واقعۂ عاشورا کے اعداد و شمار سے مراد سنہ 61 ہجری قمری کی دس محرم الحرام کو حضرت امام حسین علیہ السلام اور یزید بن معاویہ کے لشکر کے ساتھ ہونے والی جنگ کو مختلف اعداد و شمار کی روشنی میں بیان کرنا ہے۔ یہ جنگ یزید بن معاویہ کی جانب سے حضرت امام حسین علیہ السلام سے بیعت کے مطالبے کے نتیجے میں عراق کے شہر کربلا میں ہوئی جس میں سات محرم کو پانی بند کر دیا گیا اور دس محرم کو امام حسین اور انکے ساتھیوں کو پیاسا شہید کر دیا گیا اور ان کے ساتھ آنے والی مستورات اور بچوں کو اسیر کر کے کوفہ و شام لے جایا گیا۔ہر سال اسی مناسبت سے اہل تشیع، محرم کے دس دن حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری برپا کرتے ہیں۔

محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس

کوفیوں کے خطوط امام حسین(ع) کے نام

مؤرخین نے مکہ میں کوفیوں کی جانب سے امام حسین(ع) کو ملنے والے خطوط کی تعداد مختلف بتائی ہے:

  1. ایک جماعت نے لکھا ہے کہ ہر خط ایک، دو یا چار افراد نے لکھا تھا.[1].[2].[3].[4].[5].[6].[7].[8].[9].[10].[11]
  2. طبری نے لکھا ہے کہ خطوط کی تعداد 53 تھی[12] وہ لکھتے ہیں: "... فحملوا معہم نحواً من ثلاثۃ و خمسین صحیفۃ ... "، تا ہم بعض معاصر محققین نے لفظ "ثلاثہ" کو "مائہ" کی تصحیف[13] قرار دیا ہے اور طبری کی روایت میں خطوط کی تعداد کو 150 قرار دیا ہے. انھوں نے شیخ مفید، ابن اعثم کوفی، خوارزمی اور سبط بن جوزی کے قول کو اپنی اس توجیہ کی بنیاد قرار دیا ہے جنہوں نے لکھا ہے کہ خطوط کی تعداد 150 ہے؛ اور انھوں نے بظاہر اپنا یہ قول ابو مخنف سے اخذ کیا ہے.[14] لیکن متن میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ بلاذری ـ جنہوں نے بظاہر اپنا قول ابو مخنف سے اخذ کیا ہے ـ خطوط کی تعداد 50 بتائی ہے؛ جبکہ سبط بن جوزی نے خطوط کی تعداد 150 بتائی ہے اور ان کا ماخذ ابن اسحق کا قول ہے نہ کہ ابومخنف کا قول.[15]
  3. بلاذری نے خطوط کی تعداد 50 بتائی ہے.[16]
  4. ابن سعد نے خطوط لکھنے والے افراد کی تعداد 18000 ذکر کی ہے.[17]

مؤرخین کے اقوال سے نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ عدد "150" حقیقت سے قریب تر ہے کیونکہ اس عدد کے قائلین کی تعداد کثیر اور نقل کرنے والے مآخذ قدیم ہیں.

کوفہ

حضرت مسلم کےساتھ بیعت کرنے والے

مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے کوفیوں کی تعداد مختلف تاریخی مآخذ میں مختلف، نقل ہوئی ہے:

  1. بہت سے مآخذ میں بیعت کرنے والے افراد کی تعداد 18000 بتائی گئی ہے،[18].[19].[20].[21].[22].[23].[24].[25].[26]
  2. بعض دیگر نے یہ تعداد 12000 ذکر کی ہے.[27].[28].[29].[30].[31] مسعودی .[32] اور سبط بن جوزی[33] نے عدد "18ہزار" کو "قول دیگر" کے عنوان سے ذکر کیا ہے،
  3. امام باقر(ع) سے منقولہ روایت کے حوالے سے بیعت کرنے والوں کی تعداد 20000 بیان ہوئی ہے.[34].[35] لیکن بعض دیگر مآخذ میں یہ تعداد 20 ہزار کے بجائے، 18 ہزار نقل ہوئی ہے.[36].[37] خواند میر[38] نے بھی اسی قول کی طرف اشارہ کیا ہے،[39]
  4. ابن اعثم اور موفق بن احمد خوارزمی کے مطابق بیعت کنندگان کی تعداد 20ہزار سے زائد تھی،[40].[41]
  5. ابن شہر آشوب کے بقول یہ تعداد 25000 تھی. انھوں نے مسلم بن عقیل کے ہانی بن عروہ کے گھر میں قیام کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اس عدد نقل کرنے کے بعد یہ اعداد و شمار بیان کئے ہیں.[42]
  6. ابن قتیبہ دینوری [43] اور ابن عبدربہ[44] نے لکھا ہے کہ ان کی تعداد 30000 تھی،
  7. ابن عساکر [45] اور ابن نما حلی نے (دوسرے حوالے سے) یہ تعداد 40000 بیان کی ہے.[46]

ایک روایت کے مطابق زید بن علی نے "سلمہ بن کہیل" کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ 80000 افراد نے ان کے جد امجد امام حسین علیہ السلام کے ساتھ بیعت کی تھی[47] یہ تعداد اس تعداد کے قریب ہے جنہوں نے یزیدی لشکر کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے آمادگی ظاہر کی تھی.

طبری نے ابو مخنف کے حوالے سے لکھا ہے کہ 18000 افراد نے مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کی تھیں، اور روایت زیادہ معتبر ہے کیونکہ قدیم مآخذ میں اس کی تائید ملتی ہے.

جنگ کے لئے تیارکوفیوں کی تعداد

بعض مآخذ میں منقول ہے کہ یزید کے خلاف لڑنے کے لئے تیار اور پا بہ رکاب افراد کی تعداد 100000 تھی.[48].[49].[50].[51].[52].[53].[54]

مسلم کے ساتھ قیام کرنے والے افراد

ابو الفرج اصفہانی لکھتے ہیں: مسلم بن عقیل کے قیام کے وقت کوفی ان کے گرد جمع ہوئے یہاں تک کہ کوفہ کا بازار اور مسجد میں سوئی برابر جگہ نہ رہی.[55]

  1. ابن سعد [56] اور ذہبی [57] لکھتے ہیں کہ مسلم کے ساتھ اٹھنے والے کوفیوں کی تعداد 400 تھی. طبری نے بھی یہ قول عمار دہنی سے بحوالۂ ابو مخنف[58] اور شیخ مفید [59] نقل کیا ہے.
  2. ابن اعثم،[60] مسعودی[61] اور خوارزمی[62] نے یہ تعداد 18000 بیان کی ہے.
  3. ابن شہرآشوب، کے مطابق ان کی تعداد 8000 تھی.[63]
  4. و ابن حجر عسقلانی کے بقول مسلم کے ساتھ قیام کرنے والے افراد کی تعداد 40000 تھی.[64]

بايں حال، 4000 افراد کے حضرت مسلم کے ساتھ قیام کرنے کے حوالے سے طبری کا قول ـ جو انھوں نے ابو مخنف اور شیخ مفید سے نقل کیا ہے ـ زیادہ معتبر ہے.

مسلم کے محاصرہ کنندگان

مسلم بن عقیل کی گرفتاری کے لئے کوفی پولیس کے سربراہ کے ساتھ جانے والے افراد کی تعداد کے بارے میں روایات مختلف ہیں؛ بعض مآخذ نے ان افراد کی تعداد 60 اور بعض نے 70 بتائی ہے[65].[66].[67].[68].[69].[70] اور بعض کے مطابق ان کی تعداد 100[71] یا 300[72] تھی.

امام کے سفر کی مدت

امام حسین(ع) کا قیام، ـ یزید کی بیعت سے انکار سے عاشورا کے دن آپ(ع) کی شہادت تک ـ 175 دن تک جاری رہا:

  • بیعت سے انکار سے مکہ کی طرف ہجرت تک 12 دن مدینہ میں رہے؛
  • 4 مہینے اور 10 دن مکہ میں قیام کیا؛
  • 23 دن کی مدت مکہ سے کربلا تک سفر میں صرف ہوئی؛
  • 2 محرم الحرام سے 10 محرم تک کربلا میں قیام کیا.

منازل کی تعداد

امام حسین(ع) نے مکہ سے کوفہ تک 18 منزلیں طے کیں. ایک منزل یا منزلگاہ سے دوسری منزل تک کا فاصلہ 3 فرسخ (= 18.72 کلومیٹر) تھا.

اصحاب امام حسین(ع) کےاعداد و شمار

افسوسناک امر ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کے اصحاب کے صحیح اعداد و شمار کے تعین کے لئے کوئی بھی روش موجود نہیں ہے اور درجہ اول کے مستندات و شواہد ـ یعنی عینی شاہدین نے اصحاب امام حسین(ع) کی تعداد کے بارے میں مختلف روایات بیان کی ہیں؛ نیز تاریخ و حدیث کے مآخذ میں اصحاب کے ناموں کے ثبت و ضبط کرنے میں بھی کسی جانے پہچانے قاعدے اور نظم کو بروئے کار نہیں لایا گیا ہے. مثال کے طور پر ایک فرد کے نام، کنیت، والد یا والدہ کے نام، حتی کہ نسل اور قبیلے کے مد نظر رکھ کر مختلف ناموں سے متعارف کرایا گیا ہے اور دوسری طرف سے اصحاب سیدالشہداء(ع) کے اصحاب کی تعداد بھی تمام مراحل میں ایک جیسی نہیں تھی.

چنانچہ امکان کی حد تک واضح اور روشن اعداد و شمار پیش کرنے کے لئے، اوقات اور مقامات کے لحاظ سے قیام امام حسین(ع) کے چار مراحل کو مدن نظر رکھ کر اعداد و شمار کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے:

مدینہ سے ہجرت کے وقت

بہت سے مآخذ نے اس مرحلے میں امام(ع) کے ساتھیوں کی تعداد کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے.[73].[74].[75].[76].[77].[78].[79].[80]

واحد روایت جو آپ(ع) کے ساتھ مدینہ سے ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد پر دلالت کرتی ہے وہی ہے جو شیخ صدوق نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے. اس روایت کے مطابق اس ہجرت کے دوران امام(ع) کے ساتھ روانہ ہونے والے افراد کی تعداد 19 تھی جن میں اہل خانہ اور اصحاب شامل تھے.[81].[82]

مکہ سے کربلا روانہ ہوتے وقت

  1. ابن سعد کی روایت:
    ابن سعد کا کہنا ہے کہ مکہ سے عراق عزیمت کرتے وقت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ اصحاب میں سے 60 اور اہل بیت میں سے (مردوں، خواتین اور بچوں سمیت) 19 افراد تھے.[83]
  2. ابن عساکر اور ابن کثیر کی روایت:
    ان دو مؤرخین نے امام علیہ السلام کے خاندان کے افراد کی تعداد بیان کئے بغیر لکھا ہے کہ کوفہ کے 60 مرد آپ(ع) کے ہمراہ تھے.[84].[85]
  3. ابن قتیبہ دینوری اور ابن عبد ربہ کی روایت:
    ان دو مؤرخین نے لکھا ہے کہ مسلم بن عقیل کے حوالے سے لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی شہادت کے وقت ـ جو مکہ سے امام(ع) کی روانگی کے وقت واقع ہوئی ـ بیان کیا تھا کہ کہ 90 افراد امام(ع) کے ساتھ آرہے ہیں جن میں مرد اور خواتین شامل ہیں.[86].[87]
  4. ابن اعثم، ابن طلحہ، اربلی اور ابن صباغ کی روایت:
    ابن اعثم، خوارزمی، محمد بن طلحہ شافعی، اربلی اور ابن صباغ مالکی نے لکھا ہے کہ امام علیہ السلام کی مکہ سے روانگی کے وقت آپ کے ساتھ 82 افراد تھے.[88].[89].[90].[91].[92]
    البتہ ان مآخذ نے لکھا ہے کہ امام(ع) کے تمام ساتھیوں کی تعداد اتنی تھی اور ان میں خواتین اور بچے اور افراد خاندان اور اصحاب، سب شامل تھے.
  5. ابن کثیر کا دوسرا قول:
    ابن کثیر ایک دوسری روایت کے ضمن میں کہتے ہیں کہ امام(ع) کے ساتھیوں کی تعداد تقریبا 300 تھی.[93]

کربلا میں (عاشورا سے قبل)

اس سلسلے میں بھی مؤرخین کے اقوال مختلف ہیں؛ جیسے:

  1. 145 افراد:
    عمّار دہنی نے امام باقر علیہ السلام کے حوالے سے لکھا ہے کہ کربلا میں داخلے کے وقت 145 افراد امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے، (100 پیادے اور 45 سوار).[94].[95].[96].[97].[98].[99].[100] گوکہ ابن نما حلی کا کہنا ہے کہ امام باقر(ع) سے عمار دہنی کی منقولہ روایت کا تعلق روز عاشورا سے ہے.[101]
  2. 89 افراد:
    بعض مؤرخین نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد 89 بیان کی ہے؛ تفصیل یہ کہ 50 افراد امام(ع) کے اصحاب تھے، دشمن کی سپاہ سے 20 افراد آپ(ع) سے جاملے، اور 19 افراد کا تعلق آپ(ع) کے اپنے خاندان سے تھا.[102].[103].[104] ذہبی نے اس سے قبل اسی کتاب کی اسی جلد میں لکھا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ سواروں کی تعداد 32 تھی.[105]
  3. 62 یا 72 افراد:
    یعقوبی لکھتے ہیں کہ اصحاب اور خاندان [[امام حسین|امام(ع) سے مجموعی طور پر 62 یا 72 افراد آپ(ع) کے ساتھ کربلا آئے تھے.[106]
  4. 500 افراد:
    مسعودی وہ واحد مؤرخ ہیں جنہوں نے لکھا ہے کہ حُرّ کے لشکر کے ساتھ کربلا روانہ ہوتے وقت 500 سوار اور 100 پیدل افراد امام(ع) کے ہمراہ تھے. ابن جوزی [107] اور مجلسی[108] نے یہ روایت مسعودی سے نقل کی ہے[109] لیکن امام(ع) کے ساتھیوں کی تعداد 500 سواروں کے بجائے 1000 سوار بیان کی ہے.
  5. 82 افراد:
    ابن شہر آشوب نے امام علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد (عاشورا سے قبل) 82، بیان کی ہے.[110]
  6. 70 افراد:
    ابن أبار بَلَنْسی (متوفٰی 658ہجری[111] لکھتے ہیں کہ سواروں اور پیادوں کی تعداد 70 سے زیادہ تھی.[112]

مندرجہ بالا روایات اور دیگر روایات سے بحیثیت مجموعی یہی نتیجہ لیا جا سکتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 70 سے 90 تک تھی.

روز عاشورا

  1. 72 افراد:
    مشہور ترین ـ اور سب سے زیادہ نقل ہونے والے ـ کے قول کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے ساتھی 72 تھے. ابو مخنف نے ضحّاک بن عبداللہ مشرقی، کے حوالے سے لکھا ہے کہ عاشورا کے دن امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 72 تھی (32 سوار اور 40 پیادے).[113].[114] بہت سے مؤرخین اس قول کے قائل ہوئے ہیں: [115].[116].[117].[118].[119].[120].[121].[122].[123].[124].[125]
  2. 100 افراد:
    "حصین بن عبدالرحمن" نے "سعد بن عبیدہ" کے حوالے سے کہا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی سپاہ عاشورا کے دن 100 کے قریب تھی.[126].[127].[128]
  3. 300 افراد:
    طبری نے زید بن علی کے حوالے سے امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 300 بیان کی ہے.[129].
  4. 70 افراد:
    قاضی نعمان مغربی لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھیوں کی تعداد 70 سے کم تھی.[130].[131]
  5. 61 افراد:
    کتاب اثبات الوصیہ کے مؤلف علی بن حسین مسعودی کے مطابق اصحاب امام(ع) کی تعداد 61 تھی.[132]
  6. 114 افراد:
    خوارزمی ایک روایت کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ اصحاب مام(ع) کی تعداد 114 تھی.[133].[134]
  7. 145 افراد:
    سبط بن جوزی لکھتے ہیں کہ روز عاشورا امام حسین(ع) کے ساتھیوں کی تعداد 145 تھی جن میں سے 45 سوار اور 100 پیادے تھے.[135]
  8. 80 افراد:
    ابن حجر ہیتمی (متوفٰی 974 ہجری) کے قول کے مطابق 80 افراد عاشورا کے دن امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے.[136]

بہرصورت عدد 72 افراد والی روایت چونکہ قدیم اور معتبر کتب میں نقل ہوئی ہے اور اس کے راویوں کی تعداد بھی کثیر ہے چنانچہ یہ روایت زیادہ قابل اعتماد اور قابل قبول ہے.

عمر سعد کا لشکر

لشکر کی تعداد

  1. 22000 افراد:
    بعض مؤرخین نے دشمنان امام حسین(ع) کے سپہ سالاروں اور ان کے ماتحت افراد کی تعداد 22000 افراد بیان کی ہے.[137].[138].[139].[140]
  2. 30000 افراد:
    شیخ صدوق امام سجاد(ع) اور امام صادق(ع) سے منقولہ روایات کے مطابق، عبید اللہ بن زیاد کے لشکر کی تعداد 30000 بیان کرتے ہیں.[141].[142]
  3. 28000 افراد:
    صاحب کتاب اثبات الوصیہ نے یہ کتاب 28000 افراد نقل کی ہے.[143]
  4. 14000 افراد:
    محمد بن جریر طبری شیعی [144] نے لکھا ہے کہ عمر بن سعد بن ابی وقاص کے لشکر کی تعداد 14000 تھی.[145]
  5. 35000 افراد:
    ابن شہر آشوب نے لکھا ہے کہ یزیدی لشکر کی تعداد 35000 تھی لیکن وہ لشکر کے ہر حصے کے سالاروں اور ان کے زیر فرمان افراد کا ذکر کرتے ہوئے یہ تعداد 25000 تک گھٹا دیتے ہیں.[146]
  6. 6000 افراد:
    سبط ابن جوزی نے لشکر ابن سعد کی تعداد 6000 بیان کی ہے.[147]
  7. 20000 افراد:
    ابن صباغ مالکی لکھتے ہیں کہ چھ محرم الحرام تک دشمن کی سپاہ کی تعداد 20 تک پہنچ چکی تھی.[148]
  8. 31000 افراد:
    ابن عنبہ کے مطابق لشکر یزید کی تعداد 31000 تھی.[149]
  9. 32000 یا 17000 افراد:
    ملاحسین کاشفی 32 ہزار اور 17 ہزار تعداد بیان کی ہے۔[150]
  10. 56000:حسین بن حمدان خصیبی نے سوار اور پیادہ ملا کر چھپن ہزار(56000) تعداد بیان کی ہے[151]

معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں قابل اعتماد روایت شیخ طوسی کی ہے جس میں لشکر یزید کی تعداد 30000 بیان کی گئی ہے.

ہالکین کی تعداد

شیخ صدوق (متوفی 381 ہجری) ـ اور ان ہی کی پیروی کرتے ہوئے محمد بن فتال نیشابوری (متوفی 508 ہجری) ـ لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے بعض ساتھیوں نے یزیدی لشکر کے متعدد افراد کو ہلاک کردیا تھا:

ان اعداد و شمار کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے بعض اصحاب کے ہاتھوں دشمن کے 225 یا 226 افراد ہلاک ہوچکے ہیں.

ابن شہر آشوب، نے شیخ صدوق کی بیان کردہ تعداد کی نسبت زیادہ تعداد بیان کی ہے اور بعض اصحاب کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے دشمن کے سپاہیوں کی تعداد یوں بیان کی ہے:

وہ جو اپنے والد کے سامنے شہید ہوئے

اصحاب امام حسین علیہ السلام کے کئی اصحاب اپنے باپ کے سامنے شہید ہوئے:

شہدائے کربلا کی تعداد

بعض مؤرخین نے شہدائے کربلا کی صحیح فہرست پیش کرنے کی کوشش کی ہے تحقیقی مآخذ محدود ہونے کے بموجب حقیقی اعداد و شمار پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں.

تمام شہداء

  1. مشہور ترین قول یہ ہے کہ شہدائے کربلا کی تعداد 72 ہے.[159].[160].[161].[162].[163].[164].[165]
  2. امام باقر اور امام صادق علیہما السلام میں سے فضیل بن زبیر نے روایت کی ہے کہ قیام کے آغاز سے آخر تک تمام شہداء کی تعداد 106 ہے جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو زخمی تھے اور بعد میں شہید ہوئے ہیں: 86 اصحاب اور 20 ہاشمی،[166]
  3. ابو مخنف زحر بن قیس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے سوا باقی شہدا کی تعداد 78 ہے.[167].[168].[169].[170]..[171].[172].[173].[174] لیکن دوسرے مؤرخین نے زحر بن قیس ہی کے حوالے سے شہداء کی تعداد 32،[175] 70 سوار[176] نیز 77،[177] یا 82،[178] اور 88[179] بیان کی ہے.
  4. ابوزید احمد بن سہل بلخی (متوفی 322 ہجری قمری) اور[180] مسعودی نے [[شہدائے کربلا کی تعداد 87 بیان کی ہے.[181]
  5. علامہ سید محسن امین عاملی، نے قیام عاشورا کی ابتداء سے انتہا تک کے شہداء کی تعداد 139 لکھی ہے.[182]
  6. شیخ محمد مہدی شمس الدین نے اس سلسلے میں ایک تجزیاتی بحث پیش کی ہے اور شہداء کی تعداد 100 سے کچھ زیادہ بیان کی ہے.[183]
  7. شیخ ذبیح اللہ محلاتی نے ابتدائے قیام سے انتہا تک کے شہداء کی تعداد 228 بیان کی ہے. انھوں نے اسیران اہل بیت کی کوفہ میں موجودگی کے وقت عبداللہ بن عفیف کو شہدائے کربل میں شمار کیا ہے.[184]
  8. ایک مؤلف نے ابتدائے قیام سے انتہا تک کے شہداء کی تعداد 182 بیان کی ہے.[185]

تاہم وہ روایات جو دلالت کرتی ہیں کہ شہدائے کربلا کی تعداد 72 ہے، قدیم مآخذ میں نقل ہوئی ہیں اور زیادہ شہرت رکھتی ہیں چنانچہ یہ روایات زيادہ معتبر اور قابل قبول ہیں.

بنی ہاشم

شہدائے کربلا میں بنو ہاشم کے شہداء کی تعداد کے بارے میں واردہ روایات بہت مختلف ہیں حتی کہ ان کی تعداد 9 سے 30 تک بتائی گئی ہے.

مشہورترین روایت کے مطابق ان کی شہدائے بنی ہاشم کی تعداد 17 ہے.[186].[187].[188].[189].[190].[191].[192].[193].[194].[195].[196] البتہ ان میں سے زیادہ تر مآخذ میں امام حسین علیہ السلام کو شمار کئے بغیر، شہداء کی تعداد 17 بیان ہوئی ہے اور بعض اعداد و شمار ائمۂ معصومین علیہم السلام سے منقولہ روایات کے ضمن میں بیان ہوئے ہیں.

قدیم ترین تاریخ نصوص میں ہے کہ شہدائے بنی ہاشم کی تعداد 20 بتائی گئی ہے اور ان میں امام حسین علیہ السلام اور مسلم بن عقیل کے نام بھی دکھائی دیتے ہیں.[197] نیز شیخ صدوق،[198] ابن شہر آشوب،[199] اور ابن ابی الحدید .[200] نے یہ یہی اعداد و شمار پیش کئے ہیں جن میں مسلم بن عقیل کو شامل نہیں کیا گیا ہے.

دوسرے اعداد و شمار بھی ہیں جن میں یہ تعداد 9 سے 30 تک متغیر بتائی گئی ہے.[201]

تمام متعلقہ روایات کو مد نظر رکھا جائے تو وہ روایات، جو بنو ہاشم کے شہداء کی تعداد 17 بتاتی ہیں، زیادہ قابل قبول ہیں کیونکہ یہ روایات قدیم اور کثیر بھی ہیں اور پھر یہ تعداد ائمہ علیہم السلام سے منقولہ روایات میں بھی بیان ہوئی ہے.

شہداء کی مائیں

شہدائے کربلا میں سے آٹھ افراد کی مائیں کربلا میں حاضر و موجود تھیں اور اپنے بچوں کی شہادت کی عینی شاہد تھیں:

نیز بعض روایات کے مطابق علی اکبر علیہ السلام کی والدہ ليلی بنت ابي مرّہ بن عروہ بن مسعود ثقفی، بھی کربلا میں تھیں لیکن ان کی کربلا میں ان کی موجودگی ثابت نہیں ہے.

شہید ہونے والے قیدی

امام حسین علیہ السلام کے اصحاب و انصار میں سے 2 افراد ابتداء میں یزیدی لشکر کے ہاتھوں اسیر ہوئے اور بعد میں شہید ہوئے:

  1. سوار بن منعم ہمدانی (زیارت رجبیہ میں ان کا نام "سوار بن ابي عمير نہمی‏" ہے).
  2. موقع بن ثمامہ صیداوی (ألمُوَقَّع یا "المُرَقَّع" بن ثمامہ الأسدي).

اصحاب جو امام حسین(ع) کے بعد شہید ہوئے

امام حسین علیہ السلام کے چار اصحاب آپ(ع) کی شہادت کے بعد جام شہادت نوش کرگئے:

وہ جو اپنے والد کے سامنے شہید ہوئے

اصحاب امام حسین علیہ السلام کے کئی اصحاب اپنے باپ کے سامنے شہید ہوئے:

امام حسین(ع) کی سپاہ کا ڈھانچہ بلحاظ قبائل

ایک معاصر محقق نے 113 شہداء کی فہرست تیار کی ہے جن کا تعلق بنو ہاشم اور دوسرے قبائل سے ہے:

  1. ہاشمی اور ان کے موالی (بمع مسلم بن عقیل): 26 افراد،
  2. اسدی : 7 افراد،
  3. ہَمْدانی: 14 افراد،
  4. مَذْحِجی: 8 افراد،
  5. انصاری: 7 افراد،
  6. بَجَلی اور خثعمی: 4 افراد،
  7. کندی: 5 افراد،
  8. غِفاری: 3 افراد،
  9. کلبی: 3 افراد،
  10. اَزْدی: 7 افراد،
  11. [[بنو عبدیان: 7 افراد،
  12. تیمی: 7 افراد،
  13. طائی: 2 افراد،
  14. تغلبی : 5 افراد،
  15. جُہَنی: 3 افراد،
  16. تمیمی: 2 افراد،
  17. متفرقہ: 3 افراد.[202]

پہلے حملے کے شہدا

بعض مآخذوں نے لکھا ہے کہ یزیدی لشکر کے ابتدائی حملے میں امام حسین علیہ السلام کے 50 ساتھیوں نے جام شہادت نوش کیا.[203]

پامالی کے گھوڑوں کی تعداد

مآخذوں میں صرف امام حسین علیہ السلام کے جسم شریف پر گھوڑے دوڑائے جانے کا واقعہ بیان ہے اور اس قبیح اور بزدلانہ فعل میں شریک افراد کا نام نہیں لیا ہے،[204] لیکن زیادہ تر مآخذوں نے ان کی تعداد 10 بیان کی ہے.[205].[206].[207].[208].[209].[210].[211].[212].[213]ان میں سے دو افراد إِسْحَاق بْن حياة حَضْرَمِی اور اخنس بن مرثد کے نام ملتے ہیں۔[214]

امام حسین کے زخموں کی تعداد

مؤرخین نے سید الشہداء علیہ السلام کے بدن مطہر پر وارد ہونے والے زخموں کی تعداد بھی بیان کی ہے اور ان کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف ہے:

  1. امام صادق(ع) سے منقولہ روایت کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے جسم مطہر پر نیزوں کے 33 اور تلواروں کے 34 زخم وارد ہوئے[215].[216].[217].[218].[219].[220] اور امام جعفر صادق علیہ السلام ہی سے مروی ایک روایت میں نیزوں کے 33 اور تلواروں اور تیروں کے 44 زخم بیان کئے گئے ہیں[221].[222] طبری کی روایت میں نیزوں کے 33 اور تلواروں کے 44 زخم بیان ہوئے ہیں اور ایک روایت میں امام صادق(ع) سے مروی ہے کہ سید الشہداء کے جسم شریف پر صرف تلواروں کے ستر زخم وارد ہوئے تھے.[223]
  2. امام باقر(ع) سے منقولہ ایک روایت میں آپ(ع) کے جسم مطہر پر وارد ہونے والے زخموں کی تعداد 320[224].[225].[226].[227].[228] ابن شہرآشوب اقوال دیگری نیز آوردہ است: 1ـ360 زخم؛ 2ـ1900 زخم؛ 3ـ33 ضربہ شمشیر بہ جز تیرہا[229] اور ایک روایت میں منقول ہے کہ سید الشہداء کے جسم مطہر کو تلواروں، نیزوں اور تیروں کے 63 زخم لگے تھے.[230].[231]
  3. در روایتی از امام سجاد(ع) تعداد جراحات 40 ضربہ شمشیر و زخم نیزہ نقل شدہ است. [232]
  4. بعض مآخذ میں منقول ہے کہ سید الشہداء(ع) کے جسم مطہر اور لباس میں تیروں، نیزوں اور تلواروں کے 110 نشانات پائے گئے.[233].[234].[235].[236].[237].[238] اسی طرح کی روایت ابن سعد نے بھی نقل کی ہے.[239]
  5. بعض مآخذ نے تلواروں، تیروں اور پتھروں کے 120 زخم نقل کئے ہیں.[240]
  6. ابن سعد 33 زخم نوشتہ است.[241].[242] قاضی نعمان نے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے.[243]
  7. علی بن محمد عَمری اور ابن عنبہ (متوفی 828 ہجری قمری) نے زخموں کی تعداد 70[244].[245] اور سید ابن طاؤس نے 72، بیان کی ہے.[246]

لگتا ہے کہ جسم مطہر کو لگنے والے زخموں کی تعداد 100 سے زائد تھی. وہ روایات جو ظاہر کرتی ہیں کہ آپ(ع) کو اس قدر تیر لگے تھے کہ آپ(ع) کا جسم مطہر تیروں میں چھپا ہوا تھا، اسی قول کی تائید کرتی ہیں.[247].[248]

کربلا میں آنے والے خاندان

بعض معاصر قلمکاروں نے لکھا ہے کہ کربلا کے تین شہداء اپنے خاندان بھی ساتھ لائے تھے:[249]

  1. جنادہ بن کعب بن حرث (یا حارث) سلمانی انصاری،[250]
  2. عبداللہ بن عمیر کلبی،[251]
  3. مسلم بن عوسجہ.

اس موضوع کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم بن عوسجہ کے خاندان کی کربلا آمد کی کوئی تاریخی سند موجود نہیں ہے گوکہ بعض مآخذ میں ہے کہ ان کی ایک کنیز عاشورا کے دن کربلا میں حاضر تھی.[252].[253].[254]

کربلا میں اصحاب رسول

اصحاب سید الشہداء(ع) میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کے کئی صحابہ بھی تھے: فضیل بن زبیر کے مطابق امام حسین علیہ السلام کے رکاب میں شہادت پانے والے افراد میں صحابہ رسول(ص) کی تعداد 6[255] اور مسعودی کے بقول 4 تھی[256] اور یہ افراد امام حسین(ع) کے اصحاب و انصار میں سے تھے اور عاشورا کے دن کربلا میں شہید ہوئے. بعض معاصر مؤرخین و محققین نے صحابہ کی تعداد 5 بیان کی ہے:[257] از 5 نفر دیگر، یعنی:

  1. انس بن حارث کاہلی،[258].[259].[260].[261]
  2. حبیب بن مظاہر اسدی،[262]
  3. مسلم بن عوسجہ اسدی،[263]
  4. ہانی بن عروہ مرادی،[264].[265].[266]
  5. عبداللہ بن يقطر حمیری[267] جو امام حسین علیہ السلام کے رضاعی بھائی تھے.[268]

سروں کی تعداد

یزید کے لشکر کے ہاتھوں شہدائے کربلا کے جسموں سے جدا کئے جانے والے سروں کے تعداد کے بارے میں بھی مؤرخین کا موقف یکسان نہیں ہے:

  1. بلاذری، دینوری، طبری، شیخ مفید، خوارزمی اور ابن نما، نے سروں کی تعداد (امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو شامل کئے بغیر) 72 لکھی ہے..[269].[270].[271].[272].[273].[274] البتہ طبری[275] اور خوارزمی[276] نے امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کے تن سے جدا ہونے کا واقعہ بیان کیا ہے اور اگلے صفحے میں لکھا ہے کہ "باقی شہداء کے سر قلم کردیئے گئے"، چنانچہ ظاہر ہے کہ "باقی شہداء" سے سید الشہداء علیہ السلام کے سوا دوسرے شہداء مراد ہیں اور اس اعداد و شمار کے مطابق شہداء کے قلم ہونے والے سروں کی تعداد 73 بنتی ہے. دینوری، شیخ مفید اور ابن نما کے اقوال بھی اسی قول کی تائید کرتے ہیں کہ سروں کی تعداد 73 تھی.
  2. دینوری نے کہا ہے کہ [277] قبائل کے درمیان سروں کی تقسیم کے لحاظ سے سروں کی تعداد 75 تھی اور بلاذری[278] ابو مخنف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ شہداء (اور ان کے قلم شدہ سروں) کی تعداد 82 تھی.
  3. سبط ابن جوزی ہشام کلبی کا حوالہ دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ قلم شدہ سروں کی تعداد 92 تھی.[279]
  4. سید ابن طاؤس،[280] محمد بن ابی طالب موسوی[281] اور مجلسی[282] کے مطابق، سروں کی تعداد 78 تھی.
  5. طبری،[283] اور ابن شہر آشوب[284] ابو مخنف اور ابن صباغ مالکی[285] کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ کوفہ میں یزید کے والی ابن زیاد کے پاس لائے جانے والے سروں کی تعداد 70 تھی.

مندرجہ بالا اقوال میں، اول الذکر قول اپنے قدیم راویوں کے پیش نظر زیادہ معتبر ہے: سروں کی تعداد 72.

قبائل کو ملنے والے سرہائے مبارک

شہداء کے سروں کو لشکر یزید میں شامل قبائل میں ـ ذیل کی ترتیب سے ـ تقسیم کیا گیا:

وہ شہداء کے سروں کو غنیمت کے عنوان سے (!) لیتے تھے تا کہ انہیں ابن زیاد کی تحویل میں دے کر انعام حاصل کریں.

موالی جو شہید ہوئے

فضیل بن زبیر کہتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے 3 موالی.[286] کربلا میں شہید ہوئے،[287] لیکن ابن سعد[288] اور طبری[289] کے مطابق ان کی تعداد 2 تھی. فضیل نے لکھا ہے کہ حمزہ بن عبدالمطلب کا ایک غلام بھی شہدائے کربلا میں شامل تھا.[290]

ابن شہر آشوب اس سلسلے میں لکھتے ہیں: کہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے 10 اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے 2 موالی شہید ہوئے.[291]

سماوی کے مطابق شہید ہونے والے موالی کی تعداد 15 تھی.[292]

امام(ع) کے زخمی اصحاب

الف ـ وہ واحد زخمی جو میدان جنگ سے زندہ بچ کر نکلے، مؤرخین کے مطابق وہ حسن بن حسن بن علی(ع) (حسن مُثَنّٰی) تھے.[293].[294].[295].[296].[297].[298]

ب ـ وہ 3 زخمی جو شہید ہوئے:

  1. سوار بن حمیر جابری،[299]
  2. عمرو بن عبداللہ ہَمْدانی جنُدُعی،[300]
  3. مُرَقَّع بن ثمامہ اسدی،[301].[302] لیکن طبری.[303] اور بلاذری نے دوسری نقل کے ضمن میں.[304] نیز دینوری نے[305] لکھا ہے کہ مرقع کے قبیلے کے ایک فرد نے ان کے لئے امان نامہ حاصل کیا اور وہ اپنے قبیلے سے جاملے اور ابن زیادہ نے انہیں زرارہ جلا وطن کیا لیکن ان کی شہادت کی طرف اشارہ نہیں کیا ہے.

زندہ بچنے والے اسیر

مرد

تاریخ کے قدیم مآخذ کی ورق گردانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ واقعۂ عاشورا کے پسماندگان میں کئی مرد بھی تھے جن کے نام حسب ذیل ہیں:

خواتین

ابن سعد کے مطابق، اہل بیت(ع) کی 6 خواتین،[337].[338] قاضی نعمان مغربی کے مطابق 4 خواتین،[339] اور ابو الفرج اصفہانی کے مطابق 3 خواتین[340] یزید کے لشکر کے ہاتھوں اسیر ہوئیں جن کے نام درج ذیل ہیں:

امیرالمؤمنین علیہ السلام کی بیٹیاں:

امام حسین بن علی علیہما السلام کی بیٹیاں:

دیگر خواتین:

تحریک حسینی میں شریک خواتین

اعتراض کرنے والی خواتین

پانچ خواتین نے تحریک عاشورا کے دوران سپاہ یزید کے اعمال پر اعتراض و احتجاج کیا:

  1. ام عبداللہ (بنت حرّ بدی کندی، زوجۂ مالک بن نُسَیر)،[369].[370] ان کے اعتراض و احتجاج کا سبب یہ تھا کہ ان کے شوہر نے امام حسین علیہ السلام کا ایک بُرْنُس (=ٹوپی والا جبہ یا چغہ) لوٹ لیا تھا،
  2. عبداللہ بن عفیف کندی کی بیٹی، جن کے والد کو جب یزیدی سپاہیوں نے گھیر لیا تو انھوں نے اپنے والد کا ساتھ دیا اور ان کا دفاع کیا[371].[372].[373]،
  3. قبیلہ بکر بن وائل کی ایک خاتون، کہ جب عمر بن سعد بن ابی وقاص کے لشکر نے خیام آل رسول(ص) کو لوٹنا شروع کیا تو اس نے اس عمل پر اعتراض کیا[374]،
  4. نوار، جو کعب بن جابر بن عمرو ازدی کی بیوی یا بیٹی تھیں اور ان کے اعتراض کا سبب یہ تھا کہ ان کے شوہر نے عمر بن سعد بن ابی وقاص کا ساتھ دیا تھا اور بریر بن خضیر ہمدانی کو شہید کیا تھا،
  5. نوار بنت مالک بن عقرب حضرمی، جو خولی بن یزید اصبحی کی زوجہ تھی. ان کے اعتراض کا سبب یہ تھا کہ ان کا شوہر امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک گھر لایا تھا اور کہہ رہا تھا کہ وہ ایسی چیز گھر لایا ہے جس میں پورے زمانے سے بےنیازی مضمر ہے[375].[376].[377].[378].[379]،

شہید خواتیں

کربلا میں ایک خاتون بھی ابا عبداللہ(ع) کے رکاب میں شہید ہوئیں. اس خاتون کا نام ام وہب تھا اور وہ شہید کربلا وَہْب بن وَہْب کی والدہ اور عبداللہ بن عمیر کلبی کی زوجہ تھیں.

کوفہ سے شام تک کی منزلیں

کوفہ سے شام تک کی ان منزلوں کی تعداد 14 تھی جنہیں اہل بیت علیہم السلام نے اسیری کی حالت میں طے کیا.

شام میں قیام اور عزاداری کی مدت

شام میں ایک مہینہ یا 45 دن تک قیام پر مبنی روایات میں کچھ زیادہ قوت نہیں ہے کیونکہ ان اقوال کے قائلین متفرد (اور تنہا) ہیں اور چونکہ خاندان معاویہ کی عورتوں نے اہل بیت علیہم السلام کی عزاداری کو دیکھا تو ان کی حقانیت کا ادراک کیا تو وہی بھی پانچویں دن عزاداری کی اس مجلس میں شرکت کرنا شروع کردی چنانچہ یہی نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام نے دمشق پہنچنے سے لے کر مدینہ واپسی تک، شام میں 10 روز سے زیادہ قیام نہیں کیا.

حوالہ جات

  1. ابن اعثم، کتاب الفتوح، ج5، ص29.
  2. شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ج2، ص38.
  3. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، 98.
  4. ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، ج5 ص327.
  5. خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ‌السلام)، ج1، ص283.
  6. اربلی، کشف الغمہ، ج2، ص253.
  7. محمد بن طلحہ شافعی، مطالب السؤول فی مناقب الرسول(صلی اللہ علیہ وآلہ)، ج2، ص71.
  8. سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص من الامۃ بذکر خصائص الائمۃ(علیہم السلام)، ج2، ص146.
  9. سید ابن طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، ص24.
  10. ابن کثیر، البدایۃ و النہایہ، ج8، ص162.
  11. ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج2، ص302.
  12. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص262.
  13. تصحیف کے معنی لغت میں خطا کے ہیں، تصحیف تحریف ہی کا ایک حصہ ہے، جس میں الفاظ میں لفظی اور تحریری شباہت کی وجہ سے لفظ کی تبدیلی معرض وجود میں آتی ہے؛ فَراہیدی، العین، ج3، ص120. ذیل لفظ "صحف".
  14. محمد ہادی یوسفی غروی، وقعۃ الطف، ص93.
  15. محمد ہادی یوسفی غروی، وہی ماخذ، ص244.
  16. بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص370.
  17. محمد بن سعد، ترجمۃ الحسین(علیہ‌السلام)، ص174.
  18. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص275.
  19. ابوحنیفہ دینوری، الاخبار الطوال، ص235.
  20. شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص41.
  21. ابن جوزی، وہی ماخذ، ج5، ص325.
  22. سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ج2، ص141.
  23. ابن نما حلی، مثیرالاحزان، ص21.
  24. سید ابن طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، ص25.
  25. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص299.
  26. ابن عنبہ، عمدۃ الطالب فی أنساب آل ابی طالب، ص191ـ 192.
  27. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص259 بحوالہ از عمار دہنی.
  28. ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین(علیہ‌السلام)، ص302.
  29. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص99.
  30. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص306.
  31. احمد بن حجر ہیتمی، الصواعق المحرقۃ فی ردّ اہل البدع و الزندقہ، ص196.
  32. مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج3، ص65.
  33. سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ج2، ص141.
  34. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج11، ص43.
  35. مجلسی، بحار الانوار، ج44، ص68.
  36. سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، ص188.
  37. مجلسی، بحارالانوار، ج27، ص212.
  38. غیاث الدین بن ہمام الدین حسینی المعروف بہ خواند میر.
  39. تاریخ حبیب السیر فی اخبار افراد بشر، ج2، ص42.
  40. ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص40.
  41. خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ‌السلام)، ج1، ص290.
  42. ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص99.
  43. ابن قتیبہ، الامامۃ والسیاسۃ، ج2، ص8.
  44. احمدبن محمد بن عبد ربہ‌اندلسی، العقد الفرید، ج4، ص354.
  45. ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین(علیہ‌السلام)، ص284.
  46. ابن نما حلی، مثیرالاحزان، ص16.
  47. طبری، وہی ماخذ، ج5، ص489 (سنہ 121 ہجری کے واقعات).
  48. ابن سعد، ترجمۃ الحسین ومقتلہ، ص174.
  49. بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص422.
  50. طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص294.
  51. شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص71.
  52. ابن نما حلی، مثیرالاحزان، ص16.
  53. سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ج2، ص133.
  54. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص299.
  55. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص70ـ71.
  56. ابن سعد، وہی ماخذ، ص175.
  57. ذہبی، سیراعلام النبلاء، ج3، ص299.
  58. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص260.
  59. شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص52.
  60. ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص49.
  61. مسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، ج3، ص68.
  62. خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ‌السلام)، ج1، ص297.
  63. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص101.
  64. عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج2، ص303.
  65. طبری، وہی ماخذ، ج4، ص279.
  66. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص69.
  67. مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص69.
  68. شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص57.
  69. طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج1، ص443.
  70. ابن نما حلی، مثیرالاحزان، ص24.
  71. دینوری، الاخبار الطوال، ص240.
  72. ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص53.
  73. دینوری، الاخبار الطوال، ص228.
  74. طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص253.
  75. شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص34.
  76. ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص22.
  77. فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص171.
  78. طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج1، ص435.
  79. خوارزمی، وہی ماخذ، ج1، ص273.
  80. سبط ابن جوزی، وہی ماخذ، ص236.
  81. شیخ صدوق، الامالی، مجلس30، ح1، ص217.
  82. مجلسی، بحارالانوار، ج44، ص313.
  83. ابن سعد، وہی ماخذ، ص170.
  84. ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین(علیہ‌السلام)، ص299.
  85. ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص178.
  86. ابن قتیبہ دینوری، الامامۃ و السیاسہ، ج2، ص10.
  87. ابن عبدربہ، العقد الفرید، ج4، ص355.
  88. ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص69.
  89. خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ‌السلام)، ج1، ص317.
  90. محمد بن طلحہ شافعی، مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول، ج2، ص73.
  91. اربلی، کشف الغمہ، ج2، ص253.
  92. ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، ج2، ص6.
  93. ابن کثیر، وہی ماخذ، ج6، ص259.
  94. طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص292.
  95. یحیی بن حسین بن اسماعیل جرجانی شجری، الامالی الخمیسیہ، ج1، ص191ـ 192.
  96. سید ابن طاووس، اللہوف فی قتلی الطفوف، ص60.
  97. ذہبی، سیر أعلام النبلاء، ج3، ص308.
  98. ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص214.
  99. عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، ج2، ص71.
  100. عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج2، ص304.
  101. ابن نما، مثیر الاحزان، ص39.
  102. وہی ماخذ، ص178.
  103. ابن عساکر، وہی ماخذ، ص329.
  104. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج3، ص298 و 300.
  105. وہی ماخذ، ص177.
  106. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص243.
  107. ابن جوزی، وہی ماخذ، ج2، ص161.
  108. مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص74.
  109. مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص71.
  110. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص107.
  111. بَلَنسیہ، ایک علاقے اور شہر کا نام ہے جو اسپانیا کے مشرق میں واقع ہے اور اس وقت "ویلنسیا" (València) کہلاتا ہے.
  112. ابن ابار، محمد بن عبداللہ بن ابی بکر قضاعی، دُرَرَ السمط فی خبر السبط، ص104.
  113. طبری، وہی ماخذ، ج4، ص320.
  114. شیخ مفید، وہی ماخذ، ج2، ص95.
  115. بلاذری، انساب الاشراف، ج3، 395.
  116. دینوری، الاخبار الطوال، ص256.
  117. ابن اعثم، کتاب الفتوح، ج5، ص101.
  118. قاضی نعمان مغربی، شرح الاخبار، ج3، ص155.
  119. طبری، دلائل الامامہ، ص178.
  120. فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص184.
  121. طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج1، ص457.
  122. خوارزمی، مقتل الحسین(علیہ‌السلام)، ج2، ص6.
  123. ابن جوزی، المنتظم، ج5، ص339.
  124. عماد الدین طبری، کامل بہائی (الکامل البہائی فی السقیفہ)، ج2، ص281.
  125. ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص192.
  126. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص295.
  127. بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص424.
  128. شمس الدین ذہبی، تاریخ الاسلام، ج5، ص15.
  129. شمس الدین ذہبی، ج5، ص489. (ذیل حوادث سال 121).
  130. وہی ماخذ، ج3، ص154.
  131. ابوزید احمد بن سہل بلخی، البدء والتاریخ، ج2، ص241.
  132. مسعودی، اثبات الوصیہ، ص166.
  133. محمد بن ابی طالب حسینی موسوی، تسلیۃ المُجالس و زینۃ المَجالس، ج2، ص275
  134. مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص4.
  135. تذکرۃ الخواص، ج2، ص160.
  136. الصواعق المحرقہ، ص197.
  137. ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص84 ـ 90 و ص101.
  138. خوارزمی، وہی ماخذ، ج1، ص341ـ 345.
  139. ابن عماد حنبلی، شذرات الذہب، ج1، ص67.
  140. مجلسی، وہی ماخذ، ج44، ص386.
  141. شیخ صدوق، الامالی، مجلس 24، ص177، ح 3 و مجلس 70، ص547، ح 10.
  142. سید ابن طاووس، اللہوف، ص70.
  143. علی بن حسین مسعودی، اثبات الوصیہ، ص166.
  144. ابوجعفر، محمّد بن جرير بن رستم طبرى آملى مازندرانى المعروف بہ طبری شیعی کتاب "دلائل الامامہ" کے مؤلف ہیں اور وہ محمد بن جریر بن یزید طبری (متوفی 923ہجری) سے بھی مختلف ہیں جو جو اہل سنت کے علماء میں سے ہیں اور مشہور تفسیر اور تاریخ کے مالک ہیں. وہ شیعہ عالم دین محمد بن جریر طبری (چوتھی صدی ہجری کے ابتدائی برسوں میں وفات پاچکے ہیں اور) کتاب "المسترشد" کے مؤلف ہیں، سے بھی مختلف ہیں جن کو شیخ طوسی نے "کبیر" کا لقب دیا ہے. محمد بن جریر بن رستم طبری.
  145. ابي جعفر محمد بن جرير بن رستم الطبري، دلائل الامامہ، ص178.
  146. مناقب آل ابی طالب، ج4، ص106.
  147. تذکرۃ الخواص، ج2، ص161.
  148. ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، ص191.
  149. عمدۃ الطالب فی أنساب آل ابی طالب، ص192.
  150. ملاحسین کاشفی، روضۃ الشہداء، ص346.
  151. خصیبی ،الہدایۃ الکبری202
  152. بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص405.
  153. طبری، وہی ماخذ، ج4، ص340.
  154. بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص404.
  155. طبری، وہی ماخذ، ج4، ص336.
  156. الامالی، مجلس 30، ح1، ص223ـ226.
  157. فتال نیشابوری، روضۃ الواعظین، ص186ـ 188.
  158. ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص109ـ114.
  159. ابن سعد، ترجمۃ الحسین و مقتلہ، ص184.
  160. بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص411.
  161. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص348.
  162. ابوعلی مسکویہ رازی، تجارب الامم و تعاقب الہمم، ج2، ص73.
  163. طبرسی، تاج الموالید، ص31.
  164. خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص44.
  165. ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص205.
  166. فضیل بن زبیر کوفی اسدی، "تسمیۃ من قتل مع الحسین(علیہ‌السلام)"، بحوالہ فصلنامہ تراثنا، شمارہ 2، ص149ـ 156.
  167. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص351.
  168. دینوری، وہی ماخذ، ص260.
  169. شیخ مفید، وہی ماخذ، ج2، ص118.
  170. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج18، ص445.
  171. ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص208.
  172. صفدی، الوافی بالوفیات، ج14، ص189.
  173. ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، ص193.
  174. میرخواند، تاریخ روضۃ الصفا، ج5، ص2270.
  175. ابن اعثم، وہی ماخذ، ج5، ص127.
  176. سبط ابن جوزی، وہی ماخذ، ج2، ص193.
  177. ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ج4، ص328.
  178. خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص62.
  179. ابن سعد، وہی ماخذ، ص190.
  180. ابوزید احمد بن سہل بلخی، البدء والتاریخ، ج2، ص241.
  181. مسعودی، مروج الذہب ومعادن الجوہر، ج3، ص72.
  182. سید محسن امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج1، ص610ـ612.
  183. شیخ مہدی شمس الدین، انصار الحسین(علیہ‌السلام)، ص49 و 52.
  184. ذبیح اللہ محلاتی، فرسان الہیجاء، ج2، ص154.
  185. غلامحسین زرگری نژاد، نہضت امام حسین(علیہ‌السلام) و قیام کربلا، ص291ـ386.
  186. ابن سعد، وہی ماخذ، ص196، ح 305.
  187. خلیفۃ بن خیاط عصفری، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، ص179.
  188. سلیمان بن احمد طبرانی، المعجم الکبیر، ج3، ص104 و 119.
  189. شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، ص533.
  190. ہمو، الامالی، مجلس 87، ص694.
  191. شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص125ـ126.
  192. محمد بن حسن طوسی، الامالی، ص162، ح 268.
  193. عماد الدین طبری، بشارۃ المصطفی، ص426.
  194. خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص53.
  195. اربلی، وہی ماخذ، ج2، ص267.
  196. ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص205.
  197. تسمیۃ من قتل مع الحسین(علیہ‌السلام)، ص149ـ151.
  198. شیخ صدوق، الخصال، ص519.
  199. مناقب آل ابی طالب، اخذ، ج4، ص179.
  200. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج15، ص251.
  201. ابن ابی حاتم رازی، السیرۃ النبویہ، ص588.
  202. محمد سماوی، اِبصار العین فی انصار الحسین(علیہ‌السلام)، ص49 اور بعد کے صفحات.
  203. خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص11.
  204. مسعودی، مروج الذہب، ج3، ص73.
  205. بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص410.
  206. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص347.
  207. شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص113.
  208. طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، 470.
  209. خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص44.
  210. ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص121.
  211. سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص79.
  212. ابن نما، وہی ماخذ، ص59.
  213. مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص59.
  214. مسعودي،مروج الذہب،1/375۔طبری،تاريخ الأمم والرسل والملوك3/335۔بَلَاذُري،جمل من أنساب الأشراف،دار الفكر - بيروت،1417،3/204۔
  215. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص346.
  216. خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص42.
  217. ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص120.
  218. ابن نما، وہی ماخذ، ص58.
  219. سید ابن طاووس، وہی ماخذ، ص76.
  220. حمید بن احمد مُحَلّی، وہی ماخذ، ج1، ص212.
  221. قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ج3، ص164.
  222. طبری، دلائل الامامہ، ص178.
  223. شیخ طوسی، الامالی، ص677، ح 10.
  224. شیخ صدوق، الامالی، مجلس 31، ح 1، ص228.
  225. فتال نیشابوری، وہی ماخذ، ص189.
  226. طبرسی، تاج الموالید، ص31.
  227. ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص120.
  228. مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص82.
  229. (وہی ماخذ، ص120).
  230. شیخ کلینی، الکافی، ج6، ص452، ح 9.
  231. مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص92، ح 36.
  232. قاضی نعمان مغربی، دعائم الاسلام، ج2، ص154.
  233. قاضی نعمان، شرح الاخبار، ج3، ص164.
  234. طبری، دلائل الامامہ، ص178.
  235. خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص42.
  236. ابوالفرج عبدالرحمن بن جوزی، الرد علی المتعصّب العنید، ص39.
  237. ابن نما، وہی ماخذ، ص57 ـ 58.
  238. حمید بن احمد مُحَلّی، وہی ماخذ، ج1، ص213.
  239. ابن سعد، وہی ماخذ، ص184.
  240. مُحَلّی، وہی ماخذ، ج1، ص213.
  241. ابن سعد، وہی ماخذ، ص184.
  242. ابن نما، وہی ماخذ، ص57 ـ 58.
  243. قاضی نعمان، وہی ماخذ، ج3، ص164.
  244. محمد بن علی عمری، المجدی فی انساب الطالبیین، ص13.
  245. جمال الدین حسینی، عمدۃ الطالب فی أنساب آل ابی طالب، ص192.
  246. سید بن طاؤس، وہی ماخذ، ص71.
  247. طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص469.
  248. ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص120.
  249. محمد بن طاہر سماوی، إبصار العین فی أنصار الحسین(علیہ‌السلام)، ص220ـ221.
  250. خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص25.
  251. طبری، وہی ماخذ، ج4، ص334.
  252. طبری، وہی ماخذ، ص332.
  253. خوارزمی، وہی ماخذ، ج1، ص19.
  254. مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص20.
  255. فضیل بن زبیر، "تسمیۃ من قتل مع الحسین(علیہ‌السلام)"، بحوالہ فصلنامہ تراثنا، ص153ـ154.
  256. مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ج3، ص72.
  257. سماوی، وہی ماخذ، ص221.
  258. فضیل بن زبیر، وہی ماخذ، ص152.
  259. شیخ طوسی، رجال الطوسی، ص21.
  260. ابن شہر آشوب، وہی ماخذ، ج1، ص184.
  261. محب الدین احمد بن عبداللہ الطبری، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، ص146.
  262. ابن حجر، تبصیر المنتبہ، ج4، ص1296.
  263. عبداللہ مامقانی، تنقیح المقال، ج3، ص214.
  264. ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، ج6، ص445، ش 9051.
  265. خواند میر، تاریخ حبیب السیر فی اخبار افراد البشر، ج2، ص43.
  266. مامقانی، وہی ماخذ، ج3، ص288.
  267. ابن حجر، وہی ماخذ، ج5، ص8.
  268. سماوی، ابصار العین ص93.
  269. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص349.
  270. بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص412.
  271. دینوری، وہی ماخذ، ص259.
  272. شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص113.
  273. خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص45.
  274. ابن نما، وہی ماخذ، ص65.
  275. طبری، وہی ماخذ، ص348.
  276. خوارزمی، وہی ماخذ، ص44.
  277. دینوری، وہی ماخذ، ص259.
  278. بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص412.
  279. سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص256.
  280. سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص85.
  281. تسلیۃ المجالس و زینۃ المجالس، ج2، ص331.
  282. مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص62.
  283. طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص358.
  284. ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، ج4، ص121.
  285. ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، ص198.
  286. موالی جمع ہے مولی کی، مولٰی کے معنی متضاد ہیں: مثلا سرور و آقا کو مولٰی کہا جاتا ہے جیسا کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ؛ جس کا میں مولٰی (مولا) ہوں یہ علی(ع) بھی اس کے مولٰی ہیں. نیز بندہ، غلام اور مطیع کو بھی مولٰی کہا جاتا ہے. مولا "ولاء" سے مشتق ہے جس کے معنی پیوند اور قرابت کے ہیں چنانچہ اس کے معانی مختلف ہیں. وہ بھی مولا ہے جو حامی ہے اور وہ بھی مولا ہے جو حمایت یافتہ ہے. اس ولاء کے ایک معنی ولائے عتق کے ہیں؛ وہ افراد جو پہلے کبھی غلام تھے اور بعد میں آزاد ہوجاتے ہیں انہیں اور ان کی اولاد کو موالی کہا جاتا ہے (یہاں بھی موالی سے یہی مراد ہے). جیسا کہ آزاد کرنے والے کو بھی مولٰی کہا جاتا ہے. دو معنای متضاد برای کلمہ مولٰی.
  287. فضیل بن زبیر، وہی ماخذ، ص152.
  288. ابن سعد، وہی ماخذ، ص186.
  289. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص359.
  290. فضیل بن زبیر، وہی ماخذ.
  291. ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، 122.
  292. سماوی، وہی ماخذ، ص221ـ222.
  293. فضیل بن زبیر، وہی ماخذ، ص150.
  294. ابن سعد، وہی ماخذ، ص186.
  295. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص359.
  296. ابن حبان، الثقات، ج2، ص310.
  297. ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79.
  298. ابن شہرآشوب، وہی ماخذ، ج4، ص122؛ وہ لکھتے ہیں کہ ان کا ہاتھ کٹ گیا تھا.
  299. فضیل بن زبیر، وہی ماخذ، ص156 و محلّی، الحدائق الوردیہ، ج1، ص212.
  300. فضیل بن زبیر، وہی ماخذ و محلی، وہی ماخذ.
  301. بلاذری نے انہیں مرقع بن قمامہ بن خویلد لکھا ہے: انساب الاشراف، ج11، ص183.
  302. ابن کثیر نے مرقع بن یمانہ لکھا ہے:وہی ماخذ، ج8، ص205.
  303. وہی ماخذ، ج4، ص347.
  304. وہی ماخذ، ج3، ص411.
  305. الاخبار الطوال، ص259.
  306. دینوری، الاخبار الطوال، ص259.
  307. و ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص212.
  308. بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص411.
  309. ابن عبد ربہ‌اندلسی، العقد الفرید، ج4، ص360.
  310. ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79.
  311. سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص86.
  312. ابن سعد، وہی ماخذ، ص186.
  313. طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص353 و 359.
  314. ابن حبان، وہی ماخذ، ج2، ص310.
  315. ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79.
  316. خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص41.
  317. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج45، ص484.
  318. سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ج2، ص178.
  319. سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص86.
  320. الارشاد، ج2، ص26.
  321. فضیل بن زبیر، وہی ماخذ، ص150 و 157.
  322. ابوالصلاح حلبی، تقریب المعارف، ص252.
  323. ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص205.
  324. ابن قتیبہ دینوری، الامامۃ و السیاسہ، ج2، ص8.
  325. قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ج3، ص198.
  326. ابن سعد، وہی ماخذ، ص187 و ذہبی، وہی ماخذ، ج3، ص303.
  327. قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ج3، ص197.
  328. ابن سعد، وہی ماخذ.
  329. ابن عساکر، وہی ماخذ، ج54، ص226.
  330. و ذہبی، وہی ماخذ، ج3، ص303.
  331. بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص411.
  332. دینوری، وہی ماخذ، ص259.
  333. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص347.
  334. طبری، وہی ماخذ، ج4، ص321.
  335. ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ج14، ص223.
  336. شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، ص546.
  337. ابن سعد، وہی ماخذ، ص187.
  338. ذہبی، وہی ماخذ، ج3، ص303.
  339. قاضی نعمان، شرح الاخبار، ج3، ص198ـ 199.
  340. ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص79.
  341. ابن سعد، وہی ماخذ، ص187.
  342. ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79.
  343. شیخ صدوق، الامالی، مجلس 31، ص229.
  344. ابن سعد، وہی ماخذ.
  345. شیخ صدوق، الامالی، ص231.
  346. ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79.
  347. قاضی نعمان مغربی، شرح الاخبار، ج3، ص198.
  348. قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ج3، ص198.
  349. ابن سعد، وہی ماخذ، ص187.
  350. طبرانی، المعجم الکبیر، ج3، 104.
  351. قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ص198.
  352. شیخ صدوق، الامالی، ص228.
  353. ابن سعد، وہی ماخذ؛ ابوالفرج اصفہانی، وہی ماخذ، ص79.
  354. طبرانی، وہی ماخذ، ص104.
  355. قاضی نعمان مغربی، وہی ماخذ، ص199.
  356. شیخ صدوق، وہی ماخذ، ص230.
  357. طبرسی، الاحتجاج، ج2، ص27.
  358. خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص105.
  359. ابن نما، وہی ماخذ، ص67.
  360. سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص88.
  361. ابن سعد، وہی ماخذ، ص187.
  362. ابن سعد، وہی ماخذ، ص187.
  363. طبری، تاریخ الامم والملوک، ج4، ص263.
  364. طبری، وہی ماخذ، ص277ـ278.
  365. بلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص378ـ379.
  366. ابن نما، وہی ماخذ، ص66.
  367. سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص190.
  368. مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص108.
  369. طبری، وہی ماخذ، ج4، ص342.
  370. ابن نما، وہی ماخذ، ص57.
  371. ابن نما، وہی ماخذ، ص73.
  372. سید ابن طاؤس، وہی ماخذ، ص205.
  373. مجلسی، بحارالانوار، ج45، ص120.
  374. ابن نما، وہی ماخذ، ص58 و سید ابن طاؤس، ص180.
  375. بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص411.
  376. طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج4، ص348.
  377. خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص114.
  378. ابن نما، وہی ماخذ، ص65ـ66.
  379. ابن کثیر، وہی ماخذ، ج8، ص206.
  380. ابن اعثم، کتاب الفتوح، ج5، ص133.
  381. شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص122.
  382. طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص475.
  383. ابن سعد، وہی ماخذ، ص192.
  384. طبری، وہی ماخذ، ج4، ص353.
  385. خوارزمی، وہی ماخذ، ج2، ص81.
  386. ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین(علیہ‌السلام)، ص338.
  387. سبط ابن جوزی، وہی ماخذ، ج2، ص199.
  388. ابن کثیر، البدایۃ و النہایہ، ج8، ص212.
  389. محمد باقر مجلسی، جلاء العیون، ص405.
  390. ابوحنیفہ نعمان بن محمد تمیمی مغربی، شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار، ج3، ص269.
  391. سید بن طاؤس، الاقبال بالأعمال، ج3، ص101.
  392. طبری، الکامل للبہائی فی السقیفہ، ج2، ص302.
  393. مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص196.
  394. مجلسی، جلاء العیون، ص409.

مآخذ

  • ابن اَبّار، محمد بن عبداللہ بن ابی بکر قضاعی، دُرَرَ السمط فی خبر السبط، تحقیق عزالدین عمر موسی، چاپ اول: بیروت، دارالغرب الاسلامی، 1407ہجری قمری.
  • ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، داراحیاء الکتب العربیہ، 1378 ہجری قمری.
  • ابن اعثم، أبو محمد أحمد، الکوفی الکندی، کتاب الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالاضواء، 1411 ہجری قمری.
  • ابن جوزی، ابوالفرج عبدالرحمن علی بن محمد، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1412ہجری قمری.
  • ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تحقیق شیخ عادل احمد عبدالموجود و شیخ علی محمد معوض، چاپ اول: بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415 ہجری قمری.
  • ابن حجر عسقلانی، تبصیر المنتبہ، قاہرہ، دارالقومیۃ العربیہ.
  • ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، چاپ اول: بیروت، دارالفکر، 1404 ہجری قمری.
  • ابن سعد، «ترجمۃ الحسین و مقتلہ»، تحقیق سید عبدالعزیز طباطبایی، فصلنامہ تراثنا، سال سوم، شمارہ 10، 1408 ہجری قمری.
  • ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی طالب، تحقیق یوسف بقاعی، بیروت، افست دارالاضواء، 1421ہجری قمری.
  • ابن صباغ مالکی، الفصول المہمہ، تہران، مؤسسۃ الاعلمی، [بی تا].
  • ابن عبد ربہ، احمد بن محمد، العقد الفرید، تحقیق علی شیری، چاپ اول: بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1409 ہجری قمری.
  • ابن عبد ربہ، العقد الفرید، مطبعۃ اللجنۃ التألیف و الترجمۃ و النشر، 1365 ہجری قمری.
  • ابن عبدالبرّ قرطبی، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق شیخ عادل احمد عبدالموجود و شیخ علی محمد معوض، چاپ اول: بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1415 ہجری قمری.
  • ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر، 1415 ہجری قمری.
  • ابن عساکر، ترجمۃ الامام الحسین، تحقیق محمد باقر محمودی، قم، مجمع احیاء الثقافۃ الاسلامیہ، 1414 ہجری قمری.
  • ابن عنبہ، سید جمال الدین احمد بن علی حسنی، عمدۃ الطالب فی أنساب آل ابی طالب، تصحیح محمد حسن آل طالقانی، نجف، مطبعۃ الحیدریہ، 1380ہجری قمری.
  • ابن قتیبہ دینوری، الامامۃ و السیاسہ، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالاضواء، 1410ہجری قمری.
  • ابن کثیر دمشقی، ابوالفداء اسماعیل، البدایۃ و النہایہ، تحقیق علی شیری، بیروت، داراحیاء التراث العربی، 1408ہجری قمری.
  • ابن نما حلی، مثیرالأحزان، نجف، مطبعۃ الحیدریہ، 1369 ہجری قمری.
  • ابوالصلاح حلبی، تقریب المعارف، تحقیق فارس تبریزیان حسون، [بی جا ]، محقق، 1375ہجری شمسی.
  • ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، قم، مؤسسہ دارالکتاب، 1385 ہجری قمری.
  • ابوحنیفہ دینوری، الأخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر، قاہرہ، داراحیاء الکتب العربیہ، 1960 عیسوی.
  • اربلی، علی بن عیسی بن ابی الفتح، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمہ، بیروت، دارالأضواء، 1405 ہجری قمری.
  • ازدی غامدی کوفی، ابومخنف لوط بن یحیی، وقعۃ الطف، تحقیق محمد ہادی یوسفی غروی، چاپ سوم: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1417 ہجری قمری.
  • باعونی، محمد بن احمد، جواہر المطالب فی مناقب الامام علی بن ابی طالب، تحقیق محمدباقر محمودی، قم، مجمع احیاء الثقافۃ الاسلامیہ، 1415 ہجری قمری.
  • بلاذری، احمد بن یحیی جابر، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، 1417 ہجری قمری.
  • بلخی، ابوزید احمد بن سہل، البدء والتاریخ، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1417ہجری قمری.
  • تستری، شیخ محمدتقی، قاموس الرجال، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی.
  • تمیمی بستی، محمد بن حبّان بن احمد، الثقات، چاپ اول: [بی جا]، مؤسسۃ الکتب الثقافیہ، 1393 ہجری قمری.
  • تمیمی مغربی، ابوحنیفہ نعمان بن محمد، شرح الأخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار، تحقیق سید محمد حسینی جلالی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، [بی تا].
  • جرجانی شجری، یحیی بن حسین بن اسماعیل، الامالی الخمیسیہ، بیروت، عالم الکتب.
  • جعفریان، رسول، تأملی در نہضت عاشورا، چاپ دوم: قم، انصاریان، 1381ہجری شمسی.
  • حسینی موسوی، محمد بن ابی طالب، تسلیۃ المُجالس و زینۃ المَجالس، تحقیق فارس حسّون، چاپ اول: قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیہ، 1418ہجری قمری.
  • حلی، رضی الدین علی بن یوسف مطہر، العدد القویہ، تحقیق سید مہدی رجایی، چاپ اول: قم، مکتبۃ آیۃ اللہ * المرعشی النجفی، 1408ہجری قمری.
  • خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین، تحقیق محمد طاہر سماوی، قم، دارانوار الہدی، 1418 ہجری قمری.
  • خواند میر، غیاث الدین بن ہمام الدین حسینی، تاریخ حبیب السیر فی اخبار افراد بشر، تہران، انتشارات کتابخانہ خیام، 1333.
  • دولابی، محمد بن احمد، الذریۃ الطاہرہ، تحقیق سعد مبارک حسن، کویت، دارالسلفیہ، 1407 ہجری قمری.
  • ذہبی، سیر اعلام النبلاء، بیروت، مؤسسۃ الرسالہ، 1413ہجری قمری.
  • ذہبی، شمس الدین، تاریخ الاسلام، تحقیق عمر عبدالسلام تدمُری، چاپ دوم: بیروت، دارالکتاب العربی، 1418ہجری قمری.
  • زرگری نژاد، غلامحسین، نہضت امام حسین و قیام کربلا، چاپ اول: تہران، سمت، 1383ہجری شمسی.
  • سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص من الامۃ بذکر خصائص الائمہ، تحقیق حسین تقی زادہ، چاپ اول: [بی جا]، مرکز الطباعۃ و النشر للمجمع العالمی لأہل البیت، 1426 ہجری قمری.
  • سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، قدّم لہ سید صادق بحرالعلوم، تہران، مکتبۃ نینوی الحدیثہ، [بی تا].
  • سپہر، محمدتقی، ناسخ التواریخ، چاپ سوم: تہران، کتابفروشی اسلامیہ، 1368ہجری شمسی.
  • سلیم بن قیس، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، تحقیق محمد باقر انصاری زنجانی، [بی جا، بی‌نا، بی‌تا].
  • سماوی، محمد بن طاہر، إبصار العین فی أنصار الحسین، تحقیق محمد جعفر سماوی، قم، مرکز الدراسات الاسلامیۃ لحرس * الثورہ، 1377 ہجری شمسی.
  • سید ابن طاؤس، الاقبال بالاعمال الحسنۃ فیما یعمل مرۃ فی السنہ، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، [بی جا]، مکتب الاعلام الاسلامی، 1416 ہجری قمری.
  • سید ابن طاؤس، الملہوف علی قتلی الطفوف، تحقیق فارس حسّون، چاپ چہارم: تہران، دارالاسوہ، 1383 ہجری شمسی.
  • شافعی، محمد بن طلحہ، کفایۃ الطالب فی مناقب امیرالمؤمنین، تحقیق محمد ہادی امینی، تہران دار احیاء تراث اہل البیت، 1404 ہجری قمری.
  • شافعی، محمد بن طلحہ، مطالب السؤول فی مناقب الرسول، تحقیق ماجد بن احمد العطیہ، بیروت، مؤسسۃ‌ام القری، 1420 ہجری قمری.
  • شمس الدین، محمد مہدی، انصار الحسین، چاپ دوم:[بی جا]، الدار الاسلامیہ، 1401 ہجری قمری.
  • شیخ صدوق، الأمالی، تحقیق مؤسسۃ البعثہ، چاپ اول: قم، مؤسسۃ البعثہ، 1417 ہجری قمری.
  • شیخ صدوق، الخصال، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، منشورات جماعۃ المدرسین، 1362 ہجری شمسی.
  • شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا، تحقیق شیخ حسین اعلمی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1404 ہجری قمری.
  • شیخ صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1405ہجری قمری.
  • شیخ طوسی، الامالی، تحقیق مؤسسۃ البعثہ، چاپ اول: قم، دارالثقافہ، 1414 ہجری قمری.
  • شیخ طوسی، رجال الطوسی، تحقیق جواد قیومی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1415 ہجری قمری.
  • شیخ کلینی، الکافی، تحقیق علی اکبر غفاری، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1363 ہجری شمسی.
  • شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، تحقیق مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، قم، دارالمفید، 1413 ہجری قمری.
  • شیخ مفید، مسارّ الشیعہ، (چاپ شدہ در جلد 7 مؤلفات شیخ مفید)، تحقیق مہدی نجف، چاپ دوم: بیروت، دارالمفید، 1414ہجری قمری.
  • صفدی، صلاح الدین خلیل بن أیبک، الوافی بالوفیات، بیروت، المعہد المانی.
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی عبدالمجید سلفی، چاپ دوم: قاہرہ، مکتبۃ ابن تیمیہ، [بی تا].
  • طبرسی، ابومنصور احمدبن علی بن ابی طالب، الاحتجاج، سید محمّد باقر خرسان، نجف، دارالنعمان، 1386 ہجری قمری.
  • طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، چاپ اول: قم، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، 1417ہجری قمری.
  • طبرسی، فضل بن حسن، تاج الموالید، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1406ہجری قمری.
  • طبری، ابوجعفر محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1409 ہجری قمری.
  • طبری، عماد الدین حسن بن علی، کامل بہائی (الکامل البہائی فی السقیفہ)، تہران، مکتبۃ المصطفوی، [بی تا].
  • طبری، عماد الدین، بشارۃ المصطفی، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، چاپ اول: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1420 ہجری قمری.
  • طبری، محب الدین احمد بن عبداللہ، ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، قاہرہ، مکتبۃ القدسی، 1356ہجری قمری.
  • طبری، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الامامہ، تحقیق مؤسسۃ البعثہ، چاپ اول: قم، مؤسسۃ البعثہ، 1413 ہجری قمری.
  • طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، چاپ اول: بیروت، مؤسسۃ فقہ الشیعہ، 1411 ہجری قمری.
  • عاملی، سید محسن امین، اعیان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1406 ہجری قمری.
  • عصفری، خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، تحقیق سہیل زکار، بیروت، دارالفکر، 1414ہجری قمری.
  • عمری، علی بن محمد، المجدی فی انساب الطالبیین، چاپ اول: قم، مکتبۃ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1409 ہجری قمری.
  • خلیل بن احمد الفراہیدی، ترتیب کتاب العین، تحقیق مہدی المخزومی،ابراہیم سامرائی؛ تصحیح اسعد الطبیب، ناشر: سازمان اوقاف و امور خیریہ،انتشارات اسوہ، چاپ اول، قم، 1414ہجری قمری.
  • قزوینی، زکریا محمد بن محمود، عجائب المخلوقات و غرائب الموجودات، چاپ شدہ در حاشیہ کتاب حیاۃ الحیوان دمیری، [بی جا، بی‌نا، بی‌تا].
  • کاشفی، ملاحسین، روضۃ الشہداء، قم، نوید اسلام، 1381 ہجری شمسی.
  • کفعمی، تقی الدین ابراہیم بن علی، المصباح، قم، منشورات الشریف الرضی و زاہدی.
  • کوفی اسدی، فضیل بن زبیر بن عمر بن درہم، «تسمیۃ من قتل مع الحسین»، تحقیق سید محمد رضا حسینی جلالی، فصلنامہ تراثنا، شمارہ 2، 1406ہجری قمری.
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال، تہران، انتشارات جہان، [بی تا].
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، چاپ دوم: بیروت، مؤسسۃ الوفاء، 1403ہجری قمری.
  • مجلسی، محمدباقر، جلاء العیون، چاپ اول: تہران، رشیدی، 1362 ہجری شمسی.
  • محلاتی، ذبیح اللہ، فرسان الہیجاء، چاپ دوم: تہران، مرکز نشر کتاب، 1390ہجری قمری.
  • مُحَلّی، حمید بن احمد، الحدائق الوردیہ فی مناقب ائمۃ الزیدیہ، تحقیق مرتضی بن زید محطوری حسنی، چاپ اول: صنعاء، مکتبۃ بدر، 1423ہجری قمری.
  • مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیہ، قم، انتشارات انصاریان، 1417 ہجری قمری.
  • مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق سعید محمد لحّام، بیروت، دارالفکر، 1421 ہجری قمری.
  • مسکویہ رازی، ابوعلی، تجارب الامم وتعاقب الہمم، تحقیق ابوالقاسم امامی، چاپ اول: تہران، سروش، 1366 ہجری شمسی.
  • مشہدی، المزار الکبیر، تحقیق جواد قیومی اصفہانی، چاپ اول: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1419 ہجری قمری.
  • معلوف، لوئیس، المنجد فی الاعلام، چاپ دوازدہم: بیروت، افست دارالمشرق، [بی تا].
  • مغربی، قاضی نعمان، دعائم الاسلام، تحقیق آصف بن علی اصغر فیضی، قاہرہ، دارالمعارف، 1383 ہجری قمری.
  • موسوی خویی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواہ، چاپ پنجم: [بی جا، بی‌نا ]، 1413 ہجری قمری.
  • میرخواند، تاریخ روضۃ الصفا، تصحیح جمشید کیان فر، چاپ اول: تہران، اساطیر، 1380ہجری شمسی.
  • نویری، شہاب الدین احمد بن عبدالوہّاب، نہایۃ الارب فی فنون الادب، قاہرہ، مکتبۃ العربیہ، 1395 ہجری قمری.
  • نیشابوری، محمد بن فتال، روضۃ الواعظین، تحقیق سید محمد مہدی خرسان، قم، منشورات الشریف الرضی، [بی تا].
  • ہادی بن ابراہیم وزیر، نہایۃ التنویہ فی ازہاق التمویہ، تحقیق احمد بن درہم ابن عبداللہ حوریہ و ابراہیم بن مجد الدین بن محمد مؤیدی، چاپ اول: یمن، منشورات مرکز اہل البیت للدراسات الاسلامیہ، 1421 ہجری قمری.
  • ہیتمی، احمد بن حجر، الصواعق المحرقۃ فی ردّ اہل البدع و الزندقہ، تعلیق عبدالوہاب عبداللطیف، چاپ دوم: قاہرہ، مکتبۃ القاہرہ، 1385ہجری قمری.
  • یوسفی غروی، محمدہادی، وقعۃ الطف، چاپ سوم: قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1417 ہجری قمری.