ایک بڑے اور کئی چھوٹے گنبدوں کی تعمیر جن میں سے ہر ایک، ایک خیمے کی علامت ہے۔ خیمہ گاہ کے آخری نقشے میں چند ضریحوں کی تعمیر ہے جنہیں خیمہ گاہ کے اندر مختلف شخصیتوں سے منسوب مقامات پر بنائی جائے گی جن میں امام حسین(ع)، حضرت عباس(ع)، امام زین العابدین(ع)، حضرت زینب(س) اور قاسم بن حسن کا خیمہ ہے۔[24]
مقام امام زین العابدین
تاریخی منابع کے مطابق یہ حگہ خیمہ گاہ کے نام سے مشہور ہونے سے پہلے مقام امام زین العابدین کے نام سے مشہور تھی۔[25]
خیموں کو آگ لگانے کی رسم
ایران اور عراق کے مختلف شہروں میں عزاداری کی رسومات میں سے ایک رسم امام حسین(ع) اور آپ کے اصحاب کے خیموں کو آگ لگانے کی علامتی رسم ہے۔ ان خیموں کو عاشورا سے پہلے مقررہ مقامات پر نصب کیا جاتا ہے اور عاشورا کے دن ظہر یا عصر کے وقت انہیں آگ لگا دی جاتی ہے۔ یہ مراسم سن 61ہجری کو یزیدی سپاہیوں کے ہاتھوں امام حسین(ع) کے خیموں کو لگائی جانے والی آگ کی یاد میں ادا کی جاتی ہے۔[26]
خیمہگاہ پر دہشتگردانہ حملہ
17 مارج 2008ء کو ایک عورت نے خیمہ گاہ کے اندر خودکش حملہ کیا جس کے نتیجے میں 43 افراد شہید اور 73 افراد زخمی ہوئے۔[27]
حوالہ جات
- ↑ عوالم (امام حسین علیہالسلام)، ص۲۴۵
- ↑ محمدبن جریر طبری، تاریخ طبری، ۱۳۶۵ش، ج۵، ص۳۸۹
- ↑ عمادزادہ، زندگانی سیدالشہدا، ۱۳۶۸ش، ص۳۲۹
- ↑ قرشی، حیاۃ الامام الحسین، ج۳، ص۹۳
- ↑ سنگری، آینہ داران آفتاب، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۱۹۷
- ↑ قمی، نفس المہموم،۱۳۷۹ش، ص۴۷۹
- ↑ قمی، نفس المہموم،۱۳۷۹ش، ص۴۸۲
- ↑ کوفی، فتوح، ج۵، ص۱۳۸؛سید طاووس، لہوف، ص۱۸۰
- ↑ ابنشہرآشوب، مناقب آل ابیطالب، ج۲، ۲۰۶
- ↑ جعفر خلیلی، موسوعۃ العتبات المقدسہ، ترجمہ جعفر الخیاط، ج۲، ص۲۶۶؛انصاری، معماری کربلا در گذر تاربخ،۱۳۸۹ش، ص۱۳۸
- ↑ مقدس، راہنمای اماكن زیارتی و سیاحتی در عراق، ۱۳۸۸ش، ص۲۴۳
- ↑ مقدس، راہنمای اماكن زیارتی و سیاحتی در عراق، تہران، ص۲۴۳
- ↑ کارستن نیبور، رحلۃ الی شبہ الجزیرۃ العربیۃ و الی بلاد اخری مجاورۃ لہا، ترجمہ منذر عبیر، ۲۰۰۷م، ص۲۲۰و ۲۲۱
- ↑ امین، أعیان الشیعۃ، بیروت، ۱۴۰۶ق، ج۸، ص۳۱۵
- ↑ المخیم الحسینی، پایگاہ شبكۃ كربلاء المقدسۃ؛ صفحۃ مدینۃ كربلاء، تاریخ مراجعہ:۰۴-۰۸-۱۳۹۵ش.
- ↑ اصفہانی، مسیر طالبی، بہ کوشش خدیوجم، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۴۰۸
- ↑ المخیم الحسینی بین الحریق والخلود، سید حسین ہاشم آل طعمۃ، پایگاہ آستان مقدس ابوالفضل العباس(ع)، تاریخ درج مقالہ: ۲۶-۱۲-۲۰۱۰م تاریخ مراجعہ:۰۹-۰۸-۱۳۹۵ش.
- ↑ سلمان ہادی طعمۃ، تراث كربلاء، ص۱۱۲؛ رسول عربخانی، عتبات عالیات در روابط ایران و عثمانی در قرن نوزدہم، قم،۱۳۹۳ش، ص۱۱۸
- ↑ المخیم الحسینی، پایگاہ شبكۃ كربلاء المقدسۃ؛ صفحۃ مدینۃ كربلاء، تاریخ مراجعہ:۰۴-۰۸-۱۳۹۵ش.
- ↑ سیف عبد الخالق، محلۃ العباسیۃ، پایگاہ خبری کربلانیوز، تاریخ نمایش: ۱۶-۰۹-۲۰۱۴م، تاریخ مراجعہ:۰۴-۰۸-۱۳۹۵ش.
- ↑ مقدس، راہنمای اماكن زیارتی و سیاحتی در عراق، تہران، ص۲۴۳؛المخیم الحسینی بین الحریق والخلود، سید حسین ہاشم آل طعمۃ، پایگاہ آستان مقدس ابوالفضل العباس(ع)، تاریخ درج مقالہ: ۲۶-۱۲-۲۰۱۰م تاریخ مراجعہ:۰۹-۰۸-۱۳۹۵ش.
- ↑ سید سلمان ہادی آل طعمہ، تراث کربلا، ص۱۱۲
- ↑ سید سلمان ہادی آل طعمہ، تراث کربلا، ص۱۵۷
- ↑ ساخت چہار پنجرہ ضریح خیمہ گاہ در کربلای معلی، پایگاہ اطلاع رسانی ستاد بازسازی عتبات عالیات، تاریخ ثبت خبر: ۲۶ خرداد ۱۳۹۳، تاریخ مراجعہ: ۸ آبان ۱۳۹۵.
- ↑ مدرس، شہر حسین، ۱۴۱۴ق، ص۳۳۳
- ↑ پایگاہ اطلاع رسانی آستان مقدس امام حسین، قصۃ حرق المخیم الحسینی فی نہار العاشر من محرم الحرام.
- ↑ خبرگزاری فارس، شمار شہدای انفجار کربلا بہ۴۳ شہید و۷۳ مجروح افزایش یافت.
مآخذ
- ابنشہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابیطالب، قم، مؤسسہ انتشارات علامہ، ۱۳۷۹ق.
- اصفہانی، میرزا ابوطالب خان، مسیر طالبی، بہ کوشش حسین خدیوجم، تہران، شرکت انتشاراتعلمی و فرہنگی، ۱۳۷۳ش.
- امین، سید محسن، أعیان الشیعۃ، بیروت،دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ق،
- انصاری، رئوف محمدعلی، معماری کربلا در گذر تاربخ، ۱۳۸۹ش، قم، انتشارات مسجد مقدس جمکران، ۱۳۸۹ش.
- آل طعمۃ، سیدسلمان ہادی، تراث كربلاء، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.
- خلیلی، جعفر، موسوعۃ العتبات المقدسہ، بیروت، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۷ق.
- سنگری، محمدرضا، آینہ داران آفتاب، شرکت چاپ و نشر بینالملل، ۱۳۹۲ش،
- طاووس، علی بن موسی بن جعفر، اللہوف علی قتلی الطفوف، قم، اسوہ، ۱۳۸۳ش.
- طبری، محمدبن جریر، تاریخ طبری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۵ش.
- عربخانی، رسول، عتبات عالیات در روابط ایران و عثمانی در قرن نوزدہم، قم، پژوہشگاہ حوزہ و دانشگاہ/ بنیاد پژوہشہای آستان قدس رضوی، ۱۳۹۳ش.
- عمادزادہ، حسین، زندگانی سیدالشہدا، تہران، نشر محمد، ۱۳۶۸ش، ص۳۲۹.
- قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الحسین، النجف، مطبعۃ الآداب، چاپ اول، ۱۳۹۴ق/۱۹۷۴م.
- قمی، شیخ عباس، نفس المہموم، منشورات ذوی القربی، ۱۳۷۹ش.
- کوفی، ابناعثم، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالاضواء، ۱۴۱۱ق.
- مدرس، محمّد باقر، شہر حسین، انتشارات کلینی، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق/ ۱۹۹۴م.
- مقدس، احسان، راہنمای اماكن زیارتی و سیاحتی در عراق، تہران، نشر مشعر، ۱۳۸۸ش.
- نیبور، کارستن، رحلۃ الی شبہ الجزیرۃ العربیۃ و الی بلاد اخری مجاورۃ لہا، ترجمہ منذر عبیر، مؤسسۃ الانتشار العربی، بیروت، ۲۰۰۷م.
- ساخت-چہار-پنجرہ-ضریح-خیمہ-گاہ-کربلای-معلی ساخت چہار پنجرہ ضریح خیمہ گاہ در کربلای معلی، پایگاہ اطلاع رسانی ستاد بازسازی عتبات عالیات، تاریخ ثبت خبر: ۲۶-۰۳-۱۳۹۳، تاریخ مراجعہ: ۰۸-۰۸-۱۳۹۵.
- سیف عبد الخالق، محلۃ العباسیۃ، پایگاہ خبری کربلانیوز، تاریخ نمایش: ۱۶-۰۹-۲۰۱۴م، تاریخ مراجعہ: ۰۴-۰۸-۱۳۹۵ش.
- المخیم الحسینی، پایگاہ اینترنتی شبكۃ كربلاء المقدسۃ؛ صفحۃ مدینۃ كربلاء، تاریخ مراجعہ:۰۴-۰۸-۱۳۹۵ش.
- پایگاہ اطلاع رسانی آستان امام حسین، قصۃ حرق المخیم الحسینی فی نہار العاشر من محرم الحرام، تاریخ درج: ۱۳-۰۸-۱۳۹۳ تاریخ مراجعہ: ۰۴-۰۸-۱۳۹۵ش.
- خبرگزاری فارس، شمار شہدای انفجار کربلا بہ۴۳ شہید و۷۳ مجروح افزایش یافت، تاریخ درج: ۲۸-۱۲-۱۳۸۶، تاریخ مراجعہ: ۰۴-۰۸-۱۳۹۵ش.
- المخیم الحسینی بین الحریق والخلود، سید حسین ہاشم آل طعمۃ، پایگاہ آستان مقدس ابوالفضل العباس(ع)، تاریخ درج مقالہ: ۲۶-۱۲-۲۰۱۰م تاریخ مراجعہ: ۰۹-۰۸-۱۳۹۵ش.